اسلامی دین فطرت ہے ، اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ، اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند منتخب لوگوں کا اس پر عمل کرنا کافی نہیں۔ اسی طرح اسلام عیسائیت کی طرح چند عقائد ورسوم کا نام نہیںبلکہ وہ نظام ہے جو عقائد کی اصلاح چاہتاہے اور عقائد کے ساتھ اخلاق ومعاشرت، زندگی کے مقصد ومعیار ،زاویۂ نظر اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتاہے اور یہ صرف اسی وقت ہوسکتاہے کہ
اس کو مادی وسیاسی اقتدار حاصل ہو،صرف اسی کو قانون سازی اور تنقید کا حق ہو، اس کے صحیح نمائدے دنیا کے لیے نمونہ ہو،اسلام کے مادی اقتدار کا لازمی نتیجہ اس کا روحانی اقتدار اور صاحب اقتدار جماعت کے اخلاق واعمال کی اشاعت ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔
صاحب احسن البیان الشیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
’’ اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی ۔ ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوںسے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔‘‘ (احسن البیان ص 926۔927)
یہ بات بہت ضروری ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکتا۔

جہاد :

ابتدائے آفرنیش سے حق وباطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی چلی آرہی ہے شاعر مشرق فرماتے ہیں ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر جہاد ایک بہت بڑا عمل ہے ایک مجاہد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے ابنا تن دھن، مال ودولت اور اپنی جان اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے سے دریغ نہیں کرتا بلکہ انشراح قلب وصدر سے کہتا ہے
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے جانبازوں اور مجاہدین کے لیے کامیابیوں اور کامرانیوں کا مژدہ سنایا جاتاہے۔

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (التوبۃ:111)

’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمادی اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کہا جارہا ہے یہ خوشی اس وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمانوں کو یہ سودا منظور ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ومال کی قربانی سے دریغ نہ ہو۔
اور جہاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الصف:10۔11)
’’

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو ۔‘‘
الشیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :
’’اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا

\”اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ\” (التوبہ :111)

اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔‘‘(احسن البیان ص 1574)
حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ بریلوی :
13 ویں صدی کا آغاز تھا کہ رائے بریلی کے سادات خاندان میں 14ویں کا چاند طلوع ہوا یعنی صفر 1301ھ/نومبر 1786ء میں حضرت سید احمد بن سید محمد عرفان کی ولادت ہوئی یہ پورا خاندان زہد وورع، تقویٰ وطہارت،علم وفضل،صبر وتوکل،ایثار وقربانی، ریاضت وعبادت، فضائل ومحاسن، جہاد وغزا وغیرہ میں دیگر خاندانوں کے مقابلہ میں خاص شہرت رکھتا تھا۔
خاندان رسم ورواج کے مطابق ساڑھے چال سال کی عمر میں مکتب میں بٹھائے گئے لیکن تین سال کی مسلسل کوشش کے باوجود حصول علم کی طرف توجہ مبذول نہ ہوئی مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی لکھتے ہیں کہ
’’علم متداولہ کا ان کو شوق نہ تھا قرآن مجید میں سے اس کی چند سورتیں ان کو زبانی یاد تھیں اور ان کی یہ حالت ابتدائی تین سال تک رہی ، ان کے بڑے بھائی سید اسحاق بن سید عرفان اس صورت حال سے بہت پریشان تھے وہ ان کی تعلیم میں کوشاں رہتے لیکن والد نے فرمایا کہ اس(سید احمد) کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرو چنانچہ انہوں نے اس طرف سے توجہ ہٹا لی۔ ( نزہۃ الخواطر 7/28)
اس کے بعد سلسۂ تعلیم منقطع ہوگیا حضرت سید صاحب کو بچپن سے کھیلوں کا بہت شوق تھا ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو بچین میں کھیلوں کا بڑا شوق تھا خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا ،کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے اور اکثر لڑکوں کو دوگروہوں میں تقسیم کردیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر حملہ کرتا۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید1/89)

جذبۂ جہاد :

سید احمد کو بچپن ہی سے شوق جہاد کا جذبہ ان کی طبیعت میں راسخ ہوچکا تھا مولانا غلام رسول مہر (م1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’سیّد صاحب خود فرماتے کہ عہد طفلی میں ہی میرے دل میں یہ بات جم گئی تھی کہ میں کافروں سے جہاد کروں گا۔ اور اکثر اس کا اظہار ہوتا رہتا تمام اقرباء میرے ان الفاظ پر متعجب ہوئے بعض سمجھتے کہ یہ بچپن کی اٹکھیلیاں ہیں بعض نے باربار یہی سنا تو خیال ہوا کہ ممکن ہے یہ سچ کہتا ہوصرف والدہ ماجدہ میرے اس دعویٰ کو حرفاً حرفاً سچ سمجھتی تھیں۔‘‘(سید احمد شہید،ص:59)

سفر لکھنؤ ودہلی :

1219ھ میں جب کہ آپ کی عمر 18 سال کی تھی ذریعۂ معاش کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا پانچ سال قبل 1314ھ میں ان کے والد محترم سید محمد عرفان رحلت فرما گئے تھے چنانچہ آپ اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ اس وقت نواب سعادت علی خان خلف نواب شجاع الدولہ کا عہد حکومت تھا لکھنؤ پہنچ کر روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے مگر روزگار عنقا تھا چار ماہ بے کاری میں گزر گئے آخر آپ نے لکھنؤ سے دہلی جانے کا ارادہ ظاہر کیا چنانچہ آپ پیادہ دہلی کے سفر پر روانہ ہوئے دہلی کا سفر حقیقتاً حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (م1239ھ/ 1822ء) کی خدمت میں حاضری تھی جب آپ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت شاہ صاحب نے مصافحہ اور معانقہ کے بعد آپ سے جو گفتگو فرمائی اس کو محترمہ ثریاڈار صاحبہ مرحومہ کے الفاظ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
’’حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرمایا کہ کہاں سے تشریف لائے ہیں آپ نے فرمایا کہ رائے بریلی کے سادات خاندان سے تعلق رکھتا ہوں…پھر حضرت شاہ صاحب نے استفسار فرمایا کہ سید ابو سعید اور سید ابو نعمان بے واقف ہو سید احمد نے کہا سید ابو سعید میرے نانا اور سید ابو نعمان میرے حقیقی چچا تھے ، حضرت شاہ عبد العزیز نے یہ بات سنتے ہی دوبارہ گرم جوشی سے مصافحہ ومعانقہ کیا اور پھر پوچھا کہ اتنے لمبے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کی کیا غرض تھی، سید احمد نے جواب دیا کہ آپ کی ذات مقدس کو غنیمت سمجھ کر اللہ جل شانہ کی طلب میں یہاں پہنچا ہوں ، حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تمہارے پاک باز خاندان میں منصب ولایت موروثی ہے اور تم امین پدری اور مادری وراثت حاصل کر لو گے.. اس کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز نے ایک خادم کے ساتھ حضرت سید احمد کو اپنے برادر خورد شاہ عبد القادر دہلوی (م1815ء) کے پاس اکبر آبادی میں بھیج دیا۔ ( شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور اُن کی علمی خدمات ، ص213)

اکبر آبادی مسجد میں مصروفیات :

اکبر آبادی مسجد حضرت سید احمد نے حضرت شاہ عبد القادر دہلوی سے ترجمہ قرآن مجید اور صرف ونحو کی عربی وفارسی کتابیں پڑھیں علاوہ ازیں عربی وفارسی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کر لی حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی سے بھی استفادہ کیا اور اسی دوران حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے دست حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا ، مسجد اکبر آبادی کے قیام کے دوران آپ زیادہ وقت ذکر واشغال اور ریاضت وعبادت میں مصروف رہتے تھے۔

رائے بریلی کو واپسی :

حضرت شاہ عبد العزیز اور حضرت شاہ عبد القادر سے حصول علم اور باطنی وروحانی دولت حاصل کرنے کے بعد سید صاحب پیادہ اپنے وطن رائے بریلی واپس تشریف لے گئے اور مسجد شاہ علم اللہ میں قیام فرمایا ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م1999ء) لکھتے ہیں کہ :
’’سید صاحب اپنے وطن واپس تشریف لائے آپ اچانک پہنچے اور مسجد میں مسافرانہ بیٹھ گئےآپ جس وقت گھر سے نکلے تھے اس وقت داڑھی اور مونچھ بھی نہیں نکلی تھی اب تشریف لائے تو گھنی داڑھی اور مونچھیں تھیں لوگوں نے پہنچانا نہیں اور سمجھے شاید کوئی مسافر یا درویش ہو ، جب آپ کو پہچان لیا گیا تو ان کے گھر خبر کی ، اعزّا ملنے آئے اور ہاتھوں ہاتھ گھر لے گئے۔‘‘ (سیر سید احمد شہید 1/103)

شادی :

رائے بریلی کے قیام میں حضرت سید صاحب نے نہایت عمدگی اور خوبی سے شب وروز قرآن وحدیث کا درس دیتے رہے اسی دوران خاندان کی ایک لڑکی سیّدہ زہرہ سے آپ کی شادی کر دی گئی ۔ مولانا غلام رسول مہر (م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’سیدہ زہرہ سید علم اللہ شاہ کے حقیقی چچا سید اسحاق کی اولاد میں سے تھیں شجرہ نسب یہ ہے :
سیدہ زہرہ بنت سیدمحمد روشن بن سید محمد شافع بن سید عبد الغفار بن سید تاج الدین بن سید محمد اسحاق عم سید علم اللہ (طینی برادر سید محمد فضیل بن سید محمد معظم) (سید احمد شہید 1/80)
دہلی واپسی اور نواب امیر خان والئ ٹونک کی فوج میں شمولیت
رائے بریلی میں دو سال قیام کے بعد سید صاحب دوبارہ دہلی تشریف لائے اور مسجد اکبر آبادی میں فروکش ہوئے۔ اس وقت حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی اس فانی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ، روحانی اور باطنی فیوض کے بعد اب دوسرے مقصد کی تکمیل ایک بہت ضروری مرحلہ تھا اس مقصد اعلیٰ یعنی اسلامیت کے احیاء کے لیے جہاد کی تربیت کے عملی پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنا چاہی چنانچہ اس غرض کے لیے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی اجازت سے نواب امیر خان والی ریاست ٹونک کی فوج میں شامل ہوگئے۔
نواب امیر خان کی فوج میں شمولیت کے مقاصد کیا تھے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بیان کرتے ہیں کہ
’’ سید صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جس عظیم مقصد کے لیے تیار کیا تھا اور آپ نے جن بلند مقاصد کو اپنے پیش نظر رکھا تھا، ان کی سربراہی میں مزید تکمیل وپختگی اور عملی مشق وتربیت کی متقاضی تھی اگرچہ سید صاحب نے شروع سے سپہ گری اور سپاہیانہ اعمال واشغال اپنے فطری ذوق ورجحان سے سیکھے تھے لیکن آپ کو عملی معرکہ آرائی اور میدان جنگ اور اس کے نشیب وفراز سے گزرنے کا اس سے پیشتر موقع نہیں آیا تھا اس کے لیے کسی محاذ جنگ کی ضرورت تھی جہاں رہ کر آپ فوجوں کی قیادت اور دست بدست جنگ کا عملی تجربہ حاصل کریں۔ (سیرت سید احمد شہید 1/105)
نواب امیر خان کی فوج میں شمولیت اقامت جہاد کے ماتحت اور اشارہ غیبی سے تھا ، سید صاحب اپنی عبادات وریاضات اور فوج کی سپاہیانہ زندگی کے ساتھ اصلاح وارشاد میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے فوج جس کی تعداد ایک ایک وقت میں 40۔50 ہزار مسلمان سپاہی موجود ہوتے تھے دعوت وتبلیغ کا ایک وسیع میدان تھا اس لیے آپ کو اصلاح وتربیت کے بہترین مواقع حاصل تھے، فوجی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے آپ سنت یوسفی کے مطابق اُن کی دلجوئی کرتے، عقیدئہ صحیحہ کی تعلیم دیتے خلاف شرع امور سے بچنے کی تلقین کرتے فرائض کی پابندی کا اقرار لیتے۔

ہندوستان کی سیاسی حالت :

اس وقت پورا ملک زبون حالی کا شکار تھا اور مسلمانوں کی قوت مضمحل ہوچکی تھی مسلمان جن کی عظیمت کا ڈنکا کابل وقندہار سے آسام واراکان اور قراقرم سے سے راس کماری تک 250 سال بجتا رہا تما م صوبے مرکز سے علیحدہ ہوکر خود مختار بن گئے تہے تمام نظام درہم برہم ہوچکا تھا بدنظمی کا دور دورہ تھا خانہ جنگی کی فضا عام تہی مسلمانوں کی سیاسی حالت قریب الختم تھی۔
سید صاحب کی نواب امیر خان سے علیحدگی :
سید صاحب نواب امیر خان کی فوج میں سات سال رہے جب نواب صاحب نے انگریزوں سے صلح کر لی تو سید صاحب نے نواب صاحب سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا استعفیٰ نواب امیر خان کو پیش کردیا ، علیحدگی کے بعد سید صاحب نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں خط لکھا کہ
’’خاکسار (سید احمد بن سید عرفان) قدم پوسی کو حاضر ہوتا ہے یہاں سارا نظام درہم برہم ہوگیا ، نواب صاحب انگیریزوں سے مل گئے ہیں اب یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (سیرت سید احمد شہید 1/117)

سفر حج اور مراجعت :

1236ھ / 1820کو حضرت سید احمد نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین کے لیے 400 رفقاء کے ساتھ رائے بریلی سے روانہ ہوئے ،  آپ کے ہمراہ مولانا عبد الحی بڈھیالوی اور مولانا شاہ اسمعیل شاہ رحمہم اللہ بھی تھے یہ دونوں بزرگ علماء اپنے علمی تبحر،رشد وصلاحیت اور تقویٰ وللہٰیت اور زہد وورع، عدالت وثقاہت، شجاعت وبسالت اور ذکاوت وامانت ودیانت میں اپنے ہم عمروں اور اقران وامثال میں ممتاز تھے۔(یہ دونوں علماء حضرت سید احمد کی بیعت میں تھے)
حضرت مولانا عبد الحی اور حضرت مولانا شاہ اسمعیل شہید رحمہم اللہ کی علمی عظمت وقدرومنزلت کا اندازہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے اس خط سے ہوگا جو انہوں نے منشی خیر الدین لکھنؤ حج کے متعلق لکھا تھا۔
’’اس خط میں حضرت شاہ عبد العزیز نے مولانا عبد الحی کو شیخ الاسلام اور مولانا اسمعیل کو حجۃ الاسلام کے لقب سے یاد کیا ہے اور دونوں کو تاج المفسرین، فخر المحدثین، سرآمد علمائے محققین کا خطاب دیاہے اور لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات تفسیر وحدیث، فقہ واصول، منطق وغیرہ میں اس فقیر سے کم نہیں ،جناب باری تعالیٰ کی جو عنایت ان دونوں بزرگوں کے شامل حال ہے اس کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہوسکتا ان دونوں کو علمائے ربانی میں شمار کرو، اور جو اشکال حل نہ ہوں ان کےسامنے پیش کرو بظاہر ان کلمات سے اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امر حق کا اظہار واقفوں پر واجب ہے۔ ( سیرت سید احمد شہید 1/120۔121)
اصل خط بزبان فارسی مع ترجمہ صفحہ 201 تا 203 (سیرت سید احمد شہید مؤلفہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ، مطبوعہ 1405ھ/1985ء درج ہے )۔
مولانا عبد الحی اور مولانا اسمعیل خاندان ولی اللہ ہی کے چشم وچراغ تھے اور شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین کے بعد ہندوستان کے ممتاز ترین علماء میں ان کاشمار تھا۔ (عراقی)
جب حضرت سید احمد نے اپنے رفقاء مولانا سید عبد الحی بڈھانوی اور مولانا محمد اسمعیل دہلوی کے ہمراہ عظیم آباد پٹنہ پہنچے اور وہاں ان کا قیام کچھ دن رہا اپنے قیام کے دوران مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل صاحبان وعظ وتبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا سامعین میں مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (جو اُن دنوں اپنے ایک رفیق محمد مراد کے ساتھ وہاں مقیم تھے) ان کے وعظ سے مستفیض ہوئے۔
عظیم آباد سے کلکتہ کا سفر کیا دور کلکتہ سے بذریعہ بحری جہاز سے جدہ تشریف لے گئے، اور 28 شعبان 1237 ھ سید صاحب کا قافلہ مکہ پہنچ گیا رمضان المبارک کا مہینہ مکہ معظمہ میں گزرا قیام مکہ کے دوران آپ کے معمولات کے بارے میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ
’’روزانہ دن کو مکے کے علماء،فضلاء ومشائخ کی آپ کے پاس عصر تک نشست رہتی عصر کی اذان آپ نماز پڑھنے کو حرم شریف جاتے ، عصر سے مغرب تک آپ حرم میں تشریف رکھتے وہاں آپ کے پاس لوگوں کا مجمع رہتا افطار کے وقت طواف کرکے قیام گاہ پر واپس تشریف لاتے۔ (سیرت سید احمد شہید 1/283)
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 2 صفر 1238ھ کو مدینہ منورہ کے لئے رخت سفر باندھا مدینہ میں آپ کا قیام 25 دن رہا اس اثناء میں عبادت وریاضت وذکر الٰہی میں مصروف رہے علاوہ ازیں متبرک اور تاریخی مقامات کی زیارت کی ۔ 29 ربیع الاول کو سید صاحب مع اپنے قافلہ کے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ کرعمرہ وطواف کیا ، مکہ معظمہ کے قیام میں دوسرا ماہ مبارک(رمضان) آگیا، 15 شوال کو واپس ہندوستان آنے کی تیاری شروع ہوئی آخر آپ دو سال گیارہ ماہ بعد 29 شعبان 1239ھ بخیریت وعافیت اپنے وطن رائے بریلی پہنچ گئے۔

دعوتِ جہاد :

حرمین شریفین سے واپسی کے بعد حضرت سید احمد ہمہ تن جہاد کے سروسامان کے لیے مشغول ہوگئے جس کے لیے وہ اپنی حیاتِ گراں مایہ وقف فرما چکے تھے جیسا کہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ
’’ہم محض رضائے الٰہی کے آرزو مند ہیں ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو غیر اللہ کی طرف سے بند کر چکے ہیں اور دنیا و مافیہا سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں ۔ ہم نے محض اللہ کے لیے علم جہاد بلند کیا ہے ۔ ہم مال و منال، جاہ و جلال ، امارت و ریاست ، حکومت و سیاست کی طلب و آرزو سے آگے نکل گئے ہیں ۔ خدا کے سوا ہمارا کوئی مطلوب نہیں ۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید 1/308)
مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ
’’حرمین شریفین سے مراجعت کے بعد سید صاحب ہمہ تن جہاد کے لیے سروسامان میں مشغول ہوگئے جس کے لیے وہ اپنی حیات گراںمایہ وقف فرما چکے تھےاس دور کی مشغولیتوں کا کوئی موقع مجھے نہیں مل سکا لیکن یقین ہے کہ ان کےداعی شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ دورے کرتے رہے ان کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جو غازی ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے سرفروشانہ میدان عمل میں آئے وہ سینکڑوں مقامات کے مختلف باشندے تھے پھر سید صاحب سرحد چلے گئے، تو اس کے بعد بھی جگہ جگہ کے لوگ تیار ہوکر پہنچتے رہے روپیہ بھی فراہم ہوتارہا یہ سب کچھ وسیع ترتیبات کے بغیر کیونکر عمل میں آسکتا تھا۔ (سید احمد شہید 1/244)
مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل قافلہ حج میں شامل تھے یہ دونوں بزرگ حضرت سید صاحب کے دست وبازو تھے سفر حج کے بعد ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے اور پنجاب وسرحد کے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم وستم سے بچانے ک ےلیے جہاد کے لیے سروسامان کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔ 1241ھ میں اقامت جہاد کے لیے اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ وطن سے ہجرت کی راجپوتانہ، رواڈ،سندھ،بلوچستان،افغانستان اور صوبہ سرحد کے کھلے ریگستانوں، وسیع میدانوں،بلند پہاڑوں پُر خطر جنگلوں اور طوفانی دریاؤں کا سفر طے کیا اور ہر جگہ توحید وسنت اور عقائد صحیحہ کی اشاعت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔

سکھوں سے جنگیں :

حضرت سید احمد اور اُن کے رفقاء مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل نے سکھوں سے جنگ کرنے کا آغاز کیا پہلی لڑائی سکھوں سے اکوڑہ کے مقام پر ہوئی سکھوں کی تعداد سات سے دس ہزار تک تھی اور مجاہدین کل ڈیڑھ ہزار تھے جنگ کرنے سے پہلے سید صاحب نے اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کہ جنگ کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے آخر باہم مشورہ سے فیصلہ ہوا کہ شبخون مارا جائے ۔
شبخون کا مدعا یہ ہوتا ہےکہ اپنی قوت کو کم سے کم گزند پہنچے، دشمن کی قوت پر اچانک قوی ضرب لگا کر اسے ہراس زدہ بنا دیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی کر لیا جائے کہ منظم جنگ کے لیے اس میں کتنی صلاحیت موجود ہے۔
سید صاحب کا یہ فیصلہ شبخون انہیں مقاصد پر مبنی تھا۔
چنانچہ مجاہدین اسلام نے شبخون مارا کئی مجاہدین شہادت سے سرفراز ہوئے اور سکھوں کا کافی نقصان ہوا ایک ہزار کے قریب سکھ واصل جہنم ہوئے، مجروحین کی تعداد مقتولوں سے زیادہ تھی۔
مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’اکوڑے کا حملہ محض سبخون تھا مگر بعض غازی جوش شجاعت میں شبخون کی حدود سے تجاوز نہ کرتے تو یقین ہے کہ ان کا نقصان بہت کم ہوتا ، سکھوں کے نقصان کی بہت ر وایات مختلف تھیں، ابتداء میں یہ افواہ تھی کہ کم وبیش ایک ہزار مارے گئے سید صاحب نے اپنے مکتوب میں یہی تعداد درج کی پھر امیر خان خٹک نے اکوڑے جاکر پوری تحقیقات کی اور بتایا کہ مقتولین کی تعداد سات سو سے کم نہ ہوگی مجروحین اس سے کہیں زیادہ تھے۔ ( سید احمد شہید 1/362۔363)
اس جنگ کا اثر مسلمانوں اور مخالفین پر خاطر خواہ ہوا مسلمانوں کے دل بڑھ گئے اور حوصلے بلند ہوئے سکھوں سے دوسری جنگ ’’شیدو‘‘ کے مقام پر ہوئی یہ شیدو صوبہ سرحد کا مشہور قصبہ ہےاور اکوڑے سے چار میل جنوب میں ہے اس جنگ سے پہلے سرداران پشاور(خاری خان، اشرف خان، فتح خان، سعادت خان ، سردار یار محمد خان اور سلطان محمد خان) نے سید صاحب کی بیعت امامت کر چکے تھے سکھوں کی طرف سے جب لڑائی کا آغاز ہوا اور اُن کی توپوں کے گولے اسلامی لشکر پر برسنے لگے تو سردار سلطان محمد خان، پیر محمد خان، فتح محمد خان پنجتاری اور دوسرے مجاہدوں نے جو گھوڑوں پر سوار تھے باگیں اُٹھائیں اور بجلی کی سرعت سے سکھوں کے مورچوں پر حملہ آور ہوئے اس جنگ میں مجاہدین اسلام کا پلہ بھاری تھا اور سکھ فوج کا کافی نقصان ہو رہا تھا لیکن چند منافقین نے غداری کرکے جنگ کا پانسہ بدل دیا جیسا کہ سید صاحب اپنے ایک مکتوب میں ذکر کرتے ہیں کہ
’’مجاہدین اخیار ایک سے زیادہ مرتبہ سکھوں پر مظفر ومنصور ہوئے لیکن چند منافقوں کی مداخلت کے باعث انہیں گزند پہنچا… الحمد للہ ! کہ مومنوں کی ہمت عالیہ میں قصور وفتورکو راہ نہ ملی ۔ ( سید احمد شہید 1/396)
اس جنگ میں دو سرداروں یار محمد خان اور سلطان محمد خان ( جو دونوں سگے بھائی تھے) سید صاحب سے غداری کی اور مجاہدین اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ، سید صاحب کو زہر دیا گیا جس کے سبب آپ جانبر نہ ہو سکے لیکن شدید علیل ہوگئے سید صاحب کی زہر خورانی کا واقعہ ’’عمدۃ التاریخ‘‘ میں مرقوم ہے :
’’ اٹک پار کے لوگوں کا بیان ہے کہ جب جنگ کی آگ بھڑکی تو یار محمد خان نے رنجیت سنگھ کے ساتھ ربط واتحاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے سید صاحب کو زہر دے دیا اور بھاگ نکلنے کی ٹھان لی اس کا لشکر بھی ساتھ ہی فرار ہوگیا۔
جنگ شیدو میں اسلامی افواج کی فتح یقینی تھی کیونکہ اسلامی افواج کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ مجاہدین اسلام جذبۂ شہادت سے سرشار تھے لیکن سردار یار محمد خان کے طرز عمل سے جنگ کا پانسہ بدل گیا۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
جنگ شید و کے موقع پر اسلامی افواج کی اتنی بڑی جمعیت فراہم ہوگئی تھی کہ جو نہ صرف سردار بدھ سنگھ کی فوج کو شکست دینے کے لیے بلکہ پورے صوبہ سرحد کو سکھوں سے آزاد کرانے کے لیے بھی کافی تھی۔ مسلمان تقریباً ایک لاکھ تھے جن میں اسلامی ہند کا جہاں نثار اور شوق شہادت میں سرشار عنصر بھی تھا جو کئی ہزار میل کا ہفت خواں سرکرکے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے آیا تھا ان میں یوسف زئی سرداروں کی فوج بھی تھی جو ستر اسی ہزار افراد پر مشتمل تھی اور ان اسب کے علاوہ سرداران پشاور کی کار آزمودہ فوج بھی تھی اگر سرداران پشاور اس موقع پر اخلاص اور تعاون سے کام لیتے اور کچھ بھی ثابت قدمی اور استقامت دکھاتے تو نہ صرف میدان جنگ کا بلکہ ہندوستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا لیکن عین اُس وقت جبکہ معرکہ کارزار گرم تھا اور سکھ فوجیں پسپار ہورہی تھیں انہوں نے میدان جنگ سے علیحدگی اختیار کی اور نہ صرف خود میدان سے فرار اختیار کیا بلکہ سید صاحب کے ساتھ (جو جماعت مسلمین کے امام اور عساکر اسلامیہ کے قائد عام اور اس پورے سلسلے کے روح رواں تھے) ایسا معاملہ کیا کہ نہ صرف اس معرکے میں تزلزل وانتشار پیدا ہوا بلکہ قریب تھا کہ پورا سلسلہ دعوت وجہاد جو صدیوں کے بعد اپنی صحیح شکل میں ہندوستان میں پیدا ہوا تھا درہم برہم ہوجائے۔
یار محمد خان کا کردار :
یار محمدخان نے ایسا کیوں کیا اس کے اسباب ومحرکات کیا تھے اس قدر جلد اس کی طبیعت میں برتشگی کیوں پیدا ہوئی ، اس کے حالات ومزاج سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کو ابتداء سے سید صاحب اور اُن کے مقاصد سے خلوص نہ تھا ، سید صاحب تو یار محمد خان کے لیے محض اجنبی اورپردیسی تھے اور اُن کی رفاقت کے لیے سوائے خلوص اور دینی جذبے کے کوئی اور محرک نہ تھا، اس کا یار محمد خان کے یہاں فقدان تھا اس نے اپنے ذاتی اقتدار اور مصلحتوں کے مقابلے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی وفاداری اور رفاقت کا معاملہ نہ کیا اور ہمیشہ لاہور کی حکومت سے اظہار وفاداری اور اپنی کاربرادی کرتا رہا۔
اس نے اپنے سیاسی وملکی مصالح کی بنا پر سید صاحب کی رفاقت کا فیصلہ کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ شیدو کی جنگ سے پہلے سردار بدھ سنگھ نے اس کو بلا لیا، اور یہ منصوبہ تیار ہوگیا کہ وہ عین معرکے میں میدانِ جنگ سے اپنی فوجوں کو لے کر علیحدہ ہوجائے گا سردار بدھ سنگھ کے لیے ایک مذذب، موقع پرست، دنیا دار رئیس کو دنیوی منافع کا لالچ دے کر اور اس جنگ کے عواقب سے ڈرا کر توڑ لینا کچھ مشکل نہ تھا، زہر خورانی کا واقعہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے شیدو اور اس کے گردونواح میں اس کی عام شہرت ہے۔ (سیرت سید احمد شہید 2/10۔11)
آخری معرکہ … جنگ بالاکوٹ..
سچوں سے 5 ذی قعدہ 1246ھ سید صاحب نے مع لشکربالاکوٹ کے لیے سفر شروع کیا مولانا محمد اسمعیل دہلوی بھی ہمراہ تھے لیکن کچھ علیل تھے جب چلتے چلتے تھک جاتے تو آرام کے لیے بیٹھ جاتے اور وعظ فرمانے لگتے جب کچھ آرام ہوجاتا طبیعت سنبھل جاتی تو سفر کرنا شروع کردیتے یہاں خدا بخش رام پور ی جو مولانا اسمعیل دہلوی کے شریک سفر تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جگہ مولانا اسمعیل نے پڑاؤ کیا تو لشکر کے سامنے تقریر کی اور فرمایا کہ
بھائیو! اس بات کا خیال کرو کہ اگر ہم کسی امیر یا رئیس کے نوکر چاکر ہوتے اور وہ ایسے سخت راستے میں اپنے کسی کام کو بھیجتا تو بلا عذر جانا پڑتا اور راستے کی یہ ساری تکلیف اُٹھانی پڑتی وہ نوکری بھی صرف دنیا کے گزران کے واسطے ہوتی آج الحمد للہ کسی کے نہ نوکر ہیں نہ چاکر صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی ورضا مندی کے لیے یہاں آئے ہیں اور یخ محنتیں اور مشقتیں اُٹھاتے ہیں اگر ہماری نیتیں خالص ہیں تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے بڑے بڑے درجے دے گا ۔ (سیرت سید احمد شہید ، ص:407)
17 یا 18 رمضان سید احمد سچوں پہنچے وہاں سے آپ نے بالا کوٹ جانے کا پروگرام بنایا۔
بالا کوٹ وادی کاغان کے جنوبی دہانے پر واقع ہے ، بالا کوٹ کے مشرق میں کالو خان کا بلند ٹیلہ واقع ہے ، جس کی چوٹی پہ کالو خان نام کا گاؤں ہے ، مغرب میں مٹی کوٹ کا ٹیلہ ہے ، جو بہت بلند ہے ٹیلے کے شمالی حصے میں چوٹی پر مٹی کوٹ گاؤں ہے جس کے بارے میں مثل مشہور تھی کہ
جس کا مٹی کوٹ اس کا بالا کوٹ
جب سید صاحب کے بالا کوٹ میں داخلے کی اطلاع مولانا محمد اسمعیل صاحب کو پہنچی تو آپ لوگوں کو لے کر استقبال کے لیے آئے ۔ سید صاحب مولانا اسمعیل اور اُن کے ہمراہ آئے ہوئے لوگوں سے بڑی محبت اور گرم جوشی سے ملے اور آپ شہر میں داخل ہوئے سردار شیر سنگھ بالا کوٹ سے دوڈھائی کوس دور اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا آخر سید صاحب نے سکھ فوج سے جنگ کا آغاز کیا بڑے معرکہ کی جنگ ہوئی دونوں طرف کشتیوںکے پشتے لگ گئے۔
حضرت سید احمد نے مع اپنے رفیق خاص مولانا محمد اسمعیل دہلوی کے ہمراہ 24 ذی قعدہ 1246ھ مطابق 5 مئی 1831ء کو میدان جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
سید احمد شہید رحمہ اللہ کی شخصیت :
سید احمد شہید بہت بڑے روحانی پیشوا اور شریں بیان مقرر تھے ہزاروں لوگ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے وہ بدستور زندگی کے آخری مرحلے تک جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف رہے ، ان کی زبان برابر دین حق کی سربلندی کے لیے متحرک رہی ، اُنہوں نے لاکھوں گمراہوں کو شریعت محمدی کا پابند بنایااور ان کے سینوں میں عشق حق کے چراغ روشن کیے ، وہ ہر مسلمان کے سینے میں دین حق کے لیے ایثار وقربانی کی روح پیدا کرنا چاہتے تھے اور ہر کلمہ گو کو حقیقی معنوں میں مجاہد فی سبیل اللہ بنا دینے کے آرزو مند تھے۔
رفقاء اور دین حق کے راستے میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ آپ کا معاملہ اس کلمہ الٰہی کی تعمیل اور اس آیت کی تفسیر تھی
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
’’اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کہ تیری تابعداری کرے۔‘‘(الشعراء:215)
شرعی معاملات میں انتہائی غیور اور حسّاس تھے ، ان کی ساری جدوجہد کا محرک اور سبب اصلی یعنی اسلامی حمیّت وغیرت تھی اور ان کی زندگی سب سے بڑا جوہر اور امتیاز اتباع سنت نبوی ﷺ تھا۔
حضرت سید احمد شہید اپنے بارے میں فرماتے ہیں :
میں نے مدت العمر آنے جانے، لینے دینے، اُٹھنے بیٹھنے، حرکت وسکون، غصہ وبردباری، قہر ومہر کھانے پینے اور سوار ہونے کا کوئی کام نہیں کیا جس میں رضائے الٰہی کی نیت نہ ہو اور کوئی کام میں نے نفس کے تقاضے اور خواہش سے نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سید احمد شہید کو جن کمالات اور جن کرامات سے شرف بخشا تھا ان کو حافظے میں محفوظ رکھنے کی مقدرت ہم میں سے کسی کو حاصل نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے