قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (سورۃ الاخلاص)

’’فرما دیں کہ وہ اللہ ایک ہے ۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہےاورنہ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔‘‘

عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا لِلنَّبِیِّe یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَاركَ وَتَعَالَی﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌاَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾(رواہ احمد مسند ابی بن کعب)

’’سیدناابی بن کعب رضی اللہ سے مروی ہے کہ مشرکین کا ایک وفد نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے۔اے محمد۔جس’’ رب‘‘ پرآپ ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب کیا ہے۔
وفد کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں ،آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل وصورت ،حسب نسب کیا ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی۔‘‘
یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اورنظریات کے مطابق ’’اللہ‘‘ کی توحید کو مانتے اور اس کی عبادت کرتے آرہے ہیں۔ مگر شرک میں ملوّث ہونے کی وجہ سے توحید ِخالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے،حالانکہ قرآن مجیداور انبیائے کرام کی دعوت توحیدِ خالص ہے۔ جسے سورہ اخلاص میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیاہے۔جو شخص ذاتی اورگروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر’’اللہ‘‘ کی ذات اور اس کی صفات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح ،مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحیدِ خالص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جز بنا لیا ہے۔جیساکہ قرآن کا ارشاد ہے۔

وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف: 15)

’’ لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا حصّہ بنا لیاہےحقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طورپرناشکرا ہے۔ ‘‘
مشرکین اللہ تعالیٰ کوخالق ومالک ماننےاوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ’’اللہ‘‘کی مخلوق اورکچھ بندوں کو اس کی ذات کا حصّہ ٹھہراتے ہیں۔جوواضح طورپر کفر اور ناشکری ہے ۔قومِ نوح نے پانچ فوت شدہ بزگوں کواللہ تعالیٰ کا جز بنایا، ابراہیم uکی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا،فرعون نے اپنے آپ کو ’’رب الاعلیٰ‘‘ کے طورپر منوایا، یہودیوں نے عزیر u کو اللہ کا بیٹا قرار دیا،عیسائیوں نے عیسیٰ u اور ان کی والدہ مریم کو رب کا حصّہ بنا لیا۔ امتِ مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ اس میںایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے اور کثیر تعداد نبی eکو’’ نور من
نوراللہ ‘‘کے طورپرمانتی ہےحالانکہ ارشادباری تعالی ہے۔

لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

’’کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشورٰی:11)

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل: 74)

’’پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دو یقیناً اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
ارشادعالی ہے کہ اس کی ذات اورصفات کے ساتھ کسی
چیز کی مثال نہ دی جائے کیونکہ اس کی ذات اورصفات بے مثال ہیں لیکن افسوس ! شرک کرنے والے پھر بھی ایسی باتیں کرتے اور مثالیں دیتے ہیںجس سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا اور ان میں واضح طور پر شرک پایا جاتا ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (التوبۃ: 30)

’’یہودیوں نے کہا عزیر’’اللہ‘‘ کابیٹاہے اورنصاریٰ نے کہا مسیح ’’اللہ‘‘ کابیٹاہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کررہے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفرکیا۔ ’’اللہ‘‘ انہیں غارت کرے کدھر بہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناءپریہ عقیدہ بنایاکہ عزیرu اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ مفسرین اس کے دوسبب بیان کرتے ہیںایک یہ کہ موسیٰ u کی وفات کے بعدجب بُختِ نصرنےیہودیوں پرحملہ کیا اور اس نے تورات کوکلی طورختم کرنےکاحکم دیا۔ جس سے ایسا وقت آیا کہ تورات دنیا میں بالکل ناپیدہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نےدین موسوی کی تجدید کے لیےسیدنا عزیر u کو مبعوث فرمایاجنہوں نے وحی الہٰی کی روشنی میں تورات کودوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سیدنا عزیرu سوسال تک فوت رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھرزندہ فرمایا۔جب وہ اٹھائے گئے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھاناسیدنا عزیر u کے ساتھ تھا وہ سوسال گزرنے کےباوجود اُسی طرح تروتازہ رہا۔ لیکن ان کاگدھا مر چکا تھا جسےعزیر uکے سامنے زندہ کیا گیا۔ اُس کی تفصیل سورۃ البقرہ: آیت 260میں بیان کی گئی ہے۔ اس عظیم معجزہ کی بناء پریہودیوں نے عقیدت میں آکرسیدناعزیرuکواللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا،ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نےسیدنا عیسیٰ u کو اللہ کا بیٹا اور سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید کی گئی ہے۔ گویا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نےاپنے اپنے انبیاء کو ’’اللہ‘‘ کا بیٹا قرار دیا جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں’’اللہ‘‘انہیں غارت کرے۔ یہ کن ٹامک ٹوئیوں میں بھٹکے جا رہے ہیں۔ انسان صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو اسکی گمراہی کی کوئی انتہانہیں رہتی اس لیے انہوں نے علماء، درویشوں اور بزرگوں کو ’’رب‘‘ کا درجہ دے دیا تھا۔ عیسائیوں نے بالخصوص مسیح ابن مریمؑ کو خُدائی مقام پرپہنچایاحالانکہ انہیں حکم دیاگیاتھاکہ وہ خالص ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور وہ ان باتوں سے مبّرااورپاک ہے جو یہود ونصاریٰ کرتے ہیں۔
عیسیٰ u کا پیدا ہونا، قوم کاسیدہ مریم پرالزام لگانا، سیدہ مریم کا گود میں اٹھائے ہوئے عیسیٰ u کی طرف اشارہ کرنا، عیسیٰ u کااپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا۔ قرآن مجید نے ان واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایاہے۔ لیکن اس کے باوجود عیسائی تثلیث کاعقیدہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔

يٰاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ وَاَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ مَا كَانَ لِلهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَهٗ اِذَا قَضٰى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ(مریم: 28 تا36 )

’’اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں گے جو بچہ گہوارے میں پڑا ہوا ہے ؟ عیسیٰ بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ اور مجھے برکت دی میںجہاں بھی رہوں اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اورزکوٰۃ کی پابندی کاحکم دیا ہے۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور سخت طبیعت نہیں بنایا گیا۔ مجھے سلامتی دی جب میں پیدا ہوا اور جب میں مروں گا اورجب زندہ کرکے اٹھا یا جائوں گا۔ یہ عیسیٰ ابن مریم ہے اور یہ ہے اس کے متعلق سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں ۔ اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام ہو جاتا ہے۔ اور عیسیٰ نے فرمایا تھایقیناً اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے ۔بس تم اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں ’’ذٰلِكَ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا جو دور اور نزدیک کے لیے اشارہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ لوگ مریم اورسیدنا عیسیٰ i اور جن کو خُدا یا خُدا کا جزء ٹھہراتے ہیں اور جہاں تک عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے انھیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت کوپوری طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بیوی ، اولاد اور ہر قسم کی حاجت اور کمزوری سے بے نیاز اور پاک اور وہ شراکت داری اور لوگوں کی یاواگوئی سے مبرّا ہے۔ اسے اولاد اور کسی سے شراکت کی کیا ضرور ت ہے؟ کیونکہ اولاد یا کسی کو اپنی ذات اور کام میں شریک بنانا ایک کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے وہ کسی کام کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ کام اس کی منشاء کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اس نے عیسیٰ کے متعلق ’’کُنْ‘‘ فرمایا تو سیدنا عیسیٰ uبغیر باپ کے پیدا ہو گئے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ’’ اللہ‘‘ تین میں سے تیسرا ہے ،حالانکہ وہ اکیلا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انہیں ضرور دردناک عذاب ہوگا ۔کیاوہ اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے ؟ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔مسیح ابن مریم ایک رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھاناکھایاکرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح آیات کھول کر بیان کرتے ہیں ،پھروہ کیسے بہکے جاتے ہیں۔ ‘‘ (المائدۃ:73 تا 75)
آدمی جب حقائق دیکھنے سے اندھا اور دلائل سننے سے بہرہ ہو جائے تو وہ کفروشرک کی وادیوں میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔عیسائی عیسیٰ u کی محبت میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیںکہ اللہ ، عیسیٰ اور مریم ایک دوسرے سے ہیں اور’’ اللہ‘‘تین میں سے ایک ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات اورصفات سے آگاہ فرماتے ہوئے انسانی رشتوں کے درجہ بدرجہ احترام کاحکم دیا ہے لیکن کوئی انسان دین و دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی بلندوبالا یہاںتک کہ رسول اورنبی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ انسان ہی رہتا ہے اور انسان کااللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بندہ ہونے کے سواکوئی رشتہ نہیں ۔
سورۃ اخلاص میں اسی عقیدہ کو نہایت سادہ لیکن انشراح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ایک ہے وہ نہ کسی سے پیدا ہوا ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک اور بے مثال ہے۔لیکن افسوس مشرک اس بات کو سمجھنے اوراسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے یہودیوں نے سیدنا عزیر u کو اللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا ۔ ان سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے عیسائی عیسیٰuکواللہ کا بیٹا اور مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ افسوس امت مسلمہ کی اکثریت شرک کی تمام اقسام کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ ہر نبی نے اپنی امت کو صرف اور صرف ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کرنے کاحکم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کواسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے۔ جو لوگ عقیدہ تثلیث اور شرک سے باز نہیں آئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ البتہ جنھوں نے شرک سے توبہ کی اور اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت ہی معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِي اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدہ: 72)

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ اللہ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہی ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔‘‘

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّهْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًاوَ لِلهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(المائدۃ:17)

’’یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح بن مریم ’’اللہ‘‘ ہے انہیںبتلا ئیںکہ کون ہے ؟جو اللہ کے مقابلہ میں کچھ اختیار رکھتاہو اگر وہ ارادہ کرے کہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو اورجوکچھ زمین میں ہےاسے ہلاک کر دے، آسمانوں اورزمین اورجو کچھ دونوں کے درمیان ہے اس کی بادشاہی ’’اللہ ‘‘کےلیےہےجو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہرچیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید یہ حقیقت منکشف کرتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ اس قدر ژود نگاہی اورکج فکری کا شکار ہوجاتی ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نظریات میں کس قدر تضاد اور الجھائو پایا جاتا ہے۔ عیسائی ایسی ہی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہسیدہ مریم ،سیدنا عیسیٰ اور اللہ کو ملا کر رب کی ذات مکمل ہوتی ہے۔غور فرمائیں کہ عیسائی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف تثلیث پراصرار کیے جا رہے ہیں۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر عیسائی تثلیث کا دعویٰ کرتےہیں وہ عیسیٰu کا بن باپ پیدا ہونا ہے جن کے بارے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف کروانے کی خاطر سولی پر لٹک چکے ہیں۔ یہ قرآن مجید کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عیسیٰu نہ سولی پرچڑھائے گئے اور نہ ہی انھیںقتل کیا گیا ہے ۔ (النساء:۱۵۷)
زمینوں ، آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا سب ’’اللہ‘‘ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار کا مظہر ہے کہ اس نے عیسیٰuکو بغیر باپ کے پیدا کیا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تواس کوجس طرح چاہےتخلیق فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ عیسائیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف عیسیٰ uکو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مصلوب بھی سمجھتے ہیں حالانکہ جو اپنی موت و حیات پر اختیار نہیں رکھتا وہ ’’اللہ‘‘ یا اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے ، کیا فنا ہونے والا اور باقی رہنے والا ،بااختیار اور بے اختیاربرابر ہو سکتے ہیں۔

يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَا اِلٰى مَرْيَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ اِنْتَهُوْا خَيْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا (النساء: 171)

’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے ذمہ سچی بات کے سواکچھ نہ کہو مسیح عیسیٰ ا بن مریم اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہے ،جو اس نے مریم کو القا کیا اور ا للہ کی طرف سے ایک روح ہے پس اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائو اور مت کہو کہ تین(الٰہ) ہیں ،باز آجائو یہ تمہارے لیے بہترہے اللہ ہی معبودبر حق ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور’’ اللہ‘‘ ہی کارساز ہے ۔‘‘
عیسائیوں کو دین میں ’’غلو‘‘ کرنے سے روکا جا رہا ہے جو ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے۔غلو کا معنٰی ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے تعصب کی بنا ءپر عیسیٰ uکے بارے میں غلو کیا وہ مخالفت میں اس قدرآگے بڑھ گئے کہ انہوں نےسیدنا عیسیٰ uاور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے جناب عیسیٰ u اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ uنے بار ہا دفعہ فرمایاتھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیامیں تورات کی تعلیم کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن ستیاناس ہو اس غلو کا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرا دیا۔ یہودیوں کے برعکس عیسائیوں نے عقیدت ومحبت کی انتہا کرتے ہوئے سیدناعیسیٰ uکواللہ کا بیٹا اور مریم کواللہ کی بیوی قرار دیا۔ یہودی عداوت کی بنیاد پر گمراہ ہوئے اور عیسائی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے گمراہ ٹھہرے۔اس سے عیسائیوں کوروکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰu کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں خداکی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ذات ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی ۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ هُوَ الْغَنِيُّ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بِهٰذَا اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (یونس: 68)

’’انھوں نے کہا’’ اللہ‘‘ نے اولاد بنا رکھی ہے۔حالانکہ وہ پاک ہے، اور بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ تمہارے پاس ’’اللہ ‘‘کی اولاد بنانے کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کچھ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے (سورہ آل عمران :۲۹تا۳۶ میں)سیدناعیسیٰu کی حیات کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کا نذر ماننا، سیدہ مریم کو نذر کرنا،سیدہ مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کےسیدنا عیسیٰu کو جنم دینا،سیدنا عیسیٰu کی پیدائش کے وقت قوم کاسیدہ مریم پر تہمت لگانا، گودمیںسیدنا عیسیٰ uکا اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں۔ سیدنا عیسیٰu کا بڑے ہوکر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، سیدنا عیسیٰu کا مجبور ہوکر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا،ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بے بسی اوران کےبندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔جس طرح عیسائی سیدنا عیسیٰ کے حالات جانتے اور مانتے ہیں یہی یہودیوں کا حال ہے۔وہ جانتے ہیں کہسیدنا عزیرu اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا ۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال پڑا رہا ہوں ۔ عزیرu کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو ۔ (تفصیل کے لیے البقرۃ : ۲۵۹ کی تلاوت کریں)
یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ ،دین کے لیے ننگ و عار، عبادت گاہوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ کیونکہ یہودیوں نے جنابِ سیدناعزیرuکو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نےان سے آگے بڑھتےہوئے سیدہ مریم کواللہ کی بیوی اور عیسیٰu کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکینِ مکہ نے بتوں کواللہ کا اوتار تصور کیا اور کچھ لوگوںنے ملائکہ کو’’ اللہ‘‘ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہےاولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری، انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ اولاد نہ ہو تو آدمی اپنے گھر میں ویرانی،بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ وہ حاکمِ کل اور قادر ِ مطلق ہے۔کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔
سنگین ترین جرم

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا(مریم: 88تا92)

’’کہتے ہیں رحمٰن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو تم بُری بات زبان پر لاتے ہو قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ اُنہوں نے ’’اللہ‘‘ کے لیے بیٹا تجویز کیا حالانکہ ’’اللہ‘‘ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ۔‘‘
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے