رمضان المبارک کے پہلے چودہ دن حرمین الشریفین میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

اس بابرکت سرزمین میں رب کی رحمتوں کا نظارہ کرتے رہے ۔ بیت اللہ شریف اور مسجدنبویﷺکے روح پرور مناظر ہر دل کو جذباتی اور ہر آنکھ کو اشکبار کر ہی دیتے ہیں ۔

حرمین الشریفین سے محبت و عقیدت تو ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ہم تحریرو تقریر کی بھرپورصلاحیتوں کے باوجود وہاں گزرے لمحات کے دوران جذبات اور احساسات کو بیان کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔یہ دلوں کے معاملے ہوتے ہیں اور رب سے تعلق کے کچھ ذاتی تجربات ۔

کچھ لوگ تحریر کرتے ہیں لیکن شائد یہ اتنا بھی ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس پر قلم اٹھائے ۔ صحافت کے ساتھ تھوڑے بہت تعلق اور انٹرنیشنل افئیرز کے حوالے سے دلچسپی کی وجہ سے میں وہاں کچھ اور بھی جاننے کی کوشش کرتا رہا ۔

سعودی عرب کی دینی حیثیت اور روحانی عقیدت تو ایک طرف، اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا وجہ ہے کہ اس معاشرے میں ڈسپلن نظر آتا ہے اور زندگی پرسکون دیکھائی دیتی ہے؟ ۔عالمی میڈیا اور ہمارے ہاں کے روشن خیال تجزئیہ نگار توہمیں بتاتے ہیں کہ عرب عیاشی کے رسیا اور جاہل گنوار قوم ہے ۔ تو جناب کیا وجہ ہے کہ اس قوم نے نظم و ضبط ، بہترین انتظام و انصرام اور پرسکون طرز حیات پر مشتمل معاشرہ قائم کر رکھا ہے ۔

دنیا بھر کے لوگوں کی موجودگی اور وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں لیکن اس کے باوجود وہاں کا نظام چلتا ہے ، انتہائی منظم طریقے سے اور حاجیوںکو بہترین سہولیات فراہم کرکے۔

میرا خیال ہےکہ اس کی بڑی ہی سادہ سی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب والوںنے دولت کی فراوانی کے باوجود خودکو کچھ زیادہ ’’ روشن خیال ‘‘ نہیں بنایا۔شاپنگ مال اتنے بڑے ہیں اور گاہگوں سے بھرے ہوئے لیکن آذان کی آواز سنتے ہی فوری بند ہو جاتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں وہاں کے سرکاری و پرائیوٹ اداروں کے اوقات کار افطاری کے بعد کر دئیے جاتے ہیں ۔

ذرا تصور کریں کہ جب آپ کے ٹائم ٹیبل میں سب سے اہم ترین مصروفیت اوقات نماز ہوں اور سارے کا سارا شیڈول ہی نماز پر منحصر ہو۔ نماز کاوقفہ ضروری ہے اور سب سے اہم بھی۔ توکیوں نہ ان کی زندگیوں میں سکون آئے ۔ کوئی دکاندار نہیں سوچتا کہ لاکھوں کی خریداری کے لئے گاہک کھڑے ہیں ۔ماہر نفسیات اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں کہ مصروف ترین روٹین کے دوران یہ چھوٹا سا وقفہ آپ کے ذہنی سکون کے لئے کتنا مفید ثابت ہوتا ہے۔

رمضان کا استقبال یوں کرتے ہیں کہ ہر شاپنگ مال اور اہم جگہ پر خوشی کا سماں نظر آتا ہے ۔ ہمارے لئے کچھ عجیب سا تھا کیوں کہ ہم نے تو شاپنگ مالز کو صرف نیو ائیر نائٹ اور ویلنٹائن ڈے کے لئے سجتے دیکھا ہے۔یہ رمضان کے لئے ایسے سجا دیتے ہیں کہ جیسے کوئی ’’ویلنٹائن ڈے یا نیو ائیر نائٹ‘‘ آگئی ہو۔ مقامی شہری بڑے بڑے بیگوں میں اشیائے خوردونوش بھر کر افطاری کے لئے لاتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے کہ جن کہ عمریں ’’ہمارے لحاظ سے ابھی ویڈیو گیمز کھیلنے یاٹی وی وغیرہ دیکھنے کی ہی ہوتی ہے‘‘ وہ اپنے اپنے دسترخوانوں پر روزہ داروں کو ترلے منتوں سے لاتے نظر آتے ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ جن بچوں کو اتنی سی عمر میں حجاج کی خدمت اور حرمین میںمصروفیت مل جائے وہ بڑے ہو کر حرم اورنماز سے کتنا سا دورہوپائیں گے۔ سعودی عرب والوں کی ہزار خامیاںہوں گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے واقعی اپنی زندگیوں میں اسلام کی بہت سی تعلیمات کو عملی طور پر جگہ دی ہے شائدیہی وجہ ہے کہ ہر رنگ و نسل اور طبقے کے لاکھوں افراد کی موجودگی کے باوجود وہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ معاشرہ منظم نظر آتا ہے اور افراد اطمنان کے ساتھ پرسکون زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ کاش ہمارے ہاں بھی کوئی سیکھے کہ ترقی یافتہ ہونے اور وسائل آنے کا مطلب مغربی طرز کی روشن خیالی ہی نہیں ہوتابلکہ اسلام کے چند سادہ اصولوںپر عمل پیرا ہو کر بھی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتاہے ۔

———-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے