وَالحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (صحيح البخاري (1/ 11)

محبت اس جذبے کا نام ہے کہ ہر جاندار جس کا متلاشی نظر آتا ہے البتہ انسان کے اندر اس جذبے کا شعور دیگر مخلوقات کی نسبت کچھ زیادہ ہے کیونکہ انسان کو اس کی ضرورت بھی زیادہ ہے محبت سے خالی دل ایسا ہی ہے جیسے جڑکٹا درخت جو نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کچھ لے سکتا ہے، محبت اصل میں ایثار اور قربانی کا نام ہے، بد قسمتی سے اغیار کی تقلید سے ہمارے معاشر ے میں محبت جیسے مقدس جذبے کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے آج بازاری سوچ کو بے حیائی کا جامہ پہنانے کا نام محبت رکھ دیا گیا ہے اور اس محبت کے اظہار کے لیے جس واقعے کو بنیاد بناکر جس دن کو مخصو ص کیا گیا ہے وہ خود اس کی خرابی کا پتہ دیتاہے اور خرابی تو ہوگی کیونکہ ببول کے درخت پر کبھی گلاب کے پھول نہیں کھل سکتے۔

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت:

مغربی شناخت کا حامل ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ اب ’’یوم محبت‘‘ نام کے نام کی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام کے اندر بے حیائی کے مرض کو پھیلانے کا سبب بننے والے واقعے کی حقیقت کے بارے میں وہ لوگ بھی کوئی باوثوق دعویٰ نہیں کر سکتے جو اس کے موجد ہیں اور مناتے ہیں اور جن سے اس لعنت کو امت مسلمہ نے مستعار لیا ہےلیکن جو زیادہ مشہور بات بیان کی جاتی ہےوہ یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ’’ویلنٹائن‘‘ نامی ایک رومن پادری کو ایک راہبہ سے عشق ہوگیا اب عیسائیت کے فطرت سے متصادم قوانین کے نتیجے میں راہب اور راہبہ شادی نہیں کرسکتے تھے ۔ سو راہب اور راہبہ شادی تو نہ کرسکے مگر کلیسا میں بیٹھ کربے حیائی کے مرتکب ہوئے جس کی پاداش میں دونوں کو قتل کردیا گیا بعض لوگ کہتےہیں کہ ویلنٹائن نامی پادری ان فوجیوں کی خفیہ شادیاں کرواتاتھا جن کو شادی کی اجازت نہ تھی لہٰذا اس کو قتل کردیا گیا بہر حال ا س کے قتل کے بعد اس کو ’’شہید محبت‘‘ کا لقب دیا گیا اور 14 فروری کو اس کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن یہود ونصاری کی مشابہت اور متابعت کے شوقین نام کے مسلمانوں نے اس کو اپنانا شروع کردیا یوں

ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ(النور: 40)

’’اندھیروں پر اندھیرا‘‘
کے مصداق صہیونوں کے ذرخرید غلام ہمارا الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کے لیے مہمیز کا کام کیا اور اس دن کو تقدس کا جامہ پہنا کر اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ ایک عام آدمی اس قسم کی محبت کے اظہار کو نظر استحسان سے دیکھنے لگااور یہ بھول گیا کہ پیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا :

 مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبي داود (4/ 44)

’’جو جس قوم سے مشابہت اختیا ر کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا‘‘
اصحاب العقول خود فیصلہ کریں کہ وہ دین اسلام جو امہات المومنین سیدہ خدیجہ، عائشہ، اور حفصہ رضی اللہ عنہن اجمعین کی بیٹیوں کو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک پردے کا حکم دیتاہے وہ کس طرح یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے ماننے والے بے حیائی اور محاشی کا ارتکاب کرتے ہوئے اوروں کی عزتوں سے سر عام کھیلتے ہوئے حوا کی بیٹیوں کو سر بازار گلدستے پیش کرتے پھریں،اقبال نے شاید انہی لوگوں کے متعلق کہاتھا؎
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

دین اسلام میں تصور محبت:

قطع نظر ویلنٹائن ڈے کی ابتداء اور حقیقت کے اگر ہم دین اسلام کے عمومی مزاج پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اخوت، مساوات اور محبت کا نام بلکہ دین اسلام کی عمارت کی بنیاد ہی محبت ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے

وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ(آل عمران: 159)

’’اگر آپ ﷺ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ ﷺ کے پاس سے چھٹ جاتے ‘‘
شریعت اسلامیہ ایک مسلمان سے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا تقاضاکرتی ہے ارشاد باری تعالی ہے :

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ(البقرة: 165)

 ’’اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ‘
امام کائنات ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه(بخاري (1/ 12)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘
انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اسے اس کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور وہ ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی اطاعت کیے بغیر دعوۂ محبت بے کار اور فضول بات ہے، اسی لیے رب تعالی نے ارشاد فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ(آل عمران: 31)

’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘
اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے علاوہ دیگر تمام محبتوں کی اسلام نفی نہیں کرتا بلکہ محبت کا حکم دیتاہے اور اسے مستحب عمل قرار دیتا ہے مگر اس کے لیے ایک مختصر، جامع اور محقق اصول وضع کرتاہے اور وہ اصول نبی ﷺ کی یہ حدیث

مبارکہ ہے:
الحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (بخاري (1/ 11)

’’محبت بھی اللہ کے لیے اور نفرت بھی اللہ کے لیے‘‘
وہ والدین کی محبت ہو،اولاد کی محبت ہو، زوجین کی محبت ہو، بہن بھائیوں کے درمیان محبت ہو یا دوست احباب کے درمیان محبت ہو اسلام یہی قاعدہ بتاتا ہے کہ یہ تمام محبتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر غالب نہ آنے پائیں یعنی ان تمام محبتوں کے شکنجے میں آکر انسان کوئی ایسا عمل نہ کر بیٹے جو شریعت اسلامیہ کے متعین کردہ طریقے کےخلاف ہو:

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبتیں:

آج کا روشن خیال طبقہ ’’ویلنٹائن‘‘ کو شہید محبت قرار دیتا ہے کیونکہ، شاعر نے کہا تھا؎
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
کسی نے اگر حقیقی شہید محبت دیکھانا ہے تو وہ میرے آقا ﷺ کے صحابی سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو دیکھے جسے یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے اور خباب اپنے گھر میں ارام سے ہو۔ یا احد کے ان شہدائے محبت کے لاشے دیکھے جن میں کئی کو کفن بھی پورا میسر نہ تھا انہی شہدا میں ایک نام سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جو شکل و صورت میں نبی مکرم ﷺسے بے حد مشابہت رکھتے تھے جاہلیت میں مکہ کے سب سے زیادہ نازوں میں پلے ہوئے نوجوان تھے، عالم یہ تھا جس گلی سے گزرجاتے خوشبو پتہ دیتی تھی یہاں سے مصعب کا گزر ہوا ہے لیکن اسلام لانے کے بعد سب کچھ قربان کردیا اور جب احد کے میدان میں شہید ہوئے تو کفن کی چادر اتنی سے تھی کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے پیر ڈھانپتے تو چہرہ ننگا ہوتا نبی مکرم ﷺ نے فرنے سر ڈھانپ دیا ور پیروں پر گھاس سے کفن دیا، اور اگر محبت کا دن منانے سے ہی محبت کا حق ادا ہوتا تو وہ دن منائے جانے کا زیادہ مستحق تھا جس دن نبی مکرم ﷺسعد بن ابی وقاص کو فرمارہے تھے:

ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي(صحيح البخاري (4/ 39)

’’(سعد) تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں‘‘
ہم میں اور ان میں فرق صرف اتنا ہےکہ انہوں نے محبت کا اصول سمجھ لیا اور کامیاب ہوگئے اور ہم نے وہ اصول نہ سمجھا اور اغیار کی تقلید میں اندھے ہوکر محبت کے لبادے میں نفرتوں کے خریدار بن گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے