ماہ رمضان اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص انعام، اور ہماری خوش نصیبی کہ اس ماہ مبارک کی برکات سے اپنے آپ کو منور کرنے کا ایک موقع مزید مل گیا، امت اسلامیہ پر عاید اس عظیم فریضہ کے تین پہلو بے مثال ہیں :
اول یہ کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا اور اس سے وفاداری اور عہد الست کی تجدید کرواتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کے حکم سے ہے۔ جو چیزروشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اللہ کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردوں گا۔ اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا اور اسی کیفیت اور رویے کا نام ہے تقویٰ۔
دوم کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ اور یہ ہدایت انبیا کو روزہ کی حالت میں ہی ملی یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت وہدایت ہے۔
لہذا اس مہینے کا حق ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کا ہم سے کیا تقاضا ہے۔
سوم یہ کہ رمضان کے روزوں کو مکمل کریں نہ صرف مکمل بلکہ اس کے بعد جو ذمہ داری ادا کرنی ہے وہ پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے اور وہ ہے کلمۃ الاخلاص کی عملا حاکمیت یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش اور اس طریقے سے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا۔
ان تینوں نکات کا خلاصہ ہمیں یہ نصیحت عطا کرتا ہے :
اس دنیا کا خالق و مالک و رزاق اللہ تعالی ہے ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیارکُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ، مالک اور حاکم ہےپھراس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی گئی اسے بتایا گیا کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود اللہ کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی اختیار کرے اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دےچونکہ خیر اور شر کی پہچان انسان کو ازل سے ہی ودیعت کر دی گیی اور اسی ضمن میں اسے عقل جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا اور سمجھا دیا گیا کہ عقل شرع کے تابع ہو تو نعمت الہی وگرنہ وسوسہ شیطان بن جاتی ہےہدایت الہی کو خود قرآن اس طرح بیان کرتا ہے :

الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(البقرۃ ۲:۲)

یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے

: الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرۃ ۲:۱۸۵)

قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔
د) یہ ہدایت کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ خیر کا مجموعہ ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدۃ۵:۴۸)

پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔
ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر۱۵:۹)

بلاشہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔
و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (یونس۱۰:۵۷)

لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔
ز) یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کا حقیقی موضوع انسان ہے کہ اس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔
جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے لکھا: قرآن کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے۔ (الفوز الکبیر)
قرآن نے ہمیں اسلام کا جو تصور دیا اس کے مطابق مسلمان کی زندگی کی تقسیمات موجودہ جعلی اور خود ساختہ ہیں کیوںکہ ان تقسیمات کی رو سے مسلمان کا اسلام زمانی و مکانی قیود کا پابند ہو جاتا ہے اور وہ صرف اس وقت مسلمان ہوتاہےجب وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد آتا ہے اور مسجد سے باہر نکلتے ہی دائرہ اطاعت سے باہر آ جاتا ہے یا پھر سال کا ایک مہینہ وہ مسلمان بنتا ہے اور باقی کے گیارہ مہینے پھر وہی نافرمانیاں اور بغاوتیں اور سرکشیاں یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کی اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (البقرہ۲:۲۰۸)

داخل ہوجاؤ خدا کے دین میں پورے کے پورے۔
انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی سب اللہ کی فرمانبرداری میں گزرنی چاہیے یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر اللہ کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ قرآن نے چودہ سو سال قبل انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا اس نے یہ اعلان کیا کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کردیا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
رمضان کے مہینے میں قرآن سے ہمارے ربط نے اگر ہمارے دل و دماغ میں یہ سوال پیدا نہیں کیے کہ
اگر قرآن نے پہلے مردہ زمین سے ایک نیا جہاں پیدا کردیا تھا، تو آج ایسا کیوں نہیں ؟
اگر قرآن کل شفا اور رحمت تھا، تو آج کیوں نہیں ؟
اگر ہم ماضی میں اس کی وجہ سے غالب تھے تو آج مغلوب کیوں ؟
اگر کل اسی قرآن کو ہمارے اسلاف دین کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور انجینئر بھی بنتے تھے تو آج کیوں نہیں؟
اور اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:
ایک تو یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت سے رہنمایی لینا بند کر دی ہو اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔
دوم یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کررہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے درست منھج اختیار نہ کر رہے ہوں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب کہا : جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہم دم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔ یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا۔ (الموافقات، ۳/324)
سید مودودی نے درست کہا کہ: فہمِ قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے، جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے، کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے

مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حاصل کرلیے جائیں…. یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے، ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے، ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی۔ اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین، آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے، جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن ۱/33)
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا دیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھرجاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔جب ہم قرآن کے ساتھ عملا جڑ جائیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری زندگی کا کویی گوشہ توحید سے باہر نہیں ہماری سیاست اور اقتصاد بھی اس دایرہ کے اہم اجزا ہیں۔ عصر حاضر کے نوجوان شدید فکری انتشار میں گرفتار ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ہر معاملہ میں انتہا پسند ہونا ہے اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان بنایا جایے اور مسلمان کی اصلاح کی جایے لیکن ہم نے اس بنیاد کو ہی مسخ کر دیا ہے جب تک کسی پر حکم نہ لگا دیں اس وقت تک ہماری کویی بات مکمل نہیں ہوتی رسول اللہ ﷺتو ہمیں اپنی سیرت سے یہ سبق دیں کہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟
اور ہم دلوں کے حال جاننے کا دعوی کرتے ہویے تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اصلاح کے بجائے انقلاب وتبدیلی کے خوشنما شیطانی راگ رنگ کو ہی ھدف سمجھا ہوا ہے جس کے بعد اخوت ایمانی کے بجائے رنگ و نسل کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں جس میں کہیں تو تقسیم کی بنیاد سیاسی جماعتیں تو کہیں مذہبی جماعتیں تو کہیں قبیلہ تو کہیں لسانیت اور رمضان کے مبارک اور مسعود لمحات تو ہمیں واعتصموا بحبل اللہکا سبق دیں جس میں ان تعصبات کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عالم اسلام کے مظلوم مسلمان جو عالمی صہیونی مجوسی اور ہندوانہ مکر وفریب کے ظلم و ستم کے شکنجے میں گرفتار ہیں ایمانی اخوت کی بنیاد پریہ سب ہماری دعاوں کے شدید محتاج ہیں کیونکہ یہ شیطانی مثلث حتمی معرکہ آرائی کے لیے اب کھل کر سامنے آچکی ہے جس میں ان کا سب سے بڑا ھدف عالم اسلام کا روحانی مرکز سعودی عرب اور دوسری اسلامی نظریاتی عسکری مرکزاسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں اور دونوں کے گرد ایک جیسا ہی جال بنا جا رہا ہے

وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ‏

اور ان شاءاللہ ان کی سب چالیں اور ساری مکاریاں الٹی پڑ جاییں گی جیسا نائن الیون اور ڈبل سیون وغیرہ جیسی سازشوں میں ہوا۔
رمضان کا آخری مبارک عشرہ نزول قرآن کا شاھد تو ہے ہی بلکہ قیام پاکستان کا بھی گواہ ہےتو یہ مہینہ ایک مرتبہ پھر ہمیں یہ سبق دیتا ہوا رخصت ہو گا کہ اگر کامیابی و کامرانی درکار ہے تونام محمد اور پیغام محمد ﷺ کے ساتھ ہماری غیر مشروط وفادری ہو نا چاہیے عالم کفر کی امت اسلامیہ کے خلاف یہ ہمہ جہتی یلغار اور غزو فکری تو ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے قرآن اور صاحب قرآن کی سیاسی و عسکری پالیسیوں کو اختیار کرنا ہو گا جس میں اسلام بلند ہوتا ہے نہ کہ پست جہاں طاقت ہو تو ان عالمی مجرموں کا اقتصادی بائیکاٹ اختیار کیا جائے جو ایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ۔
عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو اصلاح کے حقیقی تصور سے روشناس کروائیں ۔
الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر ﷺ کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ:

لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا ’

اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب قرآن کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے