سوال :کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام بیچ اس مسئلے کہ کیا ’’علی وارث‘‘ کہنا یا لکھنا شرعاً جائز ہے۔
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں سیدنا امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے آپ رضی اللہ عنہ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دی آپ رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے داماد اورچچا زاد بھائی اور سابقین اولین میں سے ہیں آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا مومن کی علامت اور بغض رکھنا منافق کی علامت ہےجہاد فی سبیل اللہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے بڑے بڑے کارنامے اور بہادری کے جوہر دیکھائے نیز آپ رضی اللہ عنہ اہل بیت رسولﷺ میں سے ہیں اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل ومناقب ہیں البتہ علی وارث کے حوالے سے کئی مفہوم سامنے آتے ہیں اگر علی وارث سے مراد آپ رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکے ترکہ کے وارثوں میں سے ایک لی جائے یا علوم نبوت کے وارثوں میں سے ایک وارث مراد لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں یہ دونوں مراد ہر مسلمان عالم دین کیلئے بھی لی جاسکتی ہے (یعنی کسی مسلمان شخص کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو وہ شخض بیوی کے ترکہ کا آدھا حصہ یا چوتھائی حصہ کا وارث بنتا ہے) لہٰذا مذکورہ جملہ لکھنے کا کوئی فائدہ یا خصوصیت نہیں اور اگر اس جملہ’’علی وارث‘‘ سے مراد علی رضی اللہ عنہ آسمان وزمین کے وارث لی جائے یا علی رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد ہی خلافت کے وارث لی جائے تویہ دونوں مراد شرعاً قطعاً جائز نہیں کیونکہ آسمانوں اور زمین کے وارث صرف اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی آسمان وزمین کے وارث نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(آل عمران:180)

’’آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آسمان اور زمین کے وارث صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اور جہاں تک خلافت کا تعلق ہے اس میں تمام امت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد پہلا خلیفہ سیدنا امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں جس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں جس کی وجہ سے سیدنا امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد پہلا خلیفہ نہیں ہیں لہٰذا ’’علی وارث‘‘ کا جملہ شرعاً لکھنا یا کہنا جائزنہیں ہے۔
واللہ أعلم بالصواب
سوال : کیا مسلمان عاقل بالغ مرد کیلئے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ لٹکانا جائز ہے ؟
جواب : صورت مسئولہ سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان عاقل بالغ مرد کیلئے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ لٹکانا یا شلوار ،پینٹ وغیرہ سے ٹخنہ ڈھانپنا جائز نہیں بلکہ جان بوجھ کر ٹخنہ کو ڈھانپنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے خواہ وہ تکبر کی نیت سے ہو یا تکبر کی نیت سے نہ ہوالبتہ تکبر کیساتھ حرمت میں شدت آئے گی اور بعض لوگوں کا یہ کہہ کر ٹخنہ ڈھانپنا کہ میں تکبر وغرور سے ٹخنہ نہیں ڈھانپ رہا بلکہ یہ میری عادت ہے ایسےشخص کا یہ کہہ کر ٹخنہ ڈھانپنا ہی تکبر کی علامت ہے کیونکہ تکبر کی تعریف رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی ہے:
الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ(کتاب الایمان باب تحريم الكبر وبيانه،حدیث:91)
یعنی تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
چونکہ ٹخنہ سے نیچے شلوار پینٹ وغیرہ لٹکانے والے نے
حق بات ٹھکرا دی اور شلوار وغیرہ کو ٹخنہ سے اوپر نہیں رکھا
تو یہی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روشنی میں تکبر کی علامت ہے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ رکھنے کی ممانعت کی احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

1 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ(کتاب اللباس باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار رقم الحدیث:5787)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبندکا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا ۔

2 عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قُلْنَا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا فَقَالَ الْمَنَّانُ وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ  (سنن الترمذي ابواب البيوع باب ما جاء فيمن حلف على سلعة كاذبا رقم الحديث 1211)

سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ( رحمت کی نظرسے) انہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اورگھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا:احسان جتانے والا،اپنے تہبند(ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والااور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا(فروخت کرنے والا) ۔

3 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرْ اللهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  (كتاب اصحاب النبي ﷺ باب قول النبي ﷺ: لو كنت متخذا خليلا رقم الحديث: 3665)

سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص اپنا کپڑا (شلوار یا تہبند وغیرہ ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عاقل بالغ مرد پر لازمی ہے کہ وہ ہر وقت اپنا تہبند ،شلوار اور پینٹ وغیرہ کو ٹخنہ سے اوپر رکھے خواہ وہ نماز کے وقت ہو یا نماز سے باہر ہو اور ہر مسلمان عاقل بالغ کپڑے کو نیچے رکھنا حرام ہے مکروہ نہیں وہ اپنا تہبند ،پینٹ وغیرہ کو ٹخنے سے نیچے رکھے البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو کہ ایسے شخص سے کپڑا بالکل سنبھالا ہی نہ جائے تو اس صورت میں جائز ہے۔ الضرورات تبیح المحظورات کے تحت ۔  واللہ أعلم بالصواب
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارہ میں کہ کیا سگریٹ نوشی حرام ہے یا مکروہ قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب دیکر عند اللہ ماجورہوں۔
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں یہ ہے کہ سگریٹ نوشی کا حکم حرام ہے مکروہ نہیں لہٰذا تمام مکلف مسلمانوں پر لازمی ہے کہ وہ سگریٹ نوشی سے دور رہیں سگریٹ نوشی حرام ہونے کے کئی اسباب ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
۱۔ سگریٹ نوشی کرنے والا اپنے آپ کو خطر ناک قسم کی مہلک بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہوتا ہے مثلاً کینسر وغیرہ جو کہ نصوص قرآنی ونبوی کے سراسر خلاف فعل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ(سورۃ البقرۃ195)

’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔‘‘

نیز فرمایا : وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا  (سورۃ النساء 29)

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔‘‘
دنیا کے تمام ڈاکٹرز حضرات اس بات پرمتفق ہیں کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے نیز ہلاکت وبربادی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب من بنى في حقه ما يضر بجاره رقم الحديث 2341)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔
یعنی نہ خود نقصان اٹھائے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے اور سگریٹ نوشی میں یہ دونوں پائے جاتے ہیں خود کو بھی نقصان ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی۔
2۔ سگریٹ نوشی میں مال کا ضیاع وتباہی ہے حالانکہ مال کی حفاظت کرنا اور اسے فضول خرچی سے روکنا لازمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی سے منع فرمایا نیز فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ  ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا (الاسراء 26۔27)

اور اسراف اور بےجا خرچ سے بچو۔بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
3۔سگریٹ نوشی میں دوسروں کیلئے بھی نقصان ہے جس کی دلیل پہلے نکات میں گزر چکی ہے ۔
لا ضرر ولا ضرار
نیز اس کی بدبو سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ایک مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے ۔
4۔ سگریٹ نوشی میں نشہ بھی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے :
كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ(صحيح البخاري کتاب الاحکام باب أمر الوالي إذا وجه أميرين إلى موضع: أن يتطاوعا ولا يتعاصي رقم الحديث 7172)
’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے ‘‘۔
بلکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہاں تک فرمایا :

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ، فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ(سنن ابی داؤد،کتاب الاشربۃ باب النهي عن المسكر، رقم الحدیث : 3681 )

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔ “
مذکورہ بالا تمام اسباب سگریٹ نوشی میں پائے جاتے ہیں لہٰذا سگریٹ نوشی حرام ہے مکروہ نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے