سیدہ ام المؤمنین ام عبد اللہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’انصار عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔‘‘
علم سیکھنے کے معاملے میں سستی اور حیاء سے کام لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ علم سیکھنا دنیا کا عظیم کا م ہے، آج کل کی عورتیں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے تو گھروں سے نکل سکتی ہیں اور اس میں کوئی حیاء محسوس نہیں کرتیں لیکن جہاں دین کی راہ میں نکلنے کی بات ہو یا دینی تعلیم حاصل کرنا ہوتو وہاں شرم وحیاء کو عار بنالیتی ہیں اگر کوئی ذاتی اور حساس نوعیت کا مسئلہ درپیش ہو تو وہاں کسی معتبر ومتقی عالم دین سے رجوع نہیں کرتیں صرف اور صرف حیاء کی وجہ سے لیکن صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا رویہ علم سیکھنے یا جاننے کے معاملے میں قطعاً شرعی نہیں ہے۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الحَقِّ، هَلْ عَلَى المَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ المَاءَ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: أَتَحْتَلِمُ المَرْأَةُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَبِمَ شَبَهُ الوَلَدِ (رواه البخاري كتاب الأدب، باب التبسم والضحك رقم الحديث:6091)

’’سیدہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا(اس لیے پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جی ہاں جب عورت پانی دیکھ لے تو (یہ سن کر) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا (شرم کی وجہ سے ) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا’’ یا رسول اللہﷺ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہاں‘‘، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کی مشابہ ہوتاہے(یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اچھے کام کے لیے یا علم کے حصول میں شرم وحیاء کا دخل ہرگز نہیں ہونا چاہیے اگر ام سلیم حیاء کو درمیان رکھتے ہوئے آپ ﷺ سے ایسا سوال نہ کرتیں تو امت کو اس معاملے میں راہنمائی کیونکر ممکن ہو سکتی تھی۔ انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہ لیتی تھیں ، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے ، ام سلیم کے اس طرح کے سوال سے علم کی منتقلی ممکن ہوئی ہے اور آج کل کی عورتوں کے لیے آسانی پیدا ہوئی ہے۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اس مذکورہ حدیث میںسب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے ۔ ’’فاستحیا‘‘(شرمانا)اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے یہ صفات مماثلہ ہیں کہ بندہ جیسا عمل کرتاہے اللہ ویسی ہی جزا دیتا ہے یعنی اللہ ایسے بندے کو عذاب دینے سے شرماتا ہے جو اللہ سے دینی شرم محسوس کرے کہ بندہ اللہ کی شرم دل میں قائم کرے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو اس خاص صفت کے اظہار کے بعد ام سلیم نے اپنا مسئلہ آپ ﷺ کے سامنے رکھا۔
اس مذکورہ حدیث سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس قسم کے حساس اور شرم وحیاء سے تعلق رکھنے والے معاملات کے متعلق سوالات کے لیے عورت خاص پردہ کا اہتمام کرکے از خود یا بالواسطہ اپنا مسئلہ کسی عالم
دین سے دریافت کر سکتی ہے اور عالم دین بھی ایسے
معاملات میں کسی شرم وعار سے کام نہ لیں بلکہ لوگوں کے سامنے ایسے معاملات کو واضح کریں اور درست سمت میں قرآن وسنت کے مطابق راہنمائی فرمائیں تاکہ لوگ صرف حیاء کو رکاوٹ بناتے ہوئے خود کو جاہل نہ رکھیں بلکہ علم سے مستفید ہوں۔
دین کے معاملے میں عار دلانا یا مذاق اڑانا جائز نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی وجہ سے انصار عورتوں کی تعریف فرمائی کہ وہ علم سیکھنے میں حیاء نہیں کرتی تھیں ایسے معاملات میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے تاکہ وہ قرآن وسنت کے مطابق صحیح راہنمائی حاصل کر سکیں۔ دین اسلام حق بیان کرنے میں کوئی شرم نہیں کرتا۔ آپ ﷺ کے پاس عورتیں مسائل لے کر آتیں اور سوال کرتیں تھیں تو آپ ﷺ ان کے سوالات کے جواب دیتے تھے۔ پوری امت پر رسول اللہ ﷺ کا احسان ہے کہ آپ ﷺ نے ذاتی زندگی سے متعلق وہ باتیں بھی کھول کھول کر بیان فرمائیں جنہیں عام طور پر لوگ شرم وحیاء کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیات نے آپ ﷺ سے ہر اس معاملے میں راہنمائی طلب کی جن معاملات کا علم ہونا ہر عورت کی ضرورت ہے۔ ان ہی احادیث مبارکہ سے ہم آج مستفید ہورہے ہیں اگر یہ عورتیں حیاء کو رکاوٹ بناتیں اور آپ ﷺ سے سوال کرنے سے کتراتیں تو آج ہمیں ان تمام معاملات میں جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں راہنمائی نہ مل پاتی۔

شروم حیاء کے متعلق صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ البَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ (صحیح بخاری کتاب العلم باب الحیاء فی العلم الحدیث:131)

|’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے، مجھے بتلاؤ وہ کیا درخت ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑگئے اور میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور ہے ، عبد اللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آگئی(اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہی اس کے بارے میں بتلائیے آپ ﷺ نے فرمایا ’’وہ کھجور ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت ان کو حاصل ہوجاتی ، ایسے موقع پر کہ جب آپ کو جواب معلوم ہو شرم سے کام لینا نہیں چاہیے۔ علم کے حصول میں یا علم کو دوسروں تک منتقل کرنے میں حیاء کو رکاوٹ بنانا کیسے صحیح ہوسکتاہے جبکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حیاء معاملات کو نکھارتی ہے اور اس میں سراسر خیر ہی خیر ہے علم حاصل کرنے سے انسان میں نکھار پیدا ہوتاہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حیاء کو رکاوٹ بنالیں اور علم سے دور ہوجائیں البتہ بعض لوگ اپنی سستی اور غلط منطق کی بنا پر اسے نقصان دہ بنا لیتے ہیں ۔
حیاء ایک ایسی خصلت ہے کہ جو انسان کو بُرے کاموں کے چھوڑنے اور حقداروں کو ان کا حق ادا کرنے پر اُکساتی ہے یہ ضروری ہے کہ حیاء سے مراد وہ بے جا شرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرأت عمل ہی مفقود ہوجائے اور وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیاء کا بہانہ تلاش کرنے لگے یا اس کے پردے کے پیچھے چھپ کر خود کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم محسوس نہ کرتے تو ان کے علم سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے کیونکہ اس سوال کا فہم اللہ نے آپ کو دے دیا تھا۔
امام مجاہد کہتے ہیں کہ ’’ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘
متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے علم حاصل کرنے کو اپنی شان میں کمی محسوس کرتاہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بنتا ہے جہاں شرم وحیاء کا کوئی جواز نہیں۔
ہم اگر آج کل کی عورتوں پر تبصرہ کریں تو عورتیں دین کا علم تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن پھر حق کی دعوت دینے میں حیاء کرنے لگتی ہیں جبکہ حق کو دوسروں تک پہنچانے میں کیسی حیا ؟
لہٰذا حق کی دعوت دینا جیسے فریضے کو ترک کرنا صرف اور صرف حیاء کو آڑ بنا کر کسی طور پر صحیح نہیں ہے کسی کے سامنے نیکی کرنے سے شرمانا یا نیکی کی ترغیب دینے میں لوگوں کی وجہ سے حیاء کرنا اور دین کو پھیلانے کے اہم کام سے رک جانا، یہ سب فاسد اُمور ہیں اور ایسے معاملات میں حیاء کرنے سے بچنا چاہیے۔
دینی تعلیم حاصل کرنے والی عورتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حق کو بیان کرنے میں کوئی عا ریا شرم وحیاء محسوس نہ کریں بلکہ حق کو کھل کر اور بلا جھجھک دوسروں تک پہنچائیں لیکن حکمت کے دامن کو نہ چھوڑتے ہوئے ۔
عورتوں کے خاص مسائل سے متعلق سوال نہ کرنے سے نہ صرف دنیا میں نقصان ہے بلکہ آخرت میں بھی خرابی ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ہمارا عمل ان معاملات میں قرآن وسنت کے مطابق نہ ہوگا تو اس کی قبولیت کیسے ممکن ہوگی؟ چاہے معاملہ علم حاصل کرنے کا ہو یا اسے دوسروں تک پہنچانے کا اس میں بے جا شرم وحیاء کی رکاوٹ کو دور کرنا ہی عقلمندی کا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے