سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی معاشرتی علوم کی چوتھی جماعت کی کتاب کے نئے آزمائشی ایڈیشن سے پیغمبر اسلام نبی کریمﷺ کی شخصیت و سیر ت سے  متعلق تیرہواں باب ’’حضرت محمد مصطفی‘‘خارج کردیا ۔دیدہ دلیری سے کی جانے والی نصابی تبدیلیوں کا’’ مقصد نصاب کو سکیولر‘‘ بنانا ہےجس کے تحت معصوم بچوں کو نبی کریم اور خلفائے راشدین کی سیرت و شخصیات کے بجائے اب متنازع ترین کردارملالہ یوسف زئی اور اقبال مسیح جیسے کرداروں سے روشناس کروایا جارہا ہے اور اس ضمن میں یہ بات حیران کن بھی ہے کہ تعلیم کو سکیولر اور روشن خیال بنانے کا دعویٰ رکھنے والی خاتون استاد پروفیسر اور سینٹ لوئیس چرچ کراچی کی متحرک پرچارک ،برناڈیٹ لوئیس ڈین (Bernadette Louise Dean) ہی وہ فرد ِ واحد ہیں، جنہوں نے معاشرتی علوم کی چوتھی کتاب (سند ھ ٹیکسٹ بک بورڈ )کا13واں اور14ہواں باب مکمل حذف کردیا ہے اور پیغمبر اسلام سمیت خلفائے راشدین کے اسباق کو حذف کرکے اس میں متنازع کردارملالہ یوسف زئی اور اقبال مسیح کا سبق خصوصی طور پر شامل کروایا ہے۔

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت آزمائشی بنیادوں پر شائع کی جانے والی چوتھی جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب کو مکمل طو ر پر سکیولر اور اسلامی نظریات مبادیات اور اسکے ماخذ، اقدار وروایات سے نابلد،آسٹریلوی شہریت رکھنے والی پروفیسر برناڈیٹ لوئیس ڈین نے فائنل اور ایڈٹ کیا ہے لیکن اس پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی چھاپ لگا کر یہ لکھا گیا ہے کہ اس کتاب کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے ’وی ایم انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن ‘کراچی کے تعاون سے تیار کیا ہے ۔      واضح رہے کہ ’’وی ایم انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن‘‘کی ڈائریکٹر کے بطور پروفیسر برناڈیٹ لوئیس ڈین نے بتدریج پاکستان میں نصاب میں تبدیلی کا بیڑ، اٹھایا ہے اور وہ بذات خود ملالہ یوسف زئی کی ایک بڑی مداح ہیں اور پاکستان میں نصاب کی تبدیلی اور اس کو سکیولر بنیاد پر استوار کرکے وہ بزعم تعلیمی میدان میں انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔

’’وی ایم انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن‘‘کی ڈائریکٹر پروفیسر برناڈیٹ لوئیس ڈین ایک مضمون میں نصاب میں یکسر تبدیلی کی حمایت کرتے ہوئے لکھ چکی ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب ،نصابی کتب اور تعلیمی مشق ،یہاں تشدد بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ملاحظہ کیجئے

:http://www.vmie.org.pk/sitemap/news-and-events/

اس مضمون میں سکیولر اور اسلام دشمن پروفیسر برناڈیٹ لوئیس ڈین نے واضح الفاظوں میں قرار دیا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب نئی نسل میں تشدد پیدا کرنے کا سبب ہے اور اس ضمن میں نصاب کی تبدیلی کی ضرورت کے حوالہ سے مطالعہ پاکستان ،معاشرتی علوم،اردو، انگریزی اور اسلامیات کے مضامین اہم ہیں واضح رہے کہ ریویو شدہ نصاب اور(معاشرتی علوم کی چوتھی) کتاب کا جائزہ کریکیولم بورڈ سندھ نے بھی لیا ہے لیکن اس نے کتاب کے نئے ایڈیشن نے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے ابواب خارج اور ملالہ یوسف زئی اور اقبال مسیح کے عنوانات شامل کرنے پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے جس سے اندازہ کیا جارہا ہے کہ پا کستان کے تعلیمی نصاب کو ایک منظم سازش کے تحت سکیولر بنیادوں پر استوارکیاجارہا ہے جس میںمشہوراسلامی ، شخصیات اور سیرت و اقدار پر ایسے افراد کو ترجیح دی جارہی ہے جو مغرب زدہ اور اسلامی اقدار کے مخالف ہیں۔

واضح رہے کہ ملالہ یوسف زئی پاکستان کا وہ متنازعہ کردار ہے جس کے نزدیک اوباما کی شخصیت آئیڈیل ہے اور اس کو داڑھی سے نفرت ہے ۔

وزارت تعلیم کے تحت سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ترمیمی شدہ کتب کا جائزہ لینے پر علم ہوا ہے کہ 14 ابواب کو گھٹا کر ان کی تعداد10کردی گئی ہے جس میں نبی کریم (باب 13)اورخلفائے راشدین (باب14) کو مکمل طور پر حذف کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ کتاب کے عمومی جائزے میں اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اس میں مختلف مضامین میں ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ اور واقعات کی شدید غلطیاں موجود ہیںلیکن چوں کہ سندھ وزارت تعلیم کا بنیادی مقصد اس کتاب سے پیغمبر و مشاہیر اسلام کے مضامین کا خاتمہ تھا اس لئے ان تکنیکی غلطیوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے،جس نے اس کتاب کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے ۔

نئی کتاب کے باب ہفتم ’’ذرائع ابلاغ ‘‘میں فاضل مصنفین ڈاکٹر پروفیسر برناڈیٹ ایل ڈین ،مسز شبنم خان اور عروسہ حفیظ اور ریویو کمیٹی کے ممبرحضرات نے جہاں قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں ان میں چہارم جماعت کے طلبا و طالبات کے معصوم اذہان کو سوشل نیٹ ورکنگ کے بارے میں کھل کر بتایا گیا ہے اور انہیں twitterاور skypeاورfacebookسمیت دیگر سوشل سائیٹس پر ’’گپ بازی‘‘کی اہمیت سے ’’کما حقہ ‘‘روشناس کروایا گیا ہے

لیکن حیرت انگیز طور پر فاضل مصنفین کی نگاہوں سے ابلاغ کے اہم ذرائع مثلا ٹیلی وژن اور ریڈیو اور اخبارات و جرائد بطور ابلاغی ذرائع اوجھل رہے اور ان ذرائع کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے حالاں کہ ریڈیو ،ٹیلی وژن اور اخبارات و جرائد ابلاغ کے موثر ذرائع کے طور پر مسلم ہیں اسی کتاب کے نئے آزمائشی    ایڈیشن میں صفحہ نمبر94پر ٹیلی فون کی ایجاد کے حوالہ سے الیگزینڈر گراہم بیل کے حوالہ سے بچوںکو بتایا گیا ہے کہ اس نے 1876ءمیں ٹیلی فون ایجاد کیا حالانکہ اس ایجاد کا درست سال 1874ہے جب کہ 1876ءمیں الیگزینڈر گراہم بیل کو اس ایجاد پر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی چوتھی جماعت کی معاشرتی علوم کی نئی کتاب کا باب ہشتم ’’دوسروں کے ساتھ برتائو‘‘ سے موسوم ہے لیکن اس کا مضمون انتھائی ناقص بنیاد پر لکھا گیاہے جس کے صفحہ101پر چہارم جماعت کے معصوم ذہنوں کو سکھایا جارہا ہے کہ کسی کو اس وجہ سے قتل کرنے سے کہ اس کے اقدار اور اعتقاد آپ سے مختلف ہیں ،قتل و غارت گری بڑھ جاتی ہےاس مضمون کی آخری سطروں میں اقدار اور اعتقاد پر قتل کا ذکر معصوم اذہان کے حوالہ سے بالکل نادرست اور ناقابل فہم ہے کیوں کہ اعتقاد اور اقدار کے الفاظوں سے اس عمر کے بچے یکسر نابلد ہوتے ہی۔ درجہ چہارم کی معاشرتی علوم کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں دسواں باب ’’ہماری مثالی شخصیات سے معنون ہے جس میں ملالہ کو اول ۔

اقبال مسیح کو دوم۔

ارفع کریم کو سوم

ماریہ طور پا کے کو چہارم۔

بے نظیر بھٹو کو پنجم۔

علامہ آئی آئی قاضی کو ششم۔

حیدر بخش جتوئی کو ہفتم ۔

بیگم نصرت ہارون کو ہشتم ۔

اور معروف صوفی سچل سرمست کو نہم درجے پر رکھا گیا ہے جب کہ اس کی ترتیب غیر منطقی ہے کیوں کہ تاریخی اور اسلامی شخصیات پر ملالہ اور اقبال مسیح کو ترجیح دی گئی ہے اور اس باب میں عبد الستار ایدھی -بیگم رعنا لیاقت علی خان- مولانا عبید اللہ سندھی سمیت سندھ کے اہم مشاہیر کومکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔

اسی باب میں صوفی سچل سرمست کی تاریخ پیدائش 1756ءاور تاریخ وفات 1827ءبتایا گیا ہے جب کہ ان کی تاریخ پیدائش 1739ءاورتاریخ وفات1829ء ہے ۔ اسی باب میں بیگم نصرت ہارون کی تاریخ پیدائش 1896ءلکھی ہے جو حقیقت میں 1886ءہے دسویں باب ’’ہماری مثالی شخصیات ‘‘میں صفحہ نمبر123پر ارفع کریم کی تاریخ پیدائش 2فروری1995ء رکھی گئی ہے جو28فروری 1995ء ہے اسی باب میں ’’اقبال مسیح‘‘ کے آرٹیکل میں اس کی تاریخ پیدائش نہیں دی گئی اور اس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیاہے کہ اس کے والدین ہی نے چار سالہ اقبال کو 600روپیہ کے عوض قالین بافی کے ایک کارخانہ میں بٹھایا تھا اور ظاہر یہ کیاگیا کہ اس کا ذمہ دار پاکستانی معاشرہ تھا۔صفحہ نمبر 46باب نمبر3میں صوبہ سندھ کی آبادی 45ملین لکھی ہے حالانکہ 1998ء میں آخری مردم شماری کے مطابق سندھ کی آبادی30.4 ملین ہے ،واضح رہے کہ پاکستان میں 1998ءکے بعد کوئی مردم شماری نہیں ہوسکی ہے اور2012ءکے متنازع censusکی بنیاد پر کوئی غیر تحقیق شدہ اعداد و شمار کتاب میں لکھنا قرین عقل نہیں ہے ۔

آزمائشی ایڈیشن سندھ ٹیکسٹ بک بورڈجماعت سوئم سندھی

٭سبق پالن ہار جي ہستی جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر کیا گیا اوربتایا کہ اللہ ہی کار ساز ہے،پورا سبق حذف کردیاگیا ہے ۔

٭قومي جذبو جس میں وطن سے محبت کا ذکر ہے صحابہ اکرام اور جہاد کا ذکر ہے، اس سبق کو بھی ختم کردیا گیا ہے

٭سبق حضرت امیر حمزہ اور حضرت سلمان فارسی جي عاجزي اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے اسباق حذف کردئے ہیںجبکہ سبق بچت میں قومی سیونگ اور سود کا ذکر ہے، شامل کئے گئے ہیں ۔ایڈیشن سندھ ٹیکسٹ بک بورڈجماعت چہارم معاشرتی علوم(سندھی میڈیم)

٭حضرت محمد ﷺ کے حوالے سے پورا سبق ہی ختم کردیا گیا ہے اور اسی طرح چاروں خلفائِ راشدین رضی اللہ عنہم کا بھی باب حذف کردیاگیا ہے۔

٭صوبہ سندھ اورپاکستان کی قومی وتاریخی مشہور شخصیات کی جگہ ملالہ یوسف زئی ماریہ طور اور ارفع کریم کوشامل نصاب کردیا گیا ہے ۔

٭جبکہ جماعت سوئم کی’’ سبق قومی شہید ‘‘ نشان حیدر کا اعزاز پانے والے بہادر شہداء کا سبق جس میں جذبہٗ شہادت اور جہاد (سعی) کو ابھارا گیا ہے حذف کردیا گیا ہے اور اسی طرح سبق نماز بھی ختم کردیاگیا ہےآزمائشی ایڈیشن سندھ ٹیکسٹ بک بورڈجماعت چہارم اردو کی کتاب۔

٭ انگریزوں کے تسلط کے خلاف تحریک آزادی کے پہلے ہیرو ٹیپو سلطان اورسبق دوننھے مجاہد ، حضرت معاذ اور معوذ حذف کردیا گیاہے

٭سبق ہمیشہ سچ بولو،، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے حوالے سےسبق حذٖف کردیا گیا ہے ۔

٭سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سبق ارشادات و اقوال ختم کردیا گیا ہے۔

یہ یک جلدی آزمائشی ایڈیشن اندورن سندھ قریباََ ہر اسکول میں اور شہری علاقوں میں ٹاگٹ اسکولز خصوصاََ ٹیچرز ٹریننگ اداروں سے منسلک اداروں میں تاخیر سے رائج کرتے ہو ئے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ عوامی اور مین اسٹیک ہولڈرزوالدین، طلبہ ، اساتذہ اور اساتذہ تنظیموںکے ردَعمل سے بچا جا سکے ۔

مختلف مضامین میں ایڈیٹنگ اورپروف ریڈنگ کی اہم غلطیاں ہیں۔ جن کے سبب کتاب کا عمومی معیار قائم نہیں ہوپایا ہے جب کہ اسلامی شخصیات اور مشاہیر کے مضامین خارج کرنے اور سیکولر اور مغربی زدہ شخصیات کو شامل کئے جانے کے بعد اساتذہ اور محب وطن پاکستانیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

جاری شدہ یہ تمام آزمائشی ایڈیشن آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کی کسی بھی طرح تعلیم و ترویج اوراشاعت کا باعث نہیں ہے بلکہ طلبہ کے خام ذہن کو سیکولرنظریات کی ترویج اورنظریہ پاکستان سے لاتعلقی کا باعث بن رہا ہے ۔

سوال اٹھ رہاہے کہ کیا پاکستان میں نصابی کتب کی تیاری کے لئے محب وطن،نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریات رکھنے والے ماہرین کی کمی ہے ؟

مزید یہ کہ پاکستانی نصابی کتب کی تیاری کے لئے ایک غیر مسلم اور غیر پاکستانی پروفیسرکو مقرر کرکے کن طاقتوں کو خوش کیا جارہاہے ؟؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے