انسان ، جسم وروح کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسم مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس کی خوراک وعلاج بھی مٹی میں رکھ دیا ہے جبکہ ہماری روح آسمان سے نازل کی گئی ہے تو اس کی خوراک وعلاج بھی آسمان سے نازل کیا گیا ہے جو کہ قرآن مجید اور اس کی شرح حدیث رسول کی صورت میں ہمارے پاس ہے ۔ جس طرح ہمارا جسم اپنی خوراک کا محتاج ہے اور بیماری کی صورت میں دواکا محتاج ہے اسی طرح ہماری روح بھی اپنی خوراک کی محتاج ہے اور بیماری کی صورت میں علاج کی محتاج ہے ۔
آج ہر انسان جسم کی خوراک،لباس اور علاج کے لیے ہزار کوششوں میں مصروف ہے جبکہ روح کی خوراک وعلاج نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے روحانیت مردہ ہوچکی ہیں۔ اس مصروف ترین دور میں روح کی خوراک وعلاج کے لیے وقت نکالنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس کے لیے ایک انتہائی آسان اور گھر بیٹھے معمولی وقت کے ساتھ’’ فہم قرآن کورس‘‘ حاضر خدمت ہے جس میں آپ خود اور اپنی اولاد وبہن وبھائیوں کی کچھ نہ کچھ روح کی خوراک وعلاج کااہتمام کرسکتے ہیں ۔
ماہنامہ مجلہ’’اسوئہ حسنہ ‘‘ میں علمی،تحقیقی اور اصلاحی مضامین شائع ہوتے ہیں اب ان کے ساتھ ’’فہم قرآن کورس‘‘ کا اضافہ کیاجارہا ہے جس میں قرآن مجید کے آخری پارے سے تفسیر کا آغاز کیاجارہا ہے ۔ تفسیر میں مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
1 عربی گرائمر اور ادب کے مطابق لفظی مگر رواں ترجمہ
2 عام فہم مختصر عربی گرائمر اور آسان لغت کا حل
3 قرآن مجید میں وہ حروف جو اردو میں بھی مستعمل ہوئے ہیں
4 آیات وسورتوں کا مستند اسباب نزول اور فضائل کا ذکر
5آیات وسورتوں کا ماقبل ومابعد کے ساتھ ربط وتعلق
6آیات کی تفسیر وتوضیح قرآن،حدیث ،اقوال صحابہ اور سلف سے منقول شدہ
7 قرآن مجید میں بیان کردہ آفاق کے حقائق اور سائنس کے اعترافات کا بیان
8 باطل ادیان وفرق کے شبہات اور ان کا مدلل جواب نیز عصرِ حاضر کے درپیش جدید مسائل اور ان کا حل
9 آیات سے استنباط کردہ احکام ومسائل
0 اختتام پر مشقی سوالات
فہم قرآن کورس میں شرکت کرنے والوں کے لیے معلومات :
1اس کورس میں شرکت کے لیے ایڈمیشن ضروری ہے ۔
2ایڈمیشن کے بعد امیدوار کو مکمل ایڈریس اور رول نمبر ارسال کیا جائے گا جس پر وہ رابطہ کرے گا۔
3 ایک سمیسٹر 3 ماہ پر مشتمل ہوگا اور مکمل کورس 2
سمیسٹرزپر مشتمل ہوگا۔
4 ماہانہ مجلہ ’’اسوئہ حسنہ‘‘ میں فہم قرآن کورس کے سبق کے اختتام پر سوالات درج ہوں گے جن کے جوابات امیدوار ادارہ کو ارسال کرے گا۔
5 ایک سمیسٹر کی 300 روپے انٹری فیس ہوگی اورمجلہ اسوئہ حسنہ فری ارسال کیاجائے گا۔
6کورس کے اختتام پر کامیاب امیدواروں کی قیمتی انعامات سے حوصلہ افزائی کی جائے گی اور مجلہ اسوئہ حسنہ رجسٹرڈ حکومت پاکستان اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ رجسٹرڈ آف حکومت پاکستان کی طرف سے ’’سند امتیاز‘‘ دی جائے گی۔
کورس میں اول پوزیشن والے کو 5000 روپیہ ۔
دوم کو 4000 روپیہ
اور سوم کو 3000 روپیہ (نقدی) دیاجائے گا۔
7 کورس میں داخلہ اور جوابات ارسال کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے رابطہ کریں۔
بذریعہ ڈاک: مجلہ اسوئہ حسنہ ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ، گلشن اقبال 5 پوسٹ بکس11106کراچی
بذریعہ موبائل میسجز+وٹس اپ: 03003943119
بذریعہ ای میل: usva.jab@gmail.com
برائے رابطہ :  03216977241
قرآن مجید کا تعارف
لفظ قرآن قَرَءَ ، یَقرَأُ کا مصدر ہے جس کا لغوی معنی جمع کرنے اور ملانے کے ہیں پھر یہ لفظ پڑھنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے کیونکہ پڑھتے وقت بھی حروف وکلمات کو جمع کیا جاتاہے اور آپس میں ملایا جاتاہے۔
قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف :

هُوَ كَلَامُ اللهِ الْمُنَزَّلُ عَلَى مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم وَالْمُتَعَبَّدُ بِتِلاَوَتِهِ (ارشاد الفحول ص:29 ، مناھل العرفان فی علوم القرآن 1/21)

’’ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جوجناب محمد ﷺ پر نازل کیاگیا اور اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے۔‘‘
وجہ تسمیہ :
لفظ’’قرآن‘‘ مصدر ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں عربی زبان میں مصدر کو اسم مفعول کے معنی میں بھی استعمال کیاجاتاہے تو قرآن مصدر بھی اسم مفعول’’ مَقرُوءٌ‘‘ کے معنی میں استعمال کیاگیاہے اور آخر میں الف ونون مبالغہ کے لیے ہے اس لیے قرآن کا معنی ہے ، بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔
واقعی قرآن مجید اسم بامسمّٰی ثابت ہوا کہ جس قدر اس کتاب کی تلاوت کی گئی تلاوت ہورہی ہے اور آئندہ ہوتی رہے گی کسی اور الہامی یا غیر الہامی کتاب کی اس قدر تلاوت نہیں ہے۔
دیگر کتب سے خصوصیات :
قرآن مجید کی دیگر الہامی اور غیر الہامی کتب سے نمایاں خصوصیات ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
1 قرآن مجید زمانہ نزول سے آج تک سندِ تواتر سے اور صحیح تاریخ وتدوین کے ساتھ محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے ۔
2 اس کی تلاوت ہمہ وقت دنیا میں جاری وساری ہے اور اس کی تلاوت سننا ضروری قرار دیاگیا ہے اور دنیا کی تمام کتب سے اس کی اشاعت زیادہ ہے۔ صرف فہد کمپلیکس(مدینہ منورہ) میں لاکھوں قرآن اور 44 سے زائد زبانوں میں مترجم قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں ۔
3 قرآن مجید کا دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ وتفسیر دستیاب ہے صرف اردو زبان میں ایک سو سے زائد تراجم شائع ہوچکے ہیں اور غیر شائع کی تعداد چارسو سے بھی زائد ہے ۔
4 قرآن مجید اپنی نازل شدہ زبان میں محفوظ ہے اور اس کی عربی زبان بھی زندہ وجاوید ہے جبکہ دیگر کتب آسمانی کی اصل زبانیں مفقود ہوچکی ہیں۔
5 قرآن مجید کی تعلیمات عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور یہ ہر دور میں ہر علاقہ اور ہر انسان کے لیے یکساں مفید ورہنما ہیں اس لیے مرورِ زمانہ سے اس کے اصول وقوانین میں تغیّر کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی تعلیمات دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضامن ہیں ۔
6 قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت ، اسلوب بیان کی مثل لانے سے کل کائنات کو ہمیشہ چیلنج رہا اور آج تک کوئی اس کی مثل نہ لا سکا اور اس کی زمانہ ماضی کی اخبار اور مستقبل کی پیشین گوئیوںکے خلاف کوئی ثابت نہ کرسکا۔
نزول قرآن کے مراحل :
قرآن مجید کے نزول کے تین مراحل ہیں :
1 سب سے پہلا نزول لوح محفوظ میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ (البروج:21۔22)
’’بلکہ وہ قرآن مجید ہے جو لوح محفوظ میں ہے۔‘‘
2دوسرا نزول لوح محفوظ سے بیت العزۃ میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ(القدر:1)

’’ ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے ۔‘‘
3 قرآن مجید کا تیسرا نزول بیت العزۃ سے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہے ۔ اور یہ نزول آہستہ آہستہ حسب ضرورت ہوتا رہا اور 22 سال 9 ماہ اور 9دن میں مکمل ہوا ۔ عرفِ عام میں اسے 23 سال کہا جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا (بنی اسرائیل : 106)
’’ اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے نازل کیا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرمائیں اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ نازل کیا ہے ۔‘‘
قرآن مجید کو تدریجاً نازل کرنے میں حکمتیں :
قرآن مجید کو یک بارگی نازل نہیں فرمایا بلکہ آہستہ آہستہ نازل فرمایا ہے جس میں بہت سی حکمتیں تھیں ۔ چند مندرجہ ذیل ہیں :

1 قلبی ثابت قدمی :

مشرکین ومنکرین رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طرح طرح کی تکالیف واذیتیں پہنچاتے تھے جس کی وجہ سے بشری تقاضا کے مطابق ان کو قدرے پریشانی لاحق ہوجاتی تھی اس پریشانی کو زائل کرنے اور تسلی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرمادیتے تھے جس میں آپ ﷺ کی کامیابی اور منکرین کی ناکامی کا ذکر ہوتا اور سابقہ انبیاء اور ان کی امتوں کا تذکرہ ہوتا جس سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام کو اطمینان وسکون ہوجاتا ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ (ھود:120)

’’ اور رسولوں کے تمام وہ واقعات جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ان سے آپ کے دل کو مضبوط رکھتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا :

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف : 35)

’’ پس صبر کیجیے جس طرح اولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا۔‘‘

2اعتراضات کا رد:

منکرین ومخالفین کے آئے دن نئے نئے اعتراضات وسوالات ہوتے تھے تو جن آیات میں ان کا جواب ہوتا تھا ان کا نزول اسی وقت ہی مناسب ہوتا تھا جب وہ اعتراضات کیے جاتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (الفرقان : 33)

’’اور وہ آپ کے سامنے جو اعتراض بھی پیش کرتے ہیں ہم اس کا صحیح اور بہترین مفصل جواب بھیج دیتے ہیں ۔‘‘
3 حفظ وفہم میں آسانی :
قرآن کریم کا نزول ایک اَن پڑھ قوم پر ہوا تھا ان کی طاقت میں نہ تھا کہ مکمل قرآن یکبارگی سمجھ لیں اور حفظ کر لیں اس لیے قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیاگیا تاکہ سمجھنے اور حفظ کرنے میں آسانی ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (الجمعۃ : 2)

’’ وہی ذات ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول بناکر بھیجا جو ان کو اس کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتاہے اور انہیں پاک کرتاہے۔‘‘
4 درجہ بدرجہ تربیت :
نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ انتہائی ابتر ہوچکا تھا ان میں حلال وحرام اور اچھی وبُری چیز میں تمیز ختم ہوچکی تھی اس لیے حکمت کا تقاضا تھا کہ ان کی اصلاح درجہ بدرجہ کی جائے جیسے شراب کی حرمت آہستہ آہستہ قرار دی گئی ہے ۔

تدوین قرآن مجید :

قرآن مجید تحریری صورت میں نازل نہیں ہوا بلکہ زبانی انداز میں نازل ہوا اور مکمل قرآن کریم ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا بلکہ ایک لمبے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے اس لیے عہد رسالت میں شروع سے ہی اسے کتابی شکل میں محفوظ کرنا ممکن نہ تھا چنانچہ ابتدائے اسلام میں حفاظت قرآن کے لیے زیاد زور حفظ پر دیا جاتا تھا جب قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ ﷺ صحابہ کرام کو معانی ومفہوم کے ساتھ ساتھ حفظ بھی کرواتے تھے اور صحابہ کرام بھی حفظ قرآن میں دن رات کوشاں رہتے تھے البتہ رسول اللہ ﷺ نے حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کو تحریر کروانے کا بھی اہتمام کر رکھا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت ہمہ وقت آپ کی مجلس میں رہتی تھی جو لکھنے کا کام کرتے تھے اور لکھنے کے بعد آپ کو سنا کر اصلاح بھی کراتے تھے اس لیے مکمل قرآن مجید آپ ﷺ کی زندگی مبارک میں تحریری صورت میں محفوظ ہوچکا تھا لیکن مکمل قرآن کسی ایک صحابی کے پاس،کسی ایک چیز میں لکھا ہوا نہ تھا بلکہ مختلف صحابہ کرام کے پاس، مختلف چیزوں میں الگ الگ صورت میں لکھا ہوا موجود تھا۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حافظ قرآن صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی اس صورت حال کو دیکھ کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ تحریر کر کے محفوظ کرلیا جائے چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کام سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاتب وحی کے ذمہ لگایا اور ساتھ چھ صحابہ کرام کی ٹیم بھی مہیا کی اور سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا کہ جس کے پاس قرآن مجید تحریری شکل میں موجود ہے یااس نے وہ خود رسول اللہ ﷺ سے سن کر لکھا ہو اور لکھنے کے بعدآپ کو سنا کر تصدیق بھی حاصل کرلی ہو ایسی تحریر فوراً تدوین قرآن کمیٹی کو جمع کرا دی جائے چنانچہ جو بھی تحریر آتی تو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دو گواہوں کی شہادت کے ساتھ قبول فرماتے پھر دوسرے نسخوں سےموازنہ کرتےاور حفاظ صحابہ کرام کو سناتے اور تمام تحقیق و تفتیش کے بعد کاغذ کے صحیفوں میں تحریر فرماتے اس طرح زبر دست محنت شاتہ کے ساتھ مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ مدون و مرتب کرلیا گیا ہر سورت کو الگ الگ صحیفہ میں اور سات قرأتوں کے مطابق لکھا گیا تھا اس لیے اس کا نام ’’ام الصحائف‘‘ مشہور ہوگیا ۔پھر سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قراتوں کے اختلافات کی وجہ سے بعض لوگوں میں اختلاف شروع ہو گئے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورہ سے قریشی قراءت پر مرتب کردیا قرآن مجید کا یہ صحیفہ خط عثمانی میں تحریر کیا گیا تھا لیکن نقطوںاور حرکات سے خالی تھا کیونکہ ابھی تک نقطوں اور حرکات لا رواج نہیں تھا پڑھنے والےاتنے عادی اور ماہر تھے کہ وہ ا ن کے بغیر ہی درست قراءت کر لیتے تھے کیونکہ انکا دارومدار صرف کتابت پر نہ تھا بلکہ حافظے پر بھی تھا ۔
جب اسلام عجم میں پھیلا تو ان کے لیے بغیر نقطوں اور اعراب کے قرآن مشکل تھا تو سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ابو الاسود الدؤلی نے پہلے نقطے اور بعد میں اعراب لگائے اور قرآن کی تلاوت میں امت کےلیے آسانی پیدا کی اس کے بعد خلیل بن احمد نحوی نے ھمزہ اور شدکی شکلیں ایجاد کیں ۔
منازل ،پارے ،رکوع اور آیات
ٓصحابہ اور تابعین کا عام دستور تھا کہ ایک ہفتہ میں مکمل قران مجید کی تلاوت کر لیتے تھے اس لیے انہوں نے نے یومیہ تلاوت کے لیے قرآن مجید کی سات احزوب یا منزلیں بنائی ہو ئی تھیں پھر وہ سات منزلیں مشہور ہوگئیں قرآن مجید کے تیس اجزاء یا پارے ہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکتی کہ تیس پاروںمیں کب اور کس نے تقسیم کیا ہے بعض نے یہ توضیح بیان کی ہے کہ عامۃ الناس ایک ماہ میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتے تھے اس اعتبار سے انہوں نے ایک ماہ کے مطابق تیس حصوں میں تقسیم کیاتھا جس سے تیس پارے معروف ہوگئے ۔(واللہ اعلم بالصواب )
قرآن مجید میں557رکوع ہیں رکوع مقرر کرنےکا مقصد یہ بیان کیا جاتاہے کہ جہاں کچھ آیات میں ایک مفہوم مکمل ہوجاتاہے وہاں رکوع کی علامت’’ع‘‘ لکھ دی گئی کہ نماز میں اتنی آیات تلاوت کرکے رکوع میں جانا بہتر ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار سے زائد آیات ہیں آیت کا معنی علامت یا نشانی ہے ہر آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہے اس لیے اس کا نام آیت رکھا گیا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن مجید کے ایک جملے کے مکمل ہونے پر گول دائرہ لگا دیاجاتا تھا تاکہ معلوم ہوکہ ایک جملہ مکمل ہوگیا اسی کو آیت بھی علامت ونشانی کا نام دیاگیا۔

رموزِ اوقاف :

ہر زبان میں کلام کرتے وقت وقف اور عدم وقف کا خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو بعض اوقات کلام کا مفہوم بالکل بگڑ جاتاہے جیسے : روکو، مت جانے دو اور روکو مت، جانے دو ۔ قرآن مجید میں بعض ایسے مقامات ہیں کہ اگر وقف یا عدم وقف کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مفہوم صحیح نہیں رہتا اس طرح کی خامیوں سے بچنے کے لیے اہل علم نے آیات کے درمیان یا اختتام پر کچھ علامات لگائی ہیں جنہیں ’’ رموز اوقاف‘‘ کہتے ہیں ان کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن پاک کے آخر میں یہ رموز تفصیل سے لکھے جاتے ہیں تاکہ عجمی لوگ بھی صحیح انداز میں تلاوت کرسکیں۔

مکی ومدنی سورتیں :

قرآن مجید کی سورتیں دو قسموں پر مشتمل ہیں ۔ مکی اور مدنی
جو سورتیں ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کو مکی سورتیں کہا جاتاہے ، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ کے گرد ونواح میں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں وہ مدنی سورتیں کہلاتی ہیں۔
سورتوں کا مکی ومدنی ہونا اکثریت واغلبیت کے اعتبار سے ہوتا ہے ورنہ بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات اور مدنی سورتوں میں مکی آیات بھی پائی جاتی ہیں ۔

مکی ومدنی سورتوں کا اسلوب :

مکہ میں ایک طرف مٹھی بھر اہل ایمان تھے جو دن رات کافروں کی اذیتوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور اپنوں وبیگانوں کی طرف سے سخت مشکلات برداشت کرکے بھی ایمان کو سینہ سے لگائے ہوئے تھے تو دوسری طرف مشرک ومنکرین حق تھے جو توحید ورسالت ، حیات بعد الموت اور تعلیمات الٰہی کے منکر تھے اور بدعات فاسدہ کے مرتکب تھے ۔ اس لیے مکی سورتوں میں اہل ایمان کی استقامت اور منکرین کے عقائد واعمال کی تردید کو عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیاگیا ہے اور شرک کے تمام شبہات کا جواب اور توحیدالٰہی کو خوب بیان کیاگیا ہے ۔ چونکہ مکہ کے لوگ فصاحت وبلاغت میں بہت مشہور تھے اس لیے مکی سورتوں میں فصاحت وبلاغت،تشبیہ وتمثیل اور مشکل لغت کا استعمال کیاگیاہے۔
جبکہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی،اسلامی حکومت قائم ہوچکی تہی اس لیے وہاں احکامات کی زیادہ ضرورت تھی اس لیے مدنی سورتوں میں اسلامی معاشرہ کے اصول واحکام،عبادات ومعاملات،حدود ومیراث ، خاندانی واجتماعی احکامات،بین الاقوامی تعلقات، جہاد وقتال کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح مدینہ میں یہود ومنافقین بھی رہتے تھے اس لیے ان کے باطل عقائد ونظریات کی بھی خوب تردید کی گئی ہے۔
قرآن مجید کی کل 114 سورتیں ہیں جن میں سے 20 کے مدنی ہونے میں مفسرین کا اتفاق ہے ، 12 سورتوں کے مکی ومدنی ہونے میں اختلاف ہے اور 82 سورتوں کے مکی ہونے میں اتفاق ہے۔

قرآن مجید کا اسلوب :

پہلی دفعہ قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر پڑھنے والا آدمی اس ذہن کے ساتھ آتا ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب بھی مروجہ کتب کی طرح ہوگا یعنی زندگی کے ہر شعبہ کے احکام ومسائل الگ الگ مضامین،ابواب اور فصلوں میں خاص فنی وتصنیفی انداز میں مرتب ہوں گے ایک شعبہ کے مکمل احکام کے بعد دوسرے شعبہ کے احکام درج ہوں گے۔
لیکن جب وہ ترجمہ وتفسیر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس میںعقائد،عبادات،معاملات،اخلاقیات،تخویف و
بشارت، قصص وواقعات وغیرہ غیر مرتب انداز میں ایک دوسرے کے بعد بیان کیے گئے ہیں اگر عقائد کی بات شروع ہوئی ہے تو تکمیل سے قبل عبادات کی بات شروع ہوجاتی ہے اور مختلف عبادات ملی جلی بیان ہورہی ہوتی ہیں تو ساتھ ہی معاملات اور اخلاقیات شروع ہوجاتے ہیں اور دوبارہ پھر عقائد کا موضوع شروع ہوجاتاہے وہ ابتدائی طالب علم اپنے ذہن کے خلاف اسلوب دیکھ کر حیران وپریشان سا ہو جاتاہے ۔
اور طرح طرح کے اشکالات کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض افراد کو تو شیطان غلط راستہ پر چلا دیتاہے ایسے خواتین وحضرات کو اسلوب قرآن مد نظر رکھنا ضروری ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل دو باتیں ذہن نشین کر لینا اہم ہوں گی۔
1 قرآن مجید کا نزول جس معاشرہ میں ہوا اس وقت ان کا اسلوب بیان آج کے اسلوب وانداز کا نہ تھا بلکہ وہ فصیح وبلیغ، جامع ومانع مفہوم والی،ٹھوس اسلوب والی، تشبیہات وتمثیلات سے مزین اور کنایات ومجازات والی کلام کہنے کے عادی تھے اس کا تعلق خواہ کسی موضوع سے ہو وہ ایک ہی وقت میں متعدد موضوعات پر گفتگو کرتے تھے جیسے ان کے اشعار ومقالات سے یہ بات واضح ہوتی ہے چونکہ قرآن مجید کا اسلوب بھی اس وقت رائج اسلوب والا ہے اس لیے ملے جلے موضوعات پر کلام کی گئی ہے ۔
2 قرآن مجید یک بارگی نازل نہیں ہوا بلکہ ضروریات واحوال کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے اور ایک طویل عرصہ میں نزول مکمل ہوا ہے ۔ اس لیے بعض مضامین میں تکرار اور ملے جلے عنوانات معلوم ہوتے ہیں جیسے ایک حکمران لمبا عرصہ تک حکومت کرتاہے اور روزانہ مختلف شعبہ جات کے لوگوں کو مختلف قسم کے احکام (آرڈیننس) جاری کرتا رہتا ہے اگر اس کے 20 سال دور حکومت کے تمام جاری کردہ احکامات وپیغامات کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقیناً اس میں تکرار،ملے جلے عنوانات،ایک کے بعد دوسرے شعبہ کو غیر مرتب انداز کے احکام وغیرہ نظر آئیں گے ۔ (مأخوذ : الفوز الکبیر از شاہ ولی اللہ )
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے