اللہ تعالی کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت کا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے گناہ درگناہ کرتے رہیں وہ تب بھی انہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی چاہے تو بندوں کے گناہ پر فورا سزا دے دے مگر اسکا ڈھیل دینا بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتاہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ ۭ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۭ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا( الکہف 58 )
’’ تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انھیں جلدی عذاب کردے، بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے‘‘
 یعنی اللہ تعالی عذاب دے نے میں جلدی نہیں کرتابلکہ اپنی رحمت کے معاملے کو جاری رکھتے ہوئے ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا
 ’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب سخت گیری فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن اللہ تعالیٰ ان کو میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے سو جب ان کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا‘‘( فاطر45 )
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس عرش پر ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ بات بھی لکھی:
ان رحمتی سبقت غضبی(صحیح البخاری:7422)
’’بے شک میری رحمت میرے غصے پر سبقت لے گئی۔‘‘ یعنی اللہ کی رحمت اس کے غصے اور عذاب پر غالب ہے۔ اسی بات کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ( الرعد 11 )
’’ بے شک اللہ تعالی نہیں بدلتا اس (نعمت) کو جوکسی قوم کے پاس ہے یہاں تک وہ خود بدل لیں اس کو جو ان کے دلوں میں ہے‘‘۔
 یعنی ان کے دلوں میں جو ایمان اور فطرت کی نعمت ہے جب تک وہ اسے نہیں بدلتے ‘ اللہ تعالی انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔ یہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے ساتھ سب سے پہلا جو معاملہ ہے وہ رحمت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے بندوں پر اتنا رحمان و رحیم ہے تو پھر اس کا عذاب کیوں آتا ہے؟رحمت کے باجود ہم کچھ لو گوں کو عذاب میں مبتلا دیکھتے ہیں؟ اللہ کی پکڑ کب آتی ہے ؟
ارشادباری تعالی ہے:
فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ (الرخرف 55 )
’’ پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا‘‘
غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کو غصہ کب آتا ہے؟ رحمت کر نے کے بجائے ‘ وہ غصب سے دو چار کیوں کرتا ہے؟قرآن و حدیث کے مطالعہ کے بعد چند ایسی صورتیں سامنے آتی ہیںجن کی وجہ سے اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔ ذیل میں ہم چند صورتیں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔
 1شرک:
اللہ تعالی کے غصہ اور اس کی پکڑ کا ایک بنیادی سبب ’’شرک ‘‘ ہے۔جب بندہ اللہ کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹہراتا ہے تو اللہ کو اس پر بہت غصہ اور غیرت آتی ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اپنی تلوار کو ادھر ادھر موڑے بغیر سیدھی تلوار کے ساتھ اسے کو مار دوںگا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی اس بات کا نبی اکرم ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’ تم سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم میں اسے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔’’اسی لیے اللہ تعالی نے ظاہری اور باطنی تمام منکرات کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم 1499)
یعنی جس طرح ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر شخص کی شراکت پر غصہ آتا ہے اسی طرح اللہ تعالی کو اپنی الوہیت میں کسی غیر کی شراکت پر بہت غصہ آتا ہے۔ شرک کی نجاست کی بنا پر اللہ تعالی اس آدمی کی تمام نیکیاں ختم کر کے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کریگا۔ اللہ تعالی نے اسی بارے میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے صاف الفاظ میں ارشاد فرمادیا:
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ( الزمر 65)
 ’’ یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ‘‘
شرک ایسا جرم ہے جس پر اللہ تعالی کو بہت غصہ آتا ہے۔ جو قوم اجتماعی طور پر اس کا ارتکاب کر تی ہے ، اللہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ایسی قوم پر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور وہ تباہ و برباد کر دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ، فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ(الاحقاف 28,27)
 ’’اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیںاور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں ،پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوگئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔‘‘
درج بالا نصوص سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ معبودان باطلہ کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ان پر اللہ کی پکڑ آتی ہے۔ ایسے لوگوں پر دنیا میں بھی مختلف صورتوں مین اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی انھیں ہولناک عذاب کا سامنا کر نا پڑے گا۔
2 اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا:
دین اسلام میں جھوٹ کی بہت زیادہ مزمت بیان کی گئی ہے۔ اور جھوٹ کی جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں وہ بھی بہت سخت قسم کی ہیں۔ مسلمان اگر آپس میں جھوٹ بولیں تو اسکی وعید الگ ہے۔ اگر کسی صحابی پر جھوٹ بولیں تو وعید الگ ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کریں تو وعید الگ ہے۔ اور اگر اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے اور اسکی طرف منسوب کریں تو اسکی سزا الگ ہے۔ اور جو اقوام اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے وہ قومیں پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ کسی وقت بھی اللہ کا عذاب ان کے پاس آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے پر تو کثرت سے جھوٹ بولاہی جاتا ہے ۔ اور رسول اکرم ﷺ کی طرف بھی کثرت سے جھوٹی احادیث منسوب کی جا تی ہیں۔ مگر کچھ بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ان کو یہ کام کر تے ہوئے ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی۔ جو بات انھیں اچھی لگتی ہے وہ اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو بیان کر نا شروع کر دے تے ہیں۔ خصوصا سوشل میڈیا پر اس قسم کا جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا ہے۔ اپنی طرف سے ایک پوسٹ تیار کر کے نیچے قرآن کی کسی سورت کا یا کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ اولا تو کوئی بھی پڑھنے والا حوالہ چیک ہی نہیں کر تا۔اور اگر حوالہ تلاش کر نے لگے تو وہ حوالہ بھی غلط ہوتا ہے۔ حقیقت میں اس بات کا نہ قرآن سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جو دلیل اور حوالے کا کونسیٹ ہے وہ بالکل ختم ہوگیا ہے۔بس مولوی صاحب نے جو بات بول دی ہے اور لکھ نے والے نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ سب ٹھیک ہے کوئی اسے حوالہ معلوم نہیں کرنا۔ اوراگر کوئی غلطی سے پوچھ بھی لے تو بزرگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا فلاں نے یوں کھا فلاں بزرگ کے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے فلاں کی یہ کرامات میں سے ہے اورفلاں کے یہ معجزات میں سے ہے۔ اس جاہل مولوی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ معجزات کا تعلق یہ نبیوںاور رسولوں کے ساتھ ہے۔ بزرگوں پر بات ختم ہو جاتی ہے مولوی صاحب اسے آگے نہیں جاتے۔ جب لوگ دین بزرگوں کے اقوال و ارا کوبنالیں اللہ تعالی پر اس قسم کا جھوٹ باندھنا شروع کر دیں تو ان پر اللہ کو بہت غصہ آتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے حوالے سے اسی بات کو بیان کیا ہے۔مشرکین مکہ نے جب رسول اللہ ﷺ کو شاعر اور کاہن کہا ۔ اور یہ الزام لگایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الحاقة: 44 – 46)
’’اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو ہم یقینا پکڑ لیتے ان کو داہنے ہاتھ سے ،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ‘‘
یہ اللہ تعالی کی دھمکی کسی عام شخصیت کو نہیں ہے بلکہ سید الابنیا دونوںجہانوں کے سردار رسول اللہ ﷺ کو مل رہی ہے۔ اگر دنیا کا کوئی عام انسان اللہ پر جھوٹ باندھے اورمنسوب کرے اس کا کیا حال ہوگا؟ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ ایسا جرم ہے کہ اسکا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ کا عذاب انکے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔کبھی نہ کبھی اللہ کی پکڑآسکتی ہے انھیں کسی نہ کسی صورت اللہ کے عذاب کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔
3 فحاشی و عریانی:
ہر معاشرہ پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہو ، یہ اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ جس معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیل جائے وہ معاشرہ نیست ونابود کر دیا جاتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو پاکیزہ ماحول فراہم کرتا ہے مگر بعض اسلام دشمن عناصر اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلا نے کے درپے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی فحاشی انتہا درجے کو پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ہاں فحاشی پھیلانے میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلانا بھی ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔فحاشی پھیلانے والے افراد دنیا ہی میں اللہ کے عذاب سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ( النور9 1)
’’ جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘
رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب کسی بھی قوم میں فحاشی علانیہ طور پر ہونے لگتی ہیں تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘(سنن ابی دائوود 40 )
جس معاشرے میں فحاشی پھیل جاتی ہے وہاں اللہ کی پکڑ کی ایک صورت طاعون جیسی بیماریاں ہیں۔ان نئی نئی بیماریوں کے بارے میں جو رائے قائم کر لی گئی ہے کہ ملاوٹ زدہ خوراک کے استعمال کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اس اندیشے کو رد نہیں کیا جاسکتا ، تاہم اصل سبب کچھ اور ہے ۔اسی سبب کی نشان دہی رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
4 ناپ تول میں کمی:
اللہ تعالی کی پکڑ اور عذاب کو دعوت دینے والے امور میں سے ایک امر ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اللہ تعالی اس قوم کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کسی سے کوئی چیز لیتے وقت پوری پوری لینا اور دیتے وقت کم کرکے دینا ، یہ قبیح فعل شعیب علیہ السلام کی قوم بھی میں پایا جاتا تھا۔شعیب علیہ السلام نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے۔ان کی اس سرکشی کی بنا پر اللہ تعالی نے ان پر دردناک عذاب نازل کیا۔ایک ہفتہ سخت گرمی پڑنے کے بعد ان پر بادلوں کا سایا کایا گیا۔جب لوگ بادلوں کو دیکھ کر ان کے سائے میں جمع ہوئے تو ان پر پانی کے بجائے آگ کے شعلوں کی بارش برسائی گئی۔یہ ان کے اس فعل کی سزا تھی جس سے وہ باز نہیں آتے تھے۔قرآن کریم نے اسے مختلف جگہ پر بیان کیا ہے۔دیکھیے: (الاعراف85،الشعراء 189)
یہ فعل قبیح مدینہ کے لوگوں میں بھی پایا جاتا تھا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے توسب نے اس فعل قبیح سے توبہ کرلی۔ اور اس کے متعلق سورۃ المطففین نازل ہوئی۔
وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ، الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ، وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ(سورۃ المطففین: 1،2،3)
’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں،جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں‘‘
یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ناپ تول میںڈنڈی مار کر کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس کو قحط سالی ، روزگار میں تنگی اور باد شاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ 4019)
5زکاۃ کی عدم ادائیگی:
اللہ تعالی کے دیے مال میں سے زکاۃ ادا کر نا اہل ایمان پر فرض ہے۔ جو لوگ سال گزر نے کے باوجود اپنے مال میں زکاۃ ادا نہیں کر تے قیامت کے دن تو انھیں عذاب ہو گا ہی البتہ دنیا میں بھی وہ اللہ کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔دنیا میں عذاب کی صورت یہ ہے کہ آسمان سے بارش روک دی جائے گی۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے۔ ’’جو لوگ اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کر تے ان پر آسمان سے بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو ان کو کبھی بارش نہ دی جاتی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ :4019)
یعنی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہ کرنا ایسا جرم ہے جس پر ا للہ کی پکڑ آسکتی ہے۔
خلاصہ کلام: میں نے پانچ اسباب بیان کیے ہیں جو اللہ کے عذاب کو دعوت دے نے والے ہیں۔ ان میں سے پہلا سبب ’’شرک‘‘ ہے ۔ اب آپ غور کریں کیا ہمارا ملک شرک سے پاک ہے؟ میں کسی صوبہ کی بات نہیں کرتا کسی ڈویژن کی بات نہیں کرتا کسی ضلع کی بات نہیں کر تاکسی تحصیل کی بات نہیں کرتا آپ کوئی کالونی کوئی محلہ کوئی سیکٹر اور کوئی گلی دیکھا دیں جہاں پر اللہ کے مقابلہ میں کوئی معبود اور مشکل کشا نہ بنا رکھا ہو۔ دوسرا سبب ’’اللہ پر جھوٹ باندھنا‘‘ ہے۔ یہ جرم بھی ہمارے اندر کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیااس گناہ کبیر سے بھرا پڑا ہے۔ ہر تیسری پوسٹ ایسی ہوتی ہے جو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ تیسرا سبب ’’ فحاشی و عریانی‘‘ہے ۔ہمارے ملک کا کوئی ایساکونا نہیں، جہاں پرفحاشی و عریانی نہیں پائی جاتی۔ ہر شہر میں تو زنا کے اڈے کھولے ہوئیں ہیں۔ چھوتھا سبب ’’ ناپ تول میں کمی کرنا ‘‘ہے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے ٹھیلے والے سے لیکربڑے سے بڑے جنرل اسٹور تک کوئی ایسا ہے جو اس فعل قبیح سے پاک ہو۔ الاما شاء اللہ۔ پانچواں سبب ’’زکاۃ ادا نہ کرنا ‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کا کونسا ایسا تاجر ، سرمایادار، اور مال دار ہے جو صحیح معنوں میں اللہ تعالی کا حق (زکاۃ) ادا کرتا ہے۔ جب اس طرح کے گناہ ہمارے اندر پائے جائیں گے توپھر اللہ تعالی کے عذاب تو آئیں گے۔ کبھی زلزلہ کی صورت میں آئیگا کبھی قحط سالی کی صورت میں آئے گا کبھی بارش نہ آنے کی صورت میں آئے گا کبھی بارش زیادہ آنے کی صورت میں آئیگا کبھی سیلاب کی صورت میںآئے گا ،یہ سب اللہ تعالی کے عذاب کی صورتیں ہیں۔
محترم قارئیں کرام : جن گناہوں پر اللہ کی پکڑ آتی ہے ان میں سے صرف پانچ گنا ہوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اور گناہ بھی ہیں جن پر دنیا ہی میں اللہ کی پکڑ کا ذکر ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں ان تمام گناہوں سے بچ کر زندگی گزارنی چاہیے تاکہ دنیا میں بھی اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہیں اور کل قیامت کے دن بھی سرخروہو سکیں۔اللہ تعالی ہمیں ان گناہوں سے بچ نے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے