عصر حاضر میں جوں جوں انسان زندگی کے زینے چڑھتا جارہاہے توں توں شریعت کے قواعد وضوابط سے انجان، قرآن وسنت کی تعلیم سے ناآشنا ہوتا ہی جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اخلاق وسلوک کے بلند منزل سےگرکر شدید پستی کا شکار ہورہے ہیں ۔ آداب الٰہی کو تو پس پشت ڈال دیا ہے۔ جس کا حال کسی صاحب بصیرت پر مخفی نہیں کہ آداب الٰہی کو بے ادبی میں بدل دیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں،چوراہوں،گاڑیوں وغیرہ میں ہماری ہی مائیں بہنیں،بہو،بیٹیاں ایسے چست وتنگ لباس میں ملبوس ہوتی ہیں کہ لباس پہنے ہوئے بھی لباس سے عاری ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کی آنکھ بھی شرم وحیا سے جھک جائے ان کا یہ زیب وزینت، خوشبو سے معطر ہوکر نکلنا خالق ارض وسماء کے غصے کو دعوت دینا ہے۔ ایسے ہی جب قبرستان جائیں تو شرک وبدعت کی بھرمار ہی نظر آتی ہے تجارتی مراکز،بینک وغیرہ کی طرف نظر دوڑائیں تو سود کی غلاظت ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ یونیورسٹی اور کالجز کی طرف جائیں تو طلباء وطالبات کا مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ گھروں کی طرف دیکھیں تو غیر محرم تصاویر ٹی وی جن پر نشر ہونے والی حیا شوز فلمیں، بے حیائی پر مبنی ڈارمے وغیرہ نے بچے اور بچیوں کے اخلاق کو بری طرح بھسم کردیا ہے۔ہماری کاروباری منڈیاں،بازار وغیرہ رب ذوالجلال والاکرام کی مخالفت سے بھرے ہوئے ہیں۔

یہ جملہ امور اس بات پردلالت کناں ہیں کہ آج لوگوں نے آداب الٰہی کو بے ادبی میں بدل دیا ہے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ خالق کائنات کے آداب کو بجا لائیں اس حی وقیوم کا ادب کریں ۔

انسان زندگی کے ہر لمحہ میں نفس کو مراقب الٰہی کے ساتھ لازم کر دے۔ یہاں تک کہ یہ یقین محکم حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر حال سے باخبر ہے ، اس کے اعمال کارقیب اور اس کے دل کے بھید کا عالم ہے۔اس موقع پر سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ایک عمدہ قول ہے کہ اس اس ذات کے مراقبہ کو لازم پکڑو جس سے تمہاری کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے ساتھ امیدیں وابستہ رکھو جو ان کو پورا کرنے کا مالک ہے اور اس سے خوف کھاؤ جو عذاب دینے پر قادر ہے۔ (احیاء علوم الدین ، مواعظ الامام سفیان ثوری)

لفظ مراقبہ نے آپ کو ضرور چونکا دیا ہوگا، عزیزم اس سے مراد صوفیوں کی اصطلاح مراد نہیں کہ چادر منہ پر ڈال کر پڑے رہو بلکہ مراقبہ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے تیرا کوئی بھی معاملہ اس پر مخفی نہیں۔

چنانچہ عبد اللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی معیت میں مکہ مکرمہ کی جانب رواں دواں تھے کہ رات کے وقت ایک جگہ پڑاؤ ڈالا ایک چرواہا پہاڑ سے اتر کر ہماری طرف آیا ۔ عبد اللہ بن عمربطورامتحان اس سے فرمانے لگے ’’ اے چرواہے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں فروخت کردو؟ اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں ایک غلام ہوں میں کیسے دے سکتاہوں تو عبد اللہ بن عمر فرمانے لگے اپنے مالک سے کہنا کہ اس بکری کو بھیڑیا کھا گیا ‘‘ اس پر فوراً وہ چرواہا کہنے لگا کہ اگر یہ بات میں نے اپنے مالک سے کہہ بھی دی اور وہ میری اس بات کی تصدیق بھی کرلے تو یہ بتاؤ کہ پھر اللہ تعالیٰ کہاںہے؟ کیا وہ مجھے نہیں دیکھ رہا؟ میں اللہ کو کیا جواب دوں گا؟۔ یہ بات سن کر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رونے لگے پھر اس چرواہے کے مالک سے وہ ساری بکریاں اور اس غلام کو بھی خریدا اس کے بعد اس غلام کو آزاد کر دیا ساتھ میں وہ بکریاں بھی اس کے حوالے کردیں۔(سیر اعلام النبلاء)

اپنے سر اور اس کے ساتھ جڑی ہر چیز (آنکھ، کان، زبان) کی حفاظت کرنی ہے، اسی طرح پیٹ اور اس سے جڑی ہرچیز(ہاتھ،پاؤں، دل، شرمگاہ وغیرہ) کو ہر قسم کی نافرمانی سے محفوظ رکھنا ہے۔

سچ فرمایا ، حبیب کبریاء ﷺ نے جب آپ ﷺ یہ موتی بکھیر رہے تھے کہ

أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ

‘‘ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہوہاں اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (مسلم)

ذیل میں ہم کچھ آداب کا ذکر کریں گے۔

۱1بندہ اپنے خالق کا ہرحال میں حیاء کرے ۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ

اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ مَنِ اسْتَحْيَى مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتُ وَالْبِلَى وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَى مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَاءِ

اللہ أحکم الحاکمین کا حیاء کرو جیسے حیاء کرنے کا حق ہے اور جس نے بھی اللہ کا حیاء کیا جیسے حیاء کرنے کا حق ہے تو اس کو چاہیے کہ اسی طرح موت اور مصائب کو بھی یادرکھے اور جو آخرت خوگر ہوتاہے وہ دنیا کی زیب وزینت کا تارک ہوتاہے، جس نے بھی یہ کیا گویا کہ اس نے اللہ تعالی کاکماحقہ حیاء کیا۔ (صحیح الجامع :935)

ایک اور ارشاد نبوی ﷺ ہے :

أُوصِيكَ أَنْ تَسْتَحِيَ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، كَمَا تَسْتَحِي مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مِنْ قَوْمِكَ

’’ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیاء اختیار کرو جس طرح اپنی قوم کے کسی نیک صالح آدمی سے کرتے ہو۔(صحیح الجامع : 2541)

آپ ﷺ نے مزید فرمایا کہ

ما كرهت أن يراه الناس فلا تفعله إذا خلوت

’’ جس کام کو تو لوگوں کی جلوت میں ناپسند سمجھتا ہے تو اس کو خلوت میں بھی چھوڑ دے۔(السلسلۃ الصحیحۃ :1055)

2 انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھے کہ اس کریم کے کتنے کرم، احسان، فضل اور نعمتوں کی اس پر برکھا ہے، جن کو چکانا تو دور کی بات صرف شمار کرنا بھی ناممکن ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا(النحل : 18)

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔

ہر چھوٹی بڑی نعمت اس رب ذو الجلال والاکرام کی دین ہے ۔

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَ(النحل:53)

تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں، اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے تو اسی کی طرف نالہ اور فریاد کرتے ہو ۔

وہی رزاق ہے جو ہمیں بے حساب وکتاب دے رہا ہے کیا ہم نے اس کی شکرگزاری کے کچھ بول بولے کیا اس کے فضل وکرم کو جانا نہیں ، سچ فرمایا ہے :

مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلہِ وَقَارً وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا (نوح:13۔14)

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے۔حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے۔

چنانچہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے تر رکھے اور اپنے اعضاء اور جوارح کو اطاعت وعبادت میں استعمال کرے۔

3 اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود، اس کے حقوق، اوامر اور نواہی کی حفاظت کرے، یعنی اس کے اوامر کو بجا لائے ، اسی کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب برتے اور کبھی حدود کو پامال کرنے کی کوشش نہ کرے۔

آپ ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ وصیت فرمائی :

يَا غُلاَمُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ بِكَلِمَاتٍ، احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ (صحیح الجامع :7957)

اے لڑکے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں وہ یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد رکھ وہ تجھے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اگر مدد طلب کرو تو صرف اسی سے مدد طلب کرو اور جان لو کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ تمہیں کسی چیز میں فائدہ پہنچائیں تو بھی وہ صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کر لیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا۔ اس لئے کہ قلم اٹھا دیئے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے۔

بندے کا اپنے رب کی حفاظت کرنے کا مطلب ہے کہ اپنے کانوں کی حفاظت کرے ایسی بات ہرگز نہ سنے جو غضب الٰہی کو دعوت دے جیسے گانا بجانا،موسیقی وغیرہ۔ اپنی آنکھ کی حفاظت کرے کہ محرمات کی طرف نہ دیکھے ، اپنے پیٹ کی حفاظت کرے کہ حرام مال کاایک لقمہ بھی اس کے پیٹ میں نہ جائے،اپنی زبان کی حفاظت کرے کہ ہر قسم کی غیبت،چغل خوری،جھوٹ،لوگوں کی عزت کو اچھالنے سے بچے۔اپنی شرمگاہ اور تمام اعضاء وجوارح کواللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کرے قبل اس کہ کہ قیامت کے دن اس پر شاھد بن جائیں۔

ارشاد خداوندی ہے :

يَوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(النور:24)

جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔

چنانچہ جب بندہ اپنے رب کی حفاظت کرتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حفاظت کرتاہے، اور یہ دو طرح سے ہے۔

1: اللہ تعالیٰ اس کی دنیاوی مصلحتوں کی حفاظت کرتاہے جسے اس کے جسم،جان ومال ، اہل وعیال کو دشمنوں کی مکاری،ظالموں کے چنگل سے اور ہر وحشی درندے وموذی جانورکے شر سے حفاظت فرمائے گا۔

2: اللہ تعالیٰ اس کے دین وایمان کی حفاظت فرمائیں گے یعنی گمراہ کن بدعات ،مردود قسم کے شبھات وشہوات سے اس کے دین کو محفوظ رکھتاہے یہاں تک کہ اس کی موت بھی اسلام پر ہوتی ہے۔

4 آداب الٰہی کا تقاضہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے سوال مت کرو اور نہ ہی کسی سے مدد کی بھیک مانگو اس جیساکہ پہلےذکر ہوا کہ (جب بھی تو سوال کر اللہ سے اور جب بھی مدد مانگ تو صرف اللہ سے) کیونکہ وہی ذات وہستی ہے جب اس سے کوئی دعا کرے تو جواب دیتاہے کوئی سوال کرے تو عطا کرتاہے ، معانی مانگے تو اسے بخش دیتاہے، جب مدد مانگے تو فوراً مساعدت کرتاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۶۲ۭ (النمل:62)

بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو ۔

اسی لیے جب بھی حاجت وضرورت کی آندھی تجھے ہلانے کی کوشش کرے توتو اس الغنی کی چوکھٹ پر آجا جس کے ہاتھ میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں۔

5 بندے کو اپنے رب کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے یہ ایک عظیم ادب ہےکسی کے لیے بھی اس میں لاپرواہی برتنا جائز نہیں۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنے اس فرمان میں یہ وصیت فرمائی کہ

لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ بِاللهِ الظَّنَّ

تم کو موت اس حال میں آئے کہ تمہارا اپنے رب پر اچھا گمان ہو۔‘‘(مسلم)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً(بخاری ومسلم)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے جماعت میں یاد کرے تو میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

6 اللہ تعالیٰ سے راضی اور اس کے ہر فیصلے کے سامنے سرخم تسلیم کرنا ، کیونکہ رب سے راضی ہونا دنیاوی جنت اور متقین کی راحت ہے۔ ذرا شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو دیکھ لیجیے جب ان کو پابند سلاسل کیا گیا تو فرماتے تھے کہ

ارے یہ دشمن لوگ میرا کیا کر سکتے ہیں ؟ کیونکہ میں تو اپنے دل کی بھار میں ہوں جہاں پر بھی ہوں میرے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ کا قرآن اور نبی ﷺ کا فرمان تو میرے سینے میں سمایا ہے۔ اگر انہوں نے مجھے قتل کر دیا تو میں شہید ہوجاؤں گا ، اگر انہوں نے مجھے جلا وطن کر دیا تو اس میں میری سیاحت ہے اور اگر انہوں نے مجھے قید کر دیا تو یہ قید خانہ اپنے رب کے ساتھ خلوت کا باعث بنے گا ۔ کیونکہ قیدی تو وہ ہے جو اپنے رب سے دور کر دیا گیا اَسیر تو وہ ہے جس کو اس کی خواہشات اور شہوات نے غلام بنا دیا ہو۔

7 کتاب اللہ کے مطابق عمل اور شریعت کے موافق فیصلہ کرنا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔(الحجرات:1)

ایک اور مقام پر فرمان الٰہی ہے :

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ (ابراہیم:1)

یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔

اس راہ سے بھٹکنا شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرنا بے ادبی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَهْدَ إِلَّا سُلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوُّهُمْ، وَمَا حَكَمُوا بِغَيْرِ مَا أَنْزَلَ اللهُ إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الْفَقْرُ، وَلَا ظَهَرَتْ فِيهِمُ الْفَاحِشَةُ إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الْمَوْتُ، وَلَا طفَّفُوا الْمِكْيَالَ إِلَّا مُنِعُوا النَّبَاتَ وَأُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَلَا مَنَعُوا الزَّكَاةَ إِلَّا حُبِسَ عَنْهُمُ الْقَطْرُ

‘‘ جب کوئی قوم عہد شکنی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر دشمنوں کو مسلط کر دیتے ہیں ، جب لوگ قانون شریعت کو چھوڑ کر فیصلہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان میں غربت وافلاس کو پھیلا دیتاہے اور جس قوم میں بے حیائی کا بازار گرم ہو تو اللہ تعالیٰ ان میں موت کے مناظر کو عام کر دیتاہے اور جب کوئی قوم ناپ وتول میں کمی بیشی کا ارتکاب کرتی ہے تو ہرے بھرے سبزے کھلیان، چلملاتے گلستان بنجر زمین اور قحط کی بجلی ان پر کڑکتی ہے ب لوگ زکاۃ کو رک لیتے ہیں تو آسمان سے بارش کی برکھا کو روک لیا جاتاہے۔ (صحیح الجامع:3240)

8 اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا اور زندگی کے ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا کائنات کی تمام مخلوق پر ترجیح دینا ۔ جس نے لوگوں کی ناراضگی مول کر اللہ کی رضا کو پالیا تو اللہ تعالیٰ لوگوں کو بھی اس سے خوش کر دیں گے جس نے اللہ کے ناراض ہونے کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کوراضی کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس پر ناراض کر دیں گے۔ اگر بندہ اپنے رب کی اطاعت وفرمانبرداری میں رہے گا تو دنیا وآخرت میں اللہ ہی اس کا کارساز ہے ،بگڑی بنانے والا، مشکل کو آسان،دشمن کو دوست بنانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے آداب کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

إنہ ولی ذلک والقادر علیہ

———

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے