حکیم و علیم کی اس عظیم الشان صنعت و خلقت،اس کائنات کی ایک ایک شے پر غور کریں تو اسکے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے،جو اسکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ،اور اس شے کے بغیر اس کائنات کا وجود ادھورا معلوم ہوتا،اور اسکے مقصد کے بغیر اس کائنات کا نظام چل نہ پاتا،حتی کہ مکھی ،مچھر،کیڑے مکوڑے بھی اپنے وجود کا مقصد رکھتے ہیں،اگر وہ ایک منٹ کے لئے بھی اپنے مقصد سے غافل ہو جائیں تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے،مثلا:ایک چیونٹی اپنے مقصد حیات کو فراموش کردے تو زمین پر بدبو،کچرا اور تعفن سے زندگی دشوار ہوجائے،یہ تو بہت ہی معمولی مخلوقات ہیں،سوچیں اگر بڑی مخلوقات اپنا کام چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
کیا ہوگا اگر سورج رک جائے،یا چاند طلوع نہ ہو،ستارے بے نور ہوجائیں یا سمندر ہم پر چڑھ دوڑے،یا زمین سبزہ اگانا چھوڑ دے، آسمان برسنا چھوڑ دے یا پانی زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں چلا جائے؟
کیا ہو اگر ہمیشہ دن رہے یا رات کبھی ختم نہ ہو،سردی ہمیشہ رہے یا گرمی کبھی ختم نہ ہو،اگر ہوا ہمیشہ چلتی رہے کبھی رکے نہیں،یا ہمیشہ رکی رہے کبھی چلے نہیں،پانی بہنا چھوڑدے یا کبھی رکے نہیں،چرند و پرند بولنا چھوڑدیں یا ہمیشہ بولتے ہی رہیں،آتش فشاں پھٹنا چھوڑدیں ،یا ہمیشہ لاوا اگلتے رہیں؟
یقیناً ہر چیز بے مقصد ہوکر رہ جائے گی،گویا ہر شے کا کوئی نہ مقصد ضرور ہے،آنکھ کھلنے سے آنکھ بند ہونے تک ہر انسانی فعل شاھد ہے کہ کچھ بھی بے مقصد نہیں،اور کچھ اس کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں،جیسا کہ باری تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

آسمان و زمین کی بناوٹ اور رات دن کے آنے جانے میںیقیناً عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں،جو کھڑے، بیٹھے،اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں، آسمان و زمین کی بناوٹ میں غور و فکر کرتے ہوئے، ہمارے پروردگار تو نےیہ سب بے کار پیدا نہیں کیا،ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں،پس ہمیں آگ کی سزا سے بچالے۔ (آل عمران:190-191)
خالق و مالک کائنات کا یہ فرمان شاہد ہے کہ ہر شے بامقصد ہے اور محض غور و فکر کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے،اور اس تدبر و تفکر کےانسانی حیات و سلوک پر نہایت مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں،لامحالہ وہ سراغ زندگی کی تلاش میں مگن ہوجاتا ہے،اور آخر کا ر مقصد حیات کو پالیتا ہے،جبکہ بہت سے لوگ اس حقیقت سے جان چھڑانے کی کوشش میںبہت سے متعلقہ حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ علیم و حکیم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ

یہ لوگ کہتے ہیں،ہماری پہلی بار کی موت ہی فیصلہ کن ہے،ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جانا۔ (الدخان:34-35)
انکا موت کے بعد دوبارہ زندگی کا انکار کرنا موجودہ زندگی کے مقصدکے انکار کو لازم ہے،حالانکہ خود یہ لوگ بھی کوئی کام بے مقصد نہیں کرتے،اگرچہ وہ مقصد حصول لذت یا وقت گذاری ہی کیوں نہ ہو،اسکے باوجود وہ زبان سے
انسان کی مقصدیت کے منکر ہوتے ہیں ،یا اسکے مقصد
حقیقی سے جاہل ہوتے ہیں۔
توجبکہ ہر شے با مقصد ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کی سب سے افضل و اشرف مخلوق،سب سے ذہین و طاقتور مخلوق،سب سے خوبصورت مخلوق،خالق کی صناعی کا سب سےکامل و اعلی نمونہ،اس کائنات میں بے مقصد رہ جائے،اسکا کوئی مقصد ہی نہ ہو؟انسان کی تخلیق کو بے وجہ قرار دینا خالق و مالک کی حکمت و دانش پر قدغن لگانے کے مترادف ہے،جبکہ وہ ہر عیب و نقص سے پاک ہے،چنانچہ اس کائنات میں حضرت انسان کے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے،جیسا کہ باری تعالی نے فرمایا:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ

کیا تم نے سمجھا کہ ہم نے تمہیں بےمقصد پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر نہیں آنا؟پس بڑا بلند ہے اللہ جو حقیقی مالک ہے،اسکے سواکوئی معبود نہیں اور وہ عرش کریم کا حاکم ہے۔(المومنون:115-116)
یعنی اسقدر عظمت و مرتبت والا خالق کوئی بھی کام بے مقصد کیسے کرسکتا ہے؟خصوصاً انسان جیسی افضل مخلوق کی زندگی بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے؟جبکہ اسکے روز مرہ کے معمولات بلا مقصد نہیں ہوتے،اسکی ہر حرکت کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے۔
وہ مقصد کیا ہے؟
مقصد جاننے کے لئے پہلے چند چیزوں کا جاننا ضروری ہے ،کیونکہ انکی معرفت پر مقصد کی معرفت موقوف ہے،چونکہ بات ہورہی ہے انسان کے مقصد حیات کی لہذا پہلے انسان کو سمجھنا ہوگا،انسانی حیات کو سمجھنا ہوگا،اسکے بعد مقصد حیات کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔
انسان کیا چیز ہے؟:
”انسان“ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت،سب سے اشرف مخلوق،سب سے کامل صناعی ہے،خود صانع اس بات کی قسمیں اٹھا کر شھادت دیتا ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

قسم ہے انجیر و زیتون کی اورطور سیناء اور اس امن والے شہر کی یقیناً ہم نے انسان کو سب سے عمدہ سانچے میں بنایا۔(التین:1-4)
مخلوقات عالَم جسقدر صفات کمال سے متصف ہیںوہ سب انسان میں یکجا ہیں،اور انسان ان سب سے ممتاز ہے،جیسا کہ خالق کائنات نے فرمایا:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

ہم نے انسان کو عزت عطا کی،اور انہیں بحر و بر پر سوار کیا،اور انہیں عمدہ چیزیں کھانے کو دیںاور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا کی۔(الاسراء:70)
ہر شے کی فطرت و جبلّت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شے مختلف صفات کی حامل ہے،لیکن کچھ صفات ایسی ہیں جو ایک مخلوق کو دوسری مخلوق سے ممتاز بناتی ہے، انہیں صفات کمال کہا جاتا ہے،مخلوق کی صفات کمال یہ ہیں:1وجود2 لوازمات وجود(میٹیریل)3 نشوونما 4 احساس | 5 شعور 6 حرکت ارادی 7 نطق 8 عقل 9 فکر و تدبروغیرہ
اور مخلوقات مختلف انواع و اقسام کی ہیں،جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان،وغیرہ
جمادات”وجوداورلوازمات وجود“ کے سوا بقیہ صفات سے محروم،نباتات”وجوداورلوازمات وجود“ اور” نشونما“ کے سوا بقیہ صفات سے محروم، حیوانات”احساس،شعور، حرکت ارادی“کے سوا بقیہ صفات سےمحروم،جبکہ حضرت انسان مذکورہ صفات کے ساتھ ”نطق و عقل و تعقل“ جیسی ا علی صفات سے بھی متصف ہے۔
اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خالق و مالک نے ہر مخلوق کو اسکی مقصدیت کے مطابق صفات و کمالات سے نوازا،پہاڑوں کو مضبوط بنایا تاکہ وہ زمین کے لئے میخوں کا کام دیں،آسمانوں کو انسانی پہنچ سے بہت بلند بنایا تاکہ انسان اس کائنات کی وسعت اور خالق کائنات کی قدرت کا اندازہ کرسکے،پانی کو ٹھنڈا اور بہنے والا بنایا تاکہ یہ ہر ایک کی دسترس میں رہے کیونکہ یہ ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے،دنوں کو روشن بنایا تاکہ یہ کاروبار دنیا نمٹانے اور حصول رزق کا وقت ہو،راتوں کو تاریک بنایا تاکہ یہ سکون اور راحت اور آئندہ کی پلاننگ کا وقت ہو،زمین کی سطح کو ہموار بنایا تاکہ اس پر چلنے پھرنے میں دشواری نہ ہو،الغرض آپ غور کرتے جائیں ایک ایک ذرے میں آپکو بڑے اسرار و رموز معلوم ہوتے جائیں گے،سب سے بڑھ کر انسان کا مادی وجود کائنات کی سب سے اعلی انجینئرنگ اور صناعی ہے۔
انسان مقصود اصلی ہے:
انسان کی اہمیت وافضلیت کو اسطرح بھی سمجھیں کہ انسان حقیقت اصلیہ ہے،جبکہ دیگر خلائق حقیقت تبعیہ،باالفاظ دیگر انسان مخدوم ہے جبکہ ساری کائنات خادم،اسطرح کہ غور و فکر کرنے پرہر ہرشے انسان کے تابع اور اسکی خدمتگارمعلوم ہوتی ہے،جبکہ انسان متبوع و مخدوم معلوم ہوتا ہے، شجر و حجر ہوں یاپانی و آگ،چرند و پرند ہوں یادرندے و حشرات الارض،کوئی قدرتی دھات ہو یا مصنوعی میٹریل،ہر چیز انسان کے آگے عاجز و بے بس اور اسکے لئے مسخر ہے۔
مالک کائنات نے اپنے کلام حکیم میں بارہا بار اس حقیقت کو اجاگر کیا،ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
وہی ہے جس نے زمین کا سب کچھ تمہارے لئے بنایا۔ (البقرۃ:29)
نیز فرمایا:

اللهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے تابع کردیا،تاکہ اس میں اسکے حکم سے کشتیاں چلیں،اور تاکہ تم اسکا فضل تلاش کرو،اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ،اور آسمان و زمین کی ہر شے اسی نے تمہارے تابع کی،یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔(الجاثیہ:12-13)
نیز فرمایا:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً

کیا تم نے دیکھا نہیں؟کہ اللہ نے آسمان و زمین کا سب کچھ تمہارے تابع کردیااور تم اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بھرمار کردی ۔(لقمان:20)
ان آیات کے بمصداق انسان کا مخدوم جبکہ دیگر اشیاء کا خادم ہونادلیل ہے کہ انسان اس کائنات کا مقصود اصلی ہے،اسی کی خاطر اس کائنات کو وجود بخشاگیا،لیکن یہ کائنات انسان کا مقصود نہیں کیونکہ انسان اس سے اعلی و افضل ہے،جبکہ بقیہ مخلوق مفضول علیہ ہےاور معمولی و حقیر شے افضل و اعلی کا مقصود کیسے ہوسکتی ہے؟۔
جب ثابت ہوگیا کہ انسان اس کائنات کی سب سے افضل شے ہے تو لا محالہ اسکی حیات اور مقصد کا افضل ہونا بھی ضروری ہے،وہ مقصد کیا ہے یہ ہم آئندہ سطور میں بیان کریں گے۔
حیات کیا ہے؟:
زندگی کیا ہے؟”حیات “ضد ہے” موت“ کی،اور ان دونوں کا تعلق مخلوق سے ہے،کیونکہ خالق تو ”حي لا يموت“ہے،جس طرح مخلوق کے مراتب ہیں،اسی طرح حیات و موت کے بھی مراتب ہیں،جو مخلوق گذشتہ سطور میں بیان کردہ صفات میں سے جسقدرزیادہ صفات سے متصف ہوگی اسکی حیات بھی اسی قدر کامل ہوگی،مثلا: حیوانات کی حیات نباتات سے،جبکہ نباتات کی حیات جمادات سے بہتر ہے اور انسان کی حیات ان سب سے بہترہے،باالفاظ دیگر،زمین گردش میں ہے،سمندر موجزن ہے،حیوان پروان چڑھ رہے ہیں،شجر لہلہارہے ہیں، حجر قائم و مستقر ہیں،بادل برستے ہیں،زمین اگاتی ہے،انسان کھاتاہے،دن و رات جاری ساری ہیںیہ سب ”حیات“ہے،اس سب کا رک جانا ”موت“ ہے، لیکن انسانی حیات دیگر خلائق کی حیات سے مختلف ہے، اسطرح کہ پوری کائنات انسان کی ضرورت ہے ،یعنی ہر شے کی حیات کا مقصد انسان ہے،لیکن انسان کی حیات کا مقصد نہ تو یہ کائنات ہے ،نہ ہی خود انسان۔
ہر شے کی حیات ”انسانی حیات“ کے لئے ہے:
انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے قدرت نے اس میں اسکی ضروریات کو مہیا کردیا،زمین بود و باش اورخوراک کے لئے،ہوا سانس لینے کے لئے،پانی پیاس بجھانے کے لئے،گرمی، روشنی ،غلہ و میوہ جات کی اگائی و پکائی کے لئےبارش وسورج کا انتظام کیا،بلکہ بقول مولانا شمس الحق افغانی:
قدرت نے اپنی فیاضی کو ضرورت کی حد تک محدود نہیں رکھا،بلکہ انسان کے لئے ضروریات کے علاوہ زیب و زینت اور جمال و تحسین کا سامان بھی فراہم کردیا،اگر قدرت کو صرف انسان کی حاجت اور ضرورت کو پورا کرنا ہوتاتوزمین کی معدنیات میں سے وہ صرف سونا، چاندی، لوہا، تانباپٹرول نمک وغیرہ کو پیدا کرتا،کیونکہ ضروریات انسانی انہی سے وابستہ ہے،لیکن قدرت نے ان اشیاء کے علاوہ پہاڑوں کی جیب کو مختلف جواہرات،یاقوت، لعل،ہیرا،زمرد،فیروزہ سامان تزئین و تحسین سے بھی بھر دیا،اسی طرح نباتات میں انسانی ضرورت کی صرف تین چیزیں ہیں: غلہ،پھل،دوا،غلہ کھایا جاتا ہے،پھل سے تلذذ حاصل کیا جاتا ہے،اور بوٹیوں سے علاج معالجہ کا کام لیا جاتا ہے،لیکن عزیزوقدرت کے نظام ربوبیت کو دیکھو،کہ اس نے ان نباتاتی ضروریات کے علاوہ انسان کو مختلف پھولوں اور خوشنماپودوں کا وہ ذخیرہ بھی بخش دیاجسکی بوقلمونی اور تنوع انسانی نگاہ کے لئے کیف انگیزاور فرحت بخش ہے،اسی طرح حیوانات میں انسان کی ضروریات مویشیوں کے چار قسم کے جوڑوں سے وابستہ ہے،اونٹ،بیل،بکری،دنبہ،لیکن قدرت نے خوبصورت پرندوں کی ایک بڑی تعداد بھی پیدا کردی،جو ذوق انسان کے لئے سامان زیب و زینت ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ قدرت کا مقصد صرف حاجت روائی نہیں،بلکہ تحسین و جمال بھی ہے،ان تمام ضروریات کو اور سامان زیب و زینت کو قدرت نے انسان کے لئے اس وقت مہیا کیا،جبکہ انسان اس دنیا میں نہیں آیا تھا، اب پوری دنیا کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے لئے سامان زینت و ضروریات مہیا کرے،اب رہ گیا یہ سوال کہ جس کو اتنے بڑے کارخانہ جہاں کی سروری بخشی گئی ہے خود اسکی زندگی کا مقصد کیا ہے؟۔
کیا یہ مقصد ہو سکتاہے؟:
گذشہ سطور میں بیان کردہ قدرت کی فیاضیوں کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی حیات کا مقصد قدرت کی نوازشات کو سمیٹنا،ان سے لطف اندوز ہونا ہے،قدیم یونانی اور جدید مغربی فکر کا بھی یہی فیصلہ ہے،دیمقراطس حکیم کے زمانے میں ایتھنز میں یونانی فلاسفہ نے انسانی زندگی کے مقصد کے متعلق یہی فیصلہ دیا تھا کہ وہ لذت کے حصول کی کوشش میں لگا رہے،اسکے بعد حکمائے یورپ نے بھی قریبا یہی فیصلہ دیا کہ انسانی مقصدحیات لذات کے حصول کے سوا کچھ نہیں، سائنسدانوں کے نزدیک جو سیکھا اسے آگے ،منتقل کرنا ہے، اسکے سوا بھی مختلف مقاصد بیان کئے گئے مثلا:خود کو منوانا،جنگ و جدال کرنا،موج مستی کرنا،دنیا کمانا، خدمت کرنا،خدمت کروانا،خوشی تلاش کرنا، وقت گزارنا وغیرہ وغیرہ،حاصل سب کا ایک ہے،یعنی لذت و سرشاری کا حصول۔
دراصل یہ سب مادی اور خالق کے تصور سے خالی افکار کا نتیجہ ہے،حالانکہ بادی النظر میں انکا مقصد ہونا محال ہے،کیونکہ اگر انسانی زندگی کا یہی مقصد ہے تو پھر اس میںاور حیوان میں کیا فرق رہا،بلکہ مادی لذت کے حصول کے اعتبار سے تو حیوان انسان سے برتر ہے، انسان کو لذت کے حصول کے لئے تخم ریزی، سیرابی، رکھوالی،پکائی،کٹائی،چنائی،چھنٹائی،پسائی وغیرہ کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے،جبکہ حیوان خود رو گھاس سے لذت حاصل کرلیتا ہے،انسان کے لئے جو مزہ لذیذ پکوان میں ہےحیون کے لئے وہی مزہ گھاس میں ہے، بلکہ انسان کی اس لذت میں دکھ درد کی آمیزش ہوتی ہے جبکہ حیوان ہر دکھ درد سے بالاتر ہو کر لذت حاصل کرتا ہے،قربانی کا جانور ذبح کئے جانے سے چند لمحے پہلے تک مسرور ہوتا ہے،جبکہ انسان ہر طرح کی آسائش میں بھی مختلف اندیشوں سے گھرا رہتا ہے،اس لئے اسکی لذت کی کبھی بھی تکمیل نہیں ہوپاتی۔
اس بحث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بے پناہ اور لا محدود مسائل کا ماہر ہو نے کے باوجود انسان محض اپنی عقل و فکر کی بنا پر خود اپنی ذات کا مقصد معلوم نہیں کرسکا،نہ ماضی کے عبرت انگیز اسباق اور افکار میں، نہ ہی حال کی حیران کن ترقی میں، کیونکہ اس نے محض اپنی عقل پر بھروسہ کیا، اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی کی ضرورت کو محسوس نہ کیا،نتیجہ آج بھی کٹی پتنگ ،اور بے لگام گھوڑےکی طرح اپنی منزل مقصود کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

مقصد و ضرورت میں فرق:

انسان کی ایک غلطی مالک کائنات کی رہنمائی سے اعراض ہے اور دوسری غلطی ضرورت اور مقصد میں فرق نہ کرنا ہے،غلطی سے وہ ضرورت کو مقصد سمجھ بیٹھا،سونا،جاگنا، نہانا،دھونا،اوڑھنا،پہننا،بچھونا،کھانا،پینا،محنت،مزدوری، کاروبار، تجارت،صنعت،حرفت،شادی بیاہ، بیوی بچے، میل جول،وغیرہ یہ سب انسانی ضروریات ہیں،کچھ بنیادی ضروریات ہیں جو اسے دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں،یا جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، مثلا: لباس اور خوراک،جبکہ کچھ اضافی ضروریات ہیں، مثلا:عمدہ لباس اور عمدہ خوراک،ان میں سے کچھ بھی مقصد حیات نہیں،کیونکہ ناموں اور طریقہ کار کے اختلاف کے ساتھ یہ سب کام دیگر حیوانات بھی کرتے ہیں، قدرت نے انہیں بالوں یا رنگین کھال کا لباس عطا کیا،وہ بھی خوراک کے لئیے محنت کرتے ،لڑتے ہیں،نسل بڑھاتے،ریوڑ بناتے،افزائش اور اپنی نسل کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اگر انسان کا مقصد حیات بھی اسی طرح کے امور کو مان لیا جائے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا،چنانچہ ان امور کو مقصد حیات قرار نہیں دیا جاسکتا،یہ محض انسانی عادات اور ضروریات ہیں،انسانی طبیعت و فطرت کے تقاضے ہیں جنہیں پورا کئے بنا اسکی زندگی گذر نہیں سکتی،جبکہ مقصد کے بغیر زندگی گذر سکتی ہے،لیکن وہ زندگی کا ضیاع ہے،اگرچہ کتنی ہی پر آسائش ہو،یاکتنی ہی تکالیف میں بسر ہو،یہ ایسے ہی ہے جیسےگھڑی کامقصد وقت کے سفر کا اندازہ کرنا ہے،لیکن اگر وہ غلط سمت میں حرکت کرے تو اسکا وجود بے مقصد ہوجاتا ہے،حالانکہ اسکا ہر پرزہ متحرک ہے،ایسے ہی اگر شہد کی مکھی اِدھر اُدھر منڈلاتی رہے،کبھی اس ڈال پر ،کبھی اس پھول پر ،پر شہد نہ بنائے تو مکھی کی زندگی عبث اور بیکار ہے،حالانکہ اس نے زندگی کو انجوائے کیا، گویا محض روزمرہ کی روٹین(ضروریات و عادات) کو پورا کرتے ہوئے مرجانا زندگی کا مقصد نہیں،کیونکہ یہ انسان کی زندگی ہے۔
مقصد اور ضرورت یہ دونوں الگ الفاظ ہیں انکے معانی و مفاہیم بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں،ایک خوبصورت اور عالیشان عمارت بناکر اسے مسجد کا نام دیا جائے پر اس میں پنجوقتہ نماز کا اہتمام نہ کیا جائے تو اسکی خوبصورتی و مضبوطی بے کار ہے،کیونکہ در و دیوار مسجد کی ضرورت ہیں ،مقصد نہیں،مقصد پنجوقتہ نماز کا اہتمام ہے اوراہمیت بھی اسی کی ہےکیونکہ یہ مقصد چھپڑے کی مسجد میں بھی حاصل کیا جاسکتا ہے،پیٹ بھرنے کے لئے مرغ مسلّم کھایا جائے یا دال روٹی ،بھوک دونوں سے برابر مٹتی ہے،اور اہمیت بھوک کو مٹانے کی ہے،نہ کہ بھوک مٹانے کےذرائع کی،گویااصل اہمیت مقصد کی ہے نہ کہ ضرورت کی”ضروریات“احوال و ظروف کے مطابق بدل سکتی ہیں لیکن ”مقصد“ کبھی نہیں بدلتا،لہذاضرورت و مقصد کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے۔
مقصد کا تعین کون کرے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ انسان اس قابل نہیں کہ اپنے خالق و مالک کی رہنمائی کے بغیر اپنی زندگی کا مقصد متعین کرسکے،اگر محض عقل کے ذریعے یہ ممکن ہوتا تو انسان جو ہزاروں سال سے اس دنیا میں آباد ہے اورجس نے اپنی عقل سے حیران کن کارنامے سرانجام دیئے اب تک اسی عقل اور تجربےکے ذریعے اپنی زندگی کا مقصد بھی معلوم کرلیتا،یا کم از کم کسی ایک نکتے پر اتفاق کرلیتا،مگر انسانی گروہوں کا مقصد کے تعین میں اختلاف بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اپنی عقل اور تجربے کی بنیاد پر ایسا کرنے سے قاصر ہے،کہا جاتا ہے ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“اگر سفر درپیش نہ ہوتا تو پہیہ ایجاد نہ ہوتا لیکن ”مقصد“ضرورت اور ایجاد دونوں کا باپ ہے،کیونکہ اگر منزل مقصود نہ ہوتی تو سفر بھی درپیش نہ ہوتا،اور منزل مقصود کے تعین کے لئے اسکا علم ہونا ضروری ہے،کیونکہ جب تک منزل کاعلم نہ ہو سفر کی سمت کا تعین بھی ناممکن ہے،چنانچہ منزل کے علم کے لئے کسی رہنما کی رہنمائی ازحد ضروری ہے،اور وہ رہنما خالق انسان و مالک کائنات کے سوا کون ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انسان جمیع مخلوقات میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے لیکن سب کچھ نہیں جانتا،مثلاً:وہ نہیں جانتا کہ آسمان کے اوپر کیا ہے،کتنے ستارے اور کہکشائیں ہیں،آج تک انسان اپنے مادی وجود کو پوری طرح نہیں جان سکا،روح کے متعلق بالکل کورا ہے،اگر جانتا ہوتا تو محض اپنی ہستی کے بل بوتے پر مقصد حیات کو جان لیتا ،کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم ہو اسکا علم خالق کے علم کے مقابلے میں نہایت قلیل ہے، جیسا کہ علیم و خبیر نے ارشاد فرمایا:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

تمہیں تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔(الاسراء:85)
لیکن خالق رحیم و کریم نے انسان کو اپنے نمائندوں پر نازل کردہ وحی کے ذریعےان تمام علوم سے بہرہ ور کردیا جو اسکی زندگی کے لئے ضروری تھے،جن میں سر فہرست مقصد حیات کا علم ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

انسان کو وہ کچھ سکھایا جسکا اسے علم نہ تھا۔(العلق:5)
(نوٹ)آئندہ سطور میں ہم مقصد حیات پر روشنی ڈالیں گے لیکن اس سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ :
انسان اشرف المخلوقات ہے لہذا اسکے مقصد کابھی اشرف المقاصدہونا ضروری ہے۔
دائمی زندگی کی آرزو ہمیشہ سے انسان میں رہی ہے،اور یہ تمنا تمام انسانوں میں یکساں ہے،انسانی طرززندگی اور اسکا طرز فکر اس بات کی دلیل ہے،وہ ساری زندگی تیاری کرتا ہے ،بہت سی دولت اکھٹی کرتا ہے،عالیشان محل اور ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کرتا ہےگویا ہمیشہ زندہ رہے گا۔
قدیم و جدید انسانی عقائد،الہامی کتب ،ان سب کے مطابق انسان کا جسم مرجاتا ہے لیکن اسکی روح زندہ رہتی ہے، حتی کہ جدید سائنسی تحقیقات بھی روح کو حقیقت ماننے پر مجبور نظر آتی ہیں،اسکے سیلز کا کبھی نہ مرنا، خود کو ٹھیک کرلینا،اسکا ڈی این اے،اسکی میموری کا لامحدود ہونا،اسکا شعور،لاشعور،تحت الشعور،مرنے کے بعد اسکی دمچی کا باقی رہنا،اسکی دمچی میں اسکے سارے ڈیٹا کا محفوظ ہوناایسی بہت سی علامات ہیں جو بتاتی ہیں کہ انسان ہمیشہ جینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے،جب ایسا ہے تو زمینی زندگی کا عارضی ہونا اور زمینی زندگی کے بعد دائمی زندگی کا شروع ہونا خودبخود ثابت ہوجاتا ہے،اوریہ ان بہت سے حقائق میں سے ایک ہے جنکی تہہ تک انسان کبھی پہنچ نہیں سکا ،خلاصہ یہ کہ دنیاکی عارضی زندگی اور موت کے بعد کی دائمی زندگی(اُخروی زندگی) کا تصور عقلی و فطری اور عدل کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے ضروری ہے،لہذا اس عارضی حیات کے مقصد کا تعلق دائمی حیات سے ہونا ناگزیر ہے۔
اسلامی عقیدے کے مطابق انسان ہمیشہ جینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے،البتہ اسے عارضی زندگی دے کر زمین پر بھیجا گیا تاکہ یہ دائمی زندگی کی تیاری کرسکے،قدیم آفاقی مذاہب(محرفۃ) مثلاً:یہودیت و عیسائیت کا بھی یہی نظریہ ہے۔
مقصدِ حیات انسانی کا حقیقی تصور:
منزل کے علم کے لئے کسی رہنما کی رہنمائی ازحد ضروری ہے،اور وہ رہنما خالق انسان و مالک کائنات کے سوا کون ہوسکتا ہے؟کلام الہی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر انسان کی آبادی کا فیصلہ ازلی تھا،اللہ تعالی کا ازل سے ہی انسان کو زمین پر بسانے کا ارادہ تھا جسکا اظہار اس نے انسان کی تخلیق سے قبل فرشتوں کے سامنے کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین پرخلیفہ( نائب) بنانے والا ہوں،انہوں نے کہا:کیا تو اس میں بنانے والا ہے اسے جو اس میں فساد مچائے گا اور خون بہائے گا،حالانکہ ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں؟اللہ نے فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔(البقرۃ:30)
اس آیت میں لفظ”خلیفۃ“سے مراد انسان ہے،جیسا کہ اگلی آیت میں آدم کا ذکر اس بات کی دلیل ہے،نیز لفظ ”انی جاعل“اور”قالوا اتجعل“ سے واضح ہے کہ یہ واقعہ آدم کی تخلیق سے پہلے کا ہے۔
ایک اور مقام پرارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے بنانے والا ہوں۔ (الحجر:28)
نیز فرمایا:

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ

یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سےکہا:میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔(ص:71)
یہ آیت دلیل ہے کہ مٹی کا وجود انسان کی تخلیق سے پہلے بھی تھا،جبکہ دیگر آیات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پانی بھی پہلے سے موجود تھا،گویا اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق سے قبل ہی اسکے زمین پر بسانے کے عارضی انتظامات کردیئے تھے۔واللہ اعلم
البتہ اسکی تخلیق کے بعد اسے اسکے دائمی ٹھکانےبہشت کا دورہ کروایا گیاتاکہ دنیا اور دنیاوی زندگی کی ناپائیداری اور بے ثباتی اس پر ثابت ہوجائےاور یہ دنیا میں بھی آخرت کا مشتاق رہے،اسکی تیاری میں لگا رہے،گویا دنیاوی زندگی اور دنیا کی ہر شے ایک عارضی سیٹ اپ ہے،کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہر ہر شے روبزوال ہے، کسی بھی شے کو دوام نہیں،خواہ سر بفلک چوٹیاں ہوں یاپاتال کی گہرائیاں،کتنے ہی جاندار ہیں جنکی نسل معدوم ہوگئی،اور کتنے ہی معدومیت کا شکار بننے جارہے ہیں، صرف انسان کے وہ اعمال اور انکے مثبت یا منفی اثرات اسکی موت کے بعد بھی باقی رہتے ہیںجو اس نے اپنی عارضی زندگی میں کئے ہوں، اور یہ” اعمال“ ہی اسکا مقصد حیات ہیں،دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ اپنے پیچھے اچھائی کو چھوڑتاہے اور” حُسنیٰ“(جنت کا ایک نام،جسکا معنی اچھائی کا انجام ہے)کا مکین بنتا ہے،یا اپنے پیچھے برائی چھوڑکر ”بئس المصیر“ (جہنم کا ایک نام،جسکا معنی برائی کا انجام ہے)کا اسیر بنتا ہے۔
مقصد حیات:
انسانی فطرت سب سے بڑی سائنس ہے،اسکی فطرت میں جو کچھ ودیعت کیا گیا ہے وہ ایک تلاش ہے،ہر انسان متلاشی ہے،اسکی تلاش اسکے شعور سے شروع ہوکر اسکی موت پر اختتام پذیر ہوتی ہے،خالق نے اسے ایسا ہی بنایا ہے،اور اسکی فطری تلاش کی تکمیل کی رہنمائی کے لئےخالق و مالک نےاپنے نمائندوںیعنی انبیاء و رسل کی بعثت،اپنے پیغامات یعنی صحیفوں کے نزول اوراپنے قوانین یعنی شرائع کے تقرر کا سلسلہ شروع کیا،اس سلسلے کا آغاز سب سے پہلے انسان” آدم“ سے کیا،جو انسان کی ارتقاء کا ابتدائی دور تھااور اختتام سب سے افضل انسان” محمد ﷺ “پر کیاجو انسان کی ارتقاء کا عالَم شباب تھا،ان سب نے انسان کو اسکےطرز حیات اور مقصد حیات سے آگاہ کیا،اس مقصد کے حصول میں کامیابی کا طریقہ سمجھایا،لیکن افسوس شروع میں انسان اس رہنمائی پر چلتا رہااور پھر اس سے ہٹتا چلا گیا،یہی اسکی طبیعت ہے،جیسا کہ صانع عَالَم نے ارشاد فرمایا:

كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى

ہرگز نہیں،یقیناً انسان سر کش ہے، کہ خود کو بے پرواہ سمجھتا ہے۔(العلق:6-7)
حتی کہ یہ سلسلہ مبارکہ لاکھوں انبیاء،سینکڑوں رسل، کڑوڑوںدعاۃ ومصلحین سے متجاوز ہوا ،پر انسان اپنی روش کو نہ بدل سکا، نتیجتاً،کتنی ہی اقوام کو خالق و مالک کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑا،انہیں عبرت کا نشان بنادیا گیا اور انکے آثار کو بعد والوں کے لئے باقی رکھا گیا،اور جنہوں نے اپنی اصلاح کرلی اور مقر راستے پر چل پڑے،انہیں دنیا میں ہی اکرام سے نوازدیا گیا، اوربعد والوں کے لئے آئیڈیل بنادیا گیااور آخرت میں انہیں بطور انعام بہشت میں داخل کردیا جائے گا،جو اس میں ایک بار داخل ہوا وہ دوبارہ اس سے کبھی بے دخل نہ کیا جائے گا،یہی مقصد حیات کی تکمیل ہے۔
خالق و مالک نے اپنے نمائندوں کے ذریعےجو رہنمائی کی انسان اسکی حفاظت نہ کرسکا ،کیونکہ اسکی حفاظت کا طریقہ اس پر چلنا تھا،جب وہ اس پر چلا نہیں تو وہ رہنمائی بھی محفوظ نہ رہی،اور انسانی خواہشات و مفادات کی نذر ہوگئی،حتی فترات الوحی کے ادوار میں انسان حیران و سرگرداںرہا،چنانچہ خالق و مالک نے اس رہنمائی (ھُدیٰ) کی حفاظت کا ذمہ لیاتاکہ انقطاع وحی کے بعد بھی جو لوگ ہدایات الہیہ پر چلنا چاہیں انکے لئے نصاب اور ہدایات اصل حالت میں موجود ہوں،وہ نصاب اور ہدایات جو گذشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے جوں کی توںمحفوظ حالت میں آج بھی دستیاب ہیں، وہ قرآن مقدس اور حدیث صحیح کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا،ان دو کے سوا کوئی بھی تیسری مثال پیش کرنا محض خیال ،جنوں اور محال ہے،انکی تنزیل پھر تدوین کے ادوار میں انکی حفاظت کے لئیے جو اصول بنائے گئے،جو جدوجہد کی گئی وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہےجسکا مطالعہ انکے متعلق ہر طرح کے شکوک و شبہات کو دور کردیتا ہے،اور یقین ہوچلتا ہے کہ واقعی انکی حفاظت کا ذمہ خود خالق و مالک نے لیا تھا، اور اب اور آئندہ جدید ذرائع کی بدولت ان میں تغیر و تبدل کا امکان صفر ہے،لہذا مقصد حیات کی معرفت کا ان سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں، کیونکہ ان سے حاصل شدہ معلومات ہی اصل ہدایات ربانیہ ہیں، جو صحت، صدق،دلالت،حجیت اور قطعیت میںاکمل و اتم اور ادلّ ہیں، قرآن مقدس اور حدیث صحیح پر غور و فکر کرنے سےمقصد حیات کے متعلق درج ذیل

معارف حاصل ہوتے ہیں:

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جب انسان کی تخلیق کا ذکر کیا تو کسی مقام پر اسکے مٹیریل مٹی اور پانی کا ذکر کیا،کہیں اسکے تخلیقی مراحل کا ذکر کیا،کہیںاسے علم و معرفت سے نوازے جانے اور فرشتوں پر سبقت لے جانے کا ذکر کیا،کہیںاسے جنت میں بسائے جانےپھر شیطان کے بہکاوے میں آکر جنت سے بے دخل کردیئے جانےکا ذکر کیا ،کہیں اسکی طبائع منفیہ کا ذکر کیا،کہیں عبادت کا ذکر کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔(الذاریات:56)
اورجب انسانی زندگی و موت کا ذکر کیا تودنیاوی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کیا، اسکی دوبارہ زندگی کا ذکر کیا،اسکی ہمیشگی کا ذکر کیا،روز جزا کا ذکر کیا،روح نکالے جانے کی کیفیات کا ذکر کیا،پروردگار کی جانب لوٹ جانے کا ذکر کیا،روز جزا کی ہولناکیوں کا ذکر کیا،روز جزا میں جزا و سزا کا ذکر کیا،اسکی دنیاوی زندگی کے ایک امتحان و آزمائش ہونے کا ذکر کیا،ایک مقام پر فرمایا:

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

آپ سے قبل کسی بشر کے لئے ہم نے ہمیشگی نہیں رکھی،تو اگر آپ فوت ہوجائیں تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے،اور ہم تمہیں برائی و اچھائی کے ذریعے آزمارہےہیں،اورہماری جانب تم لوٹائے جاؤ گے۔(الانبیاء:35)
نیز فرمایا:

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

برکت دی اس نے جسکے ہاتھ میں بادشاہت ہے،اور جو ہر شے پر قادر ہے،جس نے موت و حیات کو پیدا کیا،تاکہ تمہیں آزمائے تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے ، اور غالب اور بخشنے والا ہے۔(الملک:1-2)
نیز فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا

وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،جبکہ اسکا عرش پانی پر تھا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے؟(ھود:7)
ایسے ہی اس کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی یہی بتایا کہ انسان کی جانچ کی جائے،جس طرح جب کسی لیبارٹری یا فیکٹری میں کوئی نئی شے ایجاد کی جاتی ہے تو اسے مارکیٹ میں پیش کرنے سے پہلے اسکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے،اور ٹیسٹ کے لئے درکار ماحول فراہم کیا جاتا ہے،کامیابی کی صورت میں اسے مارکیٹ میں لانچ کردیا جاتا ہے،جبکہ ناکامی اور تباہی کی صورت میں اسے کباڑ میں پھینک دیا جاتا ہے،یہ انسانی فطرت دراصل فطرت الہیہ سے مستعار ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس تویکسو ہوکر اپنا چہرہ دین کی طرف متوجہ رکھ،یہی اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا،اللہ کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا،یہ مضبوط دین ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(الروم:30)
اس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا،اسے علم و معرفت،اعزاز و اکرام سے نوازا ،جنت میں بسایا،لیکن پھر فائنل ٹیسٹ کے لئے زمین و آسمان کا عارضی سیٹ اپ قائم کرکے انسان کو اس میں ایک مدت تک کے لئے بطور آزمائش چھوڑ دیا،اور اس حقیقت سے آگاہ بھی کردیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ

تمہارے لئے زمین پر ایک مخصوص مدت تک رہنے کی جگہ اور ساز و سامان ہے۔(البقرۃ:36-الاعراف:24)
ساتھ ہی دنیا اور اسکی ہر شے کی بے ثباتی اور انکے عارضی ہو نے کو بھی بیان کردیا،اور یہ بھی بتادیا کہ عارضی ہونے کے باوجود بڑی دلکش اور جاذب نظر ہے،اور ایسا بطور امتحان کے ہے،کہ کون اس کے دھوکےمیں آتا ہے اور کون بچتا ہے،ارشاد فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

جان لو:درحقیقت دنیاوی زندگی صرف کھیل تماشہ،آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال و اولاد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا نام ہے،جس طرح بارش اور اسکی پیداوار کسان کو اچھی معلوم ہوتی ہے،پھر وہ سوکھ کر زرد ہوجاتی ہے پھر بالکل چورا ہوجاتی ہے،اور آخرت میں شدید عذاب ہے اور اللہ کی جانب سے بخشش اور رضامندی ہے،جبکہ دنیاوی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(الحدید:20)
یہ بھی بتادیا کہ متحان کس چیز کا ہے اور کامیابی کے حصول کا کیا طریقہ ہے نیز کامیابی کا انعام اور ناکامی کی سزا بھی بتادی،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا

کیا انسان پر وہ دور نہیں آیا جب وہ قابل ذکر شے نہ تھا،ہم نے انسان کو مرد و عورت کے ملے جلے نطفے سے بنایا،ہم اسکی آزمائش کریں گے،پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا،ہم نے اسے راستے کی نشاندہی کی،اب شکر کرنے والا ہو یا ناشکری کرنے والا،ہم نے ناشکری کرنے والوں کے لئے زنجیریں ،طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،نیکو کار لوگ وہ جام پیئیں گے جسکی آمیزش کافور کی ہوگی۔(الانسان:1-5)
اسکی رہنمائی کے لئے فطری،قدرتی،عقلی انتظامات کئے تاکہ امیدوار ٹیسٹ میں ناکامی کی صورت میں کسی بھی طرح کے اعتراض کا مجاز نہ رہے،وہ یہ نہ کہہ سکے کہ:

أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ

کہیں روز قیامت تم بہانہ کرو کہ:ہم اس سے بے خبر تھے،یا کہو کہ:شرک تو ہمارے آباء نے شروع کیا،جبکہ ہم تو انکی بعد کی نسل تھے،پس کیا تم ہمیں ان لوگوں کے کرتوت پر ہلاک کرے گا جو ہمارے بڑوں نے کئے؟۔(الاعراف:172-173)
اورصرف اسی نوع کے انتظامات پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسکی ظاہر پرستی کو سامنے رکھتے ہوئےاعجازی اور ابلاغی انتظامات کئے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

ہم نے رسول بھیجے،خوشخبریاں سنانے والے،اور ڈرانے والے،تاکہ رسولوں کے آجکانے کے بعدلوگوں کے پاس اللہ پر کوئی بہانہ باقی نہ ہو،اور اللہ غالب ،حکمت والا ہے۔(النساء:165)
پھرجو اس ٹیسٹ میں کامیاب ہوا اسے اسکی فطری اور اصلی ٹھکانے جنت میں بھیج دیا جائے گا،

لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ

جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہوسکتے،جنت والے ہی کامیاب ہیں۔(الحشر:20)
اور ناکام ہونے والوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا جو توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی ہے،یہ سزا ہوگی مقصد حیات (یعنی امتحان الہی میں کامیابی کے حصول کی کوشش)سے غافل ہوکر غیر اہم مشاغل میں مشغول رہنے کی،بلکہ خالق و مالک کی نافرمانی کی سزا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ

ہلاکت ہے ہر عیب جو،الزام تراش کے لئے،جس نے مال جمع کیا اور اسے گن کر رکھا،وہ سمجھتا ہے کہ اسے اسکا مال ہمیشہ قائم رکھے گا،ہرگز نہیں اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی آگ میں جھونکا جائے گا،اور آپ کیا جانیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی آگ کیا ہے؟اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے،جو دلوں پر چڑھ جائے گی،جو ان پر سلگا کر بند کردی جائے گی،لمبے دراز ستونوں میں۔ (الھمزۃ:1-8)
نیز فرمایا:

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو اس دن انکے باہمی رشتےناطے ختم ہوجائیں گے،اور وہ ایک دوسرے کو واسطہ بھی نہیں دے سکیں گے،پس جنکی نیکیاں بھاری ہوگئیں تو یہ لوگ کامیاب رہیں گے،لیکن جنکی نیکیاں ہلکی پڑگئیںتو ان لوگوں نے خود کو خسارے میں مبتلا کردیا،وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔(المومنون:102-103)

مقصد اصلی و مقصد تبعی:

بسااوقات انسان اپنی فطری کمزوریوں کی بنا پر مقصد کا تعین نہیں کرپاتا،یا غیر اہم مقاصد میں کھوکر اصلی مقصد سے غافل ہوجاتا ہے،لہذا مقصد کا تعین کرنا،اسکی تکمیل میں لگے رہنا اور اصلی مقصد اور غیر اہم مقصد میں فرق کرنا ضروری ہے،اس سلسلے میں مولانا شمس الحق افغانی نے عمدہ مثال پیش کی ،انہوں نے کہا:
ایک کڑوڑ پتی رئیس کا ایک بیٹا ہو جسکا قتل عمد میں چالان ہوگیا ہو،اور عدالت نے بعد از تفتیش اسکے حق میں سزائے موت کا فیصلہ کردیا ہو،صرف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا موقع باقی اور اس اپیل کی میعاد بھی صرف ایک ہفتہ باقی ہو،اس دوران اسکو اپیل دائر کرنے کی غرض سے لاہور جانا پڑے،لیکن وہاں جاکر اہم مقصد سفر کو بھول کر وہ لاہور کی مختلف دلکش اور جاذب نظر اشیاء میں مصروف ہوا، مختلف ہسپتالوں کی معلومات حاصل کی،کالجوں کا معائنہ کیا،لائبریریاں دیکھیں، لیڈروںکی گفتگومیںمشغول ہوایہاںتک کہ ان مصروفیات میں وہ ایک ہفتے کا عرصہ ختم ہوگیا اور اِدخال اپیل کی نوبت نہ آئی،گویا غیر اہم معلومات پراہم مقصد کو قربان کردیا،جب وہ گھر آیا،تو خویش و اقارب نے دریافت کیا کہ لاہور جانے کے مقصد کو تم نے پورا کیا؟جس پر وہ کہنے لگا،مختلف اداروں کے متعلق کافی معلومات حاصل کیں،صرف ادخال اپیل کا خیال نہ رہا جو اس سفر کا اصلی مقصد تھا۔
یہی حال ان انسانوں کا ہے کہ وہ دنیا میں بحیثیت مسافر کے کسی خاص مقصد کی تکمیل کے آئے ہیں،اب اگر انسان دنیا کی ہر چیز کو جانے لیکن اپنی زندگی اور آمد کا مقصد ہی نہ جانے،تو کتنا بڑا سانحہ ہوگا جسکا تدارک ناممکن ہے،البتہ اہم مقصد کی تکمیل کے ساتھ جسقدر وہ علوم دنیا کو حاصل کرے تو خاص فائدہ مند ہے،مثلاً: لاہور جانے والا رئیس اپیل وقت پر دائر کرتا اور لاہور کے تمام اداروں کی معلومات بھی حاصل کرتا تو کوئی حرج نہ تھا،یہی حال عام انسان کا ہےکہ اگر یہ اپنی جان و جہاں دونوں کو جانے،تو بڑی خوبی ہے،لیکن جہان کو جانے اور اپنی جان کو نہ جانے تو بڑی غلطی ہوگی،آج کل جدید دنیا کا حال یہ ہے کہ غیر اہم اور غیر بنیادی امور میں ایسے غرق ہوئے کہ بنیادی مقصد کو انہوں نے کھودیا،اور مقصد حیات انسانی کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہ کی،اور اگر کوئی توجہ کرانا چاہے تو قوت و دولت کے گھمنڈ میںاسکا مذاق اڑاتے ہیں،گویا خود مقصد حیات سے بھی محروم اور اور اسکی طلب سے بھی،اور مقصد حیات کی خلاف شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہیں۔
ایسے ہی مقصد و ضرورت میں بھی فرق کرنا چاہیئے،جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں لکھ آئے ہیں۔
زندگی کو مقصد دیں:
انسانی طرز زندگی،انسانی فطرت،انسانی عادات،انسانی انداز فکر ،اور جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں بیان کیا کہ خالق نے انسان کو ایک مقصد کے تحت پیدا کیا،اس سب کا تقاضا ہے ،کہ زندگی کو اسکے حقیقی مقصد کی تکمیل میں گذارا جائے،جب زندگی کو مقصد دے دیا جائے تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان معلوم ہوتی ہے،اور بڑی سے بڑی آسائش بھی اس مقصد کے مقابلے میں ہیچ معلوم ہوتی ہے،پھرانسان کے لئے تنگی و کشادگی اور مشکل و آسانی، مال و دولت،حشمت و مرتبت،جائیداد و کاروبار، ازواج و اولاد،کنبہ و قبیلہ وہ تمام اشیاء جو انسانوں میں تفاضل کا معیار مانی جاتی ہیں محض ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہیںجس میں کامیابی کے لئے وہ سرتوڑ اور لگاتار کوشش میں لگا رہتا ہے، پھرانسان قابل فخر کارنامے سر انجام دیتا ہے،اسکی انفرادی و اجتماعی زندگی مثال بن جاتی ہے،اور وہ تقوی کے شعار بے مثال سے متصف ہوکر خالق کا مقرب و محبوب بن جاتا ہے،مثلاً:جب سپاہی کو مقصد(مشن) دے دیا جائے تو وہ اسکے حصول کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتا ہے،وگرنہ بیرکوں میں پڑا سڑتا رہتا ہے،بامقصد زندگی بھی اسی طرح ہے،اور جو زندگی کا مقصد متعین نہ کرے انکی زندگی کھیل تماشے سے زیادہ نہیں،اس دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں:
ایک وہ جو بے مقصدزندگی گذاررہے ہیں،جو مقصد کو اہمیت نہیں دیتے،انکے نزدیک اخلاق واقدار،نیکی و بدی، اچھائی و برائی،عدل وظلم،خیر و شر،سچ و جھوٹ،وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتے،انکے نزدیک اصل حیثیت اپنی لامحدود خواہشات کی ہوتی ہے،جنکی تکمیل کے لئے انہیں خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے،یہ لوگ مفادات کے پجاری،خود غرض،ہوس پرست اور انسان نما درندے ہوتے ہیں ،ہر معاشرے میں اسکی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
دوسرے وہ جو بامقصد زندگی گذارتے ہیں،پھر یہ بھی دو طرح کے ہیں:
ایک وہ جو حقیقی مقصد کو پہچانتے میں غلطی کرتے ہیں،اور ضرورت کو مقصد سمجھ لیتے ہیں،یہ لوگ انسانی اقدار کا پاس رکھتے ہیں،لیکن مقصد حقیقی سے نابلد ہونے کے باعث ان میں بہت سی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں،جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں ایک سپاہی کی مثال بیان کی،وہ مشن مکمل کرنے کی جدوجہد تو کرتا ہے لیکن اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ جس مشن پر وہ ہے وہ حق ہے یا باطل؟اس قسم کے لوگ اپنی زندگی سے کبھی مطمئن نہیں ہوپاتے،اور ضرورت و حالات کے مطابق اپنانظریہ و طرز حیات بدلتے رہتے ہیں،جہاں انہیں کچھ فوائد نظر آئیں اسی سمت چل پڑتے ہیں،یہ لوگ روحانیت سے محروم اور ظاہر پرست ہوتے ہیں،لیے دیے رہتے ہیں،اپنے اردگرد سے غافل ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں،معاشرتی ناہمواریوں کی پرواہ نہیں کرتے،اسلامی اقدار کواہمیت نہیں دیتے۔
دوسرے وہ جو مقصد حیات کے تعین کے ساتھ اسکی حقیقت و اصلیت کی معرفت بھی رکھتے ہیں ،یہ لوگ کردار و اخلاق کے اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں،اپنی زندگی کا ہر اقدام مقصد کو سامنے رکھ کرترتیب دیتے ہیں،صرف ظاہر ہی نہیں باطن کی صفائی کا اہتمام بھی کرتے ہیں،ہر کام میں خالق و مالک کی مرضی پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں،غلطی پر نادم و پریشان ہوتے ہیں،توبہ و استغفار کرتے ہیں،اپنے معاملات کو صاف رکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں،انصاف سے کام لیتے ہیں۔
….جاری ہے….

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے