آج ہمارا معاشرہ عجیب افرا رتفری کا شکار ہے،نفسا نفسی کا عالم ہے ، کوئی بینک بیلنس اورا سٹیٹس بنانے کی لگن میں مگن ہے،تو کوئی دھوکہ دہی کا بازار گرم کیٔے ہویٔے ہے۔ کوئی بھیڑبکریوں کی طرح انسانوں کی بلیاں چڑھا رہا ہے،تو کوئی نفسانی خواہش کی تسکین کے لیٔے بری راہ پر گامزن ہے،والدین و اساتذہ اپنی عزت کھو بٹیھے ہیں تہذب وتمد ن و ثقافت خط تذلیل کو عبور کو کر چکی ہے۔

آج بھائی بھائی کا نہیں،والدین تنگدستی کی بنیاد پر بچوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں ،خود سوزی عام بات ہو چکی ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کے افراد معاشرہ اپنے رب سے بھی بے گانے ہو چکے ہیں ،وہ جانتے ہی نہیں کہ ان کا مالک، رازق،خالق کون ہے؟کون ا ن کا مشکل کشا ہے؟ کون ان کی پکا رکو سننے والا ہے؟کون ان کے درد دل کو راحت میں بدلنے والا ہے؟کون آسمان سے باران رحمت برسانے والا ہے ؟وہ کون ہے جو طوفانوں کو بنانے اور تھامنے والا ہے؟کون ہے جو اس کار یزدانی کو بہت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہے؟کیا وہ پتھر کی بنی ہوئی کوئی مورت ہے؟یا پھر مٹی کی بنی ہوئی کوئی قبر؟کیا وہ زمین سے اگتا ہوا کوئی درخت ہے؟ یا پھر آسمان میںچمکتا چاند سورج؟کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں ہیں یا بہتے پانی کی لہریں؟ چرند وپرند ہیں یا جن و انس؟

یقینا ذہن میں صرف ایک ہی جواب امنڈ رہا ہوگا ، اور وہ ہے ــــــــ(اللہ رب العالمین) تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے رب سے رو گردانی برتےہوئے ہیں؟اور اپنے ڈھائی گز کے بت بنائے ہوئے ہیں؟ اس کی مختلف صورتیں اور نام ہمارے ہی وضع کرد ہ ہیں ۔

اس حالت بے قراری اور بد حواسی سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے کیا؟اگر ہے تو وہ صرف نبی آخر الزماں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات مبارکہ سے آگاہی ہے او ر پھر اپنی زندگی کو اس کے مطابق گزارنا، کیونکہ نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل لوگ ان ہی خرافات کا شکار تھے آپﷺ نے آکر انکا قلع قمع کیا، خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںـ:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(الممتحنۃ: 4)

’’تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ اسوئہ حسنہ ہیں ‘‘ اور اسی اسوئہ حسنہ کو اجا گر کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت مطہرہ سےآگاہ ہونا ضروری ہے، ذیل میں رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو اختصارا درج کیا جا رہا ہےجس سے مستفید ہو کر ہم اپنی زندگی کی ڈگرکوراہ راست سےمزین کرسکتےہیں ۔واللہ المستعان

قبل از اسلام عرب معاشرہ:

قبل ازاسلام عرب معاشرہ دور حاضر کے معاشرہ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دورحاضر اس سے زیادہ بد تر ہو چکا ہے ، عرب کا وہ معاشرہ قتل و غارت، دھوکہ دہی ، لوٹ مار ، دھنگا فساد، زنا و بد کا ری ، عزتوں کی پاما لی ، بچیوں کو زندہ درگور کرنا جیسی برائیوں سے بھرا پڑا تھا اور ان تمام سے بڑھ کر ملت ابراہیمی سے رو گردانی کر کے اپنے خود ساختہ معبودوں کی پوجا میں مگن تھے ایک طرف ان کی پوجا کی جا تی جنہیں وہ اپنے ہاتھوں سے دفناتے دوسری طرف ان کی جن کی وہ مورتیاںبنانتے۔ خلاصتاًیہ کہ وہ قوم ظلم و زیادتی، شرک و بدعات، آباء واجداد کے دین سے رو گردانی، اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، نئے سورج کے طلوع ہونے اور دن چڑھنے کی انہیں کوئی تمنا نہیں تھی، مگر اس کائنات کے رب کو اس قوم پر ترس آگیا اور اس نے نئے سورج کی کرنوںکو بلند کیا، جس کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں میں پڑے لوگوں کی آنکھیں چندیا گئیں، اور وہ ان کرنوں کو برداشت نہ کر سکے اور اس سے بچنے کی کوشش میں لگ گئے ۔

رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت اور قبل از ہجرت کے حالات:

بروز پیر ۹ربیع الاول عام الفیل مکہ مکرمہ کے شعب بنی ہاشم صبْح کے وقت آپﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی، جو اس بات کی علامت تھی کہ اب ظلم و زیادتی کے بادل چھٹ چکے اور اب ایک نئی صبح کی ابتداء ہو چکی ہے، آپ ﷺ کا نام گرامی آپ کے دادا سردارمکہ عبدالمطلب نے محمد رکھا، آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد عبداللہ اس دار فانی سے رحلت فرما چکے تھے، اس لئے آپ کی پروش کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ بی بی آمنہ پر تھی۔

ابھی آپ نے اپنی زندگی کی چھ بہاریں ہی دیکھی تھیـں کہ اتنے میں ان کی والدہ بھی انھیں اکیلا چھوڑگئیں، پھر آپﷺ کی ذمہ داری آپ ﷺکے دادا کے بوڑھے کندھوں پر آگئی جسے انہوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایا مگر زندگی نے ان کا بھی ساتھ نہ دیا اور وہ صرف دو ہی سال بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پوتے کی ذمہ داری اپنے بیٹے ابو طالب بن عبد المطلب کو سونپ گئے، انہو ں یہ ذ مہ داری کچھ یوں پوری کی گویا اپنی زندگی آپﷺ کی پرورش کے لئے وقف کردی۔

آپﷺ نے اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی، درد مندوں کا بوجھ اٹھانے، تہی دستوں کا بندوبست کرنے، مہمانوں کی میز بانی کرنے اورحق کے مصائب پر اعانت کرنے میں گزاری، بدی، برائی،شر اور شرک و خرافات سے بھرے معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کبھی کوئی برائی کا کام نھیں کیا، نہ کبھی جھوٹ بولا۔ نہ امانت میں خیانت کی،اور نہ کبھی خود ساختہ بتوں کی عبادت کی بلکہ ہمیشہ اس ماحول سے دوری اختیار کی یہاں تک کہ نور نبوت کے طلوع ہونے سے چند عرصہ پہلے آپ ﷺ اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے ہمراہ جبل نور میں کئی کئی دن گزارتے اور حق کے متلاشی رہتے اور کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرتے رہتے جسے اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا ہے:

{وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى} کاش ہم بھی ان اوصاف سے مزین ہو جائیںاسی دوران آپ ﷺ صادق و امین کے لقب سے ملقب ہوئے پچیس سال کی عمر میں آپ ﷺنے سیدہ خدیجہ بنت خویلد سے شادی خانہ آبادی کی جن سے اللہ رب العزت نے آپﷺ کو چار بیٹیاں اور دو بیٹے عنایت کئےجن کے نام درج ذیل ہیں : زینب ِ، أم کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ، عبداللہ اور طاہر۔

آپ ﷺ نے ملک شام کا تجارتی سفر بھی کیا آپ ﷺ نےاہل مکہ کی بکریاں بھی چرائیں اسی طرح صبح وشام گزر رہے تھے حسب معمول آپ ﷺ غار حرا میں موجود تھے کہ اچانک ایک فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے کہا ـ محمد :اقرا! آپ ﷺ نے فرمایا :ما أنا بقاریٔ ! یہ سلسلہ تین بار رہا پھر اس فرشتہ نے آپ ﷺ کو اپنے سینے سے لگایا اور زور سے دبایا اور کہا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۰خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۰اِقْرَاْوَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۰ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

تو آپﷺ نے ان کلمات کو دہرایا پھر آپ ﷺ کو شدید سردی لگنا شروع ہوگئی اور کپکپی طاری ہوگئی اور آپﷺدوڑتے ہوئے گھر واپس لوٹے اور فرمایا : زملونی زملونی!مجھے چادراڑھاؤ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو چادر اوڑھائی اور آپﷺ سے اصل ماجرے کی بابت دریافت کیا جب آپ ﷺنے انہیں مکمل واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا: اللہ آپ کو رسوا نہ کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ،تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں ،مہمان کی میز بانی کرتے ہیں،اور حق کی مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔

اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاآپﷺ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیںاور انہیں سارا واقعہ بتلایا ۔ انہوںنے فرمایا:یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسی uکے پاس بھیجا تھا ، کاش میں اس وقت توانا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپﷺ کی قوم آپ کو نکال دے گی، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا! تو کیا لوگ مجھے نکال دیں گے؟ورقہ نے کہا : ہاں!جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا کہ تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور میں نے تمہارا زمانہ پایا تو تمہاری زبردست مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے،اور وحی رک گئی۔(بخاری ، باب کیف بدأ الوحی)

دورحاضر میں ہمارا حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ جو شخص حق اور سچ کی بات کرتا ہے تو بجائے اس کی بات ماننے کے اسے سبّ و شتم اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اس واقعہ کے چند دنوں بعد آپﷺ نے اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں کو اسلام کی دعوت دی جسے سب سے پہلےسیدہ خدیجہ بنت خویلد ، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنازید بن حارثہ اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا پھر چند عرصے بعد آپ ﷺ پر آیت نازل ہوئی:

{وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ} [الشعراء: 214]

’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘‘

تو آپﷺ کوہ صفا پر چڑہے اور اہل عرب کو مخاطب کر کے بلایا اور انہیں کہا :اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس وادی سے شہسواروں کی ایک جماعت تم پرحملہ کرنا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو گے ؟لوگوں نے کہا ہاں! ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے ،آپ نے فرمایا :تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔اس پر ابو لہب نے کہا :تو سارے دن غارت ہو تونے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا اس پر سورۃ لہب نازل ہوئی (بخاری ۲۔۲۰۷ ۔۳۴۷)

در حقیقت یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سورج کی پہلی کرن جیسے ہی نمودار ہوئی تو اندھیروں کے عادی لوگوں کی آنکھیں چندیانا شروع ہو گئیں اور انھوں نے اپنے گھروں کی دیواروں کو بلند و بالا کردیا کہ یہ روشنی ان کے گھروں میںداخل نہ ہو جائے مگر سورج کی روشنی سے کون بچ سکا ہے ۔

جیسے جیسے دین کی دعوت بڑھنا شروع ہوئی ویسے ہی دین کے ماننے والوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جانا شروع ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ان کا مالک دن رات ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتامگر ان کی زبان سے احد، احد کے علاوہ اور کوئی جملہ نہیں نکلتا تھا ظلم و زیادتی کی حدیں اس وقت پار ہوئیں جب جناب رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک پر نماز کی حالت میں مٹی ڈالی گئی آپ پر اونٹ کی اوجھڑی پھینکی گئی، اور دوسری بہت سی تکالیف سے آپ ﷺکو دوچار کیا گیا۔

مگر آپﷺ نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی آپﷺ کے ساتھیوں نے ، بلکہ یہ لوگ ان جاہلوں اور کفر وعنا د کے پجاریوں کے عذاب جھیلتے رہے اور راہ حق سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے، اس دعوت کو وسعت دینے کے لئے آپﷺ نے طائف کا سفر کیا آپ کے ساتھ آپﷺ کے آزاد کردہ غلام سیدنازیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جب آپ ﷺنے وہاں دعوت حق کو پیش کیا تو جہالت اور کفر و عناد کے پجاریوں کی آنکھیں یہاں بھی چندیانا شروع ہوگئیں اور انہوں نے اس دعوت کو دبانے کے لئے آپ کا مذاق اڑایا ، سب وشتم کا نشانہ بنایا اور وہاں کے آوارہ لڑکوں نے پتھرائو بھی کیا آپ لہولہان ہوئے مگر دعوت حق سے ایک پل کے لئے بھی پیچھے نہ ہٹے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا کہ نبوت کے گیارہویں سال ایام حج میں یثرب کے چند افراد حج کی نیت سے مکہ آئے ، اور ایک رات ان کی ملاقات نبی کریمﷺ سے ہوئی آپ ﷺ نے انہیں دین حق کی دعوت دی انہوں نے اسے قبول کیا اور اس عزم کا اظہا ر کیا وہ اپنے علاقو ں میںجا کر اور لوگوں کو بھی اس دین کی دعوت دیں گے ، ان افراد کی کل تعداد چھ(6) تھی اگلے برس یہ افراد اپنے ساتھ سات(7) نئے افرا د کو لائے جن کی کل تعداد بارہ(12) تھی اور وہ مشرف بااسلام ہوئے اور نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا قاصد ان کے ہمراہ بھیجا جن کا نام سیدنا مصعب بن عمیر t تھا یہ واقعہ بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے موسوم ہے اور یہ اس بات کی دلیل تھی کہ اب ظلم و زیادتی کے بادل چھٹنے والے ہیں ،اور سورج کی آب وتاب ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینی والی ہے۔

نبی کریم ﷺ کے بھیجے ہوئے نوجوان مبلغ کی محنت رنگ لے آئی اور نبوت کے تیرہویں سال بیعت لینے والوں کی تعداد بارہ سے بڑھ کر پچھتر(75) ہو گئی جن میں دو (2)خواتین بھی شامل تھیں ، یہ دوسری بیعت تھی جو عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے مکہ کے مسلمانوں کو ہجرت عام کا حکم فرمایا اور خود اللہ رب العزت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد اپنے رفیق ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یثرب کی جانب سفر شروع کیا اس سفر میں آپ ﷺ کفار سے بچنے کے لئے تین(3) دن غار ثور میں پناہ لی، جونہی حالات سازگار ہوئے تو آپ ﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ کے ہمراہ دوبارہ سفر شروع کیا۔

بعد از ہجرت کے حالات:

نبوت کےچودہویں سال،12ربیع الاول بروز پیر آپﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قباء میں داخل ہوئے اور چند روز قیام کے بعد آپﷺ وادئ یثرب میں داخل ہوئے، آپﷺ کی آمد سےاس وادی کا مقدر ہی بدل گیا اور وہ یثرب سے مدینۃ الرسول میںتبدیل ہو گئ نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں مسجد کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کر وائی کیونکہ اسلامی معاشرے میں مسجد اسمبلی کی مانند ہوتی ہے اور خلیفہ وقت اپنے تمام احکامات مسجد میں سے جاری کرتا ہے اور تمام سیاسی، اقتصادی ،اور جنگی معاملات ، مسجد میں ہی ہوا کرتے ہیں ۔ مگر افسوس ہائے افسوس!دور حاضر میں ہماری مساجد کی حیثیت صرف پنجگانہ نمازوں کے لئے ہی رہ گئی ہے مگر نمازی کہاں سے آئیں؟!

ٓاس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل پر کام شروع کیا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے آس پاس کے عرب قبائل سے امن معاہدے کئے اور ساتھ ساتھ مدینہ میں بسنے والے یہودیوں سے بھی ، جس کی رو سے جو مسلما نوںکا حلیف ہوگا وہ چاہے کسی بھی مذہب پر ہو ان میں فیصلہ رسول اللہ ﷺ کا چلے گا اگر مدینہ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو انہیں مسلمانوں کا ساتھ دینا ہوگا، پھر رسول اللہ ﷺنےمہاجرین و انصار کے مابین اخوات و بھائی چار گی کی بنیاد ڈالی ، ہر ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ اسلامی بندھن میں جوڑ دیا یہ تاریخ عالم کی وہ اخوت و بھائی چارگی ہے جس کی مثال نہ پہلے کبھی ملی اور نہ ہی قیامت تک ملے گی ۔

ادھر ابھی مسلمانو ں کو سکھ کا سانس ملا ہی تھا کہ ہجرت کے دوسرے ہی سال مکہ کے کفر و عناد کے پجاریوںنے اس چمکتے سورج کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ، ایک ہزار افراد پر مشتمل گروہ خیمہ زن ہوگیا کہ بس آج مسلمانو ں اور اسلام کا سلسلہ ختم کر کے ہی جائیں گے ، اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھی جن کی تعداد ۳۱۳تھی ، جو آلات جنگ سے آراستہ بھی نہ تھے میدان جنگ میں اللہ رب العزت پر توکل کرتے ہوئے اتر آئے ، بڑے زوروں کی جنگ ہوئی اور آخر کار مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی بناء پر اس غزوہ میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ یہ وہ پہلا معرکہ تھا جو حق و باطل کے درمیان ہوا اور حق کو فتح ملی ، اس معرکہ میں کفار کے ستر(70) افراد مارے گئے اور ستر ہی قید ہوئے۔ اس معرکہ کو تاریخ میں غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کفر و عناد کے پجاریوں کا کلیجہ اب بدلہ کی آگ میں جلنا شروع ہوگیا اور اگلے ہی سال یعنی 3 ہجری کو وہ اپنا ایک عظیم الشان لشکر لے کراحد کے مقام پر خیمہ زن ہوئے اور وہاں دوسری طرف مسلمان بھی تیار تھے۔ جنگ شروع ہوئی جس میں ابتدامیں مسلمانوں کاپلڑا بھاری تھا ، پھر یکدم بازی پلٹ گئی اورمشرکین حاوی ہوگئے جس کے نتیجے میں ستر(70)مسلمان شہید ہوئے۔

اس جنگ میں مجموعی طور پر مسلمانوںکانقصان زیادہ ہوا۔ مگر مسلمانوں کے جوابی حملے کی بناء پر کفار ایک بار پھر پلٹ گئے۔ اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے چچا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ بذات خود بھی زخمی ہوئے، آپ ﷺ پر کفار نے با قاعدہ حملہ کیا مگر آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کا مکمل دفاع کیا، اور کفار کو آپ پر حاوی نہ ہونے دیا۔ اور اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی جماعت میں بسنے والے منافقین کی نشاندہی بھی فرمادی منافقین کا سلسلہ ہر دور میں چلتا رہا ہے جیسا کہ عیسی علیہ السلام کے حواریوں میں منافقین تھے۔ اسی طرح موسی علیہ السلام کی جماعت میں بھی اور یوں ہی مسلمانوں میں بھی منافقین کی ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی جنہوں نے یہودیوں سے اندرونی طور پر اپنے تعلقات کو اسطوار کر لیااور اسی بناء پراگلے 2سال بعد یعنی5 ہجری میں یہودیوں اور منافقین کی آپس کی چالبازی کی بناء پر کفر و عناد کے پجاریوں کا 10ہزار کا لشکر تیار ہوگیا جس میں تمام کے تمام عرب کے کفر و عناد کے پجاری جمع تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو جب اس بات کی خبر ملی تو مجلس شوریٰ بٹھائی گئی جس میں سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کےارد گرد خندق کھدوانے کا مشورہ دیاجسے تسلیم کرلیا گیا اور پھر نبی کریم ﷺ سمیت تمام صحابہ نے خندق کھودی اور مدینہ میں سکونت اختیار کرلی جب کفار کا لشکر مدینۃ الرسول ﷺ کی جانب بڑھا تو وہ خندق کو دیکھ ہکہ بکہ رہ گیا کیونکہ یہ عرب کے لوگوں کے لئے نیا جنگی حربہ تھا کفر و عناد کے پجاریوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن رہا مگر وہ اس خندق کو عبور نہ کر سکے اور اللہ رب العزت نے آ ندھی چالائی اور کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور اس آندھی نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا اور اس طرح مسلمان اس غزوہ میں فتح سے ہم کنار ہوئے اور یوں سارے عرب معاشرہ کو پتہ چل گیا کہ اب وہ اس سورج کی آ ب تاب سے نہیں بچ سکتے۔ اور پھر رسول اللہ ﷺیہودیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں مدینہ سے بے دخل کر دیا۔ اور ان کے قبیلہ بنو قریظہ کے600 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، کیونکہ انہوںنے عہد شکنی کی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑی سازش رچائی تھی۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اب ہم ان (کفار)پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائےگا ۔(بخاری590/2)

اور اس کے اگلے ہی سال6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ کی طرف اپنے اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے نکلے کفار سمجھے کے ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیںمگر رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کے لئے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ مکرمہ کی طرف بھیجا ،جب وہ مکہ پہنچے اور وہاں کے سرداروں سے بات چیت کی تو وہ صلح پر رازی ہو گئے مگر ادھر مسلمانوں میں ہی بات مشہور ہوگئ کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جس کی بنا ء پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ایک درخت کے نیچے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے موت پر بیعت لی۔ اور آخر میں اپنا ایک ہاتھ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے رکھ کر فرمایایہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے کہ اتنے میں سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئےاور سارا معاملہ بتایا کہ کفار صلح پر رازی ہوگئے ہیں اس واقعہ کو اللہ رب العزت نے یوں ذکر فرمایا :

لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً

(الفتح:18)

’’یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی‘‘

اس کے بعد مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا جس کی بناء پر اگلے10سال تک دونوں فریقوں میں کوئی جنگ نہ ہوگی اور جو جو قبائل ان دونوں فریقوں میں سے کسی کے بھی حلیف ہیں اگر ان کے درمیان جنگ کی کوئی صورت حال پیش آتی ہےاور مسلمانوں یا اہل مکہ میں سے کوئی بھی اپنے حلیف کی مدد کرتا ہے تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔اس بناء پر دوسرا فریق پہلے فریق پر حملہ کا جواز رکھے گا ۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاہدہ بھی طے پایاکہ اگر کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا تو اسے واپس لوٹا دیا جائے گا مگر اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ آ ئےگاتو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک دستاویزاتی معاہدہ تھا جس کی بنا ء پر مسلمانوں کوعرب سے باہر بھی دین اسلام کی نشرو اشاعت کا ایک سنہری موقع میسر آیااورآپﷺ نے قیصر، کسریٰ، مصر، عراق،یمن اور حبشہ کی طرف اپنے قافلے روانہ فرمائے جس کا مقصد دین اسلام کی دعوت و تبلیغ تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاتھ خطوط بھی روانہ فرمائے۔

اسی طرح 7ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر موتہ کی جانب روانہ کیا جو کہ سلطنت قیصر کا حصہ تھا اس جنگ میں آپ ﷺ نے امیر لشکرسیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنا کر بھیجااور یہ وصیت کی کہ اگر امیر کو کچھ ہو جائے تو امارت سیدناجعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سنبھالیں گے اور اگر انھیں کچھ ہو جائے تو سیدناعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سنبھالیں گے۔اس جنگ میں جب مسلمانوں کے یہ تینوں سپہ سالار شہید ہو گئےتو لشکر کی قیادت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سنبھال لی جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب لشکر کی قیادت اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کر رہی ہے۔اور پھر سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس لشکر کو بچاتے ہوئے مدینہ واپس لے آئے تب آپ ﷺ نے فرمایا ہم دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹے ہیں ۔

اس واقعے کے اگلے ہی سال سنہ 8ہجری میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو مکہ کی فتح نصیب فرمائی وہ پہلا موقع تھا جس میں خون بہے بغیر ایک ریاست کو فتح کیا گیا تھا ۔ اور پھر آپ ﷺ نے معافی عام کا حکم صدر فرمایا جس کی بناء پر اہل مکہ مسلمان ہو گئے اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے اس مہم کے اگلے چند دنوں بعد آپ ﷺ حنین کی طرف متوجہ ہوئے وہاں شروع میں مسلمانوں پر شدید ترین حملہ ہوا اور مسلمان پیچھے ہٹ گئے مگر پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے سکینت نازل فر مائی اور مسلمانوں نے بھرپورحملہ کیا اور حنین کے لوگ قلع بند ہوگئے اور جوابی کار وائی نہ کر سکے اور اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک بار پھر مسلمانوں کو کامیابی نصیب فرمائی اس معرکہ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہونے کے با وجود شروع جنگ میں شکست سے دو چار ہونا اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ کثرت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی اصل چیز خالق کائنات پر ایمان اور توکل ہے اور اس کی مدد کی ہمیشہ امید رکھنا ہے۔

اس مہم سے فراغت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ مدینہ لوٹے تو چند دنوں بعد یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ قیصر روم مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر جرار تیار کر رہا ہے جو کہ تبوک میں جمع ہو رہا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو خبر پہنچادی کہ جنگ کے لئے روانہ ہونا ہے جس کے پاس جو مال ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے یہ سنتے ہی تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے گھر کے تمام اثاثے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیئےسیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ تقریبا 700اونٹ اللہ کی راہ میں دیئے ،سیدناابوبکررضی اللہ عنہ اپنے گھرکاتمام مال، عمرسیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آدھا مال اور اسی طرح ہر صحابی نے صدقہ کیا ۔ یہ معرکہ تاریخ میں غزوہ تبوک اور غزوہ عسر کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس غزوہ میں سفر بہت لمبا تھا، گرمی کے ایام تھے اور خرد ونوش کی اشیاء اور پانی کی بہت کمی تھی حتیٰ کہ صحابہ رضی اللہ علیہم نے اونٹوں کو ذبح کر کے ان کی آنتوں میں سے پانی پیا ،پتے اور گھاس کھائی پھر آپﷺ نے اللہ سے دعاء کی اور باران رحمت نازل ہوئی تمام صحابہ اور ان کے مویشیوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور جمع بھی کر لیا جب مسلمانوں کا یہ لشکر تبوک کے مقام پر پہنچا تو رومی ہکے بکے رہ گئے اور پیچھے ہٹ گئے اس مہم کے نتیجے میں تمام سرحدی علاقوں میں بسنے والے عرب قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور بیرونی طاقتوں کو مسلمانوں کی طاقت کا بھی اندازہ ہو گیا اور جو سورج ۵۲سال قبل طلوع ہوا تھا آج اس نے اپنی لپیٹ میں تمام عرب کو لے لیا ۔ بلکہ اب اس کی کرنیں عرب کی حدود کو بھی پار کر رہی تھیں ۔

حجۃ الوداع اورنبی اکرم ﷺکا حج:

یہ غزوہ حنین آپﷺ کی زندگی کا آخری غزوہ تھا اس غزوہ سے واپسی کے بعد آپﷺ نے حج کا ارادہ کیا، آپﷺ کے حج کی خبر جب عرب میں پھیلی تو تمام کے تمام مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہو ئے۔آپ ﷺنے قربانی کے جانوروں کو قلادہ پہنایا اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا اور دو (2) رکعت ظہر کی نماز ادا کی اور پھر

لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ (صحيح البخاري (2/ 138)

کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسلمان مکہ کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ آپ ﷺ نے حج قران کی نیت کی تھی آپﷺ نے مکہ پہنچ کر عمرہ ادا کیااور پھر احرام اتارے بغیر ہی 8ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہوئے جہاں آپ ﷺنے پنج گانہ نماز ادا کی اور9 ذی الحجہ کو عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور نمرہ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبۃ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپﷺ نے جاہلیت کے تمام خون معاف فرمادیئے جاہلیت کا تمام سود ختم کروادیا ،عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھوگے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے پھر آپ نے فرمایا لوگوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا اور نہ تم جیسی کوئی امت۔ اپنے رب کی عبادت کرنا ،پنج گانہ نماز کی پابندی کرنا ،روزے رکھنا زکوٰۃ ادا کرنا ، بیت اللہ کا حج ادا کرنا اور اپنے حکمرانوں کی حلال کاموں میں اطاعت کرنا اگر ایسا کروگے تو جنت میں داخل ہوگے۔

اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائےگا تو تم لوگ کیا کہوگے؟ صحابہ نے کہا کہ ہم شہادت دیں گے آپ ﷺ نے پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اورپھر تین (3) بار فرمایا :اے اللہ گواہ رہ۔

اور جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3]

’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘

پھر آپﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اور دو (2)اقامت کے ساتھ جمعاً وقصراً ادا فرمائی پھر جبل رحمت پر چڑہے اور سورج غروب ہونے تک اللہ سے دعائیں کرتے رہے ، سورج غروب ہونے کے بعد آپﷺ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو(2) اقامت کے ساتھ جمعاً وقصراً ادا فرمائی اور رات کو آپﷺ نے آرام فرمایا اور صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپﷺ مشعر الحرام پر چڑھے اللہ سے دعائیں کی اور جب خوب اجالا ہوگیا تو آپﷺ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے وہاں جمرہ عقبہَ اولی پر سات (7)کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ میں اپنے ہاتھ سے63اونٹ ذبح کئے باقی 37اونٹ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے قربان کئے اور یوں100اونٹ کی تعداد پوری ہوئی پھر آپﷺ مکہ روانہ ہوئے طواف افاضہ ادا کیا اور ظہر کی نماز ادا کی پھر دوباہ منی تشریف لے گئے اور ایام ِ تشریق 111213 ذی الحجہ وہیں قیام فرمایا مناسک حج ادا کئے اور لوگوں کو احکامِ حج بتائے۔

وصال سے پہلے کے حالات:

حج کی ادائیگی کے بعد آپﷺ جب مدینہ پہنچے تو آپﷺ کی طبیعت نا ساز ہو گئی ، اور دن بدن آپﷺ کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی آپﷺ نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں قیام فرمایااور وصال سے پانچ دن پہلے آپﷺ نے کنویں سےٹھنڈا پانی منگوا کر اپنے اوپر ڈلوایااور طبیعت میں جب کچھ افاقہ ہوا تو آپﷺ مسجد میں منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا :یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انھوں نے انبیاء کی قبر کو مسجد بنایا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کےاس کی پوجا کی جائے ۔ پھر آپﷺ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی اور دوبارہ منبر تشریف فرما ہوئے اور آپﷺ انصار کے بارے میں وصیت فرمائی ، پھر آپﷺ نے فرمایاایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دھمک اور زیب و زینت میں سے جوکچھ چاہے اللہ اسے دے دےیا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا ۔ یہ سن کرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ہم ماں باپ سمیت آپﷺ پر قربان۔ وصال سے چار دن پہلے آپﷺ نے عشاء کی نماز کی امامت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپ دی اور پھر تقریبا دو دن پہلے جب آپ ﷺ کی طبیعت بحال ہوئی تو آپ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے مسجد تشریف لائے اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو آپ ﷺسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ کرنماز شروع کی اورسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر تے رہے اور صحابہ کو تکبیرات سناتے رہے ۔ مگر آج ہم صحیح اور صحت یابی کے باوجود نماز ادا نہیں کرتے اپنا تمام وقت کاروبار، میل جول، کھیل کود اور آوارہ گردی میں گزار دیتے ہیں ۔

اللہ اکبر! نبی اکرم ﷺ بیماری کی حالت میں بھی دوسروں کے کاندھو ں کا سہارا لے کر مسجد میں نماز ادا کرنے آتے ہیں ہم محبت رسولﷺ کے دعوے دار تو بنتے ہیں مگر اطاعت رسول ؟اور وصال سے چند ساعات پہلے آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کان میں سر گوشی کی تو ایک بار وہ روئیں اور دوسری بار وہ مسکرائیں، پہلی بار آپ نے وصال کے بابت فرمایا تو وہ روئیں اور دوسری بار آپﷺ نے فرمایا کہ تم میرے اہل وعیال میں میرے پیچھے سب سے پہلے آؤ گی تو آپ مسکرائیں۔ پھرآپ ﷺنے صحابہ اکرام کو وصیت فرمائی:

الصلاۃ ، الصلاۃ وماملکت ایمانكم۔

(نماز ، نماز اور جن غلاموں کے تم مالک ہوان سے حسن سلوک سے پیش آنا) مسواک کی جسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دانتوں سے نرم کر کے دیا اور پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ یا انگلی اٹھائی اور نگاہ چھت کی طرف بلندکی اور دونوں ہونٹوں پر حرکت ہوئی آپﷺ نے فرمایا: ان انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا ، اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلی میں پہنچادے، اے اللہ رفیق اعلیٰ۔ آخری جملہ تین مرتبہ دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا اورآپﷺ رفیق اعلیٰ سےجا ملے

إنا لله وإنا إليه راجعون ۔

نبی کریم ﷺ کی تکفین و تدفین:

یہ واقعہ ۱۲ربیع الاول   ۱۱ھ؁ بروز پیر چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ(63) سال چار دن ہو چکی تھی۔ یہ وہ غمگین لمحات تھے کہ صحابہ کرام y غم کے مارے ہوش و ہواس کھو بیٹھے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہاتھ میں تلوار لئے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آپﷺ وصال فرما گئے ہیں تو میں اس کی گردن اس کے تن سے جدا کر دونگا۔ مگر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے اور آپﷺ کےحجرے میں گئے اور آپﷺ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ آپ پر دو موت جمع نہیں کرے گا، جو موت آپﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپﷺ کو آچکی‘‘۔ پھر آپ مسجد میں گئے ،لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

من كان يعبد منكم محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حي لا يموت قال الله:   وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ [۱۴۴/۳]

’’تم میں سے جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتاتھا جان لے کہ بے شک محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتاتھا تو بے شک اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی(پھر آیت) پڑھی:’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیںاس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالٰی کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالٰی شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :واللہ ایسا لگتا تھا گویا لوگ جانتے ہی نہیں تھے اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے ، یہاں تک کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی تو لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی‘‘۔ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر t نے فرمایا : واللہ میں نے جوں ہی ابوبکر t کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انتہائی متحیر اوردہشت زدہ ہوکر رہ گیا ،حتی کی میرے پاوں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور یہ آیت سن کر زمین پر گر پڑا کیونکہ مجھے یقین ہو گیا کہ نبیﷺ کی واقعی موت واقع ہو چکی ہے۔[صحیح بخاری۲/۶۴۰،۶۴۱]

پھر نبی کریمﷺ کی تدفین سے پہلے جانشینی کی بحث چھڑ گئی تو سقيفہ بنی ساعد میں بڑے بحث و مباحثہ کےبعد سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسولﷺمقرر کر لیا گیا۔ اور پھر آپﷺ کو بروز منگل اسی لباس میں ہی غسل دیا گیا اور آپﷺ کی قبر مبارک سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے بستر کو ہٹا کر اس کے نیچے کھو دی جو کہ لحد والی {بغلی} کھو دی گئی تھی۔

پھر باری باری دس دس صحابہ حجرے میں داخل ہوتے اور نماز جنازہ پڑھتے جاتے اس جنازے میں امام کوئی نہیں تھا ، سب سے پہلے بنو ہاشم نے نماز جنازہ پڑھی پھر مہاجرین نے ، پھر انصار ، پھر عورتوں،اور آخر میں بچوں نے پڑھی منگل کا پورا دن نماز جنازہ میں گزر گیا اور بدھ کی رات آپ ﷺکو سپرد خاک کر دیا گیا ۔

خاتمہ:

تریسٹھ (63)برس پہلے مکہ کی وادی میں جو سورج طلوع ہوا تھا آج اس نے پورے عرب کو اپنے لپیٹ میں لے لیا جس کا جسد خاکی تو سپرد خاک ہوا مگر نور نبوت نے پوری دنیا کو منور کر دیا اور دنیا کےہر چپے سے ‘‘

أشهدان لَّا اِلٰہ إلَّا الله وأشهد أن محمدا رسول الله

کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

مگر افسوس صدافسوس! جس دین کو آپﷺ لے کر آئے تھے آج ہم نے اسے فراموش کر دیا اور اپنے خود ساختہ عقائد و مذاہب کے پیرو کار بن گئے ، جن چیزوں سے آپﷺ نے پوری زندگی لوگو ں کو منع فرمایا آج ہم نے انہیں چیزوں کو اپنا لیا ، آج ہم بھی قبروں کے پجاری ، وہم اور توہم پرستی ہماری عادت بن چکی ہے نماز، روزہ کی فرضیت کی اہمیت ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ، ہماری زندگی کا مقصد تو صرف کاروبار ، ناچ گانا، انجوئے منٹ اور دین کی خلاف ورزی ہے۔اللہ کی کتاب ہمارے درمیان ہے اگر ہم اسے پڑھیں ،سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہماری زندگیاں بدل جائیں اور اللہ رب العزت ہمیں ہدایت سے سرفراز کرے تو کیا دور ہے مسلمان جو آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوم ہے اور ذلت و رسوائی سے ہم کنار ہے اللہ اسے کامیابی اور کامرانی عطا کرے اور اس کی کھوئی ہوئی شوکت اسے دوبارہ لوٹادے اور اسلام کا بول بالا ہوجائے ۔

اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ

’’کسی قوم کی حالت اللہ تعالٰی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ‘‘(الرعد: 11)

بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم اپنی حالت نہ بدلنا چاہتی ہو۔ اللہ رب العزت ہمِیں محبین رسولﷺ کے ساتھ ساتھ اطاعت گزار بھی بنائے اور ہماری تمام عبادات کو اپنی بارگاہ میںشرف قبولیت عطا فرمائے ۔ آمین

            واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے