پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے پون صدی گزر گئی ہے دینی جماعتوں نے اسلامی قانون کی حکمرانی کے لیے ہر حربہ آزمایا لیکن قرآن وسنت کو آئینی لحاظ سے سپریم کا درجہ دلوانے میں ناکام رہے، کرہ ارض پر طاغوطی قوتوں نے مسلم دنیا میں نسلی و لسانی اور مذہبی فسادات بھڑ کا کر خانہ جنگی کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔

افغانستان، عراق، مصر اور شام میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اس کشت وخون کی لپیٹ میں آچکے ہیں اس بنا پر قانون کو ہاتھ میں لیناخانہ جنگی کو دعوت دینےکے مترادف ہے کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قانون کو نافذ کر نا حکومت کا فرض ہے چنانچہ دینی جماعتوںکی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت و اصلاح کا فریضہ حکمت عملی سے زبانی طور پر سر انجام دیں البتہ اگر آئین یا قانون میں کسی قسم کا شرعی سقم ہو تو اس میں ترمیم کے لیے جد وجہد جاری رکھیں ۔ آئینی لحاظ سے قرآن وسنت کو سپریم لاء بنانے کی تجویز پیش خدمت ہے وطن عزیز پر بے پناہ قربانیوں کی بدولت معرض وجود میں آیا پچاس لاکھ مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہندو اور سکھ بلوائیوں نے 80 ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا پانچ لاکھ مسلمان شہید ہوئے، پاکستان کے ہر آئین میں نظریہ پاکستان کے تصور کا لحاظ  رکھا گیا 1973ء کے آئین کی رو سے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا صدر و زیر اعظم کا مسلمان ہونا قرار دیا گیا ہے اسلامی اقدار کے تحفظ ، اسلامی اصولوں کی پیروی او ر اسلامی طرز زندگی کے فروغ کی ضمانت فراہم کی گئی ، مزید وضاحت کی گئی کوئی قانون کتاب وسنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا، پہلے سے رائج قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھال دیا جائے گا ، تاہم یہ اختیار ارکان پارلیمنٹ کو حاصل ہے، آزادی کے بعد پاکستان امریکی بلاک سے منسلک ہے امریکی آئین 1787ء میں فلاڈیا میں منعقدہ آئنی کنوینشن میں بارہ ریاستوں کے پچیس نمائندوں نے تحریر کیا امریکہ میں انسانی خود ساختہ دستور کو بالادستی اس حد تک حاصل ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کانگریس ، ریاستی مجالس قانون ساز کے قوانین اور صدر و ریاستی گورنروں کے صادر احکامات کوا س بنا پر کالعدم قرار دے سکتی ہے کہ و آئین سے مطابقت نہیں رکھتے یا آئین کی بنیادی روح کے منافی ہیں ، سپریم کورٹ کے اس آئینی اختیار کو عدالتی نظر ثانی کا اختیار کہا جاتا ہے ، آئین کی تشریح کا فریضہ بھی سپریم کورٹ ہی سر انجام دیتی ہے، اس بناپر امریکی سپریم کورٹ آئین کا محافظ ادارہ ہے (مزید تفصیل کےلیے مطالعہ کریںthe constitution of U.S.A. by M.Rafiq Butt)لیکن پاکستان میں سپریم کورٹ اپنے عدالتی فیصلوں پر بعض فنی وجوہ یا نئے شواہد کی روشنی میںنظر ثانی کرنے کا اختیار رکھتی ہے وہ بھی اس صورت میں کہ پارلیمنٹ کا قانون اس کے رستے میں حائل نہ ہو۔

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کسی فرد ، ادارے ، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی درخواست پر کسی قانونی نکتہ کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے ، اگر اس عدالت کی نظر میں وہ قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو تو عدالت کے فیصلہ کے دن سے کالعدم متصور ہوگا تاہم عدالت کے فیصلے کا نفاذ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر نے کی مُدت کے خاتمہ کے بعد شمار ہوگا۔

مثال کے طور پر وفاقی شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دیا ، حکومت کے ایک بنک کے ذریعے سود کے خاتمہ کے خلاف اپیل دائر کردی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا مقصد ملک میں رائج الوقت قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے قانون سازاداروں کی راہ نمائی کرنا ہے ، کونسل سفارشات تو پیش کر سکتی ہے پارلیمنٹ منظور کرے یا نہ کرے اس کی مرضی پر منحصر ہے اس لیے یہ بے اختیار ادارہ ہے وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے مسلمان شہریوں کےمذہبی جذبات کے احترام میں قائم کئے گئے ہیں ورنہ آئینی لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں پاکستان میں اللہ کے نازل کردہ دستور کا نفاذ پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج ہے جبکہ امریکہ میں انسانی دستود کو سپریم لا کی حیثیت حاصل ہے پارلیمنٹ اس کے تابع ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کی طرف سے سماجی معاشی معاشرتی اور جنسی آزادی کے پیکج پر عمل پیرا ہے غور طلب پہلو ہے کہ آئینی طریقہ سے انحراف کیوں؟

مسلم لیگ کی جدوجہد سے پاکستان معرض وجود میں آیا اللہ کے فضل و کرم سے اسے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے وہ نظریہ پاکستان کی آئینی تکمیل کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرے جس کے متن کا خاکہ اس طرح کا ہو۔

پاکستان کا دستور قرآن حکیم اور سنت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مجلس شوری امن کے نفاذ کا طریقہ کا روضع کرے اور اس کی روشنی میں جدید دور کے مسائل کے حل کے لیے اجتہادی نوعیت کے فیصلے صادر کرے بشرطیکہ وضع شدہ قوانین قرآن و سنت سے متصادم نہ ہوں۔

وفاقی شرعی عدالت/ سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ آئینی حق حاصل ہو کہ وہ مسلم شہری/ ادارہ یا حکومت کی جانب سے درخواست پہ قومی و صوبائی اسمبلی کے قوانین اور صدر یا صوبائی گورنروں کے صادر احکامات کو اس پر کالعدم قرار دے سکتے ہو کہ وہ قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے جبری جلاوطنی کے دوران بیت اللہ شریف میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر انہیں اب موقع ملا تو وہ پاکستان میں اسلامی قانون نافذ کر دیں گے محترم میاں صاحب! آپ وعدہ کی تکمیل کا عزم کریں اللہ تعالیٰ آپ کو طاغوتی قوتوں کی شر انگیز اور مکر و فریب کی چالوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

قومی اسمبلی میں قرار دار پیش نہ ہو یا پیش ہو تو پاس نہ ہو سکے تو عوام حق ہدایت کے ذریعے قرآن و سنت کی حکمرانی کےلیے جدوجہد کریں۔

پروفیسر امتیاز احمد خان نے حق ہدایت کی وضاحت کی ہے:

حق ہدایت:INITIATIVEکے ذریعے رائے دھندگان کی ایک مقررہ تعداد قانون کا مسودہ تیار کر سکتی ہے یا کسی قانون یا آئین میں ترمیم پیش کر سکتی ہے اور پھر یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ اسے مقننہ منظور کرے یا اسے عوام کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔ حق ہدایت عوام کا مثبت اختیار ہے جس کی رو سے عوام مقننہ کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ان کی منشا کے مطابق کوئی قانون وضع کرے اور منظور کرے حق ہدایت کے ذریعے لوگ قانون سازی کےایسے ہی اپنے خیالات کو عملی جامعہ پہنا سکتے ہیں اور عوام اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ ایسا قانون بھی پاس کرواسکیں کہ جسے مقننہ قانون بنانے کے لیےتیار نہ ہو حق ہدایت عوام کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے قوانین بنا سکیں بجائے اس کے وہ اس بات کا انتظار کرتے رہیں کہ مقننہ میں ان کے نمائندے اس کے لیے قانون بنائیں گے۔

حق ہدایت کی منضبط شکل Formulatedیہ ہے کہ ووٹروں کی خاصی تعداد مقننہ کو ایک مکمل مسودہ بل پیش کرتی ہے اور پھر مقننہ اس مسودہ کو عام ووٹروں کی منظوری کے پیش کرتی ہے غیر منضبط شکل یہ ہے کہ ووٹروں کی خاص تعداد کسی قانون کے متعلق اپنے مطالبہ کو عام تجویز کی شکل میں مقننہ کے سامنے پیش کرتی ہے پھرمقننہ کا فرض ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں مسودہ تیار کرے اور اسے منظور کر کے عوام کی توثیق کے لیے پیش کرے حق ہدایت کو قانی طور پر عملی جامہ پہنانے کے لیے استصواب رائے کرانا لازمی ہے۔ (مطالعہ دساتیر ص 408)

حق ہدایت کا اختیار سوئزر لینڈ کے شہریوں کو حاصل ہے پاکستان کا اسلام پسند طبقہ جو ووٹ بنک میں اضافہ کے لیے نہیں اللہ کی خوشنودی کا طلب گار ہو میدان عمل میں آئے آئین ماہرین سے صلاح مشورہ کر کے حق ہدایت کے ذریعے قرآن وسنت کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرے۔ مذکورہ بالا قرارداد کے متن پر مذہبی راہ نما نظر ثانی کرنے کے بعد اتفاق رائے سے یک جہتی کا مظاہرہ کریں ملک کے مختلف صوبوں کے محب وطن احباب کے دستخط کرائیں پھر قومی اسمبلی میں حق ہدایت پیش کی جائے تاکہ قومی اسمبلی کاروائی کرنے کے بعد حق ہدایت کی منظوری کے لیے ریفرنڈم کرانے کی سفارش کرے۔خدانخواستہ مقننہ یہ کہہ کر درخواست واپس کردے کہ 1973 کے آئین کی روشنی میں عوام کو اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرنے کے بعد حق ہدایت کا اختیار حاصل نہیں تو اس صورت میں قرآن و سنت کی حکمرانی کی قرار داد کی منظوری کی خاطر استصواب رائے کرانے کی خاطر پٹیشن تیار کی جائے چنانچہ آئینی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے صدر پاکستان / قومی اسمبلی میں پٹیشن ڈائر کی جائے عوامی سطح پر رائے ہموار کرنے کی پر امن جدوجہد کی جائے۔

خدانخواستہ مسئلہ حل نہ ہو تو سپریم کورٹ کے دروازہ پر دستک دی جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی حکمرانی کے جمہور عوام کو قانون سازی کا اختیار حاصل کیوں نہیں؟

پاکستان کی تاریخمیں فوجی جرنیل اپنے اقتدار کی خاطر دو دفعہ ریفرنڈم کرا چکے ہیں عالمی ممالک نے ان کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات بدستور قائم رکھے چنانچہ نظریہ پاکستان کی تکمیل کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ناگزیر تقاضا ہے۔

چند نکات پیش خدمت ہیں مستند حوالہ جات کی روشنی میں پٹیشن تیار کی جائے۔

1 دو قومی نظریہ کی ضرورت اور نظریہ پاکستان کا تاریخی ارتقاء

2 تحریک پاکستان کے دوران بے پناہ قربانیوں کا جامعہ انداز میں تذکرہ

3 تقسم ہند کے دوران پچاس لاکھ مسلمانوں کی ہجرت کا قصہ

4ہندو سکھ بلوائیون کے دہشت گردوں کے واقعاتجس کے نتیجے میں پانچ لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اسی ہزار مسلمان دو شیزائیں اغوا ہوئیں۔

5 تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیڈروں کا قرآن و سنت کو دستور بنائے کا عزم

6 قرارداد مقاصد میں مذکور ہے ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جس طرح قرآن پاک و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں‘‘

7 وطن عزیز کا نام ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے اگر عوام ریفرنڈم کے ذریعے قرآن و سنت کی حکمرانی کے لیے آئین میں  ترمیم کی اجازت دیں تو آئین کے مطابق درست عمل ہو گا اس لیے ریفرنڈم کرانے کی اجازت دی جائے۔

پاکستان میں نسلی و لسانی اور مذہبی فسادات برپا ہیں۔ پندرہ صدیاں قبل مخبر صادق محمد نےگمراہی سے بچنے کا نسخہ تجویز کیا تھا۔

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلى الله عَلَيه وَسَلم.

(موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري (2/ 70)

میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں جب تک تم ان دو پر عمل کرتے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔

امریکی آئین کو پچاس افراد نے تحریر کیا۔ امریکہ کا وفاق اور ریاستیں اس آئین کی روشنی میں قانون سازی کر سکتی ہیں بصورت دیگر سپریم کورٹ نظر ثانی کرنے کے بعد یہ کہہ کر رد کر سکتی ہے کہ یہ امریکی آئین کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کا آئین قرآن حکیم جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا صاحب قرآن محمد کو اس میں ردو بدل کرنے کا اختیار نہیں۔

امام کائنات محمد کے حکم اور عمل کی پیروی ملت اسلامیہ کی نجات اور کامیابی کا ذریعہ ہے آپ کے فرمان میں ترمیم کرنے کی کسی صحابی کو اجازت نہیں کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اللہ کے قرآن اور خاتم النبیین کے احکام کا نفاذ پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کا محتاج ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے جس طرح امریکہ میں انسانی ساختہ آئین کو محور سمجھ کر قانون سازی کی جاتی ہے اسی طرح پاکستان میں قرآن و سنت کو اتھارٹی تسلیم کیا جائے اور قرآن و سنت کے منافی قوانین کو ختم کرنے کا اختیار اسلامی نظریاتی کونسل/ شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کو دیا جائے۔ تحریک پاکستان کے دوران کئے گئے وعدہ کو پورا کرنا مسلم لیگ کی قومی ذمہ داری ہے۔

————-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے