پہلا خطبہ:

یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام yپر ڈھیروں درودو سلام ہوں۔

حمد اور درود و سلام کے بعد:

اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، بہترین رَختِ سفر تقویٰ ہی ہے اور اخلاص سے بھرا ہوا عمل بہترین عمل ہے۔

مسلمانو!

اللہ تعالی نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اور انہیں اپنے فرامین کی تابعداری کا حکم دیا، چنانچہ اطاعت گزاروں کیلئے سعادت لکھ دی۔

اِسی لئے عبادتِ الہی ہی ایک ایسا قلعہ ہےکہ اس میں داخل ہونے والا ہر شخص پُر امن اور نجات یافتہ ہوگا، عبادتِ الہی خیر ہی خیر ہے، اس میں کوئی نقصان والی بات ہی نہیں، اسی لئے تو بے عملوں کے متعلق فرمایا:

وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوْا بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللهُ

اور ان کا کیا بگڑتا تھا اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آتے اور جو اللہ نے انہیں مال و دولت دیا تھا اس سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے۔ [النساء: 39]

اس زمین پر تمام خوشیاں اللہ اور اُسکے رسول کی اطاعت کے باعث ہیں، امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہیں:’’جو شخص بھی اس کائنات میں رونما ہونے والے مسائل اور نقصانات پر غور و فکر کریگا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کائنات کو پیش آنے والا ہر مسئلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ہے‘‘

اور اس کائنات پر تمام خوشیاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے باعث ہیں، بالکل اسی طرح کسی بھی شخص کو ذاتی طور پر پہنچنے والا رنج و غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندو ں پر رحم کرتے ہوئے دعوتِ الہٰی قبول کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

اسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللهِ [الشورى: 47]

اس دن کے آنے سے پہلے پہلے اپنے رب کی بات مان لو جس دن کو اللہ کی طرف سے کوئی ٹال نہیں سکتا۔

چنانچہ مؤمنین نے اللہ تعالی کی بات کو دل سے قبول کیا اور کامیاب ہوگئے، جیسے کہ قرآن مجید نے بیان کیا:

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذَا دُعُوْٓا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَّقُولُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [النور: 51]

مومنوں کی تو بات ہی یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سن لیا اور اطاعت کی‘‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

اس عمل کی وجہ سے انکے ضمیر بھی زندہ رہے، اور عالیشان مرتبہ بھی پایا، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اسْتَجِيْبُوا لِلهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ

اے ایمان والو! جب تمہیں زندگی بخش احکامات کی دعوت دی جائے تو فورا قبول کرو۔ [الأنفال: 24]

پھر جس نے بھی فوراً اطاعت گزاری کی اللہ تعالی نے اُسے مزید راہنمائی عطا فرمائی، اِسی لئے فرمایا:

وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ

اور جن لوگوں نے ہدایت پائی اُنہی لوگوں کو مزید راہنمائی عنائت کی اور انہیں تقوی بھی عطا فرمایا۔ [محمد: 17]

شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتےہیں: “انسان جتنا زیادہ جنابِ محمد رسول اللہ ﷺکا پیروکار ہوگا، اسی بقدر تو حید پرست اور اخلاص کے ساتھ عبادت کریگا، اور اسکے برعکس جیسے اتباعِ محمد ﷺ میں کمی آئے گی بالکل اسی طرح دینداری میں بھی کمی آئےگی۔

اور جو شخص اپنے رب کی بات مانتا ہے، اللہ تعالی اسکی دعائیں بھی قبول فرماتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:

وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ

اور اللہ تعالی اُن لوگوں کی دعائیں قبول فرماتا ہےجو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ [الشورى: 26]

مزید برآں کہ اللہ تعالی اُس سے محبت بھی فرماتا ہے، اور جنت کا داخلہ بھی نوازتا ہے، چنانچہ فرمایا:

لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى

جن لوگوں نے اپنے رب کے احکامات کی تعمیل کی ان کیلئے حسنی ہے [الرعد: 18]

یہاں “حسنی” سے مراد جنت ہے۔

انبیاء کرام نے بھی اطاعت و فرماں برادری کرتے ہوئے فوراً حکم کی تعمیل کی، چنانچہ جب اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا: أَسْلِمْفرمانبردار ہوجاؤ [البقرة: 131] تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:   قَالَأَسْلَمْتُلِرَبِّالْعَالَمِينَمیں رب العالمین کیلئے فرمانبردار بن گیا۔ [البقرة: 131]

اور جب اُنہیں اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو ذبخ کرنے کا حکم دیا گیا تو فوراً عمل کیلئے زمین پر لٹا دیا، اور انکے بیٹے نے بھی کیا کہا:

يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

ابا جی! آپ حکم کی تعمیل کیجئے! ان شاء اللہ مجھے آپ صبر کرنے والا پاؤ گے۔ [الصافات: 102]

سیدناموسی علیہ السلام نے بھی اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے فوری طور پر عمل کرکے دیکھایا جسکا قرآن نے تذکرہ کیا:

وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى [طه: 84]

اور میں نے تیرے حضور آنے میں اس لئے جلدی کی تاکہ تو مجھ سے راضی ہوجائے ‘‘

اسی طرح جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام رضی اللہ عنہم سے جنابِ محمد ﷺکی بعثت کے متعلق میثاق لیا کہ آپ پر ایمان بھی لائیں گےاور مدد بھی کرینگے تو سب انبیاء نے کہا تھا: أَقْرَرْنَا ہم سب (اسکا )اقرار کرتے ہیں۔ [آل عمران: 81]

اور جب اللہ تعالی نے ہمارے پیارےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا:قُمْ فَأَنْذِرْ کھڑے ہوجاؤ اور اللہ سے ڈراؤ۔ [المدثر: 2] تو لوگوں کو توحید کی دعوت دینے کیلئے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، اور جب اللہ تعالی نے حکم دیا:

قُمِ الليْلَ إِلَّا قَلِيلًا [المزمل: 2]

تھوڑے سے وقت کے علاوہ ساری رات قیام کرو۔ تو اتنا لمبا قیام کرنے لگے کہ آپکے قدم مبارک ہی سوج گئے۔

سیدناعیسی علیہ السلام کے حواریوں نے آپ علیہ السلام کی بات فوراً قبول کی جسکا ذکر قرآن نے بھی کیا:

مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْـحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ آمَنَّا بِاللهِ   ( آل عمران: 52)

(عیسی علیہ السلام نے کہا)اللہ کیلئے میرا کون مدد گارہے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کیلئے مدد گار ہیں، ہم اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں

انسان تو کیا جنوں نے اللہ کی دعوت قبول کرنے کیلئے ایک دوسرے کو ترغیب دلائی چنانچہ قرآن نے انکی بات کو نقل کیا:

يَا قَوْمَنَا أَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللهِ وَآمِنُوْا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات مان لو، اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور درد ناک عذاب سے پناہ بھی دےگا۔[الاحقاف: 31]

صحابہ کرام y نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ، اخلاص اور احکام الٰہیہ و نبویہ پر فورا عمل کی وجہ سے بہت سے فضائل حاصل کئے؛ جسکی وجہ سے اللہ کے ہاں انکے درجات اور بلند ہوگئے، انہیں نماز کی حالت میں تحویلِ قبلہ کے متعلق بتلایا گیا تو وہ اُسی وقت بیت اللہ کی جانب مڑ گئے، انہوں نے اس حکم پر عمل آئندہ نماز تک مؤخر کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی تو انہوں نے نفیس ترین مال پیش کیا،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آدھا مال پیش کیا، جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سارا مال پیش کردیا، اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے جیشالعسرۃکو تیار کیا اُسکے لئے جنت ہے) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کردیا، (بخاری)

اسی طرح جب فرمانِ باری تعالی نازل ہوا:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ

اس وقت تک کمال نیکی نہیں پاسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردو۔[آل عمران: 92]

تو سیدناابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکو عرض کیا: “اللہ کے رسول! میرا محبوب ترین مال (بیرحاء) ہے اور میں اُسے اللہ کیلئے صدقہ کرتا ہوں” (بخاری)

چھوٹی عمر کے صحابہ کرام y بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر پکے تہجد گزار بن جاتے تھے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو صغر سنی میں کہا تھا: (عبد اللہ تو بہت اچھا آدمی ہے، بس رات کو قیام کیا کرے!!) اِس کے بعد سےعبداللہ رات کو کم ہی سوتے تھے۔ (بخاری مسلم)

صحابہ کرام y نے اطاعتِ الہی کرتے ہوئے نبی اکرمﷺ پر اپنی جانیں نچھاور کردیں، چنانچہ سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسوقت آئے جب آپ مشرکین کے خلاف دعوتِ جہاد دے رہے تھے، تو مقداد نے آکر کہا: “ہم ایسے نہیں کہیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا:

فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

جاؤ تم اور تمہارا رب جا کر جنگ لڑو، ہم تو یہی بیٹھے رہے گے۔ [المائدة: 24] بلکہ ہم آپکے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہر طرف سے لڑائی کرینگے۔

سیدنا ابن مسعورضی اللہ عنہ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: آپکا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ (متفق علیہ)

کسی بھی کام یا بات کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ممانعت سُن کر صحابہ کرام y بلا چوں چِراں اُس سے رک گئے، صرف اس لئے کہ آپکی بات پر فوراً عمل ہونا چاہئے، جاہلیت سے انکی زبانیں آباء واجداد کی قسمیں اٹھانے کی عادی تھیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: (اللہ تعالی تمہیں اپنے آباء واجداد کی قسمیں اٹھانے سے منع کرتا ہے) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : اللہ کی قسم جب سے میں نے آپ ﷺکی یہ بات سنی ہے اُس وقت سے اب تک میں نے غیر اللہ کی قسم نہیں اٹھائی حتی کہ کسی کی بات کرتے ہوئے غیر اللہ کی قسم کی حکایت بھی نہیں کی۔ (مسلم)

ایک دن سب کو بھوک لگی ہوئی تھی اسکے باوجود انہوں نے کھانا پکانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کی وجہ سے کھانا ہی چھوڑ دیا، چنانچہ غزوہ خیبر کے موقع پر گھریلو گدھے حلال تھے انہوں نے ان کا کھانا پکایا، تو رسول اللہ ﷺکی طرف سے اعلان کرنے والے نے کہا: (اللہ اور اسکا رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں؛ یہ پلید اور شیطانی عمل ہے)سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ’’گوشت سے بھری ہانڈیوں کو سالن سمیت انڈیل دیا گیا‘‘( متفق علیہ)

شراب ابتدائے اسلام میں حلال تھی، صحابہ کرام y نے گلی میں چلتے پھرتے آدمی کی آواز سن کر شراب کو انڈیل دیا، چنانچہسیدنا ابو نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن ابوطلحہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پیش کر رہاتھا، تو شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا، اور کسی نے آواز لگائی، تو ابو طلحہ نے کہا: دیکھو یہ آواز کیسی ہے؟ ابو نعمان گئے، اور آکر کہا: “کوئی اعلان کر رہا ہے کہ شراب حرام کردگئی ہے”، تو انہوں نے مجھے کہا: جاؤ اورساری شراب کو انڈیل دو، ابو نعمان کہتے ہیں: “شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی” (متفق علیہ)

ایک روایت میں ہے: “کسی نے بھی اس شخص کی آواز لگانے کے بعد شراب کے متعلق کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی پوچھا “صحابہ کرام y نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبا س میں بھی دیوانہ وار پیروی کرتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے کیلئے بنوائی ،آپ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا کرتے تھے، آپ ﷺکو دیکھ کر لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں، پھر آپ ﷺنے ایک دن منبر پر بیٹھ کر فرمایا: (میں یہ انگوٹھی پہنا کرتا تھا، اور اسکا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتا تھا) اور پھر آپ ﷺنے اُسے پھینک دیا، اور فرمایا: (اللہ کی قسم! آج کے بعد کبھی بھی نہیں پہنونگا) تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں‘‘(متفق علیہ)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی وقت اپنے پاس وصیت لکھ کر رکھ لی جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا: (مسلمان شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے متعلق وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہو) (متفق علیہ)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : “جس وقت سے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے، اس وقت سے ایک رات بھی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت لکھی ہوئی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زبان کی حفاظت کیلئے نبوی نصیحتوں پر عمل کی بھی عمدہ مثالیں پیش کیں، چنانچہ سیدناجابر بن سلیم tکہتے ہیں: میںنبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!میں گاؤں کا باشندہ ہوں اور مجھ میں انہی جیسی سختی ہے، چنانچہ مجھے کوئی نصیحت کردیں، آپ نے فرمایا: (کسی کو گالی نہیں دینی) سیدناجابر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺکی اس نصیحت کے بعد کسی بکری ، یا اونٹ کو بھی گالی نہیں دی۔(احمد )

صحابہ کرام y نے اپنی حرکات و سکنات کو بھی نبی مکرم ﷺ کے فرامین کے تابع کردیا تھا، چنانچہ غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا تھمایا، اور فرمایا: (چل پڑو، جب تک اللہ تعالی تمہارے لئے فتح نہ لکھ دے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا) چنانچہ حکم کے مطابق آپ چل پڑے کچھ دور جا کر کھڑے ہوگئےاور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہونے کی وجہ سے اونچی آواز کے ساتھ چلا کر بولے:’’کس چیز پر یہود سے قتال کروں؟‘‘لیکن اپنا چہرہ نہیں موڑا، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا’’مڑ کر نہیں دیکھنا۔‘‘(مسلم)

صحابہ کرام y آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممنوع کردہ اشیاء سے کوسوں دور ہوگئے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرنے پر مسلمانوں کی فتح کیلئے ظاہری مصلحت ہی کیوں نہ نظرآئے؛ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ کو غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا: (حذیفہ کھڑے ہوجاؤ، مشرکین کے متعلق خبر لیکر آؤ، اور اُنہیں میرے خلاف مت بھڑکانا) چنانچہ جب حذیفہ مشرکین میں داخل ہوئے تو ابو سفیان کو جو اسوقت کفار کا قائد تھا، اپنے قریب ہی کمر کو آگ سے سینکتے ہوئے دیکھا، حذیفہ کہتے ہیں: ’’ میں نے کمان میں تیر تان کر اُسے مارنا چاہا، لیکن مجھے رسول اللہ کی بات یاد آگئی، (اُنہیں میرے خلاف مت بھڑکانا) اگر میں تیر چلا دیتا تو عین نشانے پر جاتا اور اُسے قتل کر دیتا۔(مسلم)

صحابہ کرام yنبی اکرم ﷺ کی اوامر و نواہی میں اتباع ایمان اور راسخ یقین پر مبنی ہوتی تھی، چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج tکہتے ہیں کہ: ’’ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک مفید کام سے روک دیا، لیکن اللہ اور اُسکے رسول کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ مفید ہے‘‘ (مسلم)

مؤمن خواتین بھی اللہ کی اطاعت میں فورا عمل کرتی ہیں، چنانچہ سیدہ ہاجرہ علیھا السلام نے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے اپنے خاوند کی اطاعت کی اور بے آب وگیاہ وادی میں قیام کر لیا، اسوقت مکہ میں کوئی بھی نہیں تھا، چنانچہ زبانِ حال ہاجرہ کے بیٹے کی موت بتلا رہی تھی، تو انہوں نے اپنے خاوند ابراہیم علیہ السلام سے کہا:’’کیا اللہ نے تمہیں اسکا حکم دیا ہے؟‘‘ تو انہوں نے اشارہ کیا:’’ہاں‘‘ تو پھر ہاجرہ علیھا السلام نے کہا: ’’تو پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کریگا‘‘ (بخاری)

جس وقت صحابیات کیلئے پردے کا حکم نازل ہوا تو اسوقت انکے پاس پردہ کرنے کیلئے کپڑے نہیں تھے، تو انہوں نے تعمیل حکمِ الہی کیلئے اپنی چادروں کو پھاڑ کر آپس میں تقسیم کرلیا، اور اپنے چہرے ڈھک لئے، چنانچہسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “ابتدائی مہاجر خواتین پر اللہ تعالی رحم فرمائے، جب فرمانِ باری تعالی

وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ [النور: 31]

اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے ڈھانپ کر رکھیں۔ نازل ہوا تو انہوں نے اپنی اونی چادروں کو پھاڑ کرآپس میں تقسیم کیا اور انہیں اپنا حجاب بنایا‘‘(بخاری)

مسلمانو!مذکورہ تمام واقعات کے بعد، کلمہ شہادت کا اثبات اور کمال بندگی اطاعتِ الہی اور اطاعتِ نبوی میں ہی پنہاں ہے، چنانچہ اگر کانوں میں کسی حکم کی آواز پڑے تو تعمیل کیلئے فورا خوشی خوشی تیار ہوجاؤ، اور اگر کوئی ممانعت کان میں پڑے تو رضائے الہی کیلئے ممنوعہ کام سے رک جاؤ، اور یہ یقین ہو کہ منع کردہ کام تمہارے لئے ضرر رساں ہے۔

جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَائِزُوْنَ [النور: 52]

’’جو بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت خشیت اور تقوی الہٰی کیساتھ کریگا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں‘‘

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام y پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔

مسلمانو!

اسی شخص کی زندگی کامل ہے جو کامل فرامین الٰہیہ کو قبول کرتا ہے، چنانچہ جس قدر فرامین کو تسلیم کرنے میں کمی ہوگی اُسی قدر زندگی میں نقص آئےگا، اور جو شخص اللہ کی بات نہ مانے وہ مخلوق کے پیچھے لگ کرذلیل وخوار ہوگا، اسی لئے اللہ تعالی نے اپنی نافرمانی سے خبردار بھی کیا اور فرمایا:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [النور: 63]

احکاماتِ الٰہیہ کی مخالفت کرنے والے لوگ ڈر جائیں کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ یا درد ناک عذاب اپنی لپیٹ میں نہ لے لے

سیدناابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “جن چیزوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے میںنے اُن سب پر عمل کیاہے، کسی ایک چیز کو بھی نہیں چھوڑا، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں نے آپ کی کسی چیز کو ترک کردیا تو کہیں میں گمراہ نہ ہوجاؤں” (متفق علیہ)

اطاعت گزاری میں تردد کا شکار ہونا، یا ادائیگی میں سستی کرنا، کمال تعمیل حکم کے منافی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر کسی کی بات کو مقدم کرنے والا آپکے احکامات کی تعمیل نہیں کرسکتا، اور آخرت میں محمدﷺکی ساری امت جنت میں جائے گی، سوائے ان لوگوں کے جو جنت میں داخلے سے انکار کردینگے، صحابہ کرام y نے پوچھا: یا رسول اللہ! جنت سے کون انکاری ہے؟ آپ نے فرمایا: جو میری اطاعت کریگا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری نافرمانی کی در حقیقت اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔ (بخاری)

قیامت کے دن دنیاوی زندگی میں اطاعت گزاری سے اعراض کرنے والے لوگ دنیا میں واپس آنا چاہیں گے، اور ساتھ میں سزا سے بچنے کیلئے زمین سے دگنا جرمانہ دینا چاہیں گے :

وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ

اور جن لوگوں نے فرامین الٰہیہ پر عمل نہ کیا ہوگا، (قیامت کےدن)اگر انہیں زمین سے دگنامال بھی مل جائے تو اِسے جرمانے کے طور پر دے دیں ۔[الرعد: 18]

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الاحزاب: 56]

اللهم صل وسلم على نبينا محمد

یا اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اجمعین اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ یا اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔

یااللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔

یا اللہ! ہمیں تمام فتنوں سے بچا، جو ظاہر ہوچکے ہیں ان سے بھی اور جو ابھی مخفی ہیں ان سے بھی محفوظ فرما۔

یا اللہ! تیرے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! توں ہی انکا والی ، وارث ، پشت پناہ، اور مدد گار بن ، یا اللہ! حق اور ہدایت پر انکا اتحاد پیدا فرما، یا رب العالمین۔

یا اللہ! مجاہدین پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما،یا اللہ! انکے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! انہیں نیست ونابود فرما، یا قوی یا عزیز۔

یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، ان کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ   [الأعراف: 23]

ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھالیا ہے، اور اگر اب تو ہم پر رحم کرتے ہوئے معاف نہ کرے تو ہم یقینی طور پر خسارے میں چلے جائیں گے۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]

تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔

——-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے