کسی بھی دنیاوی یا دینی علم کو حاصل کرنے کےلئے پہلے
اُس کے مبادیات اور اصول کا علم حاصل کرتے ہیں جیسے تفسیر میں اصول تفسیر، حدیث میں اصول حدیث اور فقہ میں اصول فقہ وغیرہ۔ تاکہ ہم اُس مضمون کے ساتھ کماحقہ انصاف کرسکیں اور اس کے تقاضے پورے کرسکیں۔ ہر علم میں ہم اُس کی مبادیات کو صرف اس لئے حاصل کرتے ہیں تاکہ ہم اُس کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اُس میں عملی غلطیوں سے بچ سکیں۔ اور اِسی ضمن میں جب ہم اصول تکفیر اور اُس کے ضوابط کی بات کرتے ہیں تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم انجانے پن میں کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کریں کہ خود اُسی کے مجرم بن جائیں۔
مسئلہ تکفیر بھی اسی طرح اصول و ضوابط کا پابند ہے جن کے بارے میں علم حاصل کرنا ہر ذی علم پر فرض ہے کہ اُسی صورت میں وہ اپنے اوپر عائد کردہ فرائض سے عہدہ براہ ہوسکتا ہے۔اور اگر کوئی شخص اس مسئلہ میں اس کے ضوابط اور شروط کو مدنظر نہیں رکھتا تو سب سے پہلے وہ تکفیر اُسی پر لوٹ آتی ہے اور وہ واضح طورپر اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کررہا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار بھی ہوگا کیونکہ فتویٰ یا فیصلہ یا پھر کوئی حکم لگاناکوئی آسان کام نہیں کہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے لگادے۔ اور نہ ہی یہ مقام ایسا ہے کہ ہر شخص تو درکنار ہر عالم دین بھی اس پر فائز ہو۔ اس کی واضح مثالیں ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے عہد مبارکہ میں بھی نظر آتی ہیں۔اور اُس دور میں کتنے صحابہ اس مسند پر فائز تھے باوجود اس امر کے کہ اُن سب کے علم کا منبع نبی کریمﷺ کی ذات مقدسہ تھی۔ اور انہوں نے وحی کو اُترتے دیکھااور اُس پر عمل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔لیکن اس کے باوجود اُس افضل جماعت میں یہ بات نظر نہیں آتی کہ ہر صحابی اس مسند پر فائز ہوتا۔ اور اگر ایسا مسئلہ کسی عام صحابی کے ساتھ پیش آیاتو نبی کریمﷺ کے تہدیدی کلمات ” کیا تُو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا ” اور ناراضگی اُس کے لئے ہدایت نامہ بن گئی۔
یعنی خلاصہ القول اس مسئلہ سے اہل علم ہی عہدہ براہ ہوسکتے ہیں جو کہ تمام امور پر دسترس رکھتے ہوں اور حکم لگانے سے

پہلے چندامور پر بالخصوص غور کریں:

اول: محکوم علیہ کی صورتحال سے مکمل واقفیت
دوم: جس ضمن میں حکم لگایا جارہا ہےاُس کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
سوم: جو حکم لگایا جارہا ہےاُس کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
ذیل میں ہم اصول تکفیر کے ضوابط کا جائزہ لیتے ہیں:
ضابطہ نمبر 1: تکفیر شرعی امور میں سے ایک حکم ہے جو کہ صرف ربِّ کریم کا حق ہے اور اس حق میں کوئی جماعت، افراد، عقل، ذوق، تعصب اور حمیت وغیرہ کا عمل دخل نہیں ہے۔
تکفیرکےمنفی نتائج و عواقب سے بچنے کیلئے اس منہج کو اچھی طرح جان لیں کہ تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے جو کہ صرف اور صرف رب کریم کا حق ہے۔ واضح رہے کہ اس میں قران مجید اور احادیث نبویہ دونوں ہی شامل ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ: ” یہ بات اس سوچ کے خلاف ہے جیسا کہ بعض لوگ (ابو اسحاق) کہتے ہیں کہ ہم صرف اس کی تکفیر کریں گے جو ہماری تکفیر کرے گا۔ پس یہ اصول غلط ہے کیونکہ تکفیر اُن کا حق نہیں بلکہ اللہ کا حق ہے اور نہ ہی کسی انسان کےلئے جائز ہے کہ جو اُس کی تکذیب کرے وہ بھی اُس کی تکذیب کرے۔ اور نہ وہ کوئی برائی کرے کسی کے ساتھ کہ جس نے اُس کے
ساتھ برائی کی یعنی کسی کا اُس کے ساتھ برائی پر اُبھارنا
لازم نہیں ہے کیونکہ برائی کے مقابلہ میں برائی حرام ہے۔
مثال کے طور پر اگر یہود و نصاریٰ ہمارے رسول کریم
ﷺ کو گالیاں دیتے تھے تو ہمیں لازم نہیں کہ ہم بھی موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو گالیاں دیں اور اگر روافض ابوبکر و عمر رضوان اللہ اجمعین کی تکفیر کریں تو ہم علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کریں۔” ( منہاج السنۃ ۔ 5/244)
اور ایک جگہ فرمایا کہ:” اس لئے اہل سنت و جماعت اپنے مخالفین کی تکفیر اس وجہ سے نہیں کرتے چاہے اُن کا مخالف ان کی تکفیر کرے۔پس تکفیر حکم شرعی ہے اور انسان کے لئے جائز نہیں کہ اس کا تعاقب بھی تکفیر سے ہی کریں۔ جیسے کوئی کسی کے ہاتھ جھوٹ اور زنا سے برائی کرے تو لازم نہیں کہ وہ بھی جھوٹ اور زنا کے ساتھ یہ برائی کا بدلہ لے کہ جھوٹ اور زنا حرام ہیں۔ لہٰذا ہم کسی کی بھی تکفیر نہ کریں اس وقت تک، اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے اُس کی تکفیر نہ کی ہو۔(الرد علی البکری۔ 257)
اور قرانیؒ فرماتے ہیں : ” تکفیر کا عقلی امور میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ شرعی امور میں ایک اہم امر ہے بس جس چیز کے بارے میں شارع نے کہا کہ یہ کفر ہے تو اُس کا مرتکب کافر ہوگا چاہے اُس کا شمار کسی بھی ضمن میں ہو۔” (تہذیب الفروق۔156، 4)
اور اسی طرح غزالی رم طراز ہیں : ” کفر ایک شرعی حکم ہے جیسے رقّ اور حرّیت کیونکہ کسی کی تکفیر کا مطلب ہے اُس کا کون ہم پر حلال ہوگیا ہے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا پس اس تکفیر کا فیصلہ نص قرانی یا حدیث پر کیا جائے گا۔”
( فیصل التفرقہ بین الاسلام و الزندقہ-128)
اور ابن الوزیر فرماتے ہیں: ” یہ بے شک تکفیر ایک سمعی حکم ہے یعنی شرعی اس میں عقل کا کوئی دخل نہیں اور جب تک دلیل قطعی وارد نہ ہوجائے، تکفیر نہ کی جائے گی۔” (العواصم من القواصم 78، 4)
اور ابن القیم نے اسی بات کو اپنے قصیدہ نونیہ میں نظم کیا:
الكفر حق الله ثم رسوله

بالنص يثبت لا بقول فلان
من كان رب العالمين وعبده قد كفراه فذاك ذو الكفران

کہ تکفیر صرف اور صرف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا حق ہے یعنی نصوص قطعیہ کے ساتھ نہ کہ کسی کے قول کی وجہ سے۔
الشیخ ابن عثیمینؒ ایک سوال ” کیا آپ اہل تاویل کی تکفیر یا تفسیق کرتے ہیں۔” کے جواب میں لکھتے ہیں:” کسی کی تکفیر یا تفسیق ہمارا حق نہیں بلکہ وہ تو اللہ اور رسولﷺ کا حق ہے پس وہ شرعی احکام میں سے ہے جس کا منبع اور ماخذ کتاب و سُنت ہے۔ پس اُسی کو ہی ثابت رکھنا چاہیئے لہٰذا نہ تو کسی کی تکفیر کی جائے اور نہ ہی تفسیق حتیٰ کہ اس کے کفر اور فسق پر واضح دلیل نہ آجائے۔ کیونکہ کسی مسلمان کی بنیاد اس کا اسلام اور اس کی صداقت اور عدالت ہے یہاں تک کہ کسی دلیل قطعی کی مخالفت میں وارد ہونے کے بعد اس کے اسلام کا کمال یا مکمل اسلام ہی زائل ہوجاتا ہے، اس کی صداقت اور عدالت ختم ہوجائے کیونکہ ہم اگر کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے دو عظیم خطرات ہیں:
اول: اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا حکم اور محکوم کے ضمن میں
دوم: اگر تکفیر غلط کی گئی ہے تو اُس پر لوٹ آئے گی۔
لہٰذا کسی کی تکفیر سے قبل دو امور پر مکمل نظر ڈالنا لازمی ہے:
1۔ کتاب و سنت کی اس بات پر دلالت کہ یہ فعل یا قول کفریہ ہے یا فسق پر مشتمل ہے
2۔ اور اس حکم کا محکوم پر مکمل انداز میں انطباق ہونا کہ تکفیر کی عام شروط پوری ہوں اور اس میں کوئی امر مانع نہ پایا جائے۔”( القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسماء الحسنیٰ ۔ ص 87، 88)
ان علماء و فضلاء کے اقوال سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:
تکفیر صرف اور صرف اللہ اور اُس کے رسول کا حق ہے۔
تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے نہ کہ عقلی مسئلہ۔
تکفیر میں کسی قسم کے عقلی دلائل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
تکفیر صرف اور صرف نصوص قطعیہ کے وارد ہونے پر کی جائے گی۔
تکفیر کے نتائج میں: اللہ اور اُس کے رسول پر جھوٹ، اُس کے خون کے حلال ہونے کا بیان، غلط تکفیر مکفّر پر لوٹ آئے گی۔
مخالفت میں تکفیر کرنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
ضابطہ نمبر 2: قیام حجت اور زائل شبہات
کسی بھی مسلمان کی تکفیر اس کے کسی قول، فعل یا اعتقاد پر نہ کی جائے یہاں تک کہ اس پر حجت نہ قائم کردی جائے اور اس سے متعلقہ امور میں شبہات کو زائل نہ کردیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا( الاسراء15)

” اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔”
اس مفہوم میں بے شمار آیات ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے جس پر وہ اثبات میں جواب دیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے آمد اور اپنی ہدایت کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کسی قوم یا کسی فرد تک اُس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا۔ وہاں یقیناً کسی کے ساتھ ظلم نہ ہوگا۔ اِسی طرح بہرا، پاگل، فاتر العقل اور زمانہ فطرت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانہ میں فوت ہونے والوں کا مسئلہ ہے تو اُن کی بابت بعض روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ اُنہیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اگر وہ اللہ کے حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو جہنم اُن کے لئے گل و گلزار بن جائے گی بصورت دیگر اُنہیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔( مسند احمد 4/24 ، ابن حبان 9/226، صحیح الجامع الصغیر البانی نمبر 881)
اِسی طرح چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے۔ مسلمانوں کے بچے تو جنّت میں جائیں گے ہی البتہ کفّار اور مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے۔ اِس میں کوئی تؤقف کا قائل ہے اور کوئی جنّت میں جانے قائل اور کوئی جہنم میں۔
ابنِ کثیر لکھتے ہیں: ” میدان حشر میں اُن کا امتحان لیا جائےگا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنّت میں اورجو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔” ( تفسیر ابن کثیر ، سورۃ بنی اسرائیل آیت 15)
لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنّت میں جائیں گے۔ ( صحیح بخاری-3/251، 12/348، مع لفتح لابن حجر)
خلاصہ القول: جب تک اس پر حجت نہ قائم کی جائے گی اس پر حکم نہ لگایا جائے گا امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری” میں لکھا ہے: ” کتاب استتابۃ المرقدین” اور تبویب باندھی ہے کہ خوارج اور ملحدین سے قتال جائز نہیں یہاں تک کہ اُن پر حجت قائم نہ ہوجائے اور اُن کا باطل ہونا ثابت ہوجائے اور اس پر دلیل یہ آیت ہے کہ اس میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کا مواخذہ نہ کرے گا یہاں تک اُس کیلئے دونوں راستے کھول کر بیان کردے۔” (عمدۃ القاری۔ عینی 369/19)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” تکفیر امور وعیدیہ میں ہے چاہے اس کا قول نبی کریمﷺ کے قول کی تکذیب کرتا ہو لیکن ہوسکتا ہے اُس نے اسلام قبول کیا ہو یا پھر کسی دُور دراز جگہ میں رہائش پذیر ہو جہاں اسلام کی تعلیمات مکمل طور پر نہ پہنچ سکی ہوں تو ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے گی سوائے حجت قائم کرنے کےبعد اور بعض اوقات ہوتا ہے کسی نہ کسی مسئلہ میں متعلقہ نصوص نہیں ہوتیں یا پھر اس کے نزدیک معارض نصوص بھی ہوتی ہیں تو باوجود اس کے وہ غلطی پر ہوتا ہے لیکن ہم تکفیر نہیں کرسکتے۔” ( مجموع الفتاویٰ۔ 231/3)
اور ایک جگہ لکھا ہے کہ: ” پس کسی کیلئے جائز نہیں کہ مسلمان میں سے کسی کی تکفیر کرے، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو لیکن جب تک اُس پر حجت نہ قائم کی جائے اور تمام شبہات کو زائل نہ کیا جائے۔” ( مجموع الفتاویٰ۔ 465/12)
اور ابن قدامہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ” المغنی” میں رقم طراز ہیں کہ: اگر وہ شخص کسی چیز کے وجوب کا منکر ہے کیونکہ وہ اسلام جدید کا حامل ہوسکتا ہے یا پھر اُس نے کسی ایسی جگہ تربیت پائی ہو جہاں اسلام کی مکمل تعلیمات نہ پہنچ سکی ہوں، اہل علم اُس کی تکفیر نہیں کرتے یہاں تک کہ اُس کو پہلے اس مسئلہ پر وارِد شُدہ نصوص سے متعارف نہ کروایا جائے اور سمجھایا جائے اور پھر بھی انکار کرے تو وہ کافر ہوگا اور اگر وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں اسلام مکمل خدوخال میں موجود ہے تو انکار کرنے والا کافر ہوگا۔” (المغنی ابن قدامہ ۔ 85،86/10)
اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدامہ بن مظعون نے شراب کو حلال جانتے ہوئے استعمال کیا تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے اُن پر حد جاری کی اور اُنکی تکفیر نہ کی اور اِسی طرح ابو جندل اور اُنکے ساتھ ایک جماعت نے شام میں شراب کو حلال جانتے ہوئے پیا اِس آیت کی دلالت کرتے ہوئے (آیت ؟) ” کوئی حرج نہیں مؤمنین پر کہ وہ کچھ کھائیں پئیں” تو اُن کی تکفیر نہ کی گئی تھی بلکہ شراب کی حرمت سے واقف کروایا گیا اور اُنہوں نے توبہ کی اور پھر اُن پر حدّ جاری کی گئی۔
اور اسکی مثالیں حیات طیبہ سے بھی ملتی ہیں۔ جیسا کہ مختلف احادیث میں ملتا ہے کہ:سیّدنا معاذ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبیﷺ کو سجدہ کرنے کی اجازت طلب کی تو نبیﷺ نے اُن کی تکفیر نہ کی بلکہ اُن کو سمجھایا کہ سجدہ صرف اور صرف اللہ کےلئے ہے، غیر اللہ کےلئے سجدہ جائز نہیں ہے۔ لا سجدہ الا اللہ اور ان جیسے اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ازالہ جہالت و شبہات اور موانع سے قبل حکم لگانا مناسب نہیں اور اس ضمن میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین جیسا افضل گروہ ایسی حالت میں گرفتار ہوسکتا ہے اور ایسے ماحول میں جہاں نور اور ہدایت ہے تو موجودہ دور میں کوئی عام آدمی اس رعایت کا اُن سے زیادہ مستحق ہے۔
( الدر النضید ۔ ج9)
اور کیسے وہ لوگ جو جہالت کے غلبہ میں اور عہد نبوی سے دور ہیں ، ہوسکتا ہے صحابہ کرام کی نسبت دینی احکام کےعلم کے پس منظر میں اور سیّدنا معاذ کے نبی کریمﷺ کو سجدہ سے امام شوکانی یہ دلیل اخذ کرتے ہیں کہ جس نے جہالت کا شکار ہوکر غیر اللہ کو سجدہ کیا تو وہ کافر نہ ہوگا۔
( نیل الاوطار ۔ 363/6)
حتیٰ کہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ: ” جو کوئی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت کی بات کرے یا اللہ کے مخلوق میں حلول کے بارے میں کہتا ہے یا کوئی بھی ایسا قول جو صراحتاً اسلام کی مخالفت میں ہوتو قیام حجت سے قبل اُس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔” ( الفصل ۔ 293/3)
خلاصہ القول:
تکفیر صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حقوق میں سے ہے۔
قیام حجت سے قبل تکفیر کرنی درست نہیں ہے۔
ازالہ شبہات سے قبل بھی تکفیر مناسب نہیں ۔
ازالہ جہالت کے بعد تکفیر کرنا بہتر ہے۔
جہالت کا شکار ہو کہ کوئی کتنا بھی جرم کرلے اگر وہ اپنی غلطی ماننے پر توبہ کرلیتا ہے حتیٰ کہ غیر اللہ کو سجدہ بھی تو وہ قابل معافی ہے۔
جہالت کے اسباب میں سے ہوسکتا ہے کہ اس سے اسلام حال ہی میں قبول کیا ہو، اس تک اسلام کی تعلیمات مکمل نہ پہنچی ہوں، اس کے پاس کوئی معارض نصوص ہو، اس تک اسلام کی صحیح صورت نہ پہنچی ہو۔
ضابطہ نمبر 3: تکفیر میں اصول اور فروعی مسائل کی کوئی تخصیص نہیں
مسئلہ تکفیر میں ایک بڑی غلط فہمی کہ تکفیر صرف اصولی مسائل میں ہےاور فروعی مسائل میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے یعنی اصولی مسائل سے مُراد اعتقادی مسائل اور فروعی مسائل سے مُراد عملی مسائل۔
جب کہ نہ تو قران مجید اور نہ ہی احادیث صحیحہ سے بلکہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی کوئی ثبوت ملے کہ فروعی معاملات میں تکفیر نہیں ہے۔ اور اس قول کا اسلام اور نہ ہی سلف صالحین سے کوئی تعلق ہے بلکہ یہ اصول کلام اور مبتدعہ کا قول ہے جیسے خوارج، معتزلہ، جہمیہ اور اشاعرہ وغیرہ۔ اور افسوس کی بات ہے کہ یہ عقیدہ ہمارے عامۃ الناس میں تکفیر کے مسائل میں بنیادی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور بعض فضلاء حضرات بھی اس جہالت کے شکار دیکھے۔
جبکہ یہ بات کسی امام سے ثابت نہیں کہ ” نصوص ۔۔۔ عن التفکیر” سے مراد تکفیر عین ہے اور یہ کہ ہر مبتدع کافر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو یہ قول کہے یا فعل کا مرتکب ہو وہ کفر کا مرتکب ضرور ہوا ہے اور اس سے مراد تحذیر و ترتیب ہے نہ کہ مطلقاً تکفیر اور یہ لازم نہیں کہ اگر قول کفریہ ہو تو اس کا قائل بھی کافر ہوگا یا تکفیر کا مستحق ہوگا۔ جبلہ وہ معذور ہو تو لازم ہے کہ مکمل شروط و ضوابط ثابت ہونے کے بعد تکفیر کی جائے گی۔ (ماخوذ ۔ منہاج السنۃ ، ابن تیمیہ 240، 239 / 5)
کیونکہ ممکن ہے کہ کفریہ قول کے قائل تک صحیح نصوص نہی پہنچی ہوں اور بعض اوقت ہوسکتا ہے کہ پہنچی ہوں لیکن اس کے نزدیک ثابت نہ ہوں یا پھر وہ درست طور اُن کو نہ سمجھ سکا ہو یا پھر اس کے پاس شبہات ہوں تو جو شخص حق کی طلب و حرص میں کسی خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو اللہ غفور و رحیم ہے۔
اب وہ مسائل اعتقادی نظری ہوں یا فروعی عملی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہی وہ درست مذہب ہے جس پر آئمہ کرام اور سلف صالحین تھے کہ انہوں نے نظری اور عملی مسائل میں کوئی تقسیم نہ کی کہ یہ اصولی مسائل ہیں ان منکر کافر اور فروعی مسائل ہیں ان کا منکر کافر نہ ہوگا۔اور اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ کرام میں اصولی مسائل میں بھی اختلاف موجود تھے جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اختلاف کہ نبیﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔
1۔سیدناابن عباس اور دیگر صحابہ، کعب احبار وغیرہ اس بات کے قائل تھے کہ محمدﷺ نے رب العالمین کو دیکھا ہے۔
2۔جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود اور ابو ہریرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” تم لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ سیّدنا ابراہیمؑ کے لئے خلّت اور موسیٰؑ کیلئے کلام اور محمدﷺ کیلئے دیدار الٰہی ہے۔” (عبداللہ بن احمد ۔ السنۃ 145، الشریعہ۔آجری 491، تحفہ الاشراف 167/5، شیخ البانی اس کو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیتے ہیں۔) اور اس کے علاوہ بھی احادیث مروی ہیں۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ” کہ تم اللہ کا قول نہیں سُنتے ……

لَّا تُدْرِكُهُ ٱلْأَبْصَٰرُ وَهُوَ يُدْرِكُ ٱلْأَبْصَٰرَ ۖ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ (انعام103)

” اُسکو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔” اور یہ کہ

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ عَلِىٌّ حَكِيمٌ (شوریٰ-51)

“ناممکن ہے کسی بندہ سے اللہ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے ، بے شک وہ برتر ہے حکمت والا ہے۔” جو شخص یہ گمان رکھے کہ نبیﷺ نے اپنے رب کو دیکھا وہ اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ بولنے والا ہے۔ ( بخاری ۔ کتاب التفسیر سورۃ نجم 8/606، مسلم کتاب الایمان باب 77 معنی قولہ تعالیٰ ولقدرآہ نزلۃ آخری ترمذی۔ تفسیر 5/262) مزید تفصیل کیلئے دیکھئے ( کتاب التوحید، ابن خزیمہ ۔ جلد2 ص 477 تا 563)
اب ان اقوال کی موجودگی میں ہم کیا کرسکتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نماز، روزہ، حج اور تحریم فواحش وغیرہ کا منکر یا اس کی وجوب کا منکر کافر ٹھہرتا ہے باوجود اس کے عملی مسائل ہیں اور پچھلا اصولی مسئلہ تھا لیکن اس میں اختلاف کے باوجود تکفیر نہیں کرتے۔ ( مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہؒ ۔ 3/229 تا 231)
سب سے خوبصورت بات کہ حریص حق کے لئے اجتہاد کرنے والے کےلئے مغفرت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہے کہ وہ کس چیز کو عقیدہ بناتا ہے اور اس کی بنیاد قران یا احادیث ہوتی ہے وغیرہ۔
اس ضابطے کیلئے سب سے خوبصورت بات امام محمد بن عبدالوہاب نے کی ہے اور شیخ نے وہ طریقہ اختیار کیا ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے روا رکھا تھاکہ قیام حجت سے قبل کسی کی تکفیر نہیں کرنی چاہیئے وہ مسائل نظری ہوں یا عملی۔ فرماتے ہیں: ” یہ جو ہمارے مخالفین ہم پر بہتان لگاتے ہیں کہ ہم صرف گمان اور تعصب کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں تو یہ بہتان عظیم ہے اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس سے مقصد لوگوں میں دین سے نفرت پیدا کرنا ہے۔” (مؤلفات شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ج5، ص25)
بلکہ یہ فرمایا کہ: ” جب ہم اُس بندے کی تکفیر نہیں کرتے جو احمد بدوی کی قبر کی عبادت کرتا ہے کہ وہ جاہل ہے اُس کو بتانے والا نہیں ہے تو ہم غیر مشرک کی تکفیر کیوں کریں۔” ( منہاج اہل الحق و الاتباع ، ص56)
اور سب سے واضح بات یہ فرمائی: ” ہم تو صرف اُس کی تکفیر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک کرتا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب ہم اُس کے سامنے حق کو واضح کردیں، باطل کو باطل ثابت کردیں۔” (مؤلفات شیخ محمد بن عبدالوہاب ۔ ج5،ص60)
خلاصہ القول:
تکفیری مسائل میں عمل اور فرع کی کوئی تخصیص نہیں۔
بعض اصولی مسائل میں واضح اختلاف کے باوجود تکفیر ممکن نہیں جیسا کہ صحابہ کرام میں اختلافات تھے۔
بعض عملی / فروعی مسائل میں اس کے وجوب کا منکر تکفیر کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
یہ سوچ غلط ہے کہ تکفیر صرف اصولی مسائل اور فروعی مسائل میں نہیں ہوتی جیسا کہ سطور سابقہ میں واضح کیا گیا ہے۔
ضابطہ نمبر 4: دقیق اور خفی مسائل میں عُذر کا قبول کرنا
بعض مسائل اتنے دقت طلب اور اتنے وسیع ہوتے ہیں کہ ان پر کماحقہ دسترس حاصل ہونا یا اُن پر مکمل نظر رکھنا بہت مشکل امر ہے۔خاص طور پر علوم کی ترویج و ترقی کے بعد یہ ممکن نہیں ہی نہیں رہا کہ ایک شخص ان تمام علوم پر دسترس حاصل کرلے۔ اور اس میں اصل یہ ہے کہ ایسے مسائل میں فضلاء اور علماء کا عُذر مقبول ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اسی مسئلے پر شافی و کافی گفتگو فرماتے ہیں کہ: ” اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دقیق مسائل میں خطا کے مرتکب کیلئے معافی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں چاہے وہ علمی مسائل ہی کیوں نہ ہوں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو امت محمدیہ کے اکثر فضلاء و علماء ہلاک ہوجاتے۔ اور جہالت میں شراب پینے کا جرم کرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں باوجود اس امر کے کہ وہ اس بارے میں علم حاصل نہیں کرتا تو ایک عالم و فاضل جو کہ صرف اور صرف رسولﷺ کی متابعت میں علمی مسائل پر غور و فکر اور تدبر و تعقل کرتا ہے تو وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حسنات کو قبول کرے اور اجتہادات پر اجر دے اور خطاؤں پر مواخذہ نہ کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ٢٨٥؁(البقرة : 285)

“رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم رسولوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے . ہم نے پیغام الٰہی کو سُنا اور اس کی اطاعت کی پروردگار اب تیری مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔”(مجموع الفتاویٰ ۔ ج20 ، ص 165-166)
جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان فرائض، طلاق وغیرہ کے مسائل میں اختلافات کے واقعات رُونما ہوئے جبکہ وہ براہ راست منبع نور سے مستفید اور مستفیض ہوئے اور اب اتنا طویل وقت گزرنے کےبعد ہمارے بہت سارے مسائل جو واضح تھے، موجودہ زمانے کے احوال کے تحت وقت کے گردابوں کے تحت چھپ گئے اور لوگوں کیلئے دقت طلب بن گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس میں مغفرت فرمائے۔آمین
خلاصہ القول:
علم کی وسعت کی بناء پر مطلقاً کسی پر فوری طورپر حکم لگانا درست نہیں۔
چونکہ اس کا تعلق علماء اور فضلاء سے ہے لہٰذا اس بارے میں ان کے اعذار مقبول ہونگے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں بھی اختلافات واقع ہوئے لہٰذا ان اختلافات کی بناء پر کسی عالم دین کو کافر کہنا درست نہیں یہاں تک کہ باقی شروط پوری نہ ہوں۔
ضابطہ نمبر 5: وہ زمانہ اور مکان جہاں جہالت عام اور اہل علم کی قلت ہو وہاں کا عذر تکفیر نہ کرنے پر قبول کیا جائے تو زیادہ بہتر و احسن ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ” لیکن جہالت کے عام ہونے پر اور علم کی قلت واقع ہونے پر تکفیری امور آسان نہیں رہتے جیسے انبیاء اور صالحین سے دعائیں مانگنا یہاں تک کہ آپ اُن لوگوں کو اس ضمن میں تعلیمات اسلام سے روشناس نہ کرائیں۔” ( الرد علی البکری۔ ص 376)
ہمارے پاکستان میں بعض دیہاتوں میں یہ جہالت دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے اور سندھ کے بعض علاقوں میں بیٹیوں ار بہنوں کی شادیاں قران مجیدسے کرنے کا رواج بھی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے بعض علاقوں میں اسلام اپنی مسخ شدہ صورت یعنی اسماعیلی اور شیعی مذہب کی صورت میں پہنچا۔ اُن لوگوں کو اسلام کا علم نہیں اور تو اور یورپ میں بوسنیا میں جو مسلمان ہیں اُنہیں کلمہ توحید سے آگے اسلام کے تقاضوں کا علم نہیں وہ صرف اس لئے مسلمان ہیں کہ مسلمان گھر میں پیداہوئے اور اُنہیں کلمہ یاد کرا دیا گیا اُس کے بعد اُن کے اعمال، لباس، چال ڈھال غرض یہ کہ ہر چیز میں یہودی اور عیسائی ثقافت نظر آتی ہے۔ ایسے وقت میں ایسی جگہوں پر انسانوں کو جتنا کچھ ایمان میں سے اُن کے پاس ہے وہ اتنے ہی عمل کے مکلّف ہیں اور اُس کا ہی اجر ملے گا۔
واضح رہے یہ اُس کیلئے ہے جس حجت کا قیام نہ ہو۔ اور اس جہالت اور قلت علم کا عام مشاہدہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں امام مسجد کو صرف چند صورتیں یاد ہوتی ہیں۔ نہ تو وہ مکمل قران مجید درست تلفظ کےساتھ پڑھ سکتا ہے اس کے معانی کا علم تو دور کی بات ہے اسی ضمن میں گذشتہ ایام نوائے وقت میں شائع ہونے والا پنجاب کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے جس میں دو سگے بھائیوں کی شادی دو سگی بہنوں سے ہوئی۔ شب زفاف میں دونوں کی بیویاں تبدیل ہوگئیں۔ صبح اس بات کا علم ہونے پر مقامی مولوی صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ جو جس کے پاس چلی گئی وہی اُسکی بیوی ہے۔ اس سے لوگوں کی علمی سطح اور معلومات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ : ” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ وہ لوگ نماز، روزہ، حج اور عمرہ نہ جانتے ہونگے سوائے بوڑھے لوگوں کے اور کہتے ہوں گے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو یہ کہتے سُنا لا الہ الا اللہ تو خذیفہ الیمان سے کہا گیا کہ یہ لا الہ الا اللہ اُن کےلیے کیا کرسکتا ہے تو فرمایا اُن کو جہنم کی آگ سے آذادی دلوائے گا۔” (ابن ماجہ، 40،49 الحاکم473/3 ، سلسلہ الصحیحہ 87)
“کیونکہ ایمان تو وہ ہی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے اخذ کیا جائے یعنی اُن کی دی ہوئی تعلیمات سے نہ کہ لوگوں کے گمان اور خواہشات نفسانی پر اور جب تک کسی شخص کے حق میں تمام شروط ثابت نہ ہوں اور اُس کے موانع غیر موجود ہوں تو اُس کی تکفیر کی جائے گی۔” ( مجموع الفتاویٰ ج35 ص165،166 مفہوم)
اور ابن القیم فرماتے ہیں: ” بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قیام حجت بھی زمان و مکان کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے یعنی ایک حجت جو ایک شخص پر قائم ہوتی ہے۔ ضروری نہیں وہ ہر شخص پر مکمل ثابت ہوجائے۔” ( طریق الہجرتین ۔ ابن القیم 414)
اس میں ابن القیم نے ایک زرّیں اصول بتایا کہ ضروری نہیں کہ ایک دلیل اور حجت ہر زمان و مکان کیلئے مفید ثابت ہوگی بلکہ اس کا تعین حالات کے اعتبار سے کیا جائے گا۔ جیسے ایک جگہ جہالت اور علم کو روشناس کروانے والا کوئی بھی موجود نہیں ہے، یہاں حجت کی نوعیت اور ہوگی اور دوسری جگہ جہالت کے ساتھ علمی جماعت موجود ہے اور ہر قسم کی سہولت بھی موجود ہے تو دونوں کے حکم کی نوعیت میں فرق ہوگا۔

خلاصہ القول:

جہاں دین کی تبلیغ نہ ہوئی وہاں حکم لگانے سے قبل تبلیغ اتمام حجت کے لئے لازم ہے۔
اسی طرح جہاں دین صحیح شکل میں نہ پہنا ہو وہاں بھی یہی حکم ہے۔
جو جتنا جانتا ہے وہ اُتنا ہی مکلّف ہے۔
تکفیر کیلئے ہر شخص کے احوال کا انفرادی طور پر جائزہ لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
جہالت اور ہٹ دھرمی میں فرق کی بناء پر حکم بھی مختلف ہوگا۔
ضابطہ نمبر 6: ایسا شخص نسبتاً کم علم ہو یا پھر صحیح علم کے اخذ کرنے سے عاجز ہو، متمکن اور صاحب علم کے مقابلے میں اُس کا عُذر قبول ہوگا۔
حجت انسانوں پر دو چیزوں سے قائم ہوتی ہے:
اوّل: جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اُس پر متمکن ہو یا عالم ہو۔
دوم: جو کچھ علم میں ہو اُس پر عمل کی قدرت رکھتا ہو۔
اور علم کے اخذ کرنے سے عاجز یا غیر متمکن یا غیر عالم سے مراد مجنون اور عمل سے عاجز وغیرہ ( مجموع الفتاویٰ 59/20)
ابن تیمیہؒ کے اس قول سے علم ہوا کہ کسی کی تکفیر کرتے ہوئے دو بنیادی امور کو مدنظر رکھنا لازم ہے وہ یہ اوّل علم کی موجودگی، دوم اُس پر عمل کی قدرت ۔ ورنہ حکم تکفیر صحیح نہ ہوگا۔
پس اس کے واضح ہونے کے بعد میں عرض کروں گا کہ ” وہ شخص جس نے ایمان کے بعض واجبات کو ان دونوں وجوہات میں سے کسی ایک کی بنیاد پر چھوڑا تو وہ اس کا مکلّف نہ ہوگا اور اس پر اس ضمن میں حکم عائد نہ کیا جائے گا۔
اس قائدہ کی اصل قران مجید کی ایک آیت ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ ( البقرۃ – 286)

“اللہ کس نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔”
خلاصہ القول:
حکم لگانے سے قبل اس شخص پر مکمل اتمام حجت کیلئے مکمل جائزہ ضروری ہے کہ آیا جس ضمن میں حکم لگایا جارہا ہے اس کے بارے میں اس کو مکمل اور صحیح معلومات بھی ہیں یا نہیں۔
اگر علم کی موجودگی کے باوجود وہ عمل پر قدرت نہیں رکھتا تو اس کا مواخذہ نہ ہوگا کہ وہ اس پر مکلّف ہی نہیں تھا۔
ضابطہ نمبر7: تکفیری مسائل میں ایسا مقلد جو حق کی معرفت رکھتا ہے مگر اُس سے منہ پھیر لیتا ہو اور ایسا مقلد جو حق کی مکمل معرفت نہ رکھتا ہو تو دونوں میں واضح فرق اس حکم میں مدنظر رکھنا لازم ہے۔
حقیقت میں دونوں ہی قسمیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک صاحب تقلید جسے حق کی پہچان بھی ہے ، صرف تعصب میں اس کی پیروی نہیں کرتا جبکہ دوسرے کو حق کی مکمل پہچان ہی نہیں ہے، وہ صرف تقلید پر جاری و ساری ہے تو دوسرے شخص کا عُذر معقول ہوگا کہ جب تک اس کو حق کے مکمل خدوخال نہ دکھائیں جائیں اس پر حکم نہیں لگا سکتے۔ جبکہ پہلی قسم والا مقلد اس کے پاس کوئی عُذر نہ ہوگا۔
اب دوسری قسم جس کے نزدیک حق واضح نہیں ہے، اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
اوّل: ایسا مقلد جو ہدایت کا طالب اور متلاشی ہو لیکن وہ کسی سبب سے اُس پر قدرت نہیں رکھتا تو اس پر دعوت اور تعلیمات کے نہ پہنچنے کا حکم لگایا جائے گا۔
دوم: ایسا مقلد جس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اس سے بہتر اور صائب راستہ اگر میرے سامنے آجائے تو میں اس کو اختیار کرلوں بلکہ جس راستے پر ہے، اُس سے ہٹنا نہیں چاہتا۔
تو ان دونوں میں بہت فرق ہے اور احوال کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے حکم میں بھی فرق موجود ہوگا۔ پہلا ہدایت کا متلاشی ۔۔۔۔ اور دوسرا موجودہ حالت پر راضی اور قائم و دائم۔ جبکہ دونوں ہی مقلد ہیں۔

خلاصہ القول:

حکم سے قبل مقلد کی مکمل صورتحال سے آگاہی لازم ہے۔
متعصب مقلد اور غیر متعصب مقلد میں فرق کی بناء پر حکم بھی مختلف ہوگا۔
ضابطہ نمبر 8: ایسا مومن جس نے حق کی اتباع کو اپنا مطلوب و مقصود بنا رکھا ہے اگر وہ کسی ایسی خطا کا مرتکب ہوتا ہے جس کا اُسے علم نہیں ہوتا تو عنداللہ معذور تصور ہوگا۔ مقابلتاً ایسا عالم جو کوئی خطا کا مرتکب معرفت کی حالت میں ہو تو اُس کا مواخذہ ہوگا۔
تو ایسی حالت میں پہلا شخص چونکہ اس کا مطمع نظر صرف اور صرف اللہ اور اُسکے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے کی پیروی ہے اور وہ اُسی کو اپنا مطلوب و مقصود بنائے ہوئے ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے اگر اُس سے کوئی خطا صادر ہوجاتی ہے جس کے بارے میں اس کو کوئی علم نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو اُس کا مواخذہ نہ ہوگا۔
اور اس کی نسبت ایسا عالم جو دین کو بہتر طور پر سمجھتا ہے اور خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو اُس پر اُسکا مواخذہ ہوگا۔ بقولِ

شاعر:

العلم بلا عمل وبال
والعمل بلا علم ضلال

کہ ایسا علم جو عمل کے بغیر ہو وہ وبال جاں ثابت ہوتا ہے اور وہ عمل جو علم کے بغیرہو، گمراہی ہے۔ اور چونکہ اُس کو حق کی معرفت تھی اور اُس کے تقاضوں سے باخبر تھا کہ اگر اُن کو پورا نہ کروں تو مجھ پر کیا عائد ہوگا تو وہ اگر غلطی کرتا ہے تو ( آگے واضح نہیں ہے۔ ماخوذ منہاج السنۃ ، الدین الخالص)
خلاصہ القول:
عالم جو کہ معرفت کے باوجود غلطی کا مرتکب ہو تو وہ قابل گرفت اور مواخذہ ہوگا۔
اور وہ شخص علم نہ رکھتا ہو، غلطی کا مرتکب ہو وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔ اُس کی جہالت دور کی جائیگی پھر حکم لگایا جائے گا۔
ضابطہ نمبر 9: تکفیری مسائل میں حسب احوال شخصیات میں اختلاف واقع ہوتا ہے لہٰذا یہ مخطی، مبتدع، جاہل، گمراہ کافر نہ ہوگا اور نہ ہی فاسق بلکہ گناہ گار ہوگا۔
اسی اصول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ میں بیان فرمایا ہے:
” کسی ایک مسئلہ میں بھی ممکن ہے کہ مختلف اشخاص میں صورتحال مختلف ہو یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک خطا کے مرتکب کو ہم نے تکفیر کا مستحق ٹھہرایا ہے تو اس خطا کا ہر مرتکب تکفیر کا مستحق ہوگا۔ اور وہ ضابطہ اُس پر بھی بعینہ منطبق ہوجائے گا بلکہ ہر شخص کہ احوال کے مطابق فیصلہ اور حکم دیا جائےگا۔ کیونکہ ایک بات تو واضح ہے کہ فرمان ربّی “الست بربکم” کے جواب میں اور رسول کریمﷺ کے فرمان ” کل مولود یولد علی الفطرۃ” کے بعد ہر انسان صاف اور نقی طبیعت اور مزاج لےکر پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہر انسان اپنے اپنے ماحول کی آلودگیوں سے متاثر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حکم لگاتے وقت اس شخص نے کس ماحول میں تربیت پائی، اس کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ہوسکتا ہے اس خامی یا عیب کو دور کیا جاسکے۔دینِ اسلام کا بنیادی مقصد سزائیں سنانا اور ان کا نفاذ نہیں بلکہ اصلاح احوال ہے سزا تو بالکل آخری حد ہے جس کے بغیر معاشرے میں پیدا ہوسکتا ہے اور وہ شخص اس سزا کا مکمل مستحق نظر آتا ہے اس اصول کی بنیاد آیت قرانی ” فاتقوا اللہ استعطم” کہ اللہ سے ڈرو جہاں تک تم اس کی استطاعت رکھتے ہو۔ اور ارشادِ ربانی ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ (البقرۃ 286)

“اللہ کس نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا . ہر نفس کے لئے اس کی حاصل کی ہوئی نیکیوں کا فائدہ بھی ہے اور اس کی کمائی ہوئی برائیوں کا مظلمہ بھی۔”
خلاصہ القول:
چونکہ ہر شخص نے مختلف ماحول میں تربیت پائی ہے لہٰذا حکم لگاتے وقت اُس کے ماحول اور اُس کی تربیت کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
تکفیری معین کے لئے انفرادی مطالعہ اور تحقیق لازم ہوتی ہے۔
ضابطہ نمبر 10:کفر کی اصل اور شعب کا وجود
جس طرح ایمان کی اصل لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اُس کی متعدد شاخیں ہیں جیسے نماز ، روزہ، زکوٰۃ، اعمال باطنی جیسے حیاء، توکل اور خشیت الٰہی اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، یہ سب ایمان کے شعبے ہیں۔ اور ان میں ہر شعبہ ایمان کہلاتا ہے اور ان میں سے بعض کے زائل یا متاثر ہونے سے ایمان کامل ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے شہادتیں اور بعض شعبے ایسے ہیں جن کے زائل ہونے سے ایمان کا کمال رخصت ہوتا ہے جیسے تکلیف دہ چیز کو تو دونوں شعبوں میں بہت فرق ہے اور ہر شعبے کی مناسبت سے اس کا حکم عائد کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کفر بھی متعدد شعبہ جات پر مشتمل ہے جیسے حیاء ایمان کا شعبہ ہے اور قلت حیاء کفر کا ایک شعبہ ہے۔ صداقت ایمان کا ایک شعبہ ہے تو تکذیب یا کذب بیانی کفر کا شعبہ ہے اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ یہ سب ایمان کے شعبے ہیں لیکن ان کا چھوڑنا کفر کے شعبے ہیں۔
یعنی تمام طاعات ایمان کے شعبہ جات میں سے ہیں اور معاصی کفر کے شعبہ جات میں سے ہیں۔ اگر ایمان کے شعبہ جات کی تقسیم قولی اور فعلی پر ہے تو کفر کے شعبہ جات کی تقسیم بھی قولی اور فعلی پر ہے۔ اور ایمان کے قولی شعبہ جات میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے زوال سے ایمان مکمل زائل ہوجاتا ہے اور فعلی شعبہ جات میں بھی ایسا ہے۔ اسی طرح کفر کے شعبہ جات کی صورتحال ہے لہٰذا تکفیری مسئلہ میں اس چیز کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا جائے گا کہ وہ جس قسم کی معاصی کا مرتکب ہورہا ہے کیا اُس کے مرتکب کو ہم کافر کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔

خلاصہ القول:

ایمان کے شعبوں کی طرح کفر کے بھی شعبہ جات ہیں۔
ایمان کے بعض شعبے ایسے ہیں جن کے زائل ہونے سے مکمل ایمان ختم ہوجاتا ہے اور بعض کے زائل ہونے سے صرف کمال ایمان رخصت ہوتا ہے۔
جیسے ایمان کے کمال کیلئے تمام شعبہ جات کو حاصل کرنا لازم ہے اسی طرح کفر کیلئے اس کی تمام شروط اور موانع کا غیر موجود ہونا لازم ہے۔
ضابطہ نمبر11:جیسے کوئی بندہ ایمان کے کسی شعبہ کو قائم کرنے سے مومن یا مسلمان نہیں بن جاتا، اسی طرح کوئی مومن کفر کے کسی شعبے کا مرتکب ہونے کے بعد کافر نہیں بن جاتا۔
یہ ایک زرّیں اصول ہے۔ جیسے کوئی انسان کسی علم کے بعض اجزاء پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس موضوع پر اتھارٹی نہیں بن جاتا اور نہ کوئی انسان طب کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کے بعد طبیب بن جاتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوئی کہ جب تک کوئی انسان ایمان کے تمام تقاضے پورے نہیں کرتا، ہم اس کو دائرہ اسلام میں داخل نہیں سمجھتے تو اسی طرح جب تک کفر کی تمام شرائط و ضوابط کسی مرتکب پر منطبق نہ ہوں تو ہم اُس پر تکفیر کا حکم نہیں لگا سکتے ہیں۔ یا یہ اصول ہمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ ایمان کے شعبے کو ایمان کہیں اور نفاق کے شعبے کو نفاق سے موسوم کریں اور کفر کے شعبے کو کفر کی طرف منسوب کریں کیونکہ اس کا ہمیں بعض احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔ جیسے: ” جس نے نماز چھوڑی پس اُس نے کفر کیا۔” یا ” جس نے غیر اللہ کیلئے قسم کھائی اُس نے کفر کیا۔”
پس جس کسی سے کفر کا کوئی جزو صادر ہوا تو ہم اُس کو مطلقاً کافر نہیں کہہ سکتے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی فعل حرام کا مرتکب ہوا تو ہم کہیں گے وہ حرام فعل کا مرتکب ہوا نہ کہ ہم اُس کو کافر کہیں گے۔ اس لئے ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
” ایسے شخص کو اُس کا اللہ پر ایمان اور لاالہ الااللہ پر ایمان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جو کہ رسالت محمدیہ کا منکر ہو اور اُس شخص کی نماز اُس کو کوئی فائدہ نہیں دے گی جو بغیر وضو پڑھی جائے۔” ( ماخوذ ۔ الصلاۃ ۔ ابن القیم ص32 تا 35)

خلاصہ القول:

کسی ایک شعبے کو پکڑنے سے انسان مومن نہیں بنتا اسی طرح کسی کفریہ شعبے کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوجاتا۔
ضابطہ نمبر 12:بعض اوقات کسی بندے میں ایمان اور کفر جمع ہوجاتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات توحید اور شرک جمع ہوجاتے ہیں، اسی طرح تقویٰ اور فسق و فجور، ایمان اور نفاق بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
یہ وہ عظیم ترین اصول ہیں جس میں خوارج ، معتزلہ اور قدریہ وغیرہم نے اہل سُنّت و جماعت کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ اس کی بناء پر اہل کبائر کا جہنم سے نکلنا اور عدم دخول کا انحصار ہے اور اس پر قران و سنت کے واضح دلائل ہیں ۔ اس اصول کی بنیاد درج ذیل قرانی آیت ہے:

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ

“اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ۔”(يوسف 106)
اللہ تعالیٰ نے اُن کے ایمان کے بارے میں کہا باوجود اس کے وہ شرک کے مرتکب ہوئے۔ اور ایک جگہ فرمایا:

قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات14)

“یہ بدوی کہتے ہیں کہ “ہم ایمان لائے” اِن سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ “ہم مطیع ہو گئے” ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے۔”
اور اُن بدوؤں کے بارے میں بہتر قول یہ ہے کہ وہ لوگ منافقین نہ تھے بلکہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کے باوجود ایمان والے نہ تھے کہ اُن کے پاس ایمان کا ایک جزو تھا جس نے اُن کو عالم کفر سے نکال کر دائرہ اسلام میں داخل کردیا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ” اگر کوئی اللہ کے حکم کے بغیر فیصلہ کرتا ہے یا پھر وہ کام کرتا ہے جسے رسولﷺ نے کفر کہا ہے اور وہ شریعت اسلامیہ کا ملتزم ہے تو اُس میں کفر اور اسلام جمع ہوں گے۔ معتزلہ اور خوارج کی گمراہی کی اصل وجہ بھی یہی اصل تھی۔ بقول اُن لوگوں کے ایمان ایک چیز کا نام ہے اس میں کوئی بھی چیز زائل ہوجائے تو ایمان مکمل زائل ہوجائے گا۔ اسی لئے اُنہوں نے کبائر کے مرتکب کے بارے میں فیصلہ دیا کہ اس میں ایمان بالکل ہی ختم ہوگیا ہے اسلئے اس کو جہنم میں ہمیشگی کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔” ( مجموع الفتاویٰ ۔ ج7 ص 312و313 ۔ ماخوذ)
جبکہ رسولﷺ نے فرمایا: ” یخرج من النار من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من الایمان”
” اس شخص کو بھی آخرکار جہنم سے نکال لیا جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔”
تو بعض ایمانی شعبہ جات کے زوال سے ایمان زائل نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی مشیّت کے تحت ہوگا۔
خلاصہ القول:
یہ عقیدے کا بنیادی حصہ ہے کہ ایمان بڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ یعنی جو ایمان کے جتنے شعبہ جات اور تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے اُس کے ایمان میں اُسی قدر اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایمان کے شعبہ جات کو چھوڑنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بعینہ کفر کے ساتھ یہی صورتحال ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
ضابطہ نمبر 13:صرف اُسکی تکفیر کی جائے گی جسکی تکفیر پر اہل سنت و جماعت اتفاق کرلیں یا اُسکے کفر پر کوئی ایسی دلیل یا حجت قائم ہوجائے جس کا کوئی معارض نہ ہو۔
ابن عبدالبر فرماتے ہیں: ” واجب ہے کہ کسی کی تکفیر نہ کی جائے سوائے اُس وقت جب سب متفق ہوجائیں یا اُس کی تکفیر پر کوئی ایسی دلیل آجائے جس کا کوئی معارض نہ ہو۔” ( التمہید۔ ج17،ص314)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ” جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو وہ کسی شک کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اور ابن البطال فرماتے ہیں: ” جیسے ہم کسی کے ایمان کا فیصلہ مکمل یقین کرتے ہیں تو اُسکے کفر کا فیصلہ بھی مکمل یقین سے کریں گے۔” (فتح الباری ۔ ابن الحجر ۔ ج12 ، ص 314)
اورفقہاء حنفیہ میں سے امام زرکشی فرماتے ہیں: ” ہمارے پاس اصل جو ہے وہ ایمان ہے ہم اس کے بغیر یقین کے ختم نہیں کرسکتے۔”( تحفۃ المحتاج ۔ زرکشی ۔ ج2 ، ص 84)
ابو حامد الغزالی لکھتے ہیں کہ: ” سب سے بڑی حیرانگی اس جراءت پر ہے کہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو معاف نہ کرے گا بلکہ اس کو جہنم میں مستقل ٹھکانہ دے گا جبکہ یہ فیصلہ اُس کی موت کے بعد کیا جائے گا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔” (الاقتصاد فی الاعتقاد ۔ ص 269)
نواقص اسلام
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔
جو مشرکین کی تکفیر نہ کرے یا اُن کے کفر میں شک کرے یا اُن کو صحیح قراد دے۔
جو کوئی یہ گمان کرے کہ رسول اللہﷺ کے راستے کے علاوہ بھی کوئی راستہ ہے جو اس سے زیادہ اکمل اور احسن ہے۔
جو کہ تعلیمات نبویہ سے بغض کا اظہار کرے خواہ اُس پر عمل ہی کیوں نہ کرتا ہو:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ (محمد/9)

(یہ اسلئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے ، پس اللہ نے (بھی) اُنکے اعمال ضائع کردئیے۔)
جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ یا پھر قران اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے استہزاء کرے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِٱللهِ وَءَايَٰتِهِۦ وَرَسُولِهِۦ كُنتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ لَا تَعْتَذِرُوا۟ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَٰنِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَآئِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ مُجْرِمِينَ

اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ان سے کہو، “کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے” ( التوبۃ /65،66)
جادو کو برحق سمجھنا اور اس کو اپنے لئے استعمال کرنا: ۚ

وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَآ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ (البقرۃ/102)

وہ دونوں بھی کسی شخص کو اُس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تُو کفر نہ کر
مشرکین اور کفار کی قولی اور عملی معاونت کرنا:

وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ إِنَّ ٱللهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظّٰلِمِينَ (المائدۃ/51)

تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک اُنہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا)
دین اسلام سے مکمل اعراض کرنا:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَآ ۚ إِنَّا مِنَ ٱلْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ (السجدۃ/22 )

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں)
یہ گمان رکھنا کہ بعض لوگوں پر شریعت محمدیہ کا اطلاق نہیں ہوتا:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ ٱلْإِسْلٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْآخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ (آل عمران/85 )

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)
*** تمت بالخیر ***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے