نوٹ: یہ تحریر جس وقت ادارہ کو موصول ہوئی تھی، مؤرخ اہل حدیث فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ حیات تھے، وقتِ اشاعت بھٹی صاحب کی رحلت کا عظیم سانحہ رونما ہوچکا تھا، اس لئے کچھ مقامات پر صیغوں کی تبدیلی کی گئی ہے۔ (ادارہ)

چمنستان حدیث میں ہی ہے کہ کونسا کام کس آدمی نے کس وقت پہ کرنا ہے اس نظام میں کسی کی خواہش پر تبدیلی نہیں آ سکتی،ورنہ تاریخ اہل حدیث کو وسیع پیمانے پر مرقوم کرنے کی خواہش تو اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں تھی اور بعض نے اس پر کام بھی شروع کیا مگر یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے ہمارے محترم و مکرم اور شفیق بزرگ علامہ محمد اسحاق بھٹی کو نصیب فرمائی۔ یوں تو تاریخ نویسی میں بڑے بڑے بلند نام موجود ہیں لیکن جو شرف اللہ تعالیٰ نے مورخ اہل حدیث، ذہبی دوراںمحترم علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو عطا کیا اس برصغیر کی سرزمین پر وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا کہ انہوں نے خالصتاً محدثین اور ورثۃ الانبیاء کے حالات و واقعات ایک خاص ترتیب اور انداز سے امت کے سامنے رکھ دیئے ہیں جن کے تادیر لوگ ناصرف کہ مداح رہیں گے بلکہ اس سے علمی اور عملی راہنمائی بھی حاصل کرتے رہیں گے اس سے پہلے بھی محترم بھٹی صاحبرحمہاللہ تعالیٰ کی اس سلسلہ کی کئی کتب قارئین کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش ثبت کر چکی ہیں مثلاً کاروان سلف، قافلہ حدیث، دبستان حدیث اور گلستان حدیث وغیرہ جن میں جناب محترم بھٹی صاحب نے خالصتاً محدثین اور سلف صالحین کا تذکرہ کیا ہے زیر نظر کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘بھی اسی سلسلۃ الذہبیہ کی ہی ایک کڑی ہے جس میںمحترم بھٹی صاحب نے ایسی 100شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جنہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل ہے ان میں ذی وقار محدثین عظام بھی ہیں اور جلیل القدر مشائخ کرام، نامور اساتذہ بھی ہیں تو انتظام و انصرام کا وسیع تجربہ رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں ۔ ہر ایک کی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے راہنمائی کرتا ہے خواہ نصیحت کے لحاظ سے یا عبرت کے طور پر۔ اور پھر اسلاف کے واقعات بیان کرنے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ ان سے راہنمائی لے کر اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کریں اور یہ راہنمائی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ محترم بھٹی صاحب کے متعلق کوئی تعارفی کلمات کہوں کہ بھٹی صاحب اب عرب و عجم میں شہرت کی بلندیوں پر ہیں اور ان کی خوبیوں، حافظے، حوصلے، ادب و خاکہ نویسی اور سوانح نگاری کا ایک زمانہ ناصرف معترف بلکہ نغمہ سرا ہے۔اللہم اغفرلہ
اسی طرح بھٹی صاحب کی تصانیف کے متعلق بھی کچھ کہتا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ آج کے دور میں سوانح نگاری کے لحاظ سے کسی بھی کتاب کے معتبر اور مقبول ہونے یا اس کی عظمت و رفعت کے لیے بس ’’مولانا محمد اسحاق بھٹیرحمہاللہ تعالیٰ‘‘ کا نام ہی کافی ہے۔ (فللّٰہ الحمد)
میں تو صرف ان سطور میں بھٹی صاحب کی نئی کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘ سے چند ایسے مقامات کی نشاندہی کرناچاہتا ہوں، جن میں علماء کرام، طلباء اور مدارس کے اصحاب انتظام اور معاونین کے لیے درس و موعظت و نصیحت موجود ہے تاکہ آج کے اس پُر فتن اور پُر آشوب دور میں کہ جب دینی مدارس اور علماء کرام خصوصاً اور مذہب سے متعلق رکھنے والے لوگ عموماً پُر خطر حالات سے گزر رہے ہیں۔ تو آئیے جو شخص بھی دین اسلام کا عالم اور داعی ہے اس کو سراپا وقار اور استقامت ہونا چاہئے بڑی سے بڑی آزمائش بھی اسے دین اسلام کی خدمت سے نہ روک سکے۔ اور کسی بھی مصیبت میں وہ اپنے عقیدے اور منہج کے معاملے میں ناتو شکوک و شبہات کا شکار ہو اور نہ ہی وہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائے۔ ایسے ہی ایک عالم ربانی کا واقعہ بھٹی صاحب زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 95 پر تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ عالم ربانی ہیں مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ ریاست مزید کوٹ کے راجا بکرم سنگھ نے ایک مناظرے کا اہتمام کیا جس میں اہل حدیث کی طرف سے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی شامل تھے مولانا بھٹی صاحب فرماتے ہیں’’راجا فرید کوٹ باقاعدگی سے مناظرے میں شامل ہوتا اور بڑے غور سے پوری کاروائی سنتا۔ علماء کرام کی گفتگو اور ان کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کے دو عمل خاص طور پرراجا فرید کوٹ کے مرکز توجہ رہے۔ (1)ایک یہ کہ تمام علماء کرام کو کھانا راجا صاحب کی طرف سے دیا جاتا تھا اور وہ اسی کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی اور ان کے کوٹ کپورہ کے رہنے والے ایک مرید حاجی نور الدین وہ کھانا نہیں کھاتے تھے اس وقت فرید کوٹ میں موضع بڈھیمال کا ایک حجام رہتا تھا۔ ان دونوں نے کھانے کے پیسے اسے دے دیئے تھے وہی ان کا کھانا تیار کرتا تھا۔ اور یہ اس کے گھر میں اپنی گرہ سے کھانا کھاتے ۔
(2)دوسری بات یہ کہ جب مجلس مناظرہ میں راجا صاحب آتے تو علماء کرام سمیت تمام حاضرین اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ راجا صاحب نے مولانا سے کھڑے نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا ہمارے مذہب میں غیر مسلم کی تکریم کرنا اور ادب سے اس کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں۔ مولانا کے یہ الفاظ سن کر راجا خاموش ہو گیا۔ اور اس کے بعد وہ لوگوں کو اکثر یہ واقعہ سنایا کرتا اور کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک عالم دین مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کو دیکھا ہے جو صحیح معنوں میں اپنے مذہب پرعامل تھے۔‘‘
اس واقعہ میں ان علماء کرام کے لیے بہت بڑی نصیحت موجود ہے کہ انسان کی عزت و احترام اس کے اپنے عقیدے اور منہج پر ڈٹے رہنے اور استقامت اختیارکرنے میں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر یا ان کے سامنے اپنے آپ کو انہی جیسی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں مشابہت اختیار کرنے میں
اسی طرح ایک مقام پر مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی زندگی کے بہت سے نصیحت آموز واقعات ذکر کرتے ہیں مولانا بھٹی صاحب مولانا مختار احمد ندوی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’مولانا نذیر احمد دہلوی کی وفات کا سب سے بڑا اثر جماعت اہل حدیث ہند کے تنظیمی اور تعمیری منصوبوں پر پڑا ہے جماعت ایک ایسے مخلص اور فعال راہنما سے محروم ہو گئی ہے جن کا بدل اب ملک میں کوئی نظر نہیں آ رہا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو مولانا کی وفات کی خبر پا کر سر تھام کر بیٹھ گئے (آج کل تو لوگ جماعتوں اور تنظیموں پر قابض لوگوں کی موت کی خود خواہش کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب بھی ’’چمنستان حدیث ‘‘کے صفحات سے ہی پڑھیں۔ ناقل)  ’’مولانا (نذیر احمد) رئیس (چودھری) نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے کبھی اپنی عملی زندگی کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور نہ جاننے والوں کو جان لینا چاہئے کہ مولانا نے اپنا دل و دماغ، علم و فکر، جذبات و احساسات کے سارے گنج ہائے گراں مایہ کو اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور ہندوستان میں جماعت موحدین کی ترقی کے لیے نثار کر دیا اور تمام عمر معمولی مشاہرے پر ہنس ہنس کر گزار دی۔ اس تھوڑے سے مشاہرے کا بھی خاصا حصہ وہ جماعتی امور کی نگرانی پر کسی نہ کسی حیثیت سے خرچ کرتے رہتے اور اس پر خوش ہوتے‘‘ (ص 260)
آج جو لوگ اپنے علمی یا دینی و مذہبی مقام و مرتبے کو دنیا طلبی اور جاہ پرستی کا ذریعہ بناتے ہیں اور دنیا داروں کی چوکھٹ پر اپنی علمی عظمتوں اور مذہبی شان و شوکت کو رسوا کرتے ہیں انہی یہ واقعات بار بار پڑھنے چاہئیں اور ان سے درس عبرت لینا چاہئے۔ انہی مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دو واقعات کی مزید نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جن سے ان کی اپنے عقیدے پر پختگی اور کلمہ حق کہنے میں جرات مندانہ کردار ادا کرنے کی زبردست دلیل ہے۔
مولانا بھٹی صاحب، مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں’’مولانا لکھنؤ کی دینی تعلیمی مجالس کے ممبر تھے۔ علی میاں، مولانا منظور نعمانی، قاضی عدیل عباسی اور دوسرے نامور اہل علم کے ساتھ آپ بھی اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔ بچوں کے لئے ابتدائی نصاب تعلیم کی ایسی کتابوں کی تصنیف کا مسئلہ درپیش تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہو بات یہ چل رہی تھی کہ دینیات کی تصنیف کس ڈھنگ سے کی جائے۔ کسی ممبر نے مشورہ دیا کہ دیو بندی عقائد کے مطابق انہیں لکھوا دیا جائے۔ مولانا نے فرمایا اس میں تمام فقہی مسالک کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کتابیں دوسروں کے لیے قابل قبول نہ ہونگی۔ اس پر یہ ترمیم پیش ہوئی کہ دوسرے مسالک کی باتیں حاشیہ پر لکھ دی جائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ کتابیں قرآن و سنت کے مطابق لکھوائی جائیں اور دیوبندی اور دوسرے مکاتب فکر کی وضاحت اس کے حاشیہ پر کر دی جائے۔ بالآخر بات اس پر ختم ہوئی کہ ہر مکتبہ فکر کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق اپنی کتابیں تصنیف کر کے داخل نصاب کریں۔ (ص 282)
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اجتماعی کمیٹیوں یا مشاورتی مجلسوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی ہاں میں ہاں ملا کر صرف تعلق داری یا TADA کی خاطر اپنے مسلکی نظریات اور جماعتی مفادات قربان کر کے گھر آ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں یہ کہnh تو چاہتا تھا لیکن میں نے بھری مجلس میں مناسب نہیں سمجھا۔ ارے اللہ کے بندوں جن کی نمائندگی کے لیے تم گئے ہو اگر ان کی نمائندگی نہیں کرنی ان کے مسلک و منہج کی ترجمانی نہیں کرنی تو پھر آپ کو یہ حق کیسے مل گیا کہ آپ اہلحدیث جماعت کے کوٹے سے کسی بھی مجلس یا کمیٹی کے رکن اور ممبر بنیں۔ یا پھر وقتی اور عارضی طور پر ہی کسی مشترکہ کانفرنس یا جلسے میں شریک ہوں آپ کا حق بنتاہے کہ آپ اپنے ذاتی تعلقات بنانے کی فکر نہ کریں اور اپنے ذاتی یا خاندانی مفادات کو مدنظر نہ رکھیںبلکہ مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کا حق ادا کریں مولانا املوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہی ایک واقعہ مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے مولانا بھٹی صاحب نے نقل کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔
’’مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی کے انتقال پر بنا رس میں ایک تعزیتی جلسہ ہوا۔ صدر مولانا عبدالمتین صاحب مرحوم رئیس بنارس تھے۔ مقررین میں ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ موجود تھے اس لیے یہ جلسہ ہر فرقے کا نمائندہ جلسہ تھا۔ ایک مقرر نے مولانا حفظ الرحمن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگ آزادی سے متعلق دارالعلوم دیوبند کی طرف کچھ غلط باتوں کا انتساب کیا اس کے بعد مولانا کی باری تھی۔ آپ نے جنگ آزادی کی پوری تاریخ ادھیڑ کر رکھ دی اور اچھی طرح واضح کر دیا کہ فرط عقیدت میں لوگ کتنی غلط بیانیاں کرتے ہیں آپ کی تقریر سے جلسے کی فضا بدل گئی اور لوگوں کو جنگ آزادی کی صحیح تاریخ معلوم ہو گئی‘‘ (ص 283)
یہ ہوتی ہے نمائندگی اور اپنی قوم یا جماعت کی ترجمانی رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ وجزاہ عن سائر اہل الحدیث۔ اس واقعہ کی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ گجرات میں مولانا عنایت اللہ شاہ گجراتی کی مسجد میں اہل حدیث اور دیوبندیوں کا مشترکہ جلسہ تھا جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدرسردار عبدالقیوم بھی شامل تھے۔ سیاسی لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ جس کی مجلس میں جاتے ہیں ان کے قصیدے پڑھنے اور جائز و ناجائز تعریفیں شروع کر دیتے ہیں ۔ سردار عبدالقیوم نے بھی یہی کیا کہ علماء دیوبند کی جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں خدمات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ۔ ان کے بعد شہیداسلام بطل حریت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ نے خطاب شروع کیا تو سردار عبدالقیوم اٹھ کر جانے لگے علامہ صاحب نے خطاب روک کر فرمایا سردار صاحب آج کی تقریر میں نے آپ کو سنانی ہے لہٰذا آپ واپس آجائیں۔ سردار عبدالقیوم واپس اسٹیج پر آ گئے تو علامہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے جنگ آزادی میں انگریز کے خلاف اہل حدیث کی جدوجہد اور قربانیوں کو بیان کیا اور تحریک پاکستان میں اہل حدیث کی خدمات کا بالتفصیل تذکرہ کیا کہ حق ادا کر دیا۔ علامہ صاحب کے خطاب کے بعد مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری دیوبندی مائک پر آئے اور فرمانے لگے علامہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے بالکل صحیح اور درست ہے اگر اسلام کی تاریخ سے اہل حدیث کی خدمات کو نکال دیا جائے تو اسلام کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ یہ ہے جرات ۔ حق نمائندگی اور اپنی جماعت کی ترجمانی ۔ اسی طرح ربوہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمتہ اللہ علیہ کی اس تاریخی تقریر کی گونج اب تک فضا میں موجود ہے جب آپ نے دیو بندیوں کے اسٹیج پر عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے لیے اہلحدیث کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کیا تو یوں تھا کہ جیسے سارے دیوبندیوں کو سانپ سونگھ گیا ہو اور پھر اس کے بعد انہوں نے علامہ صاحب کو کبھی دعوت نہ دی تھی حالانکہ ان کا دعویٰ تھا اور ہے کہ یہ کانفرنس مشترکہ ہوتی ہے۔ تو بہرحال مجھے ان مثالوں سے صرف اپنے ان مقتدر عطاء و اصحاب جبہ و دستار سے عرض کرنا مقصود ہے جو محرم الحرام یا ربیع الاول کے سلسلہ میں منعقدہ امن کمیٹیوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں یا صوبائی و قومی سطح پر کسی سیاسی یا انتظامی فورم پر انہیں اہل حدیث کی نمائندگی کا موقعہ ملتا ہے تو انہیں ببانک دھل ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مسلک و عقیدے کا اظہار کرنا چاہئے کسی قسم کی مصلحت کا شکارنہیں ہونا چاہئے۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور ان کے لیے عزت و وقار کی علامت بھی۔
اسی طرح مولانا عبدالروف جھنڈانگری والا مضمون بھی اپنے اندر بہت سی نصیحتیں سموئے ہوئے جس سے طلباء اساتذہ، خطباء، و علماء اور اصحاب وارباب مدارس بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں خصوصاً ان کے مدرسے کے انہدام اور دوبارہ تعمیر کا واقعہ جو بھٹی صاحب نے زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 384تا 390پر تفصیل سے بیان کیا ہے اس میں ان کا جذبہ دینی اور اپنے ادارے سے محبت اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کے قدرت کے اور مدد کے بہت سے مظاہر قارئین کے سامنے آ جاتے ہیں۔
طلباء کرام کے لیے بھی بہت سے مضامین میں نصیحت موجود ہے صرف ایک مضمون سے مختصر اقتباس نقل کرتا ہوں۔ ماضی قریب کے علمائے اہل حدیث کی فہرست میں سید مولابخش کوموی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بہت نمایاں ہے سید صاحب بہت بڑے عالم، فاضل اور متقی پرہیز گار اور بڑے منجھے ہوئے درد دل رکھنے والے شفیق استاد تھے ان کے حصول علم کے متعلق مولانا بھٹی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر308 پر رقمطراز ہیں’’سید مولابخش حصول علم کے لئے نہایت بے تاب تھے۔ لیکن انہیں اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا وہ نوجوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے مگر بے علم تھے اور دل میں اس کے حصول کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس خواہش کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کر لیا دل میں یہ جذبہ شدت سے ابھرا کہ کسی نہ کسی طرح علم ضرور حاصل کرنا چاہئے لیکن معاملہ یہ تھا کہ نہ کسی درس گاہ کا پتہ تھا اور نہ کسی قصبے یا شہر کی راہ معلوم تھی اب انہوں نے اپنی والدہ کے عطا کردہ بھنے ہوئے چنوں کے تھوڑے سے دانے صافے کے پلو میں باندھے، کسّی کندھے پر رکھی اور حسب معمول کھیتوں میں پہنچ گئے۔ پھر کسّی کھیت میں رکھی اور کسی کو بتائے بغیر انجانی راہوں پر روانہ ہو گئے۔ کچھ پتہ نہیں کہ کدھر کا رخ ہے اور منزل کونسی ہے زاد راہ وہی بھنے ہوئے چنوں کے چند دانے ہیں کوئی پیسہ پلے نہیں، خالی ہاتھ اور خالی جیب، بالکل یہی حالت کہ ۔
خرچ نہ بنھدے پنچھی تے درویش
جنہاں تقویٰ رب دا اونہاں رزق ہمیش
ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے سے تیسرے گاؤں چلے جا رہے ہیں بھوک نے بھی زور باندھ رکھا ہے مگر یہ کہیں ٹھہرتے نہیں اور نہ کسی سے روٹی کا ٹکڑا مانگتے ہیں ۔ بالاخر ایک گاؤں کی مسجد میں جا رکے اور نمازیوں سے کہا کہ وہ انہیں مسجد کے طہارت خانوں کی صفائی اور نمازیوں کے پانی بھرنے کے لیے بطور خادم رکھ لیں نمازیوں نے ان کے نام اور خاندان کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اپنا تعارف کرایا اس پر جواب ملا کہ ہمیں خادم کی ضرورت تو ہے لیکن آپ سید زادے ہیں اور ہم سید زادے سے یہ خدمت نہیں لے سکتے۔
اب پھر وہاں سے چل پڑے اور روپڑ کے قریب موضع ’سنانا‘‘ جاپہنچے۔ وہاں ایک عالم دین مولوی دین محمد رہتے تھے ان سے دینیات کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اسی دوران میں موضع ملک پور کے مولوی عبدالجبار سے کچھ کسب فیض کیا وہاں ایک فائدہ یہ ہوا کہ گردوپیش کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ اور یہ بھی پتا چلا کہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں کے لکھو کے میں ایک مدرسہ جاری ہے جس میں بہت بڑے عالم مولانا عطاء اللہ لکھوی طلباء کو تعلیم دیتے ہیں۔ اب یہ موضع ’’سنانا‘‘ سے نکلے اور چلتے پھرتے کسی نہ کسی طرح لکھوکے جا پہنچے۔ وہاں انہیں داخل تو کر لیا گیا اور تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا لیکن کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہ طلباء کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کرتے اور پانی میں بھگو کر ان سے اپنی بھوک مٹاتے اور استاد سے علمی پیاس بجھاتے۔ چونکہ علم کے لیے گھر سے بھاگ گئے تھے۔ لہٰذا اس صورت حال سے ہم آہنگی پیدا کر لی تھی اور دونوں طرف سے صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا ۔
الغرض اسی قسم کے نصیحت آموز واقعات سے بھرپور یہ حدیث کا چمنستان مہک رہا ہے اب جس کے جی میں آئے وہ اس کی خوشبو سے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کر لے اور جس کا جی چاہے وہ انہیں محض ایک واقعہ یا تاریخ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دے۔ ہم تو بزبان شاعر یہیں کہیں گے۔
اب جس کے جی میں آئے پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا
اللہ تعالیٰ محترم بھٹی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ہمیں ہمارے بزرگوں سے ملا دیا اور ان کے حالات و واقعات کی شکل میں ہمارے لیے نصیحت و راہنمائی کا سامان کر دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خوش رکھے مکتبہ قدوسیہ کے قدوسی برادران محترم ابو بکر قدوسی اور محترم عمر فاروق قدوسی کو کہ جنہوں نے اپنی تما م تر روایات (خوبصورتی، معیار اور تاخیر) کو برقرار رکھتے ہوئے ’’چمنستان حدیث ‘‘ قارئین کی خدمت میں پیش کی۔ اور یہ اعزاز ہے جامعہ سلفیہ فیصل آبادکا کہ یہ کتاب سب سے پہلے 3مئی 1215ء کو جامعہ سلفیہ میںمحترم اس تقریب کے لیے خصوصی طور پر محترم عمر فاروق قدوسی صاحب نے چند نسخے تیار کروا کے بھجوائے تھے۔
عزیز قارئین… آج جن حالات سے ہمیں واسطہ پڑا ہے کہ لوگ دوستی کے نام پر دشمنیاں پالتے اور انتقام لیتے ہیں، سازشوں کے جال بنتے اور حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حاسدین کی حوصلہ افزائی پر فتح و خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں ضروری ہے کہ علماء کرام اور طلباء حضرات خصوصی طور پر بھٹی صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں اور اپنے اسلاف کے حالات و واقعات کو پڑھ کر حوصلہ و ہمت حاصل کریں کہ انہوں نے کس طرح اپنے حاسدین اور سازشی عناصر کے حسد و بغض کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اپنی رحمت سے نوازا ۔
 اللھم اغفرلہم وارحمہم

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے