جزیرہ عرب کی مر کزی حیثیت:

دنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے جزیرہ نما عرب کی بنیادی حیثیت واضح ہو جاتی ہے ۔ بر اعظم ایشیا میں واقع اس جزیرہ نما سے افریقہ اور یورپ دونوں ہی نے حد قریب ہیں ، دور نبوت سے قبل کے متمدن ترین ممالک یعنی ایران حبشہ اور یونان کے درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے عرب کو مرکز کا درجہ حاصل تھا اور مکہ مکرمہ کو اپنی دینی ، سیاسی اور اقتصادی اہمیت کی بنا پر عرب کا قلب سجھا جاتا تھا۔

جزیرہ نما عرب کے جنوب میں بحر عرب ، مشرق میں خلیج عمان ، خلیج عرب اور جنوب مشرق میں عراق اور مغرب میں بحر احمر اور اردن و فلسطین اور شمال میں شام کے ممالک ہیں۔

اس کا رقبہ تقریباً 13لاکھ مربع میل ہے ۔ اس کا متوسط طول بارہ سو میل اور متوسط عرض سات سو میل ہے (مولانا رابع ندوی، جزیرۃ العرب)

اس جزیرہ عرب کے مرکزی مقام مکہ مکرمہ میں سرور کا ئنات محمد ﷺ 12 ربیع الاول عام الفیل اور بعض روایات کے مطابق 9 ربیع الاول ،بمطابق 23 اپریل 570 ء کوپیداہوئےآپ ﷺ اپنی بعثت کے بعد اعلان فرمایا:

بُعِثْتُ إِلَى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ (مسند أحمد مخرجا (4/ 119)

’’میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجاگیاہوں‘‘

رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں یہ پیغام مضمر ہے کہ ایشیا کی سر زمین میں پیدا ہونے کے باوجود آپﷺ افریقہ کے کا لے اور گورے گویا تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے۔

حجاز حبشہ روابط:

حجاز کا حبشہ سے تعلق نہایت قدیم ہے ۔ قدیم زمانے میں چین اور ہند وستان کا تجارتی سامان یمن آتااورخشکی کے راستے سے حجاز اور شام سے گزر کے یورپ جایا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بازنطینیوں نے بحر احمر میں نقل و حمل شروع کی تو حجاز یوں کے روز گار خاص طور پر بہت متاثر ہوا غالباًاسی وجہ سے نبی اکرمﷺ کے پر دادا ہاشم نے سخت جدوجہد کر کے اپنے ہم سایہ ممالک سے تجارتی کاروانوں کو لانے کی اجازت حاصل کی جو قرآن مجید میں ایلاف کے نام سے موسوم ہے ۔ ابن سعد اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ و غیرہ کا بیان ہے کہ قیصرروم نے ہاشم کو شام آنے کا پروانہ عطاکیا اور اپنے زیر اثر فرمانروائے حبشہ کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیا ۔ ہاشم نے اپنے بھائی کو حبشہ بھیجا تو نجاشی نے قیصر کی سفارش کی بناپر ان کے تجارتی کاروانوں کو حبشہ آنے کی اجازت دے دی۔

اس وقت حبشہ جانے کے دو ہی راستے تھے ۔حجاز سے خشکی کے راستے فلسطین اور مصر سے ہوتے ہوئے جائیں یا جدہ کی بندر گاہ سے کشتیوں پر سوار ہو کر باب المہندب سے ہوتے ہوئے حبشہ کی کسی بندر گاہ میں اتر جائیں ۔ (ڈاکٹر محمد حمید اللہ، رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی)

چنانچہ تجارت پیشہ عرب ہر سال حبشہ جایا کرتے تھے ۔

بین الاقوامی تجارت میں اہل حجاز کی کلیدی اہمیت:

جب عرب کی دو ہزار سالہ بد امنی کے دور میں ہر طرف لوٹ مار ، قتل و غارتگری اور جنگ و جدال کا بازار گرم تھا اس وقت بھی حرم میں امن و امان قائم رہا۔ قر آن مجید نے واضح الفاظ میں اس کی نشاندہی کی ہے :

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنكبوت: 67)

’’اور کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے حرمت والی زمین پناہ بنائی اور ان کے آس پاس والے لوگ اچک لیے جاتے ہیں ‘‘

خانہ کعبہ کا یہی تقدس پورے ملک کی معاشی و تمدنی زندگی کا سہارا بنا ہو اتھا اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کےصرف پچاس روز پہلے محرم کےمہینےمیں ابرھہ نےساٹھ ہزار فوج کے ذریعے سے بیت اللہ کو ڈھانے کی گستاخانہ کوشش کی تھی ۔ چونکہ اہل مکہ اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعہ سے اس لشکر کو نیست و نابود کردیا۔اور جب لوگوں نے بچشم خود یہ منظر دیکھاکہ لشکر ابابیل نے سنگ ریزی سے ابرھہ کی 60 ہزار کی حبشی فوج کو تباہ و برباد کردیا اور مکہ سے یمن تک سارے راستے میں جگہ جگہ ا س تباہ شدہ فوج کے آدمی گر گر کر مرتے چلے گئے تو کعبہ کے بیت اللہ نے پر تمام اہل عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہازیادہ ہوگیااور اس کے ساتھ قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں پہلے سے زیادہ قائم ہو گئی ۔ اب عربوں کو یقین ہوگیا کہ ان لوگوں پر اللہ کا خاص فضل ہے چنانچہ اس واقعہ فیل کے باعث جزیرہ عرب کے تمام اطراف و جوانب کے عربوں کی نظر میں بیت اللہ کے وقار اور اس کی حرمت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور اس گھر کے متولی و مجاور اور اس کے پاس رہنے والے قبیلہ قریش کا مرتبہ بھی ان کے ہاں مزید بلند ہوگیا ۔ غیرمعمولی عزت و احترام کا ماحول پا کر قریش کو ہمت ہوئی اور انہوں نے دو عظیم شاہراہیں بناڈالیں جس پر تجارتی قافلے جنوب میں یمن تک اور شمال میں شام تک جانے لگے۔چنانچہ انہوں نے دو عظیم تجارتی اسفار منظم کیے ، ایک سفر موسم سرما میں یمن تک اور دوسرا موسم گرما میں شام تک ، جو تین بر اعظموں کی تجارتی کڑیوں کو بھی ملاتے تھے ۔ ان دونوں تجارتی اسفار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ۝ۙ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ (القریش: 12)

’’ قریش کے مانوس کرنے کے لئے(۲)یعنی انہیں سردی اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لئے ‘‘

چناچہ عرب کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے موسمی بازار یعنی نمائشیں لگنے لگیں جہاں تینوں بر اعظموں کے تاجر جمع ہوکر خرید و فروخت کرتے تھے ۔ وہ موسمی بازار یعنی نمائش گاہیں حسب ذیل تھیں۔

1-دومۃ الجندل : یہ بازار غرۂ ربیع الاول سے شروع ہوکر مہینے کے آکر تک رہتاتھا۔

2-مشقر : دومۃ الجندل سے تاجر اور خریدار اٹھ کر یہاں آتے تھے ۔ یہ بازار پہلی جمادی الاخری سے آخرمہینے تک لگتاتھا۔

3-صحار: صحار کا بازار پہلی رجب سے 2 رجب تک لگتاتھااور مشقر کی ساری رونق یہاں سمٹ آتی تھی۔

4-دبا: دباکا بازار صحار بعد لگتاتھا۔ سوق دباکی ابتدارجب کے آخری دن ہوتی تھی ۔

5-شحر مہرہ : شحر مہرہ کے بازار میں سوق دباسے تاجر اٹھ کر یہاں آجاتے تھے۔

7-صنعاء:عدن کے بعد صنعاء کا بازار نصف رمضان سے شروع ہوکر آخر تک رہتاتھا۔

8-رابیہ : صنعاء کا بازار ختم ہوکر دوبازاروں میں منقسم ہوجاتاتھا۔ یعنی حضر موت سے سوق رابیہ اور سوق عکاظ میں ۔ یہ دونوں بازار ایک ہی وقت میں نصف ذی قعدہ سے غرۂ ذوالحجہ تک رہتاتھا۔

ان بازاروں کے علاوہ سوق نطاۃ خیر اور سوق حجر میامہ میں بھی خرید و فروخت کی سر گرمیاں ہوا کرتی تھیں ۔ بعضوں نےمجنہ کوبھی اسواق عرب میں شمار کیا ہے ۔

(بحوالہ قاضی اطہر مبارک پوری، عرب و ہند عہد رسالت میں)

مسلمانوں کو ہجرت کے لیے تیار کرنا:

مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر اکابرین اہل مکہ نے مان کر نہ دیا ۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کے خلاف بے حد ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ جب اس ظلم و تشدد کی انتہاہو گئی تو مسلمانوں کو ہجرت کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کا کام شرع کردیا گیا۔ سورۃ العنکبوت کی آیت 56تا 60 اس سلسلے میں نہایت اہمیت رکھتی ہیں ۔

پہلی آیت میں واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ اگر مکہ میں اللہ کی بندگی کرنا مشکل ہو رہا ہے تو ملک چھوڑکر نکل جاؤ۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے جہاں بھی اس کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ ۔

دوسری آیت میں عقلی طور پر بتایا گیا ہے کہ اس راہ میں جان کی فکر غیر معقول ہے کیونکہ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے ۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا مین نہیں آیاچنانچہ دنیا میں جان بچانے کی فکر بے حقیقت ہے ۔ اصل فکر تو یہ ہونی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں ۔

تیسری اور چوتھی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایمان اور نیکی کے راستے پر چلتے ہوئے قوم ووطن تو کیا اگر دنیاکی ساری نعمتیں بھی چھن جائیں تو اس کا اجر اللہ تعالی کے ہاں ہر گز ضائع نہیں ہوگا۔ وہ اس دنیامیں بھی ان کی دستگیری کرے گااور آخرت میں بھی ان کے عمل کا بہترین اجر دے گا۔

آخر میں بتایا گیا ہے کہ ہجرت کرنے میں فکر جان کی طرح فکر روزگار سے بھی تمہیں پریشان نہ ہونا چاہیے ، آخر یہ بے شمار چرند پرند اور تمام حیوانات جو ہو ا پانی اور خشکی پر پھرتے ہہیں ان میں سے کوئی بھی تو اپنا رزق اٹھا کر نہیں پھرتا۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اللہ کے فضل سے انہیں کسی نہ کسی طرح رزق مل جاتاہے لہٰذا اہل ایمان کو یہ سوچ کر ہمت نہیں ہارنا چاہیےکہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تو کھائیں کے کہاں سے ؟ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی بے شمار مخلوق کو رزق دیتاہے انہیں بھی دے گا۔

اس مضمون کو ایک ا ور جگہ اس طرح بیان کیا گیاہے کہ:

قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۭ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَـنَةٌ ۭ وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ۭ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (الزمر: 10)

’’ کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالٰی کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

صاحب روح المعانی علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

نزلت في جعفر بن أبي طالب وأصحابه حين عزموا على الهجرة إلى أرض الحبشة

(تفسير الألوسي = روح المعاني (12/ 239)

’’اس آیت کا نزول سیدنا جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوا جبکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کا عزم کیا۔

ہجرت حبشہ کا حکم نبویﷺ:

چنانچہ مکہ مکرمہ کی سر زمین جب مسلمانوں پر تنگ ہوگئی اور قریش مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا:

’’اگر تم لوگ سر زمین حبشہ چلے جاؤتو بہتر ہے کیونکہ وہاں کے بادشاہ کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا اور و ہ سچائی والوں کی سر زمین ہے ۔ یہاںتک کہ اللہ تعالی تمہارے لیے ان مصائب سےنکلنے کی جن میں تم مبتلاہو بہتر صورت پیداکردے ‘‘ (ابن ہشام، سیرۃ النبی کامل)

ہجرت حبشہ اول:

اس ارشاد کے مطابق رجب 45 عام الفیل بمطابق 5 بعثت نبوی ﷺ میں اصحاب رسول ﷺ نے حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کی جس میں 11 مرد اور چار عورتیں شامل تھیں ۔

سید نا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ان میں سب سے پہلے نکلنے والے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے جو تجارت میں بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے اور ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ لوط کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کی ہے ‘‘

ابن سعد نے واقدی کے حوالے سے ان میں دو اور افراد کا اضافہ کیا ہے۔ (سید ابو الاعلی مودودی، سیرت سرور عالم)

زاد راہ ہجرت:

اس موقع پر سورۃ مر یم نازل ہوئی جو چلتے وقت زاد راہ کے طور پر ساتھ کی گئی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بالکل صحیح تصور پیش کر سکیں ۔ دوسری چیز اہل کتاب کے درمیان تبلیغ کرنے کی حکمت کے طور پر سورۃ العنکبوت کی 46 ویں آیت ہے جس میں ارشاد ہواکہ:

وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ڰ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَاِلٰـهُنَا وَاِلٰــهُكُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ (العنکبوت:46)

’’ ااور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں‘‘

اس آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اہل کتاب کے ظالم لوگوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں البتہ جو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تیار ہوں ان سے نہایت معقول دلائل سے مہذب اور شائستہ زبان میں افہام و تفہیم کے اندازمیںبحث کرو۔ ان کو بتاؤ کہ ہم کوئی متعصب گروہ نہیں ہیں، ہم تو حق کے پرستار ہیں اللہ کی طرف سےجو کچھ ہمارے پاس آیا ہے اسے بھی برحق مانتے ہیں اور جو تمہارے پاس آیا ہے اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا تمہارا ایک ہی رب ہے جس کو ہم بھی ماننے والے ہیں اور تم بھی ۔ ہم اسی ایک اللہ کی اطاعت اور بندگی کا طریقہ اختیار کیا ہے‘‘

یہ وہ زاد راہ تھا جس کو ساتھ لے کر مہاجرین حبشہ روانہ ہوئے جب یہ لوگ شعیبہ (جدہ) کی بندرگاہ پر پہنچے تو حبشہ جانے والے دو تجارتی جہاز تیار تھے ۔ جہازوں والوں نے سستے کرایہ پر ان کو بٹھالیااور ہر فرد سے صرف نصف دینار لیا۔(ابن کثیر، تاریخ ابن کثیر)

قریش کو جب یہ خبر ملی تو بندرگاہ تک ان کا تعاقب کیا مگر موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ پرانا تجارتی مرکز ہونے کے باعث اہل مکہ حبشہ کے حالات سے باخبر تھے ۔ انہوں نے یہاں سے رزق کمایا تھا اور تجارت میں بڑے فائدے اٹھائے تھے اس لیے مہاجرین کو وہاں کوئی دقت پیش نہیں آئی ۔ وہاں بہت اچھی طرح رہے اور اپنے دین کے معاملے میں بھی ان پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ وہ آزادی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور کوئی مشکل انہیں نہیں اٹھانی پڑی تھی اور نہ کسی ناگوار بات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مہاجرین کی واپسی:

اس سال رمضان میں ایک ایساواقعہ پیش آیا کہ جس کی خبر حبشہ میں مقیم مسلمانوں تک اس طرح پہنچی کہ وہ سمجھے کہ کفار مکہ مسلمان ہوگئے ہیں۔

واقعہ یہ تھا کہ ایک روز رسول پاک ﷺحرم میں جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجمع موجود تھا ، یکا یک تقریر کرنےکھڑے ہوگئےاور اللہ تعالی نے آپﷺ کی زبان مبارک پر سورۃ نجم جاری فرمادی ۔ کلام کی تاثیر کا حال یہ تھا کہ جب آپ ﷺ نے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس کا ہوش نہ رہا کہ شور مچائیںاور جب اس سورت کے خاتمہ پر جب آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا تو سب حاضرین سجدے میں گرگئے۔ مجمع میں کافر و مومن سب ہی لوگ شامل تھے ۔ حتی کہ مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک جو مخالفت میں پیش پیش تھے ، سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے۔

اس سےیہ خبر مشہور ہوکر حبشہ تک اس شکل میں پہنچی کہ مشرکین قریش مسلمان ہوگئے ہیں مگر اصل صورت حال یہ تھی کہ قرآن کی شدت اور تاثیر سے متاثر ہوکر سجدہ ریز ہونے والے ا س وقت تو سجدہ کر بیٹھے مگر بعد میں انہیں سخت پریشانی اور ندامت ہوئی کہ ہم سے یہ کیا کمزوری سرزد ہوگئی ۔(سید ابو الاعلی مودودی، سیرت سرور عالم، جلد دوم)

اہل مکہ کے مسلمان ہونے کی خبر سن کر شوال 5 بعثت نبوی ﷺ میں مہاجرین حبشہ سے مکہ واپس آگئے اور یہاں پہنچ کر معلوم ہو اکہ حالات جوں کے توں ہیں چنانچہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ لے کر شہر میں داخل ہوا۔

دوسری ہجرت حبشہ:

مہاجرین حبشہ کو مکہ آکر جب معلوم ہوا کہ ظلم کی چکی پہلے سےزیادہ شدت اختیار کرچکی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی دیکھا کہ حبشہ مسلمانوں کے لیے امن کی جگہ ثابت ہوئی ہے تو آپ ﷺ نے پھر ہدایت کی کہ مظلوم لوگ دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں ۔ چنانچہ 6 بعثت نبوی ﷺ کے آغاز یعنی 615ء میں دوسری ہجرت واقع ہوئی۔

قریش نے اس ہجرت کو روکنے کی پوری کوشش کی اور نکلنے والوں کو بہت تنگ کیا اور ان کے راستے میں سخت مشکلات پیداکیں لیکن اس کے باوجود اس موقع پر 83 مردوں اور اٹھارہ یا انیس عورتوں نے حبشہ کی راہ لی اور بخیر و عافیت وہاں پہنچ گئے۔

ابن سعد کے مطابق ان میں گیارہ قریش اور سات غیر قریش کی عورتیں تھی اور مکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ صرف چالیس آدمی رہ گئے۔(مودودی، ایضاً)

شاہ حبشہ کے نام رسول پاک ﷺ کا تعارفی خط:

اس موقع پر شاہ ـحبشہ کے نام نبی مکرمﷺ نے سیدنا جعفر طیار کے ہاتھ ایک خط بھی روانہ کیا ۔ طبری اور ابن قیم کے مطابق وہ خط یہ تھا:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نجاشی اصحم بادشاہ حبشہ کے نام۔ میں اس اللہ کی تعریف تمہیں لکھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو بادشاہ مقدس، سلامتی والا ، احسان دہندہ اور سلامت رکھنے والاہے ۔ اور میں اقرار کرتاہوں کہ مریم کے بیٹے عیسی علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں جن کو پاک اور برائی سے محفوظ مریم بتول کی طرف ڈالا گیاتو وہ اللہ کی روح اور پھونک سے حاملہ ہوگئیںجیساکہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیاتھا۔ میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتاہوں اور یہ کہ تم میری اتباع کرو اور مجھ پر نازل شدہ چیز پر ایمان لاؤکیونکہ میں اللہ کا رسول ﷺ ہوںاور میں تمہیں اور تمہارے لشکر وں کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتاہوں ۔ میں نے پیام پہنچادیا اور بہی خواہی کی ، اب تم سب میری بہی خواہانہ نصیحت قبول کرو۔ میں نے تمہارے پاس اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو بھیجا ہے جن کے ہمراہ چند مسلمان بھی ہیں ۔ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کی مہمان داری کرو اور تکبر چھوڑ دو ۔ سلام اس پر جو ہدایت پر چلے۔(ڈاکٹر محمد حمید اللہ، رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور اہل یمن کی حبشہ آمد:

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مکہ آکر مسلمان ہو چکے تھے ۔ انہوں نے واپس یمن جاکر اسلام کی اشاعت و تبلیغ کی جس کے نتیجے میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی چنانچہ وہ اپنی قوم کے باون یا ترپن لوگوں کو ساتھ ملاکر ایک کشتی میں یمن سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے مگر ناموافق ہواؤں نے ان کی کشتی کو حبشہ کے ساحل پر نجاشی کے علاقےمیںلاڈالا اس طرح وہ مہاجرین حبشہ سے جاملے جہاں جعفر بن ابی طالب پہلے سے موجود تھے ۔(سید ابو الاعلی مودودی، سیرت سرور عالم، جلد دوم،لاہور)

یوں دعوت اسلامی نے عرب کی حدود پار کر کے سمندر پار افریقہ تک رسائی حاصل کرلی اور داعیان اسلام بین الاقوامی افق پر نمودار ہوئے۔

مکہ میں اس ہجرت کا رد عمل:

اس ہجرت سے مکہ کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسانہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں ۔ کسی کا بیٹا کسی کا داماد ، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی مسلمہ بن ہشام ، اس کے چچازاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچازاد بہن سیدہ ام سلمہ بن ہشام، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ ، عتبہ بن ربیعہ کے بیٹے ، بیٹیاں اور داماد ، اسی طرح دوسرے سرداران قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑکر نکل کھڑے ہوئےتھے ۔ اس لیے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہو اہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئے اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایساہوا کہ آخر کار مسلمان ہو کر رہے۔(سید ابو الاعلی مودودی، سیرت سرور عالم، جلد دوم)

مہاجرین کی فہرست کے بارے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں ’’ جو لوگ سب سے زیادہ مظلوم تھے اور جن کو انگاروں کے بستر پر سوناپڑتا تھا یعنی سیدنا بلال، سیدنا عمار اور سیدنا یاسر وغیرہ ان لوگوں کے نام مہاجرین حبشہ کی فہرست میں نظر نہیں آتے ۔ (سلیمان ندوی، سیرت النبیﷺ)

اسی طرح کا تبصرہ سید قطب شہید نے بھی کیا ہے ۔

(سید قطب فی ظلال القرآن، جلد اول سورۃ بقرۃ)

نجاشی کی بدولت مسلمان حبشہ میں امن و امان سے زندگی بسر کر رہے تھے اور قریش یہ کیونکر برداشت کر سکتے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن ربیعہ اور عمر بن العاص (بعد میں فاتح مصر ہوئے)کو سفیر بناکر نجاشی کے پاس بھیجا ۔ وہ نجاشی اور اس کے درباریوں میں سے ایک ایک کے لیے گراںقدر تحائف لے کر گئے اور بجاشی سے ملاقات سے پہلے دربار کے پادریوں سےملاقات کی اور ان کی خدمت میں تحفے اور نذرانے پیش کیے اور ان سے گزارش کی کہ بادشاہ کے دربار میں وہ جو درخواست پیش کریں ، یہ لوگ اس کی تائید کریں ۔ اگلے دن یہ سفیر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو کہا:

’’اے بادشاہ معظم ! آپ کے ملک میں ہمارے یہاں سے کچھ بے وقوف لڑکوں نے آکر پناہ لی ہے جنہوں نے اپنا دین بھی چھوڑا ہے اور آپ کا دین بھی قبول نہیں کیا بلکہ ایک نیادین ایجاد کیا ہے جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ ۔ ہمیں آپ کے پاس ان کی قوم کے کچھ سربراہان اور ذمہ دار لوگوں نے بھیجا ہے تاکہ آپ ان لڑکوں کو واپس کردیں‘‘

جیسے ہی انہوں نے اپنی بات ختم کی پادری یک زبان ہوکر بولے : ’’ان کا مطالبہ بالکل صحیح ہے ۔ان لوگوں کو ان کے سپرد کردیں‘‘

مگر نجاشی نے کہا : ’’اس طرح تو میں انہیں ان کے حوالے نہیں کروں گا ۔ جن لوگوں نے اپنا ملک چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا ہے اور یہاں پناہ لینے آئے ہیں، میں ان سے بے و فائی نہیں کر سکتا ۔ پہلے میں ان کا موقف سنوں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے ؟‘‘

چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول ﷺ کو اپنے دربار میں طلب کیا ، نجاشی کا پیغام پاکر مہاجرین دربار میں پہنچے تو نجاشی نے سوال کیا : ’’تم لوگوں نے یہ کیا کیاہے کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئےاور نہ دنیا کے دوسرے ادیان میں سے کسی دین کو اختیار کیا ہے، آخر یہ تمہارا دین ہے کیا؟‘‘

اس پر مہاجرین کی طرف سے سیدنا جعفر بن ابی طالب نے ایک بر جستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب کی جاہلیت کی دینی ، اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا پھر نبیﷺ کی بعثت کا ذکر کر کے بتایاکہ آپ ﷺ کیا تعلیمات دیتے ہیں ۔ پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو نبی ﷺ کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش مکہ ڈھا رہے تھے اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کے بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

نجاشی کے دربار میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر:

سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر کے جو الفاظ ابن اسحاق نے سیدہ ام سلمۃ کی روایت سے نقل کیے ہیں : ’’اے بادشاہ ہم جاہلیت میں پڑی ہوئی قوم تھے ۔ بت پوجتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، فحش کا م کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے ، ہمسائیگی اور عہد و امان کا پاس کرنے میں برارویہ رکھتے تھےاور ہم میں سےطاقتورکمزور کو کھائے جاتا تھا ۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ نے ہماری طرف خود ہم ہی میں سے ایک رسول ﷺ بھیجا جس کے نسب ، جس کی صداقت ، جس کی امانت اور جس کی پاک دامنی کو ہم جانتے تھے ۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اس کی توحیدکے قائل ہوں اور اسی کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور بتوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہم اور ہمارے باپ داداکرتے تھے ۔ اس نے ہمیں راست گوئی ، امانت داری ، صلہ رحمی ، ہمسائیگی اور عہد و امان کی پاسداری اور حرام افعال اور خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا ۔ ہم کو فواحش سے جھوـٹ سے مال یتیم کھانے سے پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے روکا۔ ہمیں نماز پڑھنے ، زکوٰۃ دینے اور روزہ رکھنے کی ہدایت کی‘‘ ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اسی طرح جعفر رضی اللہ عنہ نے اسلام کے دوسرے احکام اس کو بتائے) ’’پس ہم نے اس کی تصدیق کی اور اس پر ایمان لائے اور جو کچھ وہ اللہ کی طرف سےلائے تھے اس میں اس کی پیروی کی۔ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی اور ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا۔ جس چیز کوانہوں نے ہم پر حرام کردیا اسے ہم نے حرام کیا اور جس کو انہوں نے ہمارے لیے حلال کردیا اسے ہم نے حلال کیا۔ اس پر ہماری قوم ہم پر ٹوٹ پڑی ۔ اس نے ہم کو عذاب دیے اور دین کے معاملے میں ہم پر ظلم توڑے تاکہ ہمیں اللہ کی عبادت سے بتوں کی طرف پھیر دے اور ہم ان تمام خبائث کو پہلے کی طرح پھر سے حلال کر لیں ۔ آخر کار جب انہوں نے ہم پر سختی کی اور ظلم ڈھایا اور ہمارے لیے زندگی تنگ کردی اور ہمارے دین کے راستے میں حائل ہوگئے تو ہم آپ کے ملک کی طرف نکل آئے اور دوسروں کےبجائے آپ کے ہاں آنا پسند کیا اور آپ کی پناہ لینی چاہی، اس امید پر اے بادشاہ کہ آپ کےہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا‘‘(احمد بن حنبل، مسند الامام مجلد السادس)

نجاشی نے تقریر سننے کے بعد کہا ذرا وہ کلام سناؤ جو تم کہتے ہو کہ اللہ کی طرف سے تمہارے نبیﷺپر اتراہے ۔ جواب میں سیدنا جعفر نے سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو یحیٰ اور عیسی علیہما السلام سے متعلق ہے ۔ نجاشی اس کو سنتارہا اور روتارہایہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی ۔ اس کے مصاحبوں کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ سیدنا جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا: ’’یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ علیہ السلام لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں ۔ اللہ کی قسم میں تم کو ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا‘‘ اور پھر قریش کے سفیروں سے کہا: ’’واپس چلے جاؤ ۔ بخدا میں ان لوگوں کو تمہارے سپرد ہر گز نہیں کروں گا یہ کبھی نہیں ہو سکتا‘‘

دوسرے دن عمرو بن العاص نے پھر دربار تک رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا: ’’حضور ذرا ان لوگوں کو بلاکر ان سے یہ پوچھیے کہ عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ ہے ۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں‘‘

نجاشی نے ایک بار پھر مہاجرین کو بلابھیجا۔ مہاجرین دربار میں پہنچے تو نجاشی نے عمروبن العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامل کہا :

’’ھو عبداللہ ورسولہ و روحہ و کلمتہ القاہا الی مریم العذرا البتول‘‘

(وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القاکیا تھا)

نجاشی نے جواب سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھایا اور کہا: ’’اللہ کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسیٰ اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ‘‘۔ پھر اس نے اصحاب رسولﷺ سے کہا جاؤ میری زمین میں امن سے رہو۔ جو تمہیں براکہے گاوہ سزا پائے گا۔ اگر مجھے سونے کے پہاڑ بھی ملے تو اس کےعوض میں تمہیں ستانا پسند نہ کروں۔ پھر اس نے حکم دیا کہ ان دونوں سفیروں کو ان کے ہدیے واپس کردیے جائیں ، مجھے ان کی ضرورت نہیں ۔ اللہ نے جب میرا ملک مجھے واپس دلوایا تھا تو مجھ سے کسی نے رشوت نہیں لی تھی کہ میں اللہ کے معاملات میں رشوت لوں۔ لوگ میرے خلاف جوکچھ کرنا چاہتے تھے اللہ نے نہ کیا ، پھر میں کیوں اللہ کے متعلق لوگوں کی بات بے سوچے سمجھے مان لوں‘‘

اس کےبعد نجاشی نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مرنے کی اطلاع ملی تو رسول ﷺ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی بخشش کی دعا فرمائی۔

(ابن ہشام ، سیرۃ النبی ﷺ کامل، جلد اول، کراچی)

نجاشی کا خط رسول ﷺ کے نام:

نجاشی نے اپنے بیٹے کے ہاتھ رسولﷺ کے نام جو جوابی خط ارسال کیا اور جس میں اپنے اسلام لانے کا اظہار کیا وہ خط طبری ، ابن اسحاق اور ابن کثیر نے محفوظ کیا ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’محمدرسولﷺ کے نام نجاشی اصحم بن ابجر کی طرف سے ، اے اللہ کے نبی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ مجھے یا رسول اللہ آپ کا وہ مکتوب ملا جس میں آپ ﷺ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اظہار خیال فرمایا ہے۔ اللہ نے انہیں بھی اپنا نبی بناکر بھیجاتھااور ان میں وہی خصو صیات تھیں جن کا آپ نے اپنے مکتوب میں ذکر فرمایا ہے ۔ میرے پاس آپ کے ابن عم اور ان کے ساتھی پہنچے اور انہوں نے آپ ﷺ کا زبانی پیغام بھی مجھے پہنچایا۔ پس میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ سچے اور سچائی کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔ میں نے آپ ﷺ کے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اور مسلمان ہوگیاہوں جو اللہ کے لیے ہے۔ اس مکتوب کے ساتھ اپنے بیٹے بار محا بن اصحم بن ابجر کو آپﷺ کی خدمت میں بھیج رہاہوں۔ میرے پاس اپنی جان کے سوا کچھ نہیں ہے، اگر آپ ﷺ چاہیں تو پیش کر سکتاہوں کیونکہ میں (جانتاہوں اور) گواہی دیتاہوں کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ سچ ہے‘‘(ڈاکٹر محمد حمید اللہ، رسول اکرمﷺ کی سیاسی زندگی)

اس طرح اسلام کے عالمی پیغام نے حدود عرب سےنکل کر سمندر پار افریقہ کے ساحل پر اثرات مرتب کرنے شروع کیے۔

نجاشی حبشہ ایک تعارف:

اللہ تعالی نے اپنی حکمت عملی کے تحت جس طرح اس دور میں نجاشی جیسے حق گو اور حق شناس شخص کو حبشہ کا تخت عطاکیا تھا اس کا قصہ جاننا بھی نہایت مفید اور دلچسب ہے اور اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کی حکمت کس طرح کار فرماہے۔

حبشہ کی زبان میں بادشاہ کو نجوس کہتے ہیںجس کو عربی میں نجاشی کہا جاتاہے۔

بعثت نبوی کے زمانے میں حبشہ کا بادشاہ نجاشی اصحم تھا۔ اس کا خاندان چوتھی صدی سے حبشہ پرحکمران تھا۔ یہ خاندان پہلے بت پرست تھا۔ روسی شہنشاہیت نے مصر کے ذریعے سے وہاں عیسائیت کی بنیاد ڈالی اور اسکندریہ کے ایک بشپ نے یہاںاپنے مشن کا مرکز قائم کیا جس سے رفتہ رفتہ تمام ملک بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہوگیا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ کے حوالے سے ابن ہشام لکھتے ہیں کہ نجاشی کا باپ اپنی قوم کا بادشاہ تھااور نجاشی کے سوا اس کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ اس کا ایک چچا تھا جس کے بارہ بیٹے تھے ۔ اہل حبشہ نے اس کو حکومت دلوانے کے لیے نجاشی کے باپ کو قتل کرڈالا اور حکومت اس کے بھا ئی کے حوالے کر دی گئی ۔اب نجاشی اپنے چچا کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ تمام لوگوں میں بڑا ہوشیار اور عقلمند تھا۔ چنانچہ اپنے چچاکےحالات پر غلبہ پالیا اور ہر جگہ اس کے ساتھ دکھائی دینے لگا۔ حبشہ والے اس کا اثرو رسوخ دیکھ کر ڈرنے لگےکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چچا اس کو ان پر حاکم بنادے۔ اگر ایساہواتو سب کو قتل کرڈالے گا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے باپ کو کس نے قتل کیاہے ۔لہٰذا وہ سب مل کر اس کے چچا کے پاس گئےاور کہا یا تو اس لڑکے کو قتل کردو یا ملک بدر کردو کیونکہ ہمیں اپنی جانوں کا خوف ہے اس نے لڑکے کو قتل کرنے کی بات تسلیم نہ کی البتہ ملک بدر کرنے پر آمادہ ہوگیا اور لوگوں نے اس کو بازار لیجا کر ایک تاجر کے ہاتھ چھ سو درہم میں فروخت کردیا وہ اس کو کشتی میں بٹھا کرلے چلا۔ اس دن شام کو آسمان پر بادل چھاگئے اور اس کا چچا جب اس بادل کے نیچے گیا تو اس پر بجلی گری اور وہ ہلاک ہوگیا۔ اب حبشہ والوں نے بادشاہت کے لیے جب اس کے لڑکوں کی طرف دیکھاتو معلوم ہوا کہ سب کے سب احمق اور ناقص ہیں ۔ آخرحبشہ میں فساد برپا ہوگیا ۔اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ جس کو تم لوگوں نے صبح بیچ ڈالا ہے اس کے بغیر تمہارا معاملہ درست نہیں ہوسکتا۔ حبشہ کی حکومت کے لیے وہی موزوں ہے اس لیے اس کو ڈھونڈ نکالو۔ آخر کار اس کی تلاش کرکےسر پر تاج رکھ دیا گیا۔ اسی لیے نجاشی نے کہاتھا کہ: ’’اللہ نے جب میر ی حکومت مجھے دلوائی تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کے متعلق رشوت لوں۔ لوگ میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے تھے اللہ نے نہ چاہا پھر میں کیوں اللہ کے متعلق لوگوںکی بات بے سوچے سمجھے مان لوں‘‘ (ابن ہشام، سیرۃ النبی ﷺکامل)

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ   ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (اٰل عمران: 26)

’’یوں عرض کر، اے اللہ ! ملک کے مالک تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے چھین لے، اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے، بیشک تو سب کچھ کرسکتا ہے‘‘

حبشہ کے عیسائی وفد کی آمد:

اصحاب رسول ﷺ کے حبشہ ہجرت کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ جو شخص اسلام قبوک کر کے جہاں جاتا، وہاں لوگ اس کے کردار و اخلاق سے متاثر ہوکر اس کے مزید قریب آتے اور انہیں اس کے دین کے متعلق تجسس ہونے لگتا۔ چنانچہ ایسے ہی افراد کا ایک وفد نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا۔

محمد بن اسحاق کے حوالے سے ابن ہشام اور بیہقی وغیرہ روایت کرتے ہیںکہ: ’’ہجرت حبشہ کے بعد جب نبیﷺ کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبشہ کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے بیس کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق کے لیے مکہ مکرمہ آکر نبی ﷺ سے مسجد حرام ملا۔ یہ ماجرادیکھ کر قریش کے بہت سے لوگ بھی گرد وپیش میںکھڑے ہوگئے۔ وفد کےلوگوں نے نبی مکرمﷺ سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ ﷺ نے جواب دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے تلاوت فرمائیں۔ قرآن سن کر ان لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور نبی مکرم ﷺ پر ایمان لائے۔ جب مجلس بر خاست ہوئی تو ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جالیا اور انہیں سخت ملامت کی کہ بڑے نامراد ہو تم لوگ ، ہمارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھجا تھاکہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرکے آؤاور انہیں ٹھیک ٹھیک خبر دو مگرتم بھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑکر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ کبھی ہماری نظرسے نہیں گزرا۔

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ سلام ہے بھائیوتم پر ۔ ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کرسکتے ۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے ‘‘(ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، اردو)

اس واقعے کا ذکر سورۃ قصص میں یوں آیا ہے ـ:

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ، وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ

جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں،اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ‘‘ (القصص:5253)

اس آیت کے شان نزول کے طورپر علامہ ابن کثیرسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ کی روایت نقل کرتےہیں کہ: ’’جن لوگوں کے حق میں یہ فرمایا گیا ہی یہ ستر70 بزرگ علماء تھے جو نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں نجاشی کے بھیجے ہوئے تھے ۔ نبیﷺ نے انہیں سورۃ یٰسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہوگئے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیا ت اتریں کہ : ’’یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد و مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کر کے مومن و مسلم بن جاتے ہیں‘‘ (ابن کثیر)

یہ وہ حقائق ہیں جن کے باعث دعوت اسلامی نے سمندر پار حبشہ میںاپنا اثر و نفوذ قائم کر لیا جو وقت کے ساتھ ساتھ وسعت پاتاگیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے