سوال :کیا ضرورت کے تحت ایک شخص کا خون دوسرے کے جسم میں داخل کیا جا سکتا ہے ، اور اس کا شرعی حکم کیاہے؟

جواب : صورت مسئولہ جائز ہونے کے لیے تین شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔

1-جس شخص کو خون دیا جارہاہے اس کی صحت کا انحصار خون کی منتقلی پر ہو ۔

2-جس سے خون منتقل کیا جارہاہے اس کی صحت اسسے متاثر ہونے کا خدشہ نہ ہو۔

3-خون کی ضرورت کے بارے میں خبر دینے والا مسلمان باصلاحیت اور ماہر معالج ہو اور اگر مسلمان ڈاکٹر میسر نہ ہو تو غیر مسلم ڈاکٹر کی بات بھی تسلیم کی جاسکتی ہے اگر وہ اپنے فن میں مہارت کی شہرت رکھتاہو۔

پہلی شرط کی دلیل :

یہ ہے کہ ، اصل میں خون حرام ہے خواہ پیا یا پلایا جائےیا ڈرپ وغیرہ کے ذریعے جسم میں منتقل کیا جائے، جیساکہ ارشاد باری ہے:

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ:173)

’’اس نے تو صرف تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیراللہ کے نام سے مشہور کردی جائے ۔ پھر جو شخص ایسی چیز کھانے پر مجبور ہوجائے درآنحالیکہ وہ نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ کھانے والا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘

اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کسی بیماری یا زخم کی شفا کا انحصار اس بات پر ہوکہ خون منتقل نہ ہونے کی صورت میں مریض کی جان جانے کا خدشہ ہے تو ایسی صورت میں ایک شرعی قاعدے کےتحت حرام اشیاء سے جان بچائی جاسکتی ہے وہ قاعدہ یہ ہے ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ ’’ضرورت میں ممنوع اشیاء مباح ہوجاتی ہیں‘‘ تو لہٰذا اس صورت میں ایک سے دوسرے شخص کےجسم میں خون منتقل کیا جاسکتاہے۔

کہ شریعت مطہرہ میں کسی شخص کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اگر کسی شخص کو اس کے جسم سے خون نکالے جانے کی وجہ سے نقصان یا ضرر پہنچے اور کوئی مرض لاحق ہوجائے اور اس کی زندگی خطرے میں پڑجائے تو ایسی صورت میں اس سے خون نہ لیا جائے کیونکہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کسی کی زندگی بچانے کےلیے کسی اور کی جان کیخطرے میں ڈالی جائے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : ’’لاضررولاضرار‘‘ یعنی نہ خود نقصان اٹھا ئے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے۔

دوسری شرط کی دلیل:

اللہ تعالی نے ہر انسان کو اپنی جان کی حفاظت کرنے کاحکم دیا ہے اور اسے ہلاکت و بربادی میں ڈالنے سے روکا ہے ، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرۃ:195)

’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ‘‘

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ (النساء: 29)

’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو‘‘

مندرجہ بالانصوص سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کسی کو خون دینےکی وجہ سے خون دینے والے شخص کو کوئی نقصاننہ ہو یا معمولی نقصان ہو تو وہ خون دے سکتا ہے۔

تیسری شرط کی دلیل:

خون کی ضرورت ہونے کی خبر دینے والاشخص مسلمان ڈاکٹر ہو اگر مسلمان میسر نہ ہو بااعتماد غیر مسلم کا بھی اعتبار کیا جاسکتاہےجیسا کہ حدیث میں آتاہے:

’’رسول اللہ ﷺ نے ھجرت کے موقع پر ایک مشرک آدمی کو اجرت دیکر راستے کی راہنمائی کے لیے ساتھ لیا‘‘

واستأجر النبي ﷺوأبو بكر رجلا من بني الديل ثم من بني عبد بن عدي هاديا خريتا الخريت الماهر بالهداية قد غمس يمين حلف في آل العاص بن وائل وهو على دين كفار قريش (بخاری باب استئجار المشركين عند الضرورة ، أو إذا ..)

امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب بدائع الفوائد میںلکھتے ہیں :

في استئجار النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أريقط الدؤلي هاديا في وقت الهجرة وهو كافر دليل على جواز الرجوع إلى الكافر في الطب والكحل والأدوية والكتابة والحساب والعيوب ونحوها ما لم يكن ولاية تتضمن عدالة ولا يلزم من مجرد كونه كافرا أن لا يوثق به في شيء أصلا فإنه لا شيء أخطر من الدلالة في الطريق ولا سيما في مثل طريق الهجرة

یعنی رسول اللہ ﷺ کا عبداللہ بن ارتقط الدیل کو ھجرت کے وقت گائیڈ (راہ دکھانے والا) بنانا حالانکہ وہ کافر تھا اس بات کی دلیل ہے کہ طبی معاملات ، سرمہ اور دواؤں ، حساب وکتاب اور اس جیسے دوسرے معاملات میں کافر کی طرف رجوع کرنا جائز ہے جب تک ان معاملات میں عدالت پر مشتمل ولایت نہ ہو اور ایک شخص کا صر ف کافر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر کس چیز میں کلی طور پر بھروسہ نہ کیا جائے ، کیونکہ گائیڈ (راہ دکھانے والا) کے کام سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ خطر ہ سے خالی نہیں اور خصوصاً ہجرت کے راستے کی راہنمائی ‘‘

اور علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ اپنی کتاب الآداب الشریعہ میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’جب کوئی یہودی یا نصرانی میڈیکل میں ماہر ہو، لوگوں کے ہاں ثقہ (بااعتماد) ہوتو (مسلمان مریض کا) اس سے علاج کروایا جاسکتا ہے جس طرح اس کے لیے اپنا مال بطور امانت اس کے پاس رکھنا اور اس سے دنیاوی معاملات کرنا جائز ہیں ‘‘

(واللہ اعلم بالصواب)

سب سے پہلے توحید۔

حافظ شبیر صدیق

توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کیا تو عالم ارواح میں ان سے جو عہد لیا وہ توحید پر مبنی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے مخاطب ہوکر یہ سوال پوچھا تھا:

اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَہِدْنَا

’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔‘‘ (الاعراف:172)

جس طرح انسان کی ابتداء توحید سے ہے اسی طرح اس کی انتہابھی توحید پر ہوگی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ: اللہُ، اللہُ

’’ جب تک ایک شخص بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پکارنے والا ہوگا یہ دنیا قائم رہےگی۔‘‘ (صحیح مسلم:148)

یعنی جب تک ایک فرد بھی توحید پر قائم رہے گا دنیا قائم رہے گی اور جیسے ہی اہل توحید کا خاتمہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس دنیا کو بھی ختم کر دے گا یہ توحید کی اہمیت ہے کہ انسان کی ابتداء بھی توحید سے ہے اور انتہا بھی توحید پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی تمام زندگی میں توحید کا پرچار کیا ہے کوئی خوشی کا موقع ہو یا غمی کا ، عام حالات ہوں یا جنگ کے حالات ، آپ ﷺ نے ہر موقع پر توحید کو مقدم رکھا۔ رسول اللہ ﷺ شادی کی ایک تقریب میں تشریف لے گئے وہاں کچھ بچیاں غزوۂ بدر کے شہداء کی مدح میں گیت گارہی تھیں

۔ رسول اللہﷺ جب تشریف لائے تو ایک بچی نے رسول اللہ ﷺ کی مدح میں ایک شعر پڑھا ۔

وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدِ

’’ہمارے درمیان ایک ایسا نبی موجود ہے جو آنے والے کل کی خبریں بھی جانتا ہے۔‘‘

یہ ایک ایسا جملہ تھا جس سے عقیدۂ توحید پر چوٹ پڑ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے کسی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر ان بچیوں کو یہ شعر پڑھنے سے منع کیا اور فرمایا :

’’ جو اشعار تم پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔‘‘ (صحیح البخاری:4001)

ہمارے ہاں اگر کوئی شخص خوشی کے کسی موقع پر منہیات سے منع کرے تو اسے فوراً یہ طعنہ دیا جاتاہے : اس نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔‘‘ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع پر بھی اسے دین ہی کی پڑی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے توحید کی اہمیت کے پیش نظر ایسے کسی طعنے کی پروا کیے بغیر ان بچیوں کی اصلاح کی اورعقیدۂ توحید کو واضح کیا۔

رسول اللہ ﷺ کا بیٹا ابراہیم رضی اللہ عنہ جب فوت ہوا تو آپ ﷺ بہت زیادہ پریشان تھے۔ آپ اس قدر غمگین تھے کہ بیٹے کی جدائی پر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جس دن ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اسی دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ اسلام سے قبل لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ سورج یا چاند کو گرہن کسی بڑی شخصیت کے فوت ہونے پر یا پیدا ہونے پر لگتاہے۔ یہی نظریہ اور تصور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی گردش کرنے لگا جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فوری طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور ایک عظیم الشان خطاب ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللہِ، وَإِنَّہُمَا لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ

’’ لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں یہ کسی شخصیت کے فوت ہونے یا پیدا ہونے پر بے نور نہیں ہوتے۔ ان کو تو اللہ تعالیٰ بے نور کرتا ہے تاکہ بندوں کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف پیدا ہو، اس لیے جب کبھی ایسا معاملہ ہو تو تم فوراً اللہ کی بارگاہ میں نماز کی ادائیگی کے لیے جمع ہوجایا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم : 904)

اللہ کے پیغمبر ﷺ کے بیٹے کی وفات کا موقع ایسا تھا کہ آپ بہت زیادہ پریشان اور غمگین تھے مگر عقیدۂ توحید کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اپنی پریشانی کو ایک طرف رکھا اور فوراً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اصلاح کی۔

وفات سے قبل رسول اللہ ﷺ کو شدید قسم کا بخار ہے۔ بخار کی وجہ سے آپ ﷺ کا جسم مبارک اس قدر گرم ہے کہ آپ نے جو رضائی اوڑھی ہوئی ہے اس کے اوپر سے بخار کی شدت محسوس ہورہی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے پیغمبر ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ایسی تکلیف دہ کیفیت میں بھی آپ ﷺ اپنی امت کو توحید کا درس دیتے ہیں۔ فرمایا

لَعَنَ اللَّہُ اليَہُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدًا

’’یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت برسے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ (صحیح البخاری: 1390)

چونکہ نبی اکرمﷺ کی وفات کا وقت قریب تھا اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو توحید کا سبق دیا کہ کہیں تم ایسا جرم نہ کر بیٹھنا کہ تم پر بھی اللہ کی لعنت برسنا شروع ہوجائے۔

ذیل میں ہم مختلف پہلوؤں سے توحید کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

ہر نبی کی اصل دعوت توحید

ہر نبی کی دعوت کی اساس عقیدۂ توحید رہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَسْـَٔــلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِہَةً يُّعْبَدُوْنَ

’’(اے نبی) جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان میں سے کسی سے بھی آپ سوال کریں کہ کیا ہم نے کسی ایک کے لیے بھی رحمان کے علاوہ کوئی اور الٰہ بنایا تھا کہ جس کی عبادت کی جاتی۔‘‘ ( الزخرف:45)

اس سوالیہ انداز میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر نبی کی دعوت کی اساس توحید رہا ہی اس سے عقیدہ توحید کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔

توحید ہی گناہوں کی بخشش کی بنیاد ہے

قیامت کے دن جنت اور جہنم کا فیصلہ توحید کی بنیاد پر ہوگا جس کا عقیدۂ توحید صحیح ہوگا اگرچہ گناہوں کے انبار ہوں وہ آخر کار جنت میں ضرور جائے گا اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے گناہوں سے پاک صاف کرکے جنت میں داخل کر دے گا بصورت دیگر اسے گناہوں کی سزا دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا لیکن وہ شخص کہ جس کے عقیدۂ توحید میں شرک کی ملاوٹ بھی ہوئی اس کی چاہے جتنی بھی نیکیاں ہوئیں اس کے بارے ہمیشہ کے لیے جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ

’’ بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔(النساء:48)

اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتاہے :

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْکَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَکْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ

’’ اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔‘‘(الزمر:65)

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اہل توحید کا حق

قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے بعض گناہ گاروں کے لیےشفاعت کریں گے ۔ آپ ﷺ کی شفاعت کی بدولت انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا البتہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اہل توحید ہیں۔ شرک کا ارتکاب کرنے والے اس شفاعت سے محروم رہیںگے۔

عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّہُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّہِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ فَقَالَ: أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، خَالِصًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن کن لوگوں کو آپ کی شفاعت نصیب ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت اسے نصیب ہوگی جو خلوصِ دل سے لا الہ الا اللہ پڑھے گا۔(صحیح البخاری:6570)

یعنی جو شخص لا الہ الا اللہ پڑھنے کے بعد اس کے تقاضوں کو پورا کرے گا ، توحید میں پختہ ہوگا اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اسے شفاعت نصیب ہوگی اس سے عقیدۂ توحید کی اہمیت عیاں ہوتی ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مرکز ومحور توحید

تمام انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ تمام قسم کی عبادات میں سرفہرست توحید ہے۔ توحید کے بغیر عبادت نامکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد ﷺ سے باقاعدہ اس کا اعلان کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

’’ کہہ دے! بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے ۔‘‘( الانعام : 162)

یعنی تمام قسم کی عبادت ، مرنا اور جینا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی اس کے لائق نہیں ہے۔

توحید ہی ہدفِ جہاد ہے

اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ جیسا عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاد میں آدمی کو اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑا عظیم عمل ہے لیکن جہاد اسی آدمی کا معتبر ہے جو توحید کے قیام کے لیے کرتاہے اگر اس میں کوئی اور مقاصد ہوں تو یہ ایک عظیم عمل بے کار ہوکر رہ جاتاہے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللَّہِ ہِيَ العُلْيَا، فَہُوَ فِي سَبِيلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ

’’جوشخص صرف اس لیے قتال کرتاہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے تو حقیقت میں وہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ۔‘‘ ( صحیح البخاری : 123)

یعنی جو صرف اللہ کی توحید کی خاطر جہاد کرتا ہے فقط اسے ہی حقیقی مجاہد گردانا جائے گا۔

محترم قارئین ! دین اسلام میں عقیدۂ توحید کی اہمیت مسلّم ہے۔ اس پر بے شمار دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ البتہ ہمارا جو مقصود تھا وہ مذکورہ دلائل سے پورا ہوجاتاہے، اس لیے ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ آئندہ شمارے میں توحید کی اقسام اور دیگر لوازمات کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے