سیدناابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر اُور میں پیدا ہوئے، یہ شہر شرک کا بہت بڑا مرکز تھا۔ آپ علیہ السلام کاوالد آزر اپنی قوم کا سردار تھا اور بت تراشنا اس کا ذریعہ معاش تھا۔ہر طرف بت بنانے اور بیچنے کا کاوربار ہو رہا تھا اور بتوں کی پرستش قومی مذہب کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔جب کہ وقت کا بادشاہ الگ سے خدائی کا دعویدار تھا۔اس حالتِ زار کے پیش نظرسیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃو السلام اس قوم کو دعوت دینے اور ان کی اصلاح کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔چناں چہ پہلے مرحلے پر انہوں نے قوم کی اصلاح کرنے اور انہیں نکتہ توحید سمجھانے کا پروگرام بنایا۔جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّـمَاثِيْلُ الَّتِيْٓ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَهَا عٰبِدِيْنَ (الانبیاء:53-51)

’’اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے۔ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیسی مورتیاں ہیں جن پر تم بندگی کے لیے جمے بیٹھے ہو، وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ داد کو ان کی پرستش کرتے دیکھا ہے‘‘
اس کی مزید تفصیل قرآن مجید کے ان مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے۔ (الشعراء:87تا69) (الصافات:98تا83) وغیرہ پھر اپنے والد سے بھی اس کے کاروبار اور عقیدہ و مذہب پر بات کی اور اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر بے سود۔ بلکہ باپ نے سمجھنے کی بجائے الٹا قتل کی دھمکی دے ڈالی اور گھر سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ڛ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا٭يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا٭يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا٭يٰٓاَبَتِ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَكُوْنَ لِلشَّيْطٰنِ وَلِيًّا قَالَ اَ رَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِــهَـتِيْ يٰٓاِبْرٰهِيْمُ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَـــنَّكَ وَاهْجُرْنِيْ مَلِيًّا ٭قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا (مریم:47-41)

’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں؟ابا مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا تو میرے ساتھ ہوجائیے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلادوں گا اے ابا شیطان کی پوجا نہ کریں بےشک شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ اے ابا جان ! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب آپکڑے تو آپ شیطان کے ساتھی ہو جائیں۔ اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا (ابراہیم نے) سلام علیک کہا (اور کہا کہ) میں آپ کےلئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا۔ بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے۔‘‘
بعد ازاں بادشاہ وقت (نمرود )سے بھی ملاقات کی اور واضح دلائل سے اس پر ثابت کر دیا کہ تم رب نہیں ہو، رب تو وہ ہے جس کا سورج اور چاند تاروں پر بھی حکم چلتا ہے لہذا تم اسی کی بندگی اختیار کرو۔(البقرہ:258)
جب قوم پر اللہ تعالی کی حجت قائم ہو چکی اور کسی فرد کی اصلاح کا کوئی امکان باقی نہ رہا تو اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم دے دیا۔چناں چہ آپ اللہ کے حکم سے عراق چھوڑ کرشام کے شہر حران ہجرت کر گئے پھر وہاں سے فلسطین چلے گئے۔ ایک بار اپنی بیوی سارہ کے ساتھ مصر گئے تو وہاں کے بادشاہ نے اپنی لونڈھی ہاجر قبطیہ کو سیدہ سارہ کی خدمت میں پیش کر دیا،سیدہ سارہ نے ہاجرہ کا نکاح سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کروادیا، پھر آپ مصر سے واپس فلسطین میں مقیم ہو گئے۔
86 سال کی عمر میں اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہاجرہ سے بیٹا عطا فرمایا، جس کا نام اسماعیل رکھا۔ پھر حجاز منتقل ہونے کے بعداللہ کے حکم سے ماں بیٹے کو مکہ کے ارد گرد واقع فاران کے پہاڑوں میںایک بے آباد وادی میں چھوڑ دیا،بیوی نے کہا کہ کس کے سہارے پر چھوڑ کر جارہے ہو؟جواب دیاـ؛ اللہ تعالی کے حکم پر،تو سیدہ ہاجرہ نےکہا:تب اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔پھر سیدناابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی:

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (ابراہیم:37)

’’اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد (میدان مکہ میں) جہاں کھیتی نہیں ہوتی تیرے عزت و ادب والے گھر کے پاس لا بسائی ہے، اے میرے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میووں سے روزی دے تاکہ تیرا شکر کریں ‘‘
سیدہ ہاجرہ کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ اور چند کھجوریں تھیں جب یہ غذاختم ہو گئی تو پیاس محسوس ہوئی بچہ بھی پیاس سے رونے لگا، پانی کی تلاش میں سیدہ ہاجرہ صفا پہاڑی کی طرف بھاگیں پھر مروہ پہاڑی کی طرف کہ شاید کہیں کچھ پانی مل جائے، جب مروہ پر سات چکر پورے ہوئے تو ایک آواز آئی، دیکھا تو جبریل علیہ السلام کے ایڑی مارنے سے زمین سے پانی نکل آیا جہاں سیدنااسماعیل علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اسی پانی کو زم زم (یعنی رک جا رک جا)کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سعی (یعنی کوشش)ہے جسے اللہ تعالی نے عبادت بنا دیا۔
کچھ مدت کے بعد بنو جرہم قبیلہ اس بے آباد وادی میں آکر آباد ہوا ۔

آزمائش :

سیدناابراہیم علیہ السلام کا اپنے اہل و عیال کو ایسی جگہ پہ چھوڑ دینا ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ جس پر آپ اللہ کی توفیق سے پورے اترے۔ پھر ایک دوسری آزمائش باپ بیٹے دونوں کی ہوئی، اللہ تعالی نے سیدناابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے آپ فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے جب باپ نے بیٹے کو اپنا یہ خواب سنایا (اور بیٹا سمجھ گیا کہ یہ تو اللہ کا حکم ہے) تو پوچھا کہ بیٹا غور کر کے بتانا اب تمہارا کیا ارادہ ہے بیٹے نے خوشی سے یہ جواب دیا:

قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ (الصّٰفّٰت102)

’’انہوں نے کہا کہ ’’ ابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے ، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے‘‘
باپ نے بیٹے کو منہ کے بل زمین پر لٹا لیا اور قریب تھا کہ گلے پر چھری چلادیں اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئی:

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ (الصّفّت:105)

’’تو نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں‘‘
اللہ تعالی نے جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا جسے سیدناابراہیم علیہ السلام نے ذبح کر دیااسی مبارک عمل کو ہر سال صاحب استطاعت پر فرض کر دیا گیا۔
انعام:
ان امتحانات میں کامیابی کے بعد اللہ تعالی نے ایک گھر کی تعمیر کا حکم دیا،خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ باپ بیٹایہ دعا بھی پڑھتے جاتے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ(البقرہ:127)

’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے‘‘
جب حجر اسود تک پہنچے توسیدناابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو کوئی اچھا سا پتھر لانے کے لیے کہا،لیکن اتنی دیر میں جبریل علیہ السلام یہ پتھرجنت سے لے کر آگئے جسے حجر اسود کے مقام پر نصب کر دیا گیا۔جب دیواریں کچھ اونچی ہو گئیںتو سیدنااسماعیل علیہ السلام ایک پتھر اٹھا کر لائے جس پر کھڑے ہو کر سیدناابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے رہے اسی پتھر کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے جس پر آپ علیہ السلام کے قدموں کے نشانات موجود ہیں۔
اس مقدس گھر کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالی نے سیدناابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کر دو:

وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ(الحج:27)

’’اور لوگوں میں حج کے لئے ندا کردو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو دور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں‘‘
آپ کے اس اعلان کو لوگوں تک پہنچا دیا گیا سیدنااسماعیل علیہ السلام اس گھر کے پہلے متولی بنے آپ کی وفات کے بعد قبیلہ بنو جرہم کے سردار نے یہ ذمہ داری لے لی، پھر قبیلہ بنو خزاعہ نے لڑائی کر کے بنو جرہم سے یہ منصب چھین لیا، ان حالات میں دین ابراہیمی میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیاکہ خانہ کعبہ میں بت رکھ دئیے گئے۔
بنو خزاعہ کے بعد قریش مکہ نے یہ انتظام سنبھالا۔
نبیﷺ کی بعثت سے 21 سال بعد تک یعنی 8ھ تک خانہ کعبہ شرک کا مرکز بنا رہا مشرکین اپنے طریقے کے مطابق حج کرتے رہے۔ 8ھ میں فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ کو بتوں سے پاک کیا گیا اور 9ھ میں حج فرض ہوا اور سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میںاسلامی شریعت کے مطابق پہلا حج ادا کیا گیا۔ 10ھ میں آپﷺ نے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اپنی زندگی کا پہلا اور آخری حج کیا۔ اور 11ہجری کوآپﷺ اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔
حج کے مقاصد

٭ رضائے الہی:

آپﷺ حج میں یہ دعا کر رہے تھے: اللہم حجۃ لا ریاء فیھا ولا سمعۃ اے اللہ! اس حج کو دکھاوے اور شہرت سے پاک کر دے۔(ترمذی:327)

٭توحید کا درس:

حج کے تمام امور احرام، نیت ِحج،تلبیہ،طواف،سعی کے اعمال،عرفات کے میدان میں دعا،کنکریاں مارتے وقت تکبیر پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اول تا آخر توحید کا درس اور اس کی تربیت ہے،جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا:

اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

’’میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ‘‘(الأنعام:79)
اور اللہ تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام سے فرمایا

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الأنعام:162)

’’ کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خدائے رب العالمین ہی کے لئے ہے‘‘
لہٰذا اگراس میں خرابی ہوئی تو بڑے سے بڑا عمل بھی ضائع ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا:

لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الزمر:65)

’’کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے ‘‘
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابی سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

’’ لَا تُشرک باللہ و ان قتلت او حرقت۔۔۔۔‘‘

’’اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا اگرچہ تم قتل کردیئے جاؤ یا جلا دیئے جاؤ‘‘(مسنداحمد:22075)

اللہ پر توکل :

حجاج کرام اپنا گھر بار اور کاروبار تجارت وغیرہ سب کچھ اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر اور اسی ذات پر توکل کرتے ہوئے اس مبارک عمل کے لیے نکل پڑتے ہیں۔

تزکیہ نفس:

اس سفر میں ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی برداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ دوسروںکو تکلیف دینے اپنے ہاتھ اور زبان کو روکنا پڑتا ہے۔پھر ہر قسم کی لغو اور فضول گفتگو سے باز رہنا بھی ضروری ہے ان سب پابندیوں سے تزکیہ نفس یعنی نفس کی پاکیزگی ہوتی ہے۔

مساوات و اتحاد:

قوم وطن اور رنگ ونسل وغیرہ ہر قسم کے فرق کو چھوڑ کر ایک ہی لباس پہننا،ایک ترانہلبیک اللھم لبیک پکارنا،پھر ایک وقت میں ایک ہی رخ پر جانا اتفاق و اتحاد اور مساوات کا عملی ثبوت ہے۔
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

احترام باہمی:

احرام کی پابندیوں میں سے زبان اور جذبات پر کنٹرول بہت اہم اور ضروری ہے،جس سے ہمیں احترام و عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس ملتا ہے۔

اتباع سنت:

حج کے بارے میں نبی مکرمﷺ نے فرمایا تھاکہ : خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ جس سے حج سمیت ہر معاملہ زندگی میںاتباع سنت کی اہمیت واضح ہو گئی۔آپ ﷺکی فرمانبرداری حقیقت میں اللہ تعالی کی فرمانبرداری ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میںکچھ اس طرح بیان کیا ہے:

مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْل فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ (النساء:80 )

’’ جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی‘‘
٭ اور آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا:

مَنْ اَطَاعَنِی فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ(بخاری:7137)

’’جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘
اور یاد رکھیں اتباع سنت سے رو گردانی گمراہی ہے۔ چناں چہ ارشاد ربانی ہے،

وَ مَنْ یَّعْصِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہ‘فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْنَا(الاحزاب:36)

’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے سو یقینا وہ گمراہ ہو گیا،واضح گمراہ ہونا‘‘
٭نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ(بخاری:5063)

’’جو میری سنت سے اعراض کرے گا اس کامجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں منی ٹھہرنا ،عرفات پہنچنا،مزدلفہ کی رات سو کر گزارنا،تہجد کی نماز ادا نہ کرنا،اور 10ذوالحجہ کو پہلے اور دوسرے جمرہ کو(پہلی اور دوسری دیوار)چھوڑ کر صرف بڑے جمرے’’عقبہ‘‘ (تیسری دیوار) کو سات کنکریاں ایک ایک کر کے مارنا، حقیقت میں یہ سب اتباع سنت ہی ہے اور یہی چیز دین کی اصل روح ہے۔ نیز حج کے اس سفر میں ایثار و یکجہتی،نبی ﷺکاحقیقی امتی بننا،نظم و ضبط،اخوت،امن وسلامتی،دعوت و جہاد پوشیدہ ہیں۔

حج کے منافع

حج اسلام کا ایک رکن اور محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے اس میںبہت سارے دنیاوی فوائد بھی رکھے ہیں۔چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ(الحج:28)

’’تاکہ وہ اپنے بہت سے فائدوں میں حاضر ہوں‘‘
٭ احیاء علوم الدین لغزالی اور سیرت نبوی از شبلی نعمانی سے رجوع کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے