شراکت کا لفظ شرک سے نکلا ہے۔ جس کا عمومی مفہوم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہونا ہے ،بے شک یہ شراکت تھوڑی ہو یا زیادہ، نام میں ہو یا کام میں، اخلاقی ہو یا نسبی، معاملات میں ہو یا اختیارات میں ،اللہ تعالیٰ ہر قسم کی شراکت سے پاک اور مبّرا ہے۔اس کے ساتھ کسی انداز اور صورت میں شرک کرنا پرلے درجے کا ظلم اور جرم ہے۔

وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

’’اورسب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں سو اُسے انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں انہیں جلد ہی اس کی سزا دی جائے گی جو وہ کیاکرتے تھے۔(الاعراف:۸۰)
ہر دور کے مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء، ذات، عبادت اور احکام میں غلو اور شرک کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ لوگ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے شریک بنا کر نہ صرف اس کی صفات کو اپنے معبودوں میں تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر رکھتے ہیں جو بدترین گناہ اور سنگین جرم ہے ۔ سمجھانے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں تو بلآخر انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے یعنی ان سے قلبیدوری ہونی چاہیے ۔ یہاں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکار ا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ۔ انھیں بہت جلد اپنے قول و فعل کی سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ ہے یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرعّب اسم عالی اور گرامی ہے جو صرف اور صرف خالقِ کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے ۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر ، مشرک اور بدترین باغی انسان ہوئے ہیں اور ہوں گے ۔ جن میں اپنے آپ کو داتا ، مشکل کشا اورموت و حیات کا مالک ہونے کا دعویٰ کرنے والے یہاں تک کہ

’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی

‘‘کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں ۔ مگر ذاتِ کبریاء کے نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو’’ اللہ‘‘ کہلوانے کی جرأت نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا ۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو’’ اللہ‘‘ کہنے کی جرأت نہیں کر سکے تھے۔ اللہ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطرت کی آواز ہے جس بنا پر ہر کام بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خالقیت، الوہیت ، جلالت و صمدیت ، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی عقیدہ لیے ہوئے ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاذاتی اسم عالی ۲۶۹۷ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا تعلق ہے ان کی دو اقسام ہیں ۔ ایک نام وہ ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں دوسرے وہ ہیں جن میں سے کوئی نام کسی آدمی کا بھی رکھا جا سکتا ہے ۔ مثلاً کریم ہے بہتر تو یہ ہے کہ یہ نام بھی عبدالکریم ہونا چاہیے تاہم کوئی صرف کریم نام رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے کیونکہ کریم کا معنیٰ درگزرکرنے والا اور سخی ہے جو کسی آدمی کی صفت اور نام بھی ہو سکتا ہے لیکن انسان کی کریمی اور اللہ تعالیٰ کی کریمی میں زمین و آسمانوں سے زیادہ فرق ہے ۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنہ کے ساتھ پکارنے کا حکم دے کر یہ تلقین فرمائی ہے کہ :

وَذَرُوْاالَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِیْٓ أَسْمَآئِہٖ

’’ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں‘‘
اس کے نام میں الحاد کی ایک صورت یہ ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں وہ کسی زندہ یا مردہ کا نام رکھا جائے جس طرح آج کل بعض مسلمان جہالت کی بناء پرکسی جنرل سٹور کا نام الرحیم یا الرحمن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشکل کشا ہے اور کوئی کسی دوسرے کو بھی مشکل کشااور حاجت روا سمجھتے ہوئے اس کو اس نام سے پکارے جیسا کہ ان پڑھ لوگ پیر عبدالقادر جیلانی aکو پیر دستگیر کہتے ہیں اور ان کے نام کا وظیفہ بھی کرتے ہیں یعنی ڈوبتے ہوئے یا گرنے والے کا ہاتھ تھامنے والا ۔

یَا عَبْدَ الْقَادِرِ شَیْئا للّٰہِ

’’اے عبدالقادر اللہ کے لیے کچھ دیجیے ‘‘
ایسا عقیدہ رکھنے والے لوگ حضرت علی ہجویری aکو داتا گنج بخش کہتے ہیں جس کا مطلب ہے خزانے بخشنے والا۔ غوث اعظم بڑا فریادیں سننے والا ۔

((عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ t رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مِائَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ))[رواہ

البخاری: کتاب الدعوات ،باب للہ مائۃ اسم غیر واحد]
’’حضر ت ابو ہریرہ tبیان کرتے ہیں کہ نبی eنے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کر لے گا جنت میں داخل ہو گا اللہ ایک ہے اور وہ اکائی کو پسند کرتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کے نام یاد کرنے سے مراد صرف حفظ کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق انسان کا عقیدہ اور عقیدے کے مطابق اس کا عمل بھی ہونا چاہیے۔

ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ

’’وہ اللہ ہی ہے ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورتیں بنانے والا ہے ، اس کے بہترین نام ہیں جوبھی چیز آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس کی تسبیح کر رہی ہے ،وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } (آل عمران:۶)

’’ وہی ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔‘‘
اَلْمُصَوِّرُ: شکل وصورت بنانے والا۔یاد رہے کہ دنیا میں جو لوگ مصوری کے پیشے سے منسلک ہیں اوروہ اپنے ہاتھ سے مختلف چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں چاہے (Painting) کے ذریعے تصویر بنانے سے پہلے تصویر کشی کرتے ہیں ان کے ذہن میں ضرور کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوتا ہے۔ جس میں آگا پیچھا کر کے اس جیسی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں المصّور نہیں کہا جا سکتا کیونکہ المصوّر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کیونکہ اس نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے اربوں اور کھربوں صورتیں بنائیں ہیں وہ قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی بناتا رہے گا جو آپس میں مختلف ہیں اور ہوں گی۔
انسان خود اپنے آپ پر غور کرے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو دوسرے کے ساتھ سو فیصد مماثلت رکھتا ہو لہٰذا صرف ایک ہی ذات ہے جو حقیقی الخالق ، الباری اور المصوّر ہے۔ کیونکہ وہی عدم کو وجود دیتا ہے وہی جسم میں روح ڈالتا ہے اور وہی شکل وصورت میں امتیاز اور انفرادیّت پیدا کرتا ہے۔اس کے نام بہت ہی اچھے ہیں اس کو اس کے اچھے ناموں کے ساتھ ہی پکارنا چاہیے۔

قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاء ُ الْحُسْنَی} (الاسراء:۱۱۰)

’’فرما دیں اللہ کو پکارو یا رحمان کو ، جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔‘‘
مکہ کے لو گ اپنی دعائوں میں ’’ اللہ ‘‘کانام استعمال کرتے تھے اور مدینہ کے یہودی عام طور پر ’’اللہ ‘‘کی بجائے ’’الرحمن ‘‘کے نام سے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے او ر اپنی دعائو ں میں الرحمن کا لفظ استعمال کرتے تھے ۔ رسول کریم ﷺنے جب اپنی دعا اورذکر میں اسمِ ’’اللہ‘‘کے ساتھ ’’الرحمن‘‘کا لفظ بولنا شروع کیا تومکہ کے مشرکوں نے الزام لگایا کہ ہمارے ساتھ صبح وشام ایک الٰہ پرتکرار کرتا ہے ۔ لیکن اس کا اپنا یہ حال ہے کہ’’ اللہ ‘‘ کے ساتھ’’ الرحمن‘‘کو شریک بنا تا ہے ۔اس پرمکہ والوں کو سمجھایاگیاکہ اپنے رب کو’’ اللہ ‘‘کے نام سے پکارو یا اس کو ’’الرحمن‘‘کے نام سے یاد کرو ۔اسے جس نام سے پکارو اس کے تمام نام ہی بہترین ہیں ۔وہ ایسی لازوال اور بے مثال ہستی ہے کہ جس کا ہمسر ہونا تو درکنار اس کاتو کوئی ہم نام ہی نہیں۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہِ ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا

’’وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمانوں وزمین کے درمیان ہیں پس تم اس کی بندگی کرو اور اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو ۔کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم نام ہے ؟‘‘
اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے بھی زیادہ اسمائے گرامی ہیں۔ اس کا ہر نام اس کی خاص صفت کا ترجمان ہے لیکن قرآن مجید میں تین اسماء گرامی ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، وہ اسماء گرامی یہ ہیں اللہ ،الٰہ،رب، ان میں اسمِ اعظم ’’اللہ ‘‘ ہے۔ باقی دو نام صفاتی ہیں ۔قرآن مجید میں انہیں ناموں کے ساتھ ان تمام صفات کا ذکر پایا جاتا ہے جو’’ اللہ‘‘ کے نام کے ساتھ ذکر کئی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات اور صفات میں شرک گوارہ نہیں
ذاتِ کبریاء کا فرمان ہے :

اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ

’’اللہ بے نیاز ہے ،نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘‘
اس فرمان کے باوجود یہودیوں اور عیسائیوں کی یاوہ گوئی کرتے ہیں:

وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ} (التوبہ:۳۰)

’’یہودیوں نے کہاعزیراللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہامسیح اللہ کابیٹا ہے یہ ان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا ’’اللہ‘‘ انہیںغارت کرے کہ یہ کدھربہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودی حضرت عزیرعلیہ السلام کو’’ اللہ‘‘کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے بیٹے عزیرؑکو دے رکھے ہیں۔
یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عیسائی کہتے ہیں کہ’’ اللہ ‘‘ کی خدائی کی تکمیل مریم اورعیسیٰuکوملا کر ہوتی ہے جسے وہ تثلیث کا نام دیتے ہیں، ان کے عقیدے کی یوں تردید کی گئی ہے:

لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدۃ:۷۲)

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ مسیح اللہ ہے جومریم کابیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیںہو گا۔‘‘
اہلِ مکہ کی کذب بیانی:

أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ وَلَدَ اللهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ(صافات: ۱۵۰تا۱۵۲)

کیاہم نے ملائکہ کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس وقت موجود تھے۔سُن لوحقیقت یہ ہے لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ کہ ’’اللہ‘‘ کی اولاد ہے یقینا یہ لوگ جھوٹے ہیں،کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پسند کر لیں ہیں؟‘‘
دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کروڑوں کی تعداد میں کلمہ پڑھنے والے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم u اپنی ذات کے اعتبار سے ’’اللہ‘‘ کے نور کا حصہ ہیں یہاں تک کہ صوفیائے کرام نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا عقیدہ اپنا رکھا ہے، وحدت الوجود کا معنٰی ہے کہ کائنات کی شکلیں مختلف ہیں مگر حقیقت میں وہ سب ’’اللہ‘‘ ہیں۔ بے دین صوفی اس کے لیے ہمہ اوست کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا الگ وجود ہے مگر کائنات اس ذات کا پرتو ہے وہ اس کے لیے ہمہ از اوست کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی سب کچھ اسی سے نکلا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کو کفر قرار دیا ہے ، اس کا فرمان ہے کہ یہ اس قدر سنگین گناہ اور جرم ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین پھٹ جائے۔

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (زخرف:15)

’’اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔ ‘‘

وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ

’’اور ان میں سے اکثر اللہکو ماننے کے باوجود شرک کرنے والے ہیں۔‘‘(یوسف: ۱۰۶)

تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا

’’قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔اس بات پر کہ انہو ں نے رحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘(مریم:۹۰،۹۱)

بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْء ٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ} (الانعام:۱۰۱)

’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟اور اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ زمین وآسمانوں اور ہر چیز کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے وہ اپنی بادشاہی میں کسی کی کسی اعتبار سے شرکت گوارہ نہیں کرتا

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا

’’اورفرما دیجیے تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہو جانے کی وجہ سے کوئی اس کا کوئی حمایتی ہے اور اس کی بڑائی بیان کر ، خوب بڑائی بیان کیاکرو۔ ‘‘

تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ

’’بڑی با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس نے موت اور زندگی کوپیدا کیا تاکہ تمہیں آزما ئے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔‘‘(الملک :۱،۲)

الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیرًا (الفرقان:۲)

’’ اللہ ‘‘ ہی کے لیے زمین وآسمانوں کی بادشاہی ہے اس نے کسی کواپنی اولاد نہیں بنایا ۔ بادشاہی میںاس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، اس نے ہرچیز کوپیدا کیا پھراس کی تقدیر مقررکی فرمائی ۔‘‘

إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُون فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْء ٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ} (یٰس:۸۲،۸۳)

’’وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جاوہ اسی طرح ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا کلی اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔‘‘
ملک سے مراد ساری کائنات اوراس کی بادشاہی ہے۔ اس فرمان میں بیک وقت مادہ پرست سائنسدانوںاور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کی تردید کی گئی ہے۔ کئی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات بِگ بینگ کے ذریعے خود بخود معرضِ وجود میں آئی اوراسے کوئی بنانے اورچلانے والا نہیں ہے۔مشرک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کچھ اختیارات دوسر ی ہستیوں کو بھی سونپ رکھے ہیں۔ ان کی تردید کے لیے فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ کائنات کا نظام چلانے کے لیے نہ اس کا کوئی معاون ہے اورنہ مدد گار، اسے کسی کی معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہرچیز پر کلی اقتدار اورپورا اختیار رکھتا ہے۔ اسی نے موت اورزندگی پیدا فرمائی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔وہ ظالموں پر غلبہ پانے والااور نیک بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ کوئی چیزنہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ’’اللہ‘‘ کے حکم کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ اس نے عدم کے بعد زندگی اورزندگی کے بعد موت کا سلسلہ اس لیے جاری کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتاہے۔

لَوْ کَانَ فِیہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُون}(الانبیاء :۲۲)

’’اگر زمین و آسمانوں میں اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوتے تو دونوں کانظام بگڑ جاتا ۔بس عرش کا مالک’’ اللہ‘‘ہے وہ ان باتوں سے مبرّا ہے جو لوگ بناتے ہیں ۔‘‘
اگر زمین و آسمان میں ایک کی بجائے دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور تصادم ہوتا جس سے زمین و آسمانوں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے عقائد اور بے ہودہ باتوں سے مبّرا اور پاک ہے ۔ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پرجلوہ افروزہے ۔

وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ } (النحل: ۵۱)

’’لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ دو الٰہنہ بناؤ الٰہ صرف ایک ہی ہے بس اُسی سے ڈرتے رہو ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے حکم اور قانون میں بھی کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتا

مَا لَہُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ أَحَدًا (الکہف: ۲۶)

’’ اللہ تعالیٰ کے سوا مجرموں کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے اسی طرح کائنات کا خالق ومالک ہونے کے ساتھ واحد حاکم ہے۔ اس سے بہتر کوئی حاکم نہیں اور نہ ہی اس کے قانون جیسا کوئی قانون بنا سکتا ہے اس کیں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں ۔ اس لیے اس کا ارشاد ہے کہ اس کے بندوں پر اسی کا حکم چلنا چاہیے ۔

أَلَیْسَ اللہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ (التین:۸)

’’ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ؟ ‘‘

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ [المائدۃ:۴۴]

’’جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔‘‘

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ [المائدۃ:۴۵]

جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہیںکرتے وہ ظالم ہیں۔

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ [المائدۃ:۴۷]

جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بھی شرک گوارہ نہیں کرتا

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوحَی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَاء َ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا (الکہف:۱۱۰)

’’اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے ۔اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔‘‘

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ

’’اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے حکمرانی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘ (القصص:۸۸)
اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، صفات میں منفرد اور یکتااور اختیارات میں خودمختارہے وہ کسی کے تعاون کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حاجت روا مشکل کشا ہے ۔ جو شخص اپنے رب کی ملاقات پر یقین اور اس کی امید رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ صالحِ اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو کسی حوالے سے بھی شریک سمجھے اور نہ بنائے ۔یہی انبیاء کرام کی دعوت اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون

’’میں نے جنوںاور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

’’ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔‘‘

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُمْ مَنْ ہَدَی اللہُ وَمِنْہُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلَالَۃُ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِینَ

’’اوریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی ۔پس زمین میں چل ، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوںکا کیسا انجام ہوا۔‘‘
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے