بَاب فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ

اس شخص کی فضیلت ( کا بیان) جو اپنے دین کے قائم رکھنے کے لئے گناہوں سے بچے

7-52- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْم حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْحَلَالُ بَيِّن وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ .

ابو نعیم، زکریا، عامرکہتے ہیں کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے،اچھی طرح جان لو کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ صحیح ہوجاتا ہے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
Narrated An-Nu\’man bin Bashir: I heard Allah\’s Apostle saying, \’Both legal and illegal things are evident but in between them there are doubtful (suspicious) things and most of the people have no knowledge about them. So whoever saves himself from these suspicious things saves his religion and his honor. And whoever indulges in these suspicious things is like a shepherd who grazes (his animals) near the Hima (private pasture) of someone else and at any moment he is liable to get in it. (O people!) Beware! Every king has a Hima and the Hima of Allah on the earth is His illegal (forbidden) things. Beware! There is a piece of flesh in the body if it becomes good (reformed) the whole body becomes good but if it gets spoilt the whole body gets spoilt and that is the heart.
معانی الکلمات :
بَيِّنٌ : ظاہر ، واضح مراد وہ چیز جسے اللہ اور رسول ﷺ نے حلال یا حرام فرمایا ہو یا جس کے حلال وحرام ہونے پر مسلمان کا اجماع ہو ۔
مُشَبَّهَاتٌ : مشکوک، مشتبہ وہ چیز جس کا حلال وحرام ہونا واضح نہ ہو ۔
اتَّقَى : اجتناب کیا، دور رہا، بچ گیا۔
اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ : بَرِیٌ سے مراد شرعی مذمت سے اپنے دین کو بچایا اور لوگوں کے طعنوں سے اپنی عزت کی حفاظت کی۔
وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ : یعنی جرأت اور دلیری سے کسی مشکوک اور مشتبہ چیز کو استعمال کر لیا۔
الْحِمَى : محفوظ ، مالک کے علاوہ غیر کے لیے ممنوع ، مراد وہ گھاس (چراگاہ) جس کو حاکم نے اپنے لیے محفوظ کیا ہو اور لوگوں کو اس میں چرانے پر عتاب کی دھمکی دی ہو۔
مَحَارِمُهُ : معاصی ، وہ جرائم جن کے ارتکاب اللہ نے روکا ہو ، خواہ وہ نفس،عزت یا مال کے بارے میں ہوں جیسے قتل ،چوری، زنا وغیرہ ۔
مُضْغَةً : گوشت کا لوتھڑا ، ٹکڑا۔
تراجم الرواۃ :
1 نا م ونسب :
الفضل بن دُکین یہ ان کا لقب تھا اصل نام الفضل بن عمرو بن حماد بن زھیر القرشی التیمی الطلحی تھا۔
کنیت: ابو نعیم الملائی الکوفی کنیت سے ہی مشہور ہوئے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : ابو نعیم رحمہ اللہ کا شمار امام البخاری ، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ اور امام یحییٰ بن معین رحمہم اللہ جمیعاً کے اساتذہ میں سے شمارہوتا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے اور امام الذہبی رحمہ اللہ کے ہاں الحافظ تھے۔
ولادت ووفات : امام ابو نعیم رحمہ اللہ کی ولادت 130 ہجری کوفہ میں اور وفات 219 ہجری کو ہوئی۔
2 نام ونسب :
زکریا بن ابی زائدہ (ابو زائدہ کا نام خالد بن میمون بن فیروز الہمدانی الوادعی تھا۔
کنیت : ابو یحییٰ الہمداني
محدثین کے ہاں رتبہ : کوفہ کے قاضی تھے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے امام ابن حجر کے ہاں صدوق اور فرماتے ہیں کہ امام الدارقطنی نے شیوخ البخاری میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب)
وفات : ابو یحییٰ رحمہ اللہ نے 149 ہجری میں وفات پائی۔
3 نام ونسب :
عامر بن شراحیل بن عبد بن ذی کباز او ذو کبار
کنیت: ابو عمرو الہمدانی ثم الشعبی الکوفی
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ مشہور فقیہ فاضل تھے۔ عامر بن شراحیل نے پانچ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات کی۔
ولادت : عامر بن شراحیل کی ولادت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عصر خلافت 20 ہجری میں ہوئی۔
وفات : 103 ہجری
4 نام ونسب :
النعمان بن بشیر بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری الخزرجی اور ان کی والدہ کا نام عمرۃ بنت رواحہ تھا والد محترم بھی صحابی تھے رضی اللہ عنہم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفہ کے گورنر مقرر ہوئے اور دمشق کے قاضی بھی رہے آخر میں حمص کے گورنر بھی مقرر ہوئے ۔
کنیت: ابو عبد اللہ المدنی
ولادت : 2 ہجری میں مدینۃ الرسول ﷺ میں پیدا ہوئے اور حمص میں 64 ہجری میں وفات پائی ۔
مرویات : سیدنا النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کی تعداد114 تھی۔
تشریح الحدیث :
قرآن مجید میں بالکل واضح الفاظ میں کچھ چیزوں کو حلال اور کچھ کو حرام قراردیاگیاہے لیکن بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کی حلت وحرمت کی وضاحت موجود نہیں اور وہ انسان کو متردد نظر آنے لگتی ہیں ایسی صورت میں نبی کریم ﷺ نے ایک بڑا جامع اصول امت کے سامنے رکھ دیا جس سے انسان اپنی عزت وآبرو اور آخرت کو محفوظ رکھنے کے قابل ہوجاتاہے وہ اصول یہ ہے کہ ’’جس چیز کے بارہ میں انسان کو حلال وحرام ہونے کا تردد ہو تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز کرے‘‘ کیونکہ خالصتاً حلال چیز کو کھانے میں قباحت نہیں اور جب آدمی شک میں مبتلا ہوگیا تو اپنے دین ا ور نفس وعزت کو بچانے کی ایک ہی صورت تھی کہ اسنان اسے ترک کردے خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بھی ایسے واقع پر اسی طرح عمل کیا جس طرح امت کو متشبہ اور مشکوک چیز سے اجتناب کا حکم دیا۔
حدیث میں ہے کہ ایک رات نبی کریم ﷺ کو سخت بھوک لگی آپ ﷺ گھر میں کھانے کی شے ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک کھجور پڑی ہوئی ملی آپ ﷺ نے اسے تناول کرنے کے لیے اٹھالیا لیکن فوراً ہی پھینک دیا اور فرمایا

إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، فَأُلْقِيهَا

’’ میں اپنے گھر جاکر کھانے کی چیز ڈھونڈتا ہوں کہ مجھے ایک کھجور پڑی ہوئی ملی میں نے اسے اٹھا کر کھانا چاہا لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں یہ کھجور صدقے کی نہ ہو اسے پھینک دیا۔ ‘‘
صدقہ چونکہ رسول معظم ﷺ کی ذات پر حرام تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کھجور کو مشتبہ جان کر چھوڑ دیا حالانکہ امکان تھا کہ کھجور ہدیہ کی ہو جو آپ ﷺ کے لیے عین جائز اور حلال تھا۔
حدیث میں جس چیز کی طرف اشارہ ملتا ہے وہ یہ کہ مشتبہ چیز سے پرہیز دراصل اپنے دین اور آبرو کی حفاظت کا نام ہے اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک اور کسوٹی کی طرف اشارہ کیا کہ اگر انسان رفتہ رفتہ مشکوک اور مشتبہ چیزوں کو کھانے لگ جائے اور یوں سوچے کہ چلو کیا فرق پڑتا ہے یہ تو کھانے والی شے ہی ہے اسی طرح انسان آخر کار حرام کھانے کی عادت میں پڑ جاتاہے اور پھر اس کا دل مشتبہ اشیاء سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اس بات کی توضیح کے لیے ایسے بدنیت چرواہے کی مثال دی ہے جو اپنی بکریوں کو کسی چراگاہ کے اردگرد چراتا ہے اور قوی امکان یہی ہے کہ بکریاں اس کی آنکھ کو غافل پاکر چراگاہ میں داخل ہوجائیں گی اور وہاں سے کچھ نہ کچھ کھالیں گی یا یوں سمجھیے کہ ہمارے دیہات کے چرواہوں کی مانند اگر مالک کھیت میں موجود نہ ہو تو چرواہا خود چاہے گا کہ اس کی بکریاں کھیت سے کچھ تناول کرلیں۔
یہ مقولہ بالکل صحیح ثابت ہوتا کہ چھوٹے چھوٹے گناہ بڑے گناہوں کی طرف ترغیب دیتے ہیں اسی طرح اگر انسان دل کے لوتھڑے کو شکوک وشبہات سے پاک نہ رکھے تو آخر کار یہ اس کے تمام اعمال کی تباہی وبربادی کا باعث بن جاتاہے۔
عصر حاضر میں اس بات کو سمجھنا بالکل آسان ہے ،فطری اعتبار سے بھی کہ دل اعضاء رئیسہ میں سے ایک ہے اور اس کاکام سارے بدن کو صاف اور پاکیزہ خون مہیا کرنا ہے اور خون کو جسم وجان کے ہر رگ وریشے میں پمپ کرکے پہچانا ہوتا ہے جہاں کسی انسان کو دل کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے توسارا جسم اپنے اعمال کے اعتبار سے تباہ وبرباد ہوجاتاہے نہ آنکھ میں حیا باقی رہتی ہے اور نہ ہاتھوں اور پاؤں پر کنٹرول رہتاہے اگر انسان کا دل کینہ،بغض اور حسد جیسی بیماریوںسے متاثر ہو جائے تو باقی تمام اعضاء اسی دل کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں اور اس کے برعکس اگر دل محبت، اُلفت، رحمت کا منبع بن جائے تو انسان ایثار وقربانی اور الفت کا پیکر بن جاتاہے۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جب تک انسان کا دل سلامت رہتا ہےتو اس وقت تک اس کا ایمان بھی سلامت رہتاہے‘‘ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا
’’اے اللہ میں تجھ سے قلب سلیم کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘
اور قلب سلیم کا مطلب اس حدیث سے سمجھا جاسکتاہے۔
’’قلب سلیم دراصل وہ ہے جو ہر قسم کی آفات اور ناپسندیدہ باتوں سے محفوظ ومامون ہو۔ قلب سلیم دراصل وہ ہے جس میں اللہ کی خشیت کے علاوہ کچھ نہ ہو اور ایسی خشیت نہ ہو جو اسے اللہ سے دور کر دے۔‘‘
اے اللہ ہم سب کو قلب سلیم عطا فرما ۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے