6توبہ و استغفار:
انسانی قلوب کی مثال کپڑے کی سی ہے،گناہ اور بداعمالیاں دلوں کے لئے میل کچیل کی حیثیت رکھتے ہیں،جبکہ توبہ و استغفار دلوں کے لئے صابن اور گرم پانی کی حیثیت رکھتے ہیں ،امام ابن القیم نے کہا:

قلت لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى يوما : سئل بعض أهل العلم أيهما أنفع للعبد التسبيح أو الاستغفار ؟ فقال : إذا كان الثوب نقيا فالبخور وماء الورد أنفع له وإذا كان دنسا فالصابون والماء الحار أنفع له فقال لي رحمه الله تعالى : فكيف والثياب لا تزال دنسة ؟

ــ’’میں نے ایک دن شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پوچھا:کسی عالم سے پوچھا گیا کہ بندے کے لئے زیادہ مفید کیا ہے،تسبیح یا استغفار تو اس نے جواب دیا:جب کپڑا صاف ستھرا ہو تو بخور اور آب گل اسکے لئے زیادہ مفید ہے اور اگر کپڑا میلا ہو تو صابن اور گرم پانی اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہے ،تو امام نے مجھ سے کہا:ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟جبکہ کپڑا ہمیشہ ہی میلا رہتا ہے۔‘‘
(الوابل الصیب،ص:122)
یعنی انسان گناہوں سے کبھی پاک نہیں ہوسکتا،جیسا کہ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:

كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

’’ہر انسان بہت گناہگار ہے لیکن بہترین گناہگار وہ ہیں جو بہت توبہ کرتے ہوں۔‘‘
(ترمذی:2499،صحیح الجامع:4515)
البتہ اپنے گناہوں کو حتی الوسعت کم کرسکتا ہےتاکہ اسکے دل پر کم سے کم داغ ہوں کیونکہ گناہوں کی کثرت دلوں کے بگاڑ کا سبب ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کے درج ذیل فرمان سے ثابت ہے،ارشادفرمایا:

أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ أَهْلِهَا أَنْ لَوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ(الاعراف:100)

’’کیا زمین کے جانشین بننے والوں پر واضح نہ ہوچکا کہ اگر ہم چاہیں تو انکے گناہوں کے سبب انہیں عذاب دیں اور انکے دلوں پر مہر لگادیںپھر وہ سن نہ سکیں؟۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

’’ہرگز نہیں،بلکہ انکے دلوں پر وہ برے اعمال چڑھ گئے جو وہ کرتے رہے۔‘‘(المطففین:14)
یعنی انسان کے برے اعمال اسکے د ل پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں،حتی کہ اسکے جسم کے کسی بھی حصے کا معمولی گناہ بھی دل پر اثر ڈالتا ہے،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ، وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللهُ {كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}

’’بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ نکتہ ڈال دیا جاتا ہے،پھر اگر وہ ہوش میں آکر توبہ و استغفار کرے تو اسکا دل صاف کردیا جاتا ہے،اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے حتی کہ وہ اسکے دل پر چھاجاتی ہے،یہی وہ زنگ ہے جسکا اللہ نے ذکر کیا،ہر گز نہیں بلکہ انکے دلوں پر انکی بد اعمالیوں کا زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘ (ترمذی:3334،ٍصحیح الترغیب والترہیب : 3141)
یاد رہے کہ گناہوں کی سیاہی اسی دل پر چڑھتی ہے جو روشن ہو اور جو دل ایمان کے نور سے محروم ہو گناہ اسکی سیاہی میں اضافہ کرتے ہیں، جیسا کہ نبی معظم ﷺ کی بیان کردہ مثال سے واضح ہوتا ہے ،ارشاد فرمایا:

مَا مِنَ الْقُلُوبِ قَلْبٌ إِلَّا وَلَهُ سَحَابَةٌ كَسَحَابَةِ الْقَمَرِ، بَيْنَمَا الْقَمَرُ مُضِيءٌ , إِذْ عَلَتْ عَلَيْهِ سَحَابَةٌ فَأَظْلَمَ , إِذْ تَجَلَّتْ عَنْهُ فَأَضَاءَ

’’ہر دل کا ایک پردہ ہوتا ہے جسطرح چاند پر بادل چھاجاتے ہیں جب وہ روشن ہو،جب وہ پردہ دل پر چھاجائے تو اسے بے نور کردیتا ہے اور جب وہ چھٹ جائے تو اسکا نور بحال کردیتا ہے۔‘‘(طبرانی اوسط: 5220،الصحیحۃ:2268)
یعنی گناہ کی وجہ سے نور ایمان میں کمی آتی ہے اور توبہ و استغفار اس کمی کو پورا کردیتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود؄ نے فرمایا:

الْإِثْمُ حوَّازُ الْقُلُوبِ وَمَا مِنْ نَظْرَةٍ إِلَّا وَلِلشَّيْطَانِ فِيهَا مَطْمَعٌ

’’گناہ دلوں کو گھیر لیتے ہیں اور ہر نگاہ میں شیطان کی طمع ہوتی ہے۔‘‘(بیہقی شعب الایمان:5051،الصحیحۃ:2613)
یعنی شیطان ہر انسانی نگاہ کو گناہگار بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
”گناہ“تقوی کے منافی ہیں،تقوی دل کی حیات جبکہ گناہ دل کی موت ہیں،اور دل کی موت دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ ہے،امام عبداللہ بن مبارک نے کہا:

رَأَيْتُ الذّنُوبَ تُمِيتُ الْقُلُوبَ
وَقَدْ يُورِثُ الذّلّ إدْمَانُهَا
وَتَرْكُ الذّنُوبِ حَيَاةُ الْقُلُوبِ
وَخَيْرٌ لِنَفْسِكَ عِصْيَانُهَا

’’میں نے دیکھا کہ گناہ دلوں کو مارتے ہیں،اور انکی عادت سراسر رسوائی ہے،جبکہ گناہ ترک کردینے سے دلوں کو زندگی ملتی ہے لہذا تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تو نفس کی پیروی نہ کر۔‘‘(حلیۃ الاولیاء،8/279)
اور توبہ و استغفار گناہوں کے آثار بد کو مٹاتی ہیں،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
’’گناہ سے توبہ کرلینے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘(ابن ماجہ:4250،علامہ البانی نے اسے حسن کہا:الضعیفۃ،تحت رقم:615)
7 استقامت:
گذشتہ سطور میں ہم دل کی اچھی و بری دونوں قسم کی صفات بیان کرآئے ہیں،دل کی مستحکم و پائیدار حفاظت و صیانت کے لئےضروری ہے کہ دل صفات حسنہ کو اپنائے رکھنے اور صفات سیئہ سے خود کو بچائے رکھنے میں مستقیم یعنی ثابت قدم رہے،کتاب و سنت میں جہاں بھی استقامت کا ذکر ہے تو اصل استقامت دل ہی کی مراد ہے،اگرچہ ظاہر مستقیم نہ بھی رہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل:106)

’’جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد اسکے ساتھ کفر کیا،مگر جو مجبور کردیا گیا اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو،لیکن جنہوں نے کھلے دل سے کفر کیاان پر اللہ کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘
جیسا کہ محمد بن عمار بن یاسر نے اپنے والد عمار بن یاسر؄ صحابی جلیل کے متعلق کہا:

أَخَذَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ فَلَمْ يَتْرُكُوهُ حَتَّى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ ثُمَّ تَرَكُوهُ فَلَمَّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا وَرَاءَكَ؟قَالَ: شَرٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تُرِكْتُ حَتَّى نِلْتُ مِنْكَ وَذَكَرْتُ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ قَالَ: مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ قَالَ: إِنْ عَادُوا فَعُدْ

’’مشرکین نے عمار بن یاسر کو پکڑلیا اور نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے نبی ﷺ کی شان میں کچھ نازیبا کلمات کہہ دیئے،اور انکے معبودوں کا ذکر خیر کیا،پھر انہوں نے انہیں چھوڑدیا ،جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا:تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا:برا ہوا،مجھے چھوڑا نہ گیا حتی کہ میں نے آپکی شان میں نازیبا بات کی اور انکے معبودوں کا ذکر خیر کیا،آپ نے پوچھا: اسوقت تو نے اپنا دل کیسا پایا؟انہوں نے کہا:ایمان پر مطمئن،آپ نے فرمایا:اگر وہ دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی دوبارہ ایسا کرنا۔‘‘(بیہقی کبری:16896)
یعنی عمار بن یاسر؄ کا ظاہر اگرچہ مشرکین کی ایذاؤں پرثابت قدم نہ رہ سکااور وہ مجبور ہوگئےلیکن انکا دل ثابت قدم رہا اور یہی چیز انکے بچاؤ اورخلاصی کا سبب بن گئی۔
واضح ہو کہ محمد کا اپنے والد عمار سے سماع ثابت ہے۔
(تہذیب الکمال:26/166-5493)
اور علامہ ابن حجر نےاس روایت کے متعلق کہا:وَإِسْنَاده صَحِيح إِن كَانَ مُحَمَّد بن عمار سَمعه من أَبِيه’’اسکی سند صحیح ہے اگر اسے محمد نے اپنے والد سے سنا ہو۔‘‘ (الدرایۃ:2/197-879)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ(آل عمران:28)

’’ایمان والےایمان والوں کے سوا کفار کو دوست نہ بنائیں،اور جس نے ایسا کیا وہ اللہ کی جانب سے کسی بھی شے پر نہیں،البتہ تم ان سے تقیہ کرسکتے ہو،اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی جانب لوٹنا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں مخصوص اہل ایمان کے لئے مخصوص حالات میں تقیہ کی اجازت دی گئی ہے،اور تقیہ کہتے ہیں کہ: زبان سے ایسے ذو معنی اور مبہم کلمات ادا کرنا جو خلاف حقیقت بھی نہ ہوں کیونکہ یہ جھوٹ ہے ،دل کے خلاف بھی نہ ہوںکیونکہ یہ نفاق ہے،اور دین کفر کی موافقت میں بھی نہ ہوںکیونکہ یہ موالاۃ مع الکفار ہے،جیسا کہ فرعون کی بیوی آسیہ(التحریم:11) اور مومن آل فرعون (غافر:28) کا ایمان تھااور جیسا کہ عمار بن یاسر ؄کا ایمان تھا،اور ان سب کے ایمان کے معیاری ہونے کی شھادتیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں،جیساکہ عمار بن یاسر ؄کے متعلق نبی مکرمﷺ نے فرمایا:

مُلِئَ عَمَّارٌ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ

’’عمار اپنے کندھے تک ایمان سے بھرپور ہے۔‘‘ (سنن نسائی:5007،الصحیحۃ:807)
الغرض،اصل استقامت یہ ہے کہ دل ایمان اور صفات حسنہ پرقائم ر ہے،اور یہی اصل مقصود ہے،امام ابن رجب  نے کہا:

فأصل الاستقامة استقامة القلب على التوحيد كما فسر أبو بكر الصديق وغيره قوله” إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا“بأنهم لم يلتفتوا إلى غيره فمتى استقام القلب على معرفة الله وعلى خشيته وإجلاله ومهابته ومحبته وإرادته ورجائه ودعائه والتوكل عليه والإعراض عما سواه استقامت الجوارح كلها على طاعته فإن القلب هو ملك الأعضاء وهي جنوده فإذا استقام الملك استقامت جنوده ورعاياه

’’اصل استقامت یہ ہے کہ دل توحید پر قائم رہے جیسا کہ ابوبکر صدیق ؄وغیرہ نے اللہ تعالی کے فرمان ”جن لوگو نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے“کی تفسیر کی کہ وہ غیر اللہ کی جانب متوجہ نہیں ہوتے،پس جب دل اللہ کی معرفت وخشیت،رعب و جلال ،محبت و ارادت،امید و دعا،اسی پر توکل اور اسکے سوا ہر ایک سے اعراض پرثابت قدم رہے،تو تمام اعضاء بھی اسکی اطاعت پر قائم رہتے ہیں ، کیونکہ دل تمام اعضاء کا بادشاہ ہےاور اعضاء اسکی سپاہ،جب بادشاہ قائم رہے تو اسکی سپاہ اور رعایا بھی قائم رہتے ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم:205)
8 دنیا پر دین کو ترجیح دینا:
جو لوگ اپنی دنیا کی خاطر دین سے غافل ہوجاتے ہیں اللہ انکے دلوں پر مہر طبع کردیتا ہے،جسکے باعث انکے دل سخت ہوجاتے ہیں،انکی رافت و رقت ماند پڑجاتی ہے،فرائض و شرائع الہیہ کا التزام اور محارم و فواحش سے اجتناب انکے نزدیک غیر اہم ہوجاتا ہے،جبکہ شہوات و لذات کے حصول کی خاطر صحیح و غلط کی تمیز کو فراموش کردیناانکی عادت ،مادی مفادات اوردنیاوی آسائشیں انکا مطمع نظر بن جاتی ہیں، اس حالت کو عدم خشوع کہتے ہیںنبی اکرمﷺ نے اسکے متعلق فرمایا:

أَوَّلُ شَيءٍ يُرْفَعُ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ الخُشُوعُ، حَتَّى لَا تَرَى فِيهَا خَاشِعًا

’’اس امت سے جو شے سب سے پہلے اٹھائی جائیگی وہ خشوع ہے،حتی کہ تجھے ایک بھی خشوع والا نہ ملے گا۔ ‘‘ (طبرانی،مسند الشامیین:1579،صحیح الجامع:2569)
عدم خشوع دراصل دل کی خرابی ہے لیکن ظاہر پر اسکا گہرا اثر ہوتا ہے،جیسا کہ سعید بن جبیر نےایک شخص کو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیلتے دیکھا تو کہا:
لوخشع قلب هذا خشعت جوارحه
’’اگر اسکے دل میں خشوع ہوتا تو اسکے اعضاء پر ظاہر ہوتا۔‘‘(مسائل الامام احمد بن حنبل بروايۃ ابن ابی الفضل صالح: 2/178،رقم:741،علامہ البانی نے اسے حسن کہا،الضعیفۃ،تحت رقم:110)
یعنی دل کی دنیا خشوع و خضوع سے خالی ہو تو باہر کی دنیا بھی دینداری سے خالی ہوتی ہے اوراس طرز حیات کی انتہا ”کفر“پر ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(النحل:106-110)

’’ایمان لانے کے بعد جن لوگوں نے کھلے دل سے کفر کیاان پر اللہ کا غضب ہےاور انکے لئے عذاب عظیم ہے سوائے انکے جنہیں مجبور کردیا گیا،یہ اس لئے کہ انہوں (یعنی کھلے دل سے کفر کرنے والوں)نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی،اور یہ کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا،اللہ نے انکے دلوں،کانوں اور آنکھوں پر مہر طبع کردی اور یہ لوگ غافل ہوگئے،بلاشبہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھائیں گے، پر آزمائے جانے کے بعد جن لوگوں نے ہجرت کی ،جہاد کیا،اور وہ ثابت قدم رہے تو اسکے بعد آپکا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اس آیت میں کھلے دل سے کفر اختیار کرنے والوں کی سزا بیان کی گئی کہ ان پر اللہ غصہ ہوا،انکے لئے عذاب عظیم ہے اور انکے دلوں،کانوں اور آنکھوں پر مہر طبع کردی گئی اور اس کفر اور اسکی سزا کا سبب دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا قراردیا،باالفاظ دیگر مادہ پرستی،مادی فوائد،جس نے غفلت کو جنم دیااور ہمیشہ کے خسارے سے دوچار کردیا۔
جبکہ جو لوگ اپنے عقیدے اور دین کی حفاظت کی خاطر دنیا کی پرواہ نہیں کرتے ،اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں،اللہ انکے دلوں کو مضبوط کردیتا ہے،جیسا کہ اصحاب کہف نے جب دین حق کی خاطر اپنے دور کے ہر انسان کی دشمنی مول لی اور ان سے جان بچانے کے لئے ایک غار میں جا چھپے ،اور وہاں اپنے رب سے مناجات میں مشغول ہوگئے تو ،مالک ارض و سما نے انہیں رہتی دنیا تک کے لئے مثال بنا دیا،اور انکے دلوں کو حق پر ڈٹا دیا،اسکی خاطر ہر مصیبت کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا (الکھف:13-14)

’’ہم آپ پر انکا قصہ صحیح صحیح بیان کرتے ہیں،وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے،اور ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھادیا،اور انکے دلوں کو حق پر ڈٹادیا،جب وہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا:ہمارا رب وہی ہے جو آسمان وزمین کا رب ہے،اسکے سوا ہم کسی بھی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے،ایسا کیا تو ہم نے بے ہودہ بات کی۔‘‘
ایسے ہی اصحاب الاخدود نے بھی جب دین کی خاطر دنیا قربان کی تو اللہ نے انہیں آگ میں اپنے بچوں سمیت کودنے کا حوصلہ عطاکیا،جیسا کہ سورۃ البروج اور صحیح مسلم(7703)میں انکا قصہ مذکور ہے۔
دنیا کی خاطر دین کو اور دین کی خاطر دنیا کو ٹھکرادینے والے دونوں قسم کےافراد کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:

فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى

’’جس نے سرکشی اختیار کی اوردنیاوی زندگی کو ترجیح دی تو اسکا ٹھکانہ جہنم ہے،جبکہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرگیااور نفس کو خواہش کی اتباع سے روکے رکھا تو اسکا ٹھکانہ جنت ہے۔‘‘(النازعات:37-41)
9اعمال صالحہ:
دلوں کی اصلاح اور حفاظت کے سلسلے میںگذشتہ سطور میں بیان کردہ اسباب دراصل بنیادی اور مرکزی اعمال صالحہ ہیں،دیگر تمام اعمال انہی کی شاخیں ہیں،جس طرح برا عمل دل پر سیاہ دھبہ لگاتا ہے،اسی طرح ہرنیک عمل دل کی دنیا کو روشن کرتا ہے،لہذا اعمال صالحہ جس قدر زیادہ ہونگے دل بھی اسی قدر اجلا اور روشن ہوگا،مجموعی طور پر ہر عمل صالح دل پر صالح اثر چھوڑتا ہے،لیکن بعض افعال ایسے ہیں جو دل کی بعض صفات کی اصلاح میں نہایت مؤثر ہیں ،مثلا:
1مساکین اوریتیموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنا:
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

إِنْ أَرَدْتَ تَلْيِينَ قَلْبِكَ فَأَطْعِم الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ

’’اگر تو دل نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا،اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ(یعنی اسکی سرپرستی کر)۔‘‘
(مسند احمد:7576-بیہقی کبری:6886،الصحیحۃ:854)
2ایفاء عہد:
بدعہدی لعنت اور دلوں کی سختی جبکہ عہد و پیمان کا پاس رکھنا رحمت اور دلوں کی نرمی کا سبب ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً (المائدۃ:13)

’’ان(یہود و نصاری)کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اورانکے دلوں کو سخت کردیا۔‘‘
3زبان کی حفاظت:
نبی معظمﷺ نے فرمایا:

لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ، وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ

’’کسی بندے کا ایمان قائم نہیں رہ سکتا جب تک اسکا دل قائم نہ رہے،اور اسکا دل قائم نہیں رہ سکتا جب تک اسکی زبان قائم نہ رہے۔‘‘(احمد:13048،الصحیحۃ:2841)
4 شرمگاہ کی حفاظت:
ىنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَى مُدْرِكٌ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلاَمُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ(مسلم:6925)

’’ہر انسان کے حصے کا زنا اسکے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لازماًکرکے رہے گا،پس آنکھوں کا زنا دیکھنا،کانوں کا زنا سننا، زبان کا زنا،بولنا،ہاتھ کا زنا پکڑنا،ٹانگ کا زنا چلنا ہے اور دل خواہش کرتا اور تمنا کرتا ہے،اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ ‘‘
یعنی شہوت کی نگاہ دیکھنا،شہوت کی زبان سننا،بولنا،شہوت سے نامحرم کو چھونا،شہوت کی تکمیل میں چلنا،شہوت کی تمنا کرنا یہ سب زنا کی قسمیں ہیں،اور انسانی شرمگاہ اس کے زنا ہونے کی تصدیق کرتی ہے جبکہ اس میں حرکت یا مسمساہٹ ہو،اور اگر نہ ہو تو یہ زنا نہیں ہیں۔
5سنجیدگی و متانت اختیار کرنا:
بہت زیادہ ہنسنا غفلت و لاابالی پن کی علامت ہے اور سنجیدگی کے منافی ہے،کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا جب تک اس میں سنجیدگی نہ دکھائی جائے،احساس ذمہ داری انسان کو سنجیدہ اور باوقاربناتا ہے،اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر آمادہ کرتا ہے،سنجیدگی و متانت زندہ دلی کی علامت ہے،جبکہ بہت ہنسنا دلوں کی موت ہے جیسا کہ نبی رحمتﷺ نے فرمایا:

إِيَّاكَ وَكَثْرَةَ الضَّحِكِ، فَإِنَّهُ يُمِيتُ الْقَلْبَ، وَيَذْهَبُ بِنُورِ الْوَجْهِ

’’ زیادہ ہنسنے سے بچو کیونکہ یہ دلوں کو مردہ کردیتا ہے،اور چہرے کو بے رونق کردیتا ہے۔‘‘(صحیح ابن حبان:361،صحیح الترغیب:2233-2869)
”ہنسنا“نتیجہ ہے مراد اسباب ہیں،یعنی ہر وہ کام جو ہنسی کا سبب بنے،خواہ وہ کوئی زبانی بات ہو یا عملی حرکت،اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے،اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے نیک اعمال ہیں،مثلا:وضو کرنے سے غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے،ایک دوسرے کو تحائف دینے اورسلام کو عام کرنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے،اللہ کے ذکر سےدل ہلکے ہوجاتے ہیں،عشاء و فجر باجماعت ادا کرنے سے نفاق ختم ہوجاتا ہے،تواضع و انکساری سے تکبر کا خاتمہ ہوتا ہے۔

 دعا:

دلوں کی اصلاح میں دعا سب سے مفید ذریعہ ہے،چنانچہ نبی کریمﷺ نے دلوں کی اصلاح کے لئے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں،چند درج ذیل ہیں:

– اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ

’’اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے،ہمارے دل اپنی اطاعت میں لگادے۔‘‘

-يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ

’’اے دلوں کو پھیرنے والے،میرا دل اپنے دین پر قائم رکھ۔‘‘

-اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا

’’یااللہ میرے دل میں نور بھر دے۔‘‘

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ

’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس دل سے جو ڈرے نہ۔‘‘

-اللَّهُمَّ نَقِّ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ

’’یااللہ میرے دل کو گناہوں سے پاک کردے جسطرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کردیا جاتا ہے۔‘‘

6-اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ , وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ , وَالْهَرَمِ , وَعَذَابِ الْقَبْرِ , اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا , وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا , أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا , اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ , وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ , وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ , وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا

’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں بے بسی و سستی سے اور بزدلی و بخیلی سے بڑھاپے اور عذاب قبر سےیااللہ میرے دل کو اسکا تقوی عطافرما اور اسے پاک کردے تو اسے بہتر پاک کرسکتا ہے،تو اسکا مالک ومددگار ہے،یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، ایسے دل سے جو جھکے نہیں،ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو،اور ایسی دعا سے جسے قبول نہ کیا جائے۔‘‘

اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي قَلْبًا مِنَ الشَّرِّ نَقِيًّا لَا كَافِرًا وَلَا شَقِيًّا

’’یااللہ مجھے ایسا دل دے جو برائی سے پاک ہو،ناشکری کرنے والا نہ ہی بدبخت ہو۔‘‘

-اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي، وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي، وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي، وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي
’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اپنےکان ،اپنی آنکھ،اپنی زبان،اپنے دل اور اپنی خواہش کے شر سے۔‘‘
9-اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ , وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ , وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ , وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ , وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ , وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ , وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا , وَلِسَانًا صَادِقًا , وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ , وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ , إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

’’یااللہ میں میں تجھ سےہر معاملے میں ثابت قدمی،اور ہدایت پر قائم رہنے کی دعا کرتا ہوں،اور تجھ سے تیری رحمتوں کو لازم کردینے،اور تیری بخشش کو یقینی کردینےوالے اعمال کا سوال کرتا ہوں،اور تجھ سے تیری نعمت کا شکر ادا کرنے اور تیری خوب عبادت کرنے کی توفیق مانگتا ہوں،اور تجھ سے قلب سلیم اور سچ بولنے والی زبان کی دعا کرتا ہوں،اور تجھ سے تیرے علم میں آنے والی ہر خیر مانگتا ہوں،اور تیرے علم میں آنے والی ہر برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اور ہر اس گناہ کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں جو تو ہی جانتا ہے،کیونکہ تو غیبوں کا جاننے والا ہے۔ ‘‘

10-اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ , سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ اسْتَأثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي

’’یا اللہ میں تیرا بندہ،تیرے بندے کا بیٹا،تیری بندی کا بیٹا،میری پیشانی تیرے ہاتھ میں،مجھ پر تیرا حکم جاری،میرے متعلق تیرا ہر فیصلہ عل،میں تجھ سے سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لئے منتخب کیا،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا،یا اپنی کتاب میں نازل کیا،یااپنے علم غیب میں چھپارکھا کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے، میرے سینے کا نور بنادے،میرے دکھوں غموں کا مداوا بنادے۔‘‘آمین
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے