حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے اور صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار اس کی ادائیگی فرض ہے، اور جو استطاعت کے باوجود حج ادا نہ کرے اس کے لیے وعید ہے، حج نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں یعنی 9 ہجری کو فرض ہوا(فقہ الاسلامی وأدلتہ3/2065)

قرآن وحدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے نبی مکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے‘‘ (الصحیحۃ1185،1200)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’پے درپے حج وعمرہ کرتے رہو بلاشبہ حج وعمرہ گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کرتی ہے‘‘ (الصحیحۃ1185،1200)

حج کی تعریف:

مخصوص ایام میں مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف (سفر) قصد کرنا ’’حج‘‘ کہلاتاہے۔

حج کے مہینے:

حج کے مہینے یہ ہیں1-شوال2-ذوالقعدہ3-ذوالحجہ کا پہلا عشرہ یعنی عید الفطر سے لیکر عید الاضحی تک کا درمیانی عرصہ۔ (بخاری)

وجوب حج کی شرائط:

1 اسلام۔

2 بلوغت۔

3 عقل۔

4آزادی۔

5استطاعت، نیز خواتین کے لیے ان شرائط کے ساتھ ساتھ دوشرطیں مزید بھی ہیں۔

1محرم کا ساتھ ہونا۔

2عدت میں نہ ہونا۔

جو حج کا ارادہ رکھتاہے اسے چاہیے:

1سب سے پہلے اپنے عقیدے کی اصلاح کرے کیونکہ عقیدے کی خرابی کی وجہ سے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔

2کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے جہاں عقیدہ توحید ضروری ہے ہاں سنت نبوی کی پیروی بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اگر عقیدہ ٹھیک ہو اور انسان کا عمل نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ کے مطابق نہ ہو تب بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

3نماز کی پابندی کیونکہ عمداً نماز ترک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے عرب وعجم کے متعدد علماء کا یہی فتوی ہے ، اگر بے نماز کافر ہے تو ایسا شخص ایک بار نہیں اگر ساری زندگی بھی حج کرتارہے کوئی فائدہ نہیں۔

4مندرجہ تمام باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی حلال کی کمائی سے حج اداء کیا جائے کیونکہ حرام مال سے نیکی کا کوئی کام نہیں قبول نہیں ہوتا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتاہے‘‘(مسلم: کتاب الزکاۃ1015)

عمرہ کے ارکان :

1لباسِ احرام پہننے کے بعد نیت کرنا اور ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً کہنا۔

عورت اپنے عام باپردہ لباس میں عمرہ کی نیت کرے اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً  کہے۔

2 بیت اللہ کا طواف کرنا۔ (سات چکر لگانا)

3 صفا و مروہ کی سعی کرنا۔ (بخاری و مسلم)

حج کے ارکان :

1 نیت کرنا‘حج تمتع’ کرنے والا میقات سے عمرہ کی نیت کر کے ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً’ کہے، پھر آٹھ ذوالحجہ کو دوبارہ مکہ میں اپنی منزل سے لباس احرام پہن کر حج کی نیت کرے اور ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا’ کہے،

حج اِفراد کرنے والا اگر میقات سے باہر رہتا ہے تو میقات سے حج کی نیت کر کے ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا’ کہے۔ اور اگر میقات کے اندر رہتا ہے تو اپنی رہائش سے حج کی نیت کر کے ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا’ کہے۔

حج قِران کرنے والا میقات سے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر کے ‘اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّ حَجًّا’ کہے۔

  2 میدان عرفات میں ٹھہرنا۔

3 عورتو ںاور ضعیفوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے نمازِ فجر مزدلفہ میں ادا کرنا۔

4 طواف زیارت کرنا۔

5 صفا اور مروہ کی سعی کرنا۔ (بخاری و مسلم)

عمرہ کے واجبات :

1 میقات سے لباسِ احرام پہن کر احرام (نیت) کرنا۔

2 عمرہ کی تکمیل پر (مردوں کے لیے) سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا۔ (بخاری و مسلم)

حج کے فرائض:

1 میقات سے احرام باندھنا۔

2دس ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرہ کو اللہ اکبر کہہ سات کنکریاں مارنا اور گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کو تینوں جمرات کو بالترتیب اللہ اکبر کہہ کر سات سات کنکریاں مارنا۔

3سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا  (مردوں کے لیے) اور یہی افضل ہے۔

4 ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا۔

5 طوافِ وداع کرنا۔ (مسلم)

  نیت کرنے اور احرام باندھنے کا طریقہ :

حج یا عمرہ کا ارادہ رکھنے والے کے لیے احرام (نیت) باندھنے سے پہلے میقات پر یا میقات سے پہلے غسل کرنا اور بدن کو خوشبو لگانا مستحب ہے اور اگر ممکن ہو تو بغلوں کے بال، زیر ناف بال بھی صاف کر لیے جائیں اور مونچھیں اور ناخن تراش لیں۔ مرد احرام کے لباس کے طور پر ان سلی دو چادریں استعمال کریں ، افضل یہ ہے کہ یہ چادریں سفید رنگ کی ہوں۔ جبکہ عورتیں اپنے عام باپردہ لباس ہی میں حج یا عمرہ کی نیت کریں۔ زبان سے اپنے حج یا عمرہ کی نیت کریں اور تلبیہ کہیں، نیز اگر کوئی آدمی کسی کی طرف سے حج کررہا ہو تو وہ نیت کرنے کے ساتھ ‘اللہم لبیک حجا’ کہتے ہوئے اس شخص کا نام بھی ذکر کرے۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی)

نوٹ: اگر حج و عمرہ کے لیے جانے والے کو مکہ مکرمہ تک پہنچنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا خدشہ ہو تو اسے نیت کرتے وقت یہ کہنا چاہیے ‘اَللّٰہُمَّ مَحِلِّي حَیْثُ حَبَسْتَنِي’ پھر اگر وہ مکہ نہ پہنچ سکا تو بغیر ‘دم دیے حلال ہوجائے گا۔ (یعنی احرام کھول سکتا ہے)۔ (بخاری)

حالت احرام میں ممنوع کام اور ان کا کفارہ :

1 جسم کے کسی حصے سے جان بوجھ کر بال اکھاڑنا، کاٹنا یا مونڈھنا۔

2 ناخن تراشنا۔

3 خوشبو لگانا۔

4 مرد کا سر کو ڈھانپنا۔

5 مرد کا جسمانی ڈھانچے کے مطابق بنے، یعنی سلے ہوئے کپڑے پہننا (جیسے شلوار قمیص، بنیان، کوٹ، سویٹر، پتلون، پاجامہ وغیرہ) جبکہ عورت کا دستانے اور نقاب پہننا۔(بخاری) تاہم اگر کسی کے پاس دو چادریں نہیں ہیں تو وہ شلوار قمیص وغیرہ بھی پہن سکتا ہے۔

6 جنگلی (وحشی) جانور کا شکار کرنا یا شکار کرنے میں کسی کی مدد کرنا۔

7 پیغامِ نکاح بھیجنا، نکاح کرنا یا کرانا۔ (مسلم)

8 بیوی سے بوس و کنار کرنا، شہوت کی باتیں کرنا۔

9 بیوی سےمقاربت  کرنا۔

اگر یہ ہم بستری دس ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مارنے سے پہلے تھی تو ۔

1 حج باطل ہوجائے گا۔

2 حج کے بقیہ کام پورے کرے گا۔

3اگلے سال دوبارہ حج کرے گا۔

4 ایک اونٹ یا گائے حرم کی حدود میں ذبح کرکے فقرائے مکہ میں تقسیم کرے گا۔

اور اگربیوی سے مقاربت دس تاریخ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مارنے کے بعد کی ہے تو اس کا حج تو صحیح ہوگا لیکن اس کو ‘دم دینا ہوگا۔ (حاکم، بیہقی، مؤطا)

نوٹ: اگر عورت کو حالت احرام میں حیض یا نفاس شروع ہو جائے تو وہ بیت اللہ کے طواف کے سوا حج اور عمرہ کے بقیہ تمام ارکان و واجبات ادا کرے گی۔ (بخاری و مسلم)

حاجی کے آٹھ تاریخ سے پہلے کرنیوالے کام:

‘حج اِفرادکرنے والے کے کام:

1 میقات سے حج کی نیت کرنا اور ‘اَللّٰہُمَّ لَبَیْکَ حَجًّا’ کہنا، مکہ والے لوگ حج کے لیے میقات کی بجائے اپنی رہائش گاہ ہی سے لباسِ احرام پہن کر نیت کریں گے، چاہے ان کی رہائش مستقل ہو یا عارضی، البتہ عمرہ کے لیے انہیں حدود حرم سے نکل کر لباسِ احرام پہن کر نیت کرنی ہو گی۔

2 مکہ پہنچ کر طواف کرنا، یعنی بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانا اس طواف کو طوافِ قدوم کہتے ہیں۔ اس طواف کے ابتدائی تین چکروں میں رَمل کرنا، یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا۔

3 صفا اور مروہ کی ‘سعی کرنایعنی سات چکر لگانا، اگر ‘حج اِفرادکرنے اولے نے ‘طواف قدوم کے قت سعی نہ کی ہو یا پھر وہ اپنے گھر سے سیدھا منیٰ کی طرف چلا گیا ہو تو اسے ‘طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ہوگی اور وہ قربانی کے دن تک اپنے احرام میں ہی رہے گا۔ (بخاری و مسلم)

‘حج قِرا ن کرنے والے کے کام:

1 قربانی ساتھ لے کر یا قربانی کا کوپن لے کر میقات سے لباسِ احرام پہن کر نیت کرے ‘اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّ حَجًّا’ کہے۔

2 مکہ پہنچ کر ‘طواف قدوم کرنا۔

3 صفا اور مروہ کی ‘سعی کرنا، اگر اس دن سعی نہ کرسکا تو اسے ‘طواف زیارت کے بعد بھی اسے کیا جاسکتا ہے۔

4 یہ شخص قربانی کے دن تک احرام ہی میں رہے اور احرام کے ممنوع کاموں سے بچے۔ (بخاری و مسلم)

‘حج تمتع کرنے والے کے کام :

1 میقات سے لباس احرام پہن کر نیت کر کے ‘اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً’ کہنا۔

2 ‘طواف قدوم کرنا (یہی طواف عمرہ بھی ہے)

3 صفا اور مروہ کی سعی کرنا۔

4 سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا(صرف مردوں کے لیے)

5 حالت احرام سے نکل جانا (بخاری و مسلم)

فائدہ1: بیت اللہ کا ‘طواف کرتے وقت ہر چکر میں ‘رکن یمانی’ اور ‘حجر اسود’ کے درمیان یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ( البقرۃ 201، أبوداود)

‘ نیز اس کے علاوہ ہر چکر کی کوئی دعا مخصوص نہیں، جو چاہیں اللہ تعالی سے دعائیں کریں۔

فائدہ2: صفاپر یہ دعا پڑھنا مستحب ہے۔

قبلہ رخ ہوکر تین مرتبہ ‘اَللّٰہُ أَکْبَر’ کہے، اور تین بار یہ دعا پڑھے۔

‘لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ أنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ’

اور ان مذکورہ دعائوں کے درمیان میں قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر جو دل چاہے دعا کرے۔ اور ‘مروہ پر بھی یہی دعا تین مرتبہ ‘اَللّٰہُ أَکْبَر’ کہہ کر پڑھے۔ (مسلم، ابو داود، نسائی)

ان دعاؤں کے بعد دیگر دعائیں بھی مانگی جاسکتی ہیں(مسلم)

یاد رہے کہ مردوں کے لیے دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑنا مستحب ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)

آٹھ ذوالحجہ کا دن :

منیٰ کی طرف جانا، یاد رہے کہ ‘حج تمتع’ کرنے اولا آٹھ تاریخ کو اپنی رہائش گاہ ہی سے لباسِ احرام پہن کر حج کی نیت کر کے یہ الفاظ کہے: ‘اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا’ منیٰ میں اپنے اپنے وقت پر ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں قصر کر کے دو دو رکعت ادا کرے، جبکہ مغرب کی تین رکعتیں پوری پڑھے۔ (بخاری و مسلم)

نو ذوالحجہ(عرفہ) کا دن :

1 مستحب ہے کہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد تلبیہ اور تکبیریں کہتے ہوئے عرفات کی طرف جائیں (وہاں حجاج ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر ہی کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز، قصر کر کے دو دو رکعت اداکریں اور ہر نماز کے لیے الگ الگ تکبیر (اقامت) کہی جائے، پھر سورج غروب ہونے تک عرفات میں رہے اور اللہ کے ذکر، قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے میں مشغول رہے۔ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا مستحب ہے نہ کہ جبل رحمت کی طرف، نیز حاجی کے لیے نو ذوالحجہ (یوم عرفات) کا روزہ رکھنا غیر مشروع ہے۔ ‘وادیٔ عرنہ میدان عرفات کی حدود میں داخل نہیں، لہٰذا وہاں ظہر اور عصر کی نماز کے بعد ٹھہرنا صحیح نہیں۔ اسی طرح جبل رحمت پر چڑھنا بھی مستحب نہیں)۔ اس دن یہ دعا پڑھنا سابقہ انبیاء اور آپﷺ کی سنت ہے:

‘لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیر‘(صحیح البخاري و صحیح مسلم )

‘ البتہ لیٹ ہونے والے اگر دس ذوالحجہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے میدان عرفات میں پہنچ جائیں اور پھر فجر کی نماز مزدلفہ میںادا کرے تو ان کا رکن بھی ادا ہوجائے گا۔

  2 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ جانا۔ وہاں حاجی ایک اذان اور دو الگ الگ تکبیروں (اقامتوں) کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے قصر (یعنی مغرب کی تین رکعتیں، عشاء کی دو رکعتیں) ادا کرے۔ (بخاری و مسلم)

(ا)حاجی مزدلفہ میں یہ رات آرام کرتے ہوئے گزارے، وہاں فجر کی نماز ادا کرے او فجر کے بعد کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا کرے حتیٰ کہ خوب سفیدی ہوجائے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف نکل جائے۔

یاد رہے کہ مشعر حرام کے پاس ٹھہرنا اور دعا کرنا مستحب ہے۔ کمزور عورتوں، عمر رسیدہ اور معذور و ضرورت مند لوگوں کے لیے چاند کے غروب ہوجانے (آدھی رات) کے بعد بھی مزدلفہ سے منیٰ کو جانا جائز ہے۔ (بخاری ، مسلم)

(ب) بڑے جمرے کو مارنے کے لیے سات کنکریاں اگر آسانی سے مل جائیں تو مزدلفہ سے لے لے، یہ کنکریاں منیٰ کے میدان سے بھی لی جاسکتی ہیں جن کا حجم چنے کے دانے سے کچھ بڑا ہو۔ واضح رہے کہ ان کنکریوں کو دھونا بدعت ہے۔

دس ذوالحجہ کا دن :

سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف جانا۔ وہاں حاجی یہ چار کام کرے:

1 بڑے جمرہ کو ایک ایک کرکے سات کنکریاں ‘اللہ اکبر کہہ کر مارے اور اس کے بعد تلبیہ کہنا بند کردے۔

2 قربانی کرنا۔

3 سارے سر کے بال چھوٹے کرانایا منڈانا، اور یہی افضل ہے۔ (بخاری، مسلم، ابن خزیمہ)

4 ‘طواف زیارت کرنا، اگرچہ اس کو مجبوری کے تحت ‘طواف وداع تک مؤخر کرنا بھی جائز ہے لیکن اگر ‘طواف وداع کے ساتھ ‘طواف زیارت کی بھی نیت کرلے، دونوں ادا ہوجائیں گے۔(یاد رہے کہ ان چار کاموں کو اسی ترتیب سے کرنا افضل ہے اگر بھول کر ترتیب میں رد وبدل ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔

وضاحت1: ‘حج اِفراداور ‘حج قران کرنے والے نے اگر ‘طواف قدوم کے ساتھ ‘سعی نہیں کی تو وہ ‘طواف زیارت کے ساتھ ‘سعی کرے۔

وضاحت2: ‘حج قران اور ‘حج تمتع کرنے والا قربانی ضرورکرے۔

وضاحت3: مکہ کے رہائشی پر قربانی نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے حج تمتع یا قِران نہیں ہے۔یعنی حج افراد کرنے والے پر قربانی لازم نہیں اگر کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔

وضاحت4: دس تاریخ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مار لینے سے حاجی پر احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف اپنی بیوی سے مقاربت  نہیں کرسکتا البتہ ‘طواف زیارت اور ‘سعی کر لینے کے بعد یہ کامل طور پر حلال ہو جائے گا اور اب اسے بیوی سے مقاربت کرنا بھی جائز ہے۔ (بخاری و مسلم، ابو داود، ابن خزیمہ)

گیارہ ذوالحجہ کا دن :

1 گیارہ ذوالحجہ کی رات منیٰ میں گزارنا واجب ہے لیکن چرواہوں کے لیے اور حجاج کو پانی پلانے والوں کے لیے رخصت ہے۔

2 زوال کے بعد تینوں جمرات کو اللہ اکبر کہہ کر ترتیب کے ساتھ ہر جمرے کو سات کنکریاں مارے، یاد رہے کہ صرف چھوٹے اور درمیانے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا کرنا مستحب ہے۔ (مسلم، ابو داود، مسند احمد)

نوٹ: جس حاجی کو گنتی میں شک پڑ جائے تو جس گنتی پر اسے یقین ہے اس پر اعتماد کرتے ہوئے باقی گنتی مکمل کرے۔

بارہ ذوالحجہ کا دن :

1 بارہ ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں گزارنا واجب ہے لیکن چرواہوں کے لیے اور حجاج کو پانی پلانے والوں کے لیے رخصت ہے کہ وہ مکہ یا اپنے ریوڑ کے پاس جائے۔

2 گیارہ تاریخ کی طرح تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا۔

اب اگر کوئی مکہ جانا چاہے تو وہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ کی حدود سے نکل جائے اور جب اپنے ملک کو واپس جانا چاہے تو ‘طوافِ وداع کرلے، البتہ تیرہ تاریخ کی کنکریاں مارنا افضل ہے۔ (سورئہ بقرہ: 203، ابوداود، مؤطا)

تیرہ ذوالحجہ کا دن :

1 گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی طرح تیرہ ذوالحجہ کو بھی تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا۔

2 مکہ چھوڑتے وقت ‘طواف وداع کرنا واجب ہے۔

نوٹ: حیض اور نفاس والی عورتوں پر ‘طواف وداع کے لیے طہارت حاصل ہونے تک انتظار کرنا لازم نہیں۔ وہ بغیر طواف وداع کیے جاسکتی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابو داود)

حاجی پر دم کب لازم آتا ہے؟

1 حج تمتع یا قران کرنے والے پر دم لازم آتا ہے۔

2 کسی بیماری یا تکلیف دہ چیز کی وجہ سے حاجی سر مونڈھ لے تو اس پر فدیہ لازم آتا ہے، یعنی وہ روزے رکھے یا صدقہ کرے یا خون بہائے (بکری وغیرہ ذبح کرے)

3 خشکی کے جانور کے شکار کرنے پر دم لازم آتا ہے۔

4 احرام (نیت) حج باندھنے کے بعد جب وہ کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے مناسک حج ادا نہ کر سکے اور نیت کرتے وقت حلال ہونے کی شرط بھی نہیں لگائی ہے تو اس پر دم دینا لازم ہے۔

5 جمرئہ کبری کی رمی سے پہلے اگر حاجی نے اپنی بیوی سے مقاربت کرلی تو اس پر اونٹ ذبح کرنا لازم ہے اور اس کا حج فاسد ہو گیا اور اگر جمرئہ کبری کو کنکریاں مارنے کے بعد مقاربت کی تو حج اس کا درست ہے۔ لیکن ایک بکری ذبح کرنا اس پر لازم ہے۔

مدینۃ الرسولﷺ کا مبارک سفر:

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ حج مکہ مکرمہ میں پورا ہوجاتا ہے، لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ حج جیسی عظیم سعادت نصیب فرمائے تو وہ مسجد نبوی اور مدینہ نبویہ کی زیارت سے کیوں محروم رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسولﷺ کی مسجد اور آپ کا شہر ہے لہٰذا حاجی اگر مدینہ نبویہ کی طرف سفر کرنا چاہے تو مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرے۔

‘مسجد نبوی کی زیارت: جب حاجی مسجد نبوی میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد یعنی دو رکعتیں ادا کرے، البتہ ریاض الجنۃ میں دو نفل پڑھنا افضل ہیں۔ (بخاری و مسلم)

البتہ مدینہ نبویہ پہنچ کر اس کے لیے درج ذیل زیارتیں مشروع ہیں۔ (بخاری و مسلم)

1 ‘قبر رسولﷺ کی زیارت:

حاجی آپﷺ کی قبر مبارک کے پاس جائے آپ ﷺ پر درود بھیجے جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہیںاور  انتہائی ادب احترام کے ساتھ دھیمی آواز میں

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتہ

کے الفاظ کہے پھرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، اَلسَّلَام عَلَیْکَ یَا عُمَر

ُ کے الفاظ کہے۔ (مؤطا)

یاد رہے کہ اہل قبور کو مسنون سلام اور دعا کے الفاظ یہ ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلٰی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤمِنِینَ وَالْمُسْلِمینَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وإنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ

اسی طرح یہ الفاظ بھی ثابت ہیں۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُسْلِمِینَ وَإِنَّا إنْ شَاءاللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ، أسْئَالُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِیَۃَ’ (مسلم، ابن ماجہ)

  2 ‘بقیع غرقدکی زیارت:

یہ مدینہ نبویہ کا قبرستان ہے۔ حاجی وہاں جائے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام مؤمنین کے لیے استغفار اور بلندیٔ درجات کی دعا کرے۔ (مسلم)

3 ‘شہدائے احدکی زیارت:

حاجی شہدائے احد کی قبروں کے پاس جائے، ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرے اور قبرستان والی دعا پڑھے۔

4 ‘مسجد قباءکی زیارت:

حاجی باوضو ہوکر مسجد قبا جائے اور وہاں دو نفل ادا کرے جس کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔(نسائی)

———-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے