حدود گناہوں کا کفارہ ہے :
اکثر علماء کی رائے کے مطابق جب گناہ گار گناہ کا مرتکب ہوتاہے تو اس پر حدود کا قائم ہونا اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور بے شک اُسے آخرت میں عذاب نہ دیا جائے گاجیسا کہ امام بخاری وامام مسلم سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مجلس میں تھے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ

’’ تم سب لوگ میرے (ہاتھ پر) بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ ہی زنا وچوری کرو گے ، اور نہ ہی کسی شخص کو ناحق قتل کرو گے(جو) اللہ نے حرام کیا ہے ، تو جس نے اس (عہد) کو پورا کیا تو اس کا اجر وثواب اللہ پر ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوگیااور اس پر اُسے سزابھی ملی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے(ماسوائے شرک کے) اور جو کوئی ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب تو ہوا (لیکن) اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو اس کامعاملہ اللہ پر ہے چاہے تو اُسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔
اور حد کا قائم ہونا جہاں گناہوں کا کفارہ ہے وہیں وہ مرتکب کیلئے زجر بھی ہے پس یہ حدود زجر وجبر دونوں پر مشتمل ہیں۔
جنگی علاقوں میں نفاذ حدود:
علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے بلا امتیازجس طرح دار الاسلام میں ہوتا ہے ویسے ہی جنگی علاقوں میں بھی ہوگا کیونکہ اس کے نفاذکا حکم عام ہے اور اُسے کسی علاقے کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا اور جو اس رائے کی طرف گئے ہیں وہ مالک اور لیث بن سعد رحمہما اللہ ہیں ۔
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا کہ اگر امیر جنگی علاقوں میں جنگ میں شامل ہے تو وہ اپنے کسی فوجی پر معسکر میں حد جاری نہیں کرے گا ماسوائے مصر،شام،عراق اور اس جیسے دوسرے علاقوں کے امیر کے ،پس وہ اپنے معسکر میں حدود قائم کریں اور ان افراد کی دلیل یہ ہے جنگی علاقوں میں حدود کے قائم کرنے میں یہ احتمال ہے کہ جس شخص پر حد قائم ہوئی ہے وہ کہیں (اسلام سے متنفر ہوکر)کفار سے نہ جا ملے اور یہی راجح قول ہے اور بے شک یہ حد اللہ کی حدود میں سے ہیں اور حالتِ حرب میں اس کے قائم کرنے سے منع کیاگیاہے اس ڈر سےکہ کہیں اس کی وجہ سے جس پر حدنافذ ہوئی ہے کوئی شر انگیزی نہ پھیلائے اور احمد بن حنبل،اسحاق بن راھویہ ، اوزاعی اور دوسرے علماء اسلام سے یہ منصوص ہے کہ دشمن کی زمین پر حدود قائم نہیں کی جائیں گی اور اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے ۔
اور سیدناابومحجن الثقفی رضی اللہ عنہ سے شراب نوشی پر صبر نہیں ہوتا تھا تو انہوں نے قادسیہ کے موقع پر شراب نوشی کر لی تو امیر لشکر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑوا کر قید کرنے کا حکم جاری کر دیا (پھر) جب دونوں لشکر (یعنی مسلمان اور ایرانی) آمنے سامنے ہوئے تو سیدنا ابو محجن رضی اللہ عنہ نے کہا :
كفا حزنا أن تطرد الخيل بالقنا
وأترك مشدودا علي وثاقيا
’’ میرے لیےیہی غم کافی ہے کہ گھوڑوںکےنیزے بنائے جارہے ہیں اور مجھے بیڑیاں پہنا دی گئی ہیں۔ ‘‘
پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ سے کہا مجھے چھوڑ دو میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں اگر اللہ نے مجھے صحیح وسالم رکھا تو میں لوٹ کر دوبارہ جیل میں قید ہوجاؤں گا اور اگر میں مارا گیا تو تم لوگ مجھ سے نجات پالو گے تو انہوں نے اُسے آزاد کیا اور وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ’’بلقاء‘‘نامی گھوڑے پر سوار ہوئے نیزہ اٹھاکر لڑائی کیلئے نکل پڑے، اور میدانِ جنگ میں ایسا لڑے کہ گویا سعد اور مسلمانوں کی فوج نے یہ گمان کرنا شروع کر دیا کہ یہ فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ ہے جو ان کی نصرت ومدد کیلئے آیا ہے جب دشمن کو ھزیمت ہوئی تو واپس لوٹ کر پابند سلاسل ہوگئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے پورے معاملے کے بارے میں بتلایا توسیدنا سعد نے انہیںکو آزاد کر دیا اور یہ قسم کھائی کہ وہ ہرگز ان پر حد کو قائم نہیں کریں گے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر طاقت ور ہوا اور میدانِ جنگ میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے اور اس کے بعدسیدنا ابو محجن رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی سے توبہ کر لی۔
تو راجح مصلحت کی خاطرحد کو مؤخر یا ساقط کیا گیا اور یہ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے اور حاکم کیلئے ہے کہ اس پر حد کو قائم کرے۔
مساجد میں حدود کاآلودگی کی بناء پر قائم کرنے سے ممانعت :
ابو داؤد سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُسْتَقَادَ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ الْأَشْعَارُ، وَأَنْ تُقَامَ فِيهِ الْحُدُودُ(سنن أبي داود (4/ 167)

’’رسو ل اللہ ﷺ نے مسجد میں قید کرنے، اشعار کے بیان کرنے اور نفاذِ حدود سے منع فرمایا ہے۔‘‘

کیا قاضی اپنے علم کی بدولت حکم جاری کرے گا ؟
ظاہریہ کے نزدیک قاضی پر اپنے علم کی بدولت قصاص،دماء ، اموال، فروج اور حدود میں فیصلہ کرنا فرض ہے، چاہے اُسے اس کا علم ولایت ملنے سے پہلے کا ہو یا بعد میں، اور جو اس نے اپنے علم سے حکم جاری کیا وہ قوی ہے کیونکہ وہ یقین حق ہے پھر اقرار اور دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ ( النساء 135)

اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کیلئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا قول ہے :

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ

’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے۔ ‘‘
اور صحیح یہ ہے کہ قاضی پر عدل قائم کرنا لازمی ہے اورعدل کا تقاضا یہ نہیں کہ ظالم کو ظلم کرتے رہنے دیا جائے اور اُسے روکا نہ جائے بلکہ قاضی کافرض یہ ہے کہ اسے جس منکر کاعلم ہو جائے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اور حقدار کو اس کا حق عطا کرے وگرنہ وہ ظالم گردانہ جائے گا۔
جبکہ جمہور الفقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ قاضی اپنے علم کی بدولت فیصلہ نہ کرے۔ سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لو رأيت رجلا على حد لم أحده حتى تقوم البينة عندي
’’اگر میں کسی شخص کو حدود کو پامال کرنے والا کام کرتے ہوئے بھی دیکھوں تو میں اس پر حد جاری نہیں کروں گا یہاں تک کہ میرے پاس اس کی شہادت نہ آجائے۔
کیونکہ قاضی بھی عام افراد کی طرح ہے اور اس کے لیے مکمل شہادتوں کے بغیر کلام کرنا جائز نہیں ، جیسے اگر قاضی کسی پر زنا کا الزام لگاتا ہے اور وہ اس پر مکمل شہادت نہ رکھتا ہو تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی۔
اور جب قاضی پر کسی شے کا علم ہونے کے باوجود اس کے بارے میں کہنا حرام ہے ، تو اس پر عمل کرنا بالاولیٰ حرام ہے اور اس کی بنیاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ قول ہے :

 فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ(النور:13)

’’اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے