پنجاب حکومت نے عورتوں کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے تحفظ نسواں بل منظور کیاہے اس بل کے مطابق اگر عورت پر ہاتھ اُٹھایا جاتا ہے تو وہ پولیس سے رابطہ کرے گی مرد کو دو دن کے لیے گھر سے نکال دیا جائے گا اور اسے ٹریکر پہنادیا جائے گا کیا یہ درست قدم ہے؟
ریاست کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اس کا آئینی سربراہ ایک ہوتا ہے۔ خاندان بھی ریاست کی بنیادی اکائی ہے۔ اس کا نظام چلانے کے لیے سربراہ کا ہونا ضروری ہے اسلام نے خاندانی نظام کا سربراہ مرد کو مقرر کیا ہے خالق کائنات کافرمان ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا (سورۃ النساء 34)

’’مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے‘‘۔
روز محشر مرد سے اس نگہبانی کے بارے بازپرس ہوگی۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْأَمِيرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرأة راعية في بيت زوجها الحدیث 5200 صحیح مسلم: 1829)

’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ۔ امیر ( حاکم ) ہے ، مراد اپنے گھروالوں پر حاکم ہے ۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اوراس کے بچوں پر حاکم ہے ۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ‘‘۔
سربراہ مملکت چوری ڈکیتی اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرتاہے اگر کوئی فرد قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے یا حکومت کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں سے تعاون کرتاہے تو فلاحی حکومت ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرتی ہے چاہیے وہ اس کے حمایتی ووٹران ہی کیوں نہ ہوں؟
اگر جرم کی نوعیت سخت ہو تو حکومت فوجی آپریشن سے دہشت گردوں کا صفایا کردیتی ہے اسی طرح خاندانی ریاست کی رعایا اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی اور تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ نہیں دیتی یا کوئی رکن خاندانی ضابطوں کی اعلانیہ خلاف ورزی کرتاہے توسربراہ کے لیے تادیبی کارروائی اضطراری فعل بن جاتاہے۔ مثلاً خاندان کے کسی فرد کو شوگر کا مرض لاحق ہوجائے ڈاکٹر دوائی کے چند اشیاء سے پرہیز کرنے کی ہدایت دے تو مریض بد پرہیزی کرے اگر خاندان کا سربراہ مغرب کے آزادی کے نظریہ کے
تحت خاموشی اختیار کرے تو مریض کی جان کو خطرہ
لاحق ہوسکتاہے تو اس موقع پر ڈانٹ ڈپٹ عورت یا بچہ کے حق میں یقیناً بہتر فعل ہے۔
ریاستی سربراہ قطعاً نہیں برداشت کرتا کہ کوئی شہری
پاسپورٹ کے بغیر بیرون ملک جائے یا دگر ملک کا شہری ویزا حاصل کیے بغیر ریاست میں داخل ہو اگر کوئی خلاف ورزی کرتاہے تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آجاتاہے اسی طرح خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اُس کی اجازت کے بغیر دیگر خاندان کا فرد داخل مکان ہو اور اُس کے خاندان کا فرد اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے اگر کوئی خلاف ورزی کا مرتکب ہوجائے تو ہلکی مار کا مقصد انتقام نہیں بلکہ اس کی اصلاح مطلوب ہے۔
جس طرح ریاستی سربراہ دیگر ملک کے فرد کو مستقل قومی شہری تسلیم نہیں کرتا اسی طرح خاندانی سربراہ قطعاً برداشت نہیں کرتا کہ اس کا کوئی ناجائز وارث پیدا ہو اگر خاوند حفظ ما تقدم بیوی کی نازیبا حرکات وسکنات پر روک ٹوک کرتاہے جب زبانی نصیحت کارگر نہ ہوتو چہرہ بچا کر ہلکی ضرب سے وارننگ دے دے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام نے طلاق سے بچنے کی خاطر مارنے کی اجازت دی ہے تاکہ خاندانی نظام کا شیرازہ منتشر نہ ہو جبکہ پنجاب حکومت کا تحفظ نسواں بل مسلم معاشرہ کے خاندانی استحکام میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔
اسلام نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور حسن سلوک سے پیش آئے مخبر صادق محمد رسول اللہﷺ نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے شوہر کو اس امت کے بہترین اور ممتاز لوگوں میں قرار دیا ہے۔

أَكْمَلُ المُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِنِسَائِهِمْ(سنن الترمذي ابواب الرضاع باب ما جاء في حق المرأة على زوجها رقم الحديث 1162)

’’ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والاہو، او رتم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔
آپ ﷺ نے عورت کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ حلال اور عدل وانصاف کی حدود میں خاوند کی اطاعت کرے کائنات کے امام ﷺ نے مسلمانوں کو شرعی حکمران کی اطاعت پر سختی سے زور دیا ہے اسی طرح عورت کو خاندانی ریاست کے سربراہ کی اطاعت کا حکم دیا۔

لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا(ترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء في حق الزوج على المرأة رقم الحدیث:1159)

 ’’اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کوسجدہ کرے۔‘‘
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں پنجاب حکومت کا نسوانی بل نظریہ پاکستان کی روح کے منافی فعل ہے میڈیا اثرپذیری کی وجہ سے ریاست کا اہم ستون کی حیثیت حاصل کرچکاہے باعث افسوس امر ہے کہ میڈیا پر آزادی نسواں پر لیکچر اور مذاکرے تو ہوتے ہیں لیکن اسلام کی روشنی میں عورتوں کے حقوق کا تذکرہ کرکے اصلاح کا فریضہ سرانجام نہیں دیتا۔سیاست اسلام کا جزء ضرور ہے اکثر علماء نے سیاست کو عبادت کا محور سمجھ لیا وہ سیاسی سرگرمیوںمیں بھر پور کردار ادا کرتےہیں لیکن وہ معاشرہ کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں تعلیمی نصاب میں صنفی جذبات کو مشتعل کرنے والا مواد شامل کیا جارہا ہے لیکن مثالی مرد اور مثالی عورت کے باب شامل نہیں کرتی۔
نبی کریم ﷺ نے زندگی کے تمام شعبوں سیاست، معیشت،تجارت،زراعت،صنعت اور عبادت میں راہنمائی فرمائی ہے اسی طرح آپ ﷺ نے خاندانی ریاست کے استحکام کے عورتوں کو مرد کے حقوق اور مردوں کو عورتوں کے حقوق سے آگاہ فرمایا ہے جن پر عمل کرنے سے خاندانی نظام کی بنیاد مستحکم بن سکتی ہے۔
خاتم النبیین ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرین کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی وصیت فرمائی ہے۔
’’لوگو! سنو عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤں کرنے کا کوئی حق نہیں سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی نافرمانی سامنے آئے اگر وہ ایسا کربیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اورانہیں مارو تو ایسا نہ مرانا کہ کوئی شدید چوٹ آئے اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو۔ دیکھو! تمہارے کچھ حقوق بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تم پر ہیں ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو غیروں سے محفوظ رکھیں اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو! ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ ۔
میاں بیوی کے درمیان بندھن حاضرین کی موجودگی میں باندھا جاتا ہے رنجش وناراضگی فطری امر ہے ۔ خدانخواستہ ان میں رونما ہوجائے تو اللہ کے حکم کے مطابق

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا( النساء : 35)

اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔
جبکہ مرد کو ٹریکر پہنا کر جدائی پر آمادہ کرنا تحریک آزادی نسواں کا ماٹو ہے۔
۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے