اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ،اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق:1-5)

’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیاپڑھو اور آپ کا رب بڑا ہی کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا‘‘
ان آیات کے بارے میں علماءکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ پہلی وحی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر غار حرامیں نازل ہوئی۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:’’یہاں اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ ان پر جو قرآن کریم بذریعہ وحی نازل ہوتاہے اس کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھاکریں۔ نیز انسان کو خبر دی ہے کہ تمام مخلوقات کا خالق وہی تنہا ہے اور اس نے انسان کو لوتھڑے یعنی ایک منجمد خون سے پیدا کیا ہے، جو چالیس دن تک رحم مادر میں نطفہ کی شکل میں رہتاہے پھر جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا بن کر رحم مادر سے چپک جاتاہے ، پھر چالیس دن کے بعد گوشت کا ایک ٹکڑا بن جاتاہے پھر یا تو امر الٰہی کے مطابق اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے یا رحم سے گوشت کے ایک ٹکڑے کی شکل میں باہر نکل جاتاہے (تیسیر الرحمٰن، لبیان القرآن۔ص1754)
ہر قوم کی تہذیب و ثقافت کی بقاء درس و تدریس اورحصول علم پر ہے ۔ قبل از اسلام بھی حصول علم اور درس و تدریس کا وجود نظر آتاہےجبکہ یہودیوں اور عیسائیوں میں حصول علم کا وجود ملتاہے۔
اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں حصول تعلیم کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ لوگ حصول علم اور پڑھنے لکھنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتے تھے۔ سوائے چند آدمیوںکے جومکہ معظمہ کے باسی تھے ، لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ رسول معظم ﷺ خود بھی امی تھےمکہ معظمہ میں تو اس کی طرف زیادہ توجہ نہ کی گئی، کیونکہ وہ پر آشوب دور تھا۔
۲ ہجری میں جنگ بدرمیں جو قیدی مسلمانوں نے بنائے تھے ان میں سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو لکھنا پڑھنا جانتےتھے، آپ ﷺنے قیدیوں کی رہائی کئے لیے یہ شرط بھی رکھی کہ:
’’جو قیدی لکھناپڑھنا جانتے ہیں وہ ہمارے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں اور رہائی پائیں‘‘
علم کی عظمت و فضیلت:
حصول علم ایک عظیم نعمت ہے، بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے ، لیکن تعلیم کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں بے علم آدمی کا معاشرےمیں کوئی مرتبہ و مقام نہیں بے علم آدمی کو معاشرے میں اندھا تصور کیا جاتاہے، سیدنا آدم علیہ السلام کا پہلا شرف علم ہی تھا، جس کی وجہ سے فرشتوں پر بر تری حاصل کی تھی۔

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَةِفَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ،قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَااِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ
(البقرۃ:31،32)

’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ، ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے‘‘
اسلام میں حصول علم کے لئے بہت تاکید کی گئی ہے اور رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ

’’علم کی تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘( ابن ماجه (1/ 81)
اس حدیث مبارکہ کی شرح میں مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مسلم وہ شخص ہے جس نے دین اسلام قبول کیا اور طےکیا کہ میں اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مطابق زندگی گزارونگا اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرے اس لیے ہر مسلم پر فرض ہے کہ وہ بقدر ضرورت اسلام کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرے ، اس ہدایت کا یہی مدعی اور پیغام ہے اورحدیث کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کو اسلامی زندگی گزارنے کے لیے جتنے علم کی ضرورت ہے اس کا حاصل کرنا ضروری ہے‘‘ (معارف الحدیث7/35)
آپ ﷺ نےان پڑھ قوم میں تحریک پیدافرمائی میاں محمد جمیل حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ: ’’آپﷺ نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی اور ان پڑھ قوم میں وہ تحریک پیدا فرمائی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک شخص بھی ایسانہ تھا جواپنے بنیادی فرائض سے غافل اور ناواقف ہو، بے شک علوم میں سب سے اعلیٰ اور دنیا و آخرت میں مفید ترین علم قرآن وسنت کا علم ہے لیکن قرآن و حدیث میں ہر اس علم کی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اس لیے آپ ﷺ علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کرتے تھے‘‘

{رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا } [طه: 114]

’’اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘
اور امت کو ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو قرآن و سنت کا ایک فرمان بھی یاد ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے ، گویا قیامت تک یہ طریقہ جاری رہےہر روز اسی طرح دیے سے دیا جلتا رہنا چاہیے۔ (فہم الحدیث1/72)
اسی طرح علمی حلقوں میں یہ مقولہ مشہور ہے۔
’’اطلبوا العلم ولوکان بالصین‘‘
(علم حاصل کرو خواہ تمہیں اس کے لیے چین جانا پڑے)
نوٹ: ’’مندرجہ بالاالفاظ حدیث کے نہیں ہیں اور نہ ان الفاظ کو حدیث کہا جائے جیساکہ اکثر لوگ اس مقولے کع حدیث سمجھتے ہیں‘‘
مزید تاکید:
اسلام میں دینی علوم کے تحصیل پر بہت زور دیا گیا ہے اور ارشاد الٰہی ہے۔

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ (التوبۃ122)

’’سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں ‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی فرماتے ہیں : ’’جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے جائیں و جہاد کی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحبت سے علمی فائدہ اٹھائیں قرآن وسنت کا علم حاصل کرتے رہیں اور جب اپنی اپنی بستیوںاور شہروں میں واپس پہنچیں تو جو کچھ اس سفر میں رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے باقی ماندہ لوگوں کو سکھائیں‘‘ (تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن ص:598)
فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ: ’’ایک گروہ پیچھے رہے جو دین کا علم حاصل کرے اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انھیں احکام دین سے آگاہ کرکے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان ، اس کی ترغیب اور طریقے کی وضاحت کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے سے کچھ لوگ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر چھوڑدیں اور مدارس و مراکز علم میں جاکر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ و نصیحت کریں دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامر ونواہی کا علم حاصل کرنا تاکہ اوامر الٰہی کو بجالاسکے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے‘‘(احسن البیان،ص:556)
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً (مسند أحمد مخرجا (11/ 25)
’’میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو چاہے ایک ہی آیت ہو‘‘

لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ (سنن ابن ماجه (1/ 85)

’’جو لوگ اس وقت موجود ہیں وہ ان لوگوں تک ان احکام کو پہنچادیں جوموجود نہیں ہیں‘‘
دین اسلام کی عمومی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازمی ہےاور جو لوگ دین اسلام کا علم رکھتے ہیں ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو دین اسلام کے احکامات سے روشناس کرائیں جو دین سے نا واقف ہیں ۔
رسول اللہ ـﷺ نے علم دین سیکھنے اور سکھانے والوں کو خوشخبری دی ہے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ۔
’’جو بندہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلے گااللہ تعالی اس کے عوض اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلائے گااور (آپﷺ نے فرمایا) اللہ تعالی کے فرشتے طالبان علم کے لیےاظہار (اور اکرام و احترام) کے طور پر اپنے بازو جھکالیتے ہیں اور (فرمایا کہ) علم دین کے حامل کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات اللہ تعالی سے مغفرت کی استدعا کرتی ہیں، یہاں تک کہ دریا کے پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی اور (آپ ﷺ نے فرمایا) عبادت گزاروں کے مقابلے میں حاملین علم کو ایسی بر تری حاصل ہے کہ جیسے کہ چودہویں رات کے چاندکو آسمان کے باقی ستاروں پر اور (یہ بھی فرمایا) علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام نے دیناروں اور درہموں کا ترکہ نہیں چھوڑابلکہ انہوں نے اپنے ترکے اور ورثےمیںصرف علم چھوڑا ہے۔ توجس نے اس کو حاصل کر لیااس نے بہت بڑی کامیابی اور خوش بختی حاصل کرلی۔
(مسند احمد، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی بروایت سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ، معارف الحدیث8/40)
فی الواقع انبیاء علیہم السلام کی میراث ان کا علم ہی ہوتاہے جو وہ بندوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی کی طرف ملا ہوتا ہے ۔ امام طبرانی نے معجم میں نقل کیا ہے کہ ایک دن سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بازار کی طرف گزرے لوگ اپنے کاروبار میں مشغول تھے ، آپ نے ان سے فرمایاکہ: تم لوگوں کو کیاہوگیا ہے ؟ تم یہاں بیٹھے ہواور مسجدمیں رسول اللہ ﷺ کی میراث تقسیم ہورہی ہے‘‘ لوگ مسجد کی طرف دوڑےاور واپس آکر کہا وہاں تو کچھ نہیں بٹ رہا۔ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں کچھ لوگ حلال و حرام کے شرعی احکام و مسائل کی باتیں کر رہے ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ نے فرمایا یہی تو رسول اللہ ﷺ کی میراث اور آپ ﷺ کا ترکہ ہے ‘‘ (مجمع الفوئد1/37، معارف الحدیث8/40)

عہد فاروقی میں مذہب کی تعلیم و تلقین:

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد حکومت میں تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ توجہ کی علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیںکہ: ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اگرچہ تعلیم کو بہت زیادہ ترقی دی تھی تمام ممالک مفتوحہ میں ابتدائی مکاتب قائم کیے تھے، قرآن مجید، اخلاقی شعار اور امثال عرب کی تعلیم ہوتی تھی بڑے بڑے علمائے صحابہ کو اضلاع میں حدیث و فقہ کی تعلیم کے لیے مامور کیے تھے مدرسین اور متعلمین کی تنخواہیں بھی مقرر کیںتھیں‘‘ (الفاروق2/109 مطبوعہ اعظم گڑھ)
اس کے آگے علامہ شبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میںپانچ بزرگ تھے جنہوں نے قرآن مجید کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہی پورا حفظ کرلیا تھا‘‘
1-معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
2-عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
3-ابی بن کعبرضی اللہ عنہ
4-ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
5-ابو الدرداءرضی اللہ عنہ
ان میں خاص کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سید القراء تھے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو بلاکر کہاکہ:
’’شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جاکر قرآن کی تعلیم دیجیے‘‘ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ضعیف اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیمار تھےاس لیے جانہ سکے ۔ باقی تین صحابہ نے خوشی سے منظور کیا۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ہدایت کی کہ پہلے حمص کو جائیں وہاں کچھ دنوں قیام کرکے جب تعلیم پھیل جائےتو ایک شخص کو وہیں چھوڑ کر باقی دو میں سے ایک صاحب دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائے، چنانچہ پہلے یہ لوگ حمص گئےوہاں جب اچھی طرح بندوبست ہوگیا تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے وہیں قیام کیا اور ابو الدرداءرضی اللہ عنہ دمشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فلسطین کو روانہ ہوئے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ طاعون عمواس میں وفات پائی لیکن ابو الدرداءرضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی آخری خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے (الفاروق2/118،119مطبوعہ اعظم گڑھ)
مفتوحہ ممالک میں علوم دینیہ کی نشر واشاعت:
جب اسلام کا پرچم دوسرے ممالک پر لہرانے لگا تو ان ممالک کے میں بھی علوم دینیہ کی اشاعت کی طرف حکمرانوں نے توجہ کی اور قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام کیا مولانا عزیز الرحمٰن سلفی مدرس جامعہ سلفیہ بنارس لکھتے ہیں کہ: ’’جب مسلمان عرب سے نکلےتو ان کے ایک ہاتھ میں فتح و نصرت کا پر چم اور دوسرے ہاتھ میںعلم و فن کی روشنی جو ملک بھی ان کے زیر نگیں آتا وہاں انہوں نے فضل و کمال کی بزم سجائی۔ وہ عرب کی سر زمیں سے نکلے اور دنیا کے جنوب و شمال اور مشرق ومغرب میں پھیل گئےان کی کوشش ساری دنیا کے لیے مبارک تھی ، جہاں وہ پہنچے وہاں کی زمین و آسمان کو انہوں نے بدل ڈالا، اندلس کی سر زمین میں تہذیب و تمدن کی ایسی روشنی پھیلائی کہ ظلمت کدہ روشن ہوگیامصر طرابلس، الجزائر ، مراکش اور قیروان کے افریقی وحشیوں کو تعلیم دے کر فضل و کمال کی معراج تک پہنچادیا۔ ایران کو مشرقی علوم کا سرچشمہ بنادیا اندلس کا اسلامی تمدن ایران میں شیراز اور بغداد کی اسلامی درسگاہیں آ ج تک ان کی قومی تاریخ کے زریں کا رنامے ہیں اور ابد الآباد رہیں گے‘‘
(جماعت اہلحدیث کی تدریسی خدمات ، ص:4 مطبوعہ بنارس)
بر صغیرمیں علوم اسلامیہ کی اشاعت:
عرب مسلمان جہاں بھی گئے وہاں اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی روشنی پھیلی ، بر صغیر میں بھی جب عرب مسلمان پہنچے تو انہوں نے بت پرست ہندوستان کو توحید پرستی کی طرف مائل کیا اور دینی علوم و فنون کی اشاعت کی۔ محمد بن قاسم جب ہندوستان آئے پھر انہوں نے فتح کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم کے مراکز بھی قائم کئے۔
(فتوح البلدان ،ص242/243)
اس کے بعد اسلامی علو م کی اشاعت میں اضافہ ہونا شروع ہواسلطان محمود غزنوی اور سلطان محمد غوری نے بھی ہندوستان کا رخ کیااور یہاں اسلامی جھنڈا لہرایا تو انہوں نے بھی دین اسلام کی اشاعت کی اور اسلامی و دینی مدارس قائم کیے۔
محمد قاسم تاریخ فرشتہ میں لکھتاہے کہ : ’’سلطان محمد غوری نے اجمیر میں متعددمدرسے قائم کیے شمس الدین التمش نے مدرسہ معزکے نام سے دہلی و بدایوں میں مدرسہ قائم کیا تھا التمش کے بیٹے ناصر الدنیاوالدین نے مدرسہ ناصریہ قائم کیا تھا‘‘یہ تعلیمی سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا رہااور ہندوستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے دینی مدارس اور علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا۔
12ویں ہجری کے آغاز میں برصغیر میں قرآن و حدیث کی اشاعت و تدریس کا زور بڑھناشروع ہوامولانا محمد فاخر الٰہ آبادی(1121ھ تا1164ھ)نے کتاب و سنت کی اشاعت میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔
دہلی میں مولانا شاہ عبدالرحیم دہلوی(م 1131ھ) نے قرآن وحدیث کو عام کیا ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزند ارجمند حکیم الدین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ) نصف صدی تک اپنے آبائی مدرسہ رحیمیہ میں قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کیں اور تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف کے ذریعے بھی قرآن وحدیث کی خد مت کی ، قرآن مجید کا ترجمہ فارسی زبان میں بنام ’’فتح الرحمٰن‘‘کیا اور حدیث کی پہلی کتاب موطاء امام مالک کی دو شر حیں ’’المسویٰ‘‘ (عربی) اور ’’المصفیٰ‘‘ (فارسی) تالیف کیں۔
حکیم الدین شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادگان عالی مقام
مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی (م1239ھ)
مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی (م1227ھ)
مولانا شاہ عبد القادر دہلوی (م1230ھ)
مولاناشاہ عبدالغنی دہلوی (م1227ھ)
اور پھر مولانا شاہ اسمٰعیل شہید (ش1246ھ)
نے قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادگان میں سب سے آخر میں مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے 1229ھ میں رحلت فرمائی ان کی خدمات دینیہ محتاج بیاں نہیں ان کے انتقال لے بعد ان کے نواسے حضرت مولانا محمد اسحاق دہلوی (م1262ھ) خاندان شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشیں ہوئےان کی خدمات کا بھی احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالی نے ان کے درس میں خیر وبرکت عطا فرمائی تھی بڑے بڑے جلیل القدر اور اجلاء علماء اور صاحب درس و تد ریس وتصنیف وتالیف پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن وحدیث کی خد مت میں وہ حصہ لیا جس کا تذکرہ ان شاء اللہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔
حضرت میاں کے کے تلامذہ نے پورے ملک میں پھیل کر قرآن وحدیث کی تعلیم کو عام کیا اور تصنیف و تالیف میں و ہ شاندار خدمات انجام دیں۔
جسے رہتی دنیا تک مسلمان بجا طور پر اپنا قیمتی اثاثہ سمجھیںگے۔
یہ سینکڑوں علماء تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں قرآن وسنت کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کردی تھیں اور شرک و بدعت کی تردید اور ادیان باطلہ کا قلع قمع کرنے میں گزاردیں اگر میاں صاحب رحمہ اللہ کے تمام تلامذہ کا ذکر کیا جائےتو مقالہ کے طویل ہونے کے پیش نظر شائع نہ ہوپائے۔
—–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے