راقم کو سن یاد نہیں رہتا تاہم میرے یقین کے مطابق
1996ء/1997ء کی بات ہے کہ مجھے اپنے ایک قریبی عزیز کی بیٹی کے نکاح کی تقریب میں اسلام آباد جانا پڑا۔ نکاح کی تقریب ایک میرج ہال میں ہوئی اور وقت تین بجے دوپہر تھا راقم اپنے دیگر عزیزان کے ساتھ میرج ہال پہنچا کچھ مہمان تشریف لے آئے تھے اور کچھ آرہے تھے تھوری دیر بعد ایک بزرگ تشریف لائے۔ صاف ستھرا لباس واسکٹ پہنے ہوئے سر پر جناح کیپ خوبصورت داڑھی ، آنکھوں پر نظر کی عینک لگائے ہوئے پہلی لائن میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ راقم نے اندازہ لگایا کہ کوئی عالم دین ہوں گے۔ وقت مقررہ پر لڑکے والے چند مہمانوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئےدولہا اور اس کے ساتھ تین آدمی اسٹیج پر بیٹھ گئے نکاح رجسٹرار بھی تشریف لے آئے اور نکاح فارم پُر کرنے لگے تو لڑکی کے والد نے آواز دے کر کہا
مولانا اسٹیج پر تشریف لایئے
تو وہ بزرگ میرے قریب ہی کرسی پر تشریف فرما تھے اسٹیج پر تشریف لے گئے نکاح فارم مکمل ہوا تو لڑکی کے والد محترم نے مجھے آواز دی ۔
عراقی صاحب تشریف لائیں اور نکاح فارم پر بطور گواہ دستخط کریں۔
راقم اسٹیج پر پہنچا پہلے مولانا سے مصافحہ کیا اور بعد میں دوسرے لوگوں سے جو اسٹیج پر تشریف فرما تھے مولانا نے نکاح کا خطبہ ارشاد فرمایا اور ایجاب وقبول کے بعد دعائے خیر فرمائی۔
دعا کے بعد راقم سے فرمایا آپ کے مضامین الاعتصام ، اہلحدیث اور دوسرے رسائل وغیرہ میں نظر سے گزرتے ہیں ماشاء اللہ شخصیات پر خوب لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے علم اور عمر میں برکت عطافرمائے۔ مجھے عبد العزیز حنیف کہتے ہیں یہاں مرکزی مسجد اہلحدیث میں خطیب ہوں۔
راقم نے کہا آپ کا نام سُنا ہوا تھا اب آپ سے ملاقات کرکے بڑی خوشی ہوئی ہے اس کے بعد مولانا حنیف کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھایا اور کھانے کے بعد مولانا حنیف صاحب رخصت ہوگئے اور رخصت کے وقت مصافحہ کیا اور بغلگیر ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا فرمایا ا ور پھر ان کو مختلف صفات سے نوازا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات بے شمار ہیں اور ان پر تقسیم کردہ صفات بھی بے شمار ہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں صفت علم بھی تمام صفات میں سے اشرف الصفات ہے اللہ تعالیٰ نے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کو بے شمار صفات سے نوازا تھا۔
اسلام کے بعد دور اول ہی سے اللہ تعالیٰ کا امت پر یہ احسان عظیم رہا ہے کہ اس نے ہر دور میں دین اسلام کی سربلندی،حفاظت اور اشاعت کے لیے ایسے نامور علماء اور رجال پیدا کیئے جنہوں نے اپنے علم وفضل،اعلیٰ اخلاق اور مجاہدانہ کاوشوں سے اسلام کے پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھا اور مخالفت کے سخت طوفانوں میں بھی اسے سرنگوں نہ ہونے دیا انہی یگانہ روزگار شخصیات میں ایک عہد ساز شخصیت علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کی تھی جو 9 ستمبر 2016ء کو اچانک سب کو داغ مفارقت دے کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ
آخری دور میں دنیا سے علم کو اُٹھا لیا جائے گا۔
اور علم والوں کے لیے فقدان کا باعث ہوگا اور دنیا علماء سے خالی ہوجائے گی آج کے دور میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی جیسا محدث نظر نہیں آتا مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری جیسا مدرس باقی نہ رہا مولانا شمس الحق ڈیانوی جیسا شارح حدیث نظر نہیں آتا محدث پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبد المنان وزیر آبادی جیسے نامور معلم رخصت ہوگئے مولانا سید عبد اللہ غزنوی اور حضرت
الامام مولانا سید عبد الجبار غزنوی جیسے اساطین علم وفن
نظروں سے اوجھل ہوگئے امام حدیث مولانا محمد عبد الرحمن مبارک پوری جیسا فقیہ ، مجتہد، مدرس اور شارح حدیث نظر نہیں آتا شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری جیسا جید عالم دین ،مفسر، محدث،مورخ،مناظر، مفکر،مدبر،دانشور، خطیب، مبلغ ،مقرر نظرنہیں آتاہے۔
جو امت کے مسائل کو خوبی سمجھ کر اس کا بہترین حل بتا دے امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جیسا بے باک نڈر شخص باقی نہ رہا شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی، اور مولانا محمد علی جانباز جیسے مدرس،مبلغ،مصنف اور صاحب علم وفضل اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر چلے گئے۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی،مولانا عبد العزیز رحیم آبادی جیسے مجاہد، مولانا سید محمد داؤد غزنوی جیسا خطیب، مقرر اور مبلغ باقی نہ رہا ۔
مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد حنیف ندوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا عبد المجید خادم سوہدروی، مولانا محمد حسین شیخوپوری، حافظ عبد المنان نورپوری اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید جیسا بے باک نڈر مجاہد اور عربی ادب کے نامور ادیب اور عالم اسلام کے شہرہ آفاق عالم دین اس دنیائے فانی سے چلے گئے مولانا محمد اسحاق بھٹی جیسا مورخ، ادیب ، صحافی اور اسلامی تاریخ پر عبور رکھنے والا اس دنیا سے رخصت ہوگئے انہی علماء میں علامہ عبد العزیز حنیف بھی تھے جو ہم سے جدا ہوگئے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ (الرحمن : 26۔27)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
علامہ عبد العزیز حنیف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

آفتاب علم وعمل قافلہ حق کے سالار، اور آسمان عظیمت کے ستارے تھے بہت زیادہ راست گو اور صاف گو انسان تھے اگر کسی سے اختلاف رائے کرتے تو بڑی سنجیدگی اور متانت اور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرتے آپ کی گفتگو ادب واحترام پر مبنی ہوتی، جس کا مخاطب اچھا اثر لیتا اللہ تعالیٰ نے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کواختلاف رائے کا صائب سلیقہ عطا فرمایا تھا وہ حق بات کا اظہار بھی نیت اصلاح اور حق طریقے سے کرتے تھے۔
خصائل وشمائل کے اعتبار سے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ سلیم الطبع، عمدہ فہم ، قابل تعریف عادات واخلاق کے حامل تھے ان کا شمار ممتاز ومقتدر علمائے اہلحدیث میں ہوتا تھا۔ جامعیت،متانت،سنجیدگی،وقار، شرافت، عدالت،ثقاہت،فطانت، ذکاوت، شجاعت، مروّت ، ہمدردی،ایثار، خلوص، ملنساری، محبت والفت، رواداری، تقویٰ وطہارت، زہد وورع،وفا، علم اور حلم اور قربانی میں مشہور تھے۔
علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی رہے مرکزی جامع مسجد اہلحدیث اسلام آباد کے خطیب بھی تھے علاوہ ازیں رؤیت ہلال کمیٹی اسلام آباد کے صدر اور اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن بھی تھے اس وقت حنیف صاحب مرکزی جمعیۃ اہلحدیث پاکستان کے سفیر نائب امیر کے منصب پر فائز تھے آپ صرف عالم ہی نہ تھے بلکہ عالم باعمل ، مخلص،متقی، پرہیزگار عالم دین تھے۔ کسی انسان کی عظمت اور نیک نامی اس کی ذات نہیں بلکہ اس کے اوصاف و اخلاق،کردارواعمال اور علمی وعملی کمالات ہوتے ہیں جو انسانیت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ علامہ عبد العزیز حنیف اپنے اسلاف کے صحیح جانشین تھے علم وعمل کی پختگی کے ساتھ صلابت وحمیت دینی مسلکی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ مسلک حق کے دفاع کو فرض سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کا مقام علیین میں کرے۔ آمین

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے