قسط:2

دہم:جو وسائل ثابت قدمی کا ذریعہ بن سکتے ہوں ان کے قریب رہنا :
نبی اکرم ﷺ نے کچھ عناصر کے بارے میں راہنمائی دیتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ مِنَ النَّاسِ نَاسَاً مَفَاتِیْحٌ لِلْخَیْرِ مَغَالِیْقٌ لِلشَّرِ

کچھ ایسے بابرکت انسان ہو تے ہیں جوخیرو برکت کی چابی بن جاتے ہیں اور شر کے راستوں کو بند کرنے والے ہو تے ہیں ۔(سنن ابن ماجہ حدیث ۲۳۷ حسن ہے نیز السلسلۃ الصحیحۃ حدیث ۱۳۳۲)
اہلِ علم ، نیک لوگ ،دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے اور نیک سیرت اہلِ ایمان کو تلاش کریں، کیونکہ ان کے ارگرد رہنا ثابت قدمی کا بہت بڑا سہارا ہے ۔تاریخ اسلامی میں اندوہناک حادثات گزرے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اِن حالات میں بعض شخصیا ت کے ذریعے مسلمانوں کو ثابت قدم رکھا ہے ۔جناب علی بن المدینی رحمہ اللہ نے فرمایا : فتنہ ارتداد میںا للہ تعالیٰ نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے ذریعے دین کو عزت بخشی اور خلق قرآن کے فتنے میں جناب احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ذریعے عزت بخشی۔
امام ا بن القیم رحمہ اللہ نے ثابت قدم رکھنے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور کے بارے میں جو کہا ہے اس پر غور کرو ، فرمایا:جب ہمیں شدید خوف لاحق ہو جاتا اور ہمیں اپنے بارے میں برے برے خیالات ستانے لگتے اور ہمیں زمین تنگ ہوتی نظر آتی تو ہم آپ کے پاس حاضر ہو جاتے ،بس انہیں دیکھنے اور سننے کی دیر ہوتی کہ مشکلات کے سارے اثرات دل سے ختم ہو جاتے اور وسوسے شرح صدر ، قوت ،یقین واطمینان میں بدل جاتے ۔اللہ کی ذات پاک ہے جس نے اپنے بندوں کو قیامت سے پہلے ہی جنت دکھا دی ،اور اسی دارالعمل(دنیوی زندگی )میں ہی اُن کے سامنے جنت کے دروازے کھول دئیے ۔ان کے پاس جنت کی ہوا بھی آرہی ہوتی ہے اور خوشبو بھی ۔ ان لوگوں نےاس جنت کو پانے کے لئے کس قدر محنت کی اور اس کی طرف دوڑ لگائی۔(الوابل الصیب ص۹۷)
یہاں پر اسلامی بھائی چارے کی اہمیت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ ثابت قدی کے لئے کس قدر بنیادی ضرورت ہے۔ چنانچہ تمہارے نیک بھائی اور تربیت کرنے والے استاد تمہارے راستے کے سب سے بڑے مددگار ہیں۔اور یہی وہ مضبوظ پناہ گاہ ہیں جہاں جا کر تم اپنے آپ کو محفوظ بنا سکتے ہو ۔تو جو بھی ان کے پاس کتاب اللہ اورحکمت کا علم ہو گا اس کے ذریعے وہ تم کو ثابت قدم رکھیں گے۔ان کے ساتھ ساتھ رہو اور ہمیشہ ان کے ساتھ رابطے میں رہو اکیلا رہنے سے پرہیز کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اچک لے اور یاد رکھو کہ تنہا رہنے والی بکری کو ہی بھیڑیا کھاتاہے۔
گیارھواں : اللہ کی مدد پر یقین اور اس بات پر یقین کہ مستقبل اسلام کا ہے:
جب کامیابی میں دیر نظر آتی ہے تو ہمیں قدموں پر زور دینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔تاکہ قدم جم جانے کے بعد کہیں اکھڑ نہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَکَاَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَااسْتَکَانُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ وَمَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ فَآتَا ھُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

’’بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر بہت سے اللہ
والے جہاد کرچکے ہیں انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے اور اللہ صبر کرنے والوں کو ہی چاہتا ہے۔وہ یہی کہتے رہے اے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما،اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر فتح دے ۔اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘ (آلِ عمران146۔148)
جب صحابہ کرام کوتکلیفوں کی بھٹی میں ڈالا جا رہا تھا  تو نبی اکرم ﷺ نے جب انہیں ثابت قدمی کا درس دینا چاہا تو انہیں بتایا کہ اسلام کا مستقبل روشن اور تابناک ہے ۔ اور یہ بات آپ نے تکلیفوں اور پریشانیوں کے زمانے میں فرمائی ۔تو آپ ﷺ نے کیا فرمایا:

وَلَیُتِمَّنّ اللہُ ھٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرُ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ اِلیٰ حَضْرَ مَوْتَ مَا یَخَافُ اِلاَّ اللّٰہَ وَالذِّئْبَ عَلَیٰ غَنَمِہِ (صحیح البخاری بحوالہ فتح الباری 165بروایت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ )

’’اللہ تعالیٰ لازما اس کام (اسلام)کو مکمل کرکے رہے گا، حتیٰ کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک کا سفر کرے گا، اُسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا یااور نہ ہی بکریوں کے حوالے سے بھیڑیے کاڈر ہوگا۔‘‘
نوجوان نسل پر اسلام کے مستقبل پر مشتمل احادیث پیش کرنا اُن کی ثابت قدمی پر تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔
بارہواں:باطل کی حقیقت کو پہچاننا اوراس سے دھوکہ نہ کھانا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ الْبِلَادِ

’’تجھے کافروں کا شہروں میں چلناپھرنا فریب میں نہ ڈال دے۔‘‘(آلِ عمران196)
یہ بات اہلِ ایمان کے لئے خوشی اورثابت قدمی کا ذریعہ ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَائً (الرعد17)

’’اَ ب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے۔‘‘
یہ بات عقل مندوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ باطل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے۔
قرآنِ کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ باطل پرستوں کو رسواکرتا ہے ان کے مقاصد کو ننگا کر دیتا ہے اور ان کے وسائل کی کلی کھول دیتا ہے ۔فرمایا:

وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (الانعام55)

’’اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرموں کا طریقہ ظاہر ہو جائے ۔‘‘
تاکہ مسلمان کسی دھوکے میں نہ مارے جائیں۔ اوریہ بھی جان لیں کہ اسلام کو کہاں کہاں سے نقصان کا خطرہ ہے۔
کتنے ہی ایسے واقعات ہیں کہ جماعتیں یا دعوت کاکام کرنے والوں کے قدم اپنے راستے سے پھسل گئے نتیجہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکے ، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے اپنے دشمن کے بارے میں لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے سوچا ہی نہیں کہ اُن پر وار کہاں سے ہو سکتا ہے؟
تیرھواں:ثابت قدمی پر مددگار اخلاق پر کار بند رہنا۔
ان اخلاق فاضلہ میں سب سے اہم صبر کامقام ہے۔آپ  ﷺ نے فرمایا:

مَا أُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَاءً خَیْرَاً وَاَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ

’’صبر سے بہتر اور وسیع ترین کسی کو بھی کوئی خوبی عطا نہیں ہوئی ۔‘‘(صحیح البخاری الزکاۃ الاستعفاف عن المسألۃ وصحیح مسلم؍الزکاۃ؍فضل التعفف والصبر)
اور سب سے زیادہ مشکل صبر، ابتدائی تکلیف کے وقت ہوا کرتا ہے ۔اگر کسی کے پاس صبر نہ ہو تو غیر متوقع تکلیف کے ملتے ہی جھٹ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ثابت قدمی ختم ہو جاتی ہے۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے اس پر غور کرو :’’میں نے ایک بوڑھا آدمی دیکھا جو اَسی(80) سال کا ہو گا۔ اہتمام سے باجماعت نماز پڑھتا تھا، اُس کا نواسہ فوت ہو گیا تو اس نے کہا :’’دعائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ،اللہ نہیں سنتا، پھر کہا یقینا اللہ کو ہم سے دشمنی ہو گئی ہے اس نے ہمارا بچہ بھی زندہ نہیں چھوڑا ۔‘‘(الثبات عند الممات لابن الجوزی ص ۳۴ )
اللہ تعالیٰ اس نادان کی بات سے بہت بڑا اوربلند ہے۔
جب مسلمانوں کو غزوہ احد میں پریشانی لاحق ہوئی جس کی انہیں توقع نہ تھی اس لئے کہ ا للہ نے اُن سے فتح کا وعدہ کر رکھا تھا چنانچہ اللہ نے انہیں بڑا سخت سبق سکھایاجو زخمیوں اور شہداء سے عبارت تھا۔فرمایا:

أَوَلَمَّاأَصَابَتْکُمْ مُصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّیٰ ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ

’’( کیا بات ہے )کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند(دگنی)پہنچاچکے تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی ؟آپ کہہ دیجئے یہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔‘‘(آلِ عمران 165)
ان کی طرف سے کیا غلطی ہوئی تھی ؟
تم نے آپس میں اختلاف کیا نتیجتاً تم ناکام ہو گئے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ چیز دکھادی جو تمہیں محبوب تھی تو تم نے نافرمانی کی ۔
تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طلبگار تھے ۔
چودھواں:اللہ کے نیک بندے کی طرف سے اچھی بات:
جب کسی مسلمان کو مشکل آتی ہے اور اسے اس کا رب اس لئے مشکل میں ڈالتا ہے کہ اُسے گناہوں سے پاک کر دے ۔ توایسے شخص کی ثابت قدمی کا ذریعہ یہ ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ کسی نیک بندے کو لگا دیتا ہے جو اُسے سمجھاتا رہتا ہے اور اُسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔اس طرح چند نصیحتی کلمات کے ذریعے اللہ اُسے فائدہ دے دیتا ہے ۔اور اس کے قدم صحیح راستے کی طرف اٹھتے ہیں یہ کلمات ذکر الٰہی سے بھر پور ہوتے ہیں ان میں اللہ کی ملاقات ،جنت اور دوزخ کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ میرے بھائی ! امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی سیرت سے چند واقعات پیش خدمتِ ہیں آپ کو شدید ترین آزمائش سے واسطہ پڑا تاکہ آپ خالص سونا بن کر باہر نکلیں۔
آپ کو بیڑیوں میںجکڑ کر مامون کے دربار میں لایا گیا ۔ آپ کے دربار میں پہنچنے سے پہلے ہی بادشاہ مامون کی طرف سے شدید دھمکیاں آپ کو مل چکی تھیں ۔حتیٰ کہ ایک خادم نے امام احمد بن حنبل کو مخاطب ہو کر کہا :’’اے ابوعبداللہ آج مجھے حالات بہت مشکل معلوم ہو رہے ہیں آج مامون نے خود تلوار نکالی ہوئی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور وہ رسول اکرم ﷺ سے اپنے رشتے کی قسم کھا کر کہہ رہا ہے اگر آپ نے قرآن کے مخلوق ہو نے کو قبول نہ کیا تو وہ آپ کو اسی تلوار سے ضرور بضرورشہید کر دے گا ۔‘‘(البدایہ والنھایہ۱؍۳۳۲)
ایسے موقع پر دوراندیش اور ذہین و فطین لوگوں نے فائدہ اُٹھا یااور اپنے امام کے سامنے ثابت قدمی پر مشتمل کلمات رکھے:
سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی (۱۱؍۲۳۸)میں ہے کہ ابو جعفر الانباری بیان کرتے ہیں کہ:’’جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بادشاہ مامون کی طرف لے جایاگیا تو مجھے اطلاع ہو گئی تو میں نے دریائے فرات پا رکیا ، امام احمد مقام’’خان‘‘ پر تشریف فرما تھے ،میں نے آپ کو سلام کیا ۔تو آپ نے فرمایا:اے ابو جعفر تکلیف کرکے آئے ہو۔
میں نے کہا :جناب ! آج آپ امت کے راہنما ہیں اور لوگ آپ کی پیروی کر رہے ہیں، اللہ کی قسم! اگر آج آپ نے خلق ِ قرآن  کے مسئلے میں بادشاہ کی بات مان لی تو بہت سارے لوگ یہی بات مان جائیں گے اور اگر آپ نے نہ مانی تو بہت ساری مخلوق ِ خدا باز رہے گی ۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں اگر بادشاہ آپ کو قتل نہ بھی کرے تب بھی آپ کو مرنا ہی مرنا ہے ۔ موت سے تو بھاگ نہیں سکتے، اللہ سے ڈرو اور بادشاہ کی بات مت مانو۔
امام احمد رونے لگے اور فرمایا:’’ماشاء اللہ ‘‘۔پھر فرمایا: اے ابو جعفر !اپنی بات کو دہراؤ ۔تو میں نے اپنی بات دہرادی اور آپ نے فرمایا:’’ماشاء اللہ‘‘۔
امام احمد بن حنبل مامون کی طرف سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ہم مقام رحبہ تک پہنچے ،اور وہاں سے آدھی رات کو ہی چل پڑے، ایک آدمی ملا تو اس نے پوچھا : تم میں سے احمد بن حنبل کون ہے ؟بتایا گیا کہ یہ آدمی ہے ۔تو اونٹ والے سے کہا ذرا رکو۔پھر اس نے کہا:’’اے جناب ! تمہارا کیا جاتا ہے، ادھر تم قتل ہوئے ادھر جنت میں پہنچ گئے ۔‘‘پھر اس نے کہا میں تمہیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں یہ کہہ کر چل دیا ۔
امام احمد کہتے ہیں میں نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا توبتایا گیا یہ ایک عربی ہے جس کا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے ، صحراء میں رہ کر اُون وغیرہ کی تجارت کرتا ہے ۔اسے جابر بن عبد اللہ کہا جاتا ہے ۔بہت نیک آدمی ہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۱؍۲۴۱)
البدایہ والنھایۃ میں ہے کہ ایک اعرابی (صحراء نشین ) نے امام احمد بن حنبل سے کہا : (اے جناب! تم لوگوں کے راہنما ہو لہذا تم ان کا نقصان کرنے والے نہ بن جانا۔آ ج تم سب لوگوں کے سربراہ ہو جس چیز کی حکومت تم سے ہاں کروانا چاہتی ہے، خبر دار !کہ تم نے اِن کی بات مانی ۔تو تمہاری ہاں کی وجہ سے عام لوگ بھی ہاں کر دیں گے، اس طرح قیامت کے روز تم اِن سب کے بوجھ اُٹھاؤ گے ۔اور اگر واقعۃ تمہیں اللہ سے محبت ہے تو حالات پر صبر کرو ۔امر واقعہ یہ ہے ادھر تم قتل ہوئے اور اُدھر جنت میں پہنچ گئے ۔امام احمد فرماتے ہیں :اس آدمی کی گفتگو نے میرے ارادے کو مضبوط کردیا کہ جو بات حکومت مجھ سے منوانا چاہتی ہے وہ میں نہ مانو اور اپنی بات پر ڈٹا رہوں۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا :’’جب سے میں اس آزمائش میں پڑا ہوں، اس اعرابی کی گفتگو سے زیادہ قوی بات میں نے نہیں سنی ،جس نے میرے ساتھ ’’رحبۃ طوق‘‘ میں بات کی تھی ۔اس نے کہا :اے احمد ! اگر تو راہِ حق میں مارا گیا تو شہید ہو گا اور تو زندہ رہا تو عزت واحترام کے ساتھ زندہ رہے گا ۔اس کی بات نے میرے دل کو بہت مضبوط کر دیا ۔‘‘(سیر اعلام النبلاء ۱۱؍۲۴۱)
امام احمد نوجوان ساتھی(محمد بن نوح) کے بارے میں کہتے ہیں ،جس نے اس آزمائش میں بہت جوانمردی کا ثبوت دیا:’’ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اتنی چھوٹی عمر اور معمولی علم کے با وجود اللہ کے حکم پر اس طرح جم کے کھڑا ہو جائے جیسا کہ محمد بن نوح تھا ۔میں امید رکھتا ہوں کہ یقینا اس کا خاتمہ خیر پر ہوا ہو گا ۔اس نے مجھے ایک دن کہا :’’اے ابا عبد اللہ ! اللہ سے ڈرو !تیرا مرتبہ میرے جیسا نہیں ہے، لوگ تیرے پیچھے چلتے ہیں،اور لوگ گردنیں اُٹھا اٹھا کر تیری طرف دیکھتے ہیں کہ تم اس مسئلے میں کیا کہتے ہو ؟ لہذا اللہ سے ڈرو ،اور اللہ کے حکم پر ڈٹ جاؤ۔ یہ جوان مر گیا اور میں نے خود اس پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیا ۔
حتیٰ کہ جیل کے ساتھی جن کو امام احمد نماز پڑھایا کرتے تھے اور آپ ان کے ساتھ قید میں تھے انہوں نے بھی آپ کو ثابت قدم رہنے میں بڑا کردار ادا کیا ۔ ایک دفعہ امام احمد نے جیل میں کہا ؛’’مجھے قید کی کوئی پرواہ نہیں میرا گھر اور یہ جیل ایک جیسا ہے اور نہ ہی مجھے تلوار کے ذریعے قتل ہونے سے ڈر لگتا ہے ۔بس مجھے کوڑوں کا خوف ہے ۔‘‘آپ کی یہ بات ایک قیدی نے سن لی تو اس نے کہا :’’اے ابو عبد اللہ ! تمہیں زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بس دو ہی کوڑوں کی تکلیف ہوا کرتی ہے پھر تمہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ کہاں لگ رہے ہیں ۔ گویا کہ آپ کو اس بات سے خوشی ہوئی ۔(سیر اعلا م النبلاء ۱۱؍۲۴۰)
اے میرے پیارے بھائی !نیک لوگو ںسے اچھی بات سننے کی کوشش کیا کرو ۔اور اگر کوئی بتا دے تو اسے اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو
٭سفر پر جانے سے پہلے نصیحت لے لو جب تمہیں کسی مشکل کا اندیشہ ہو ۔
٭مشکل پیش آنے کے بعد یا کسی متوقع مشکل کی صورت میں ۔
٭جب تمہیں کسی منصب پر فائز کردیا جائے یا بہت سارا مال مل جائے تو نصیحت لے لو اور ثابت قدم رہو ۔اور دوسروں کو بھی ثابت قدم رہنے میں مدد کرو ۔اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا کار ساز ہے ۔
پندرھواں:جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب پر غور کرتے رہو اور قبر کو یاد رکھو ۔جنت خوشیوںکا مرکز ہے ، غموں کا مرہم ہے اور اہلِ ایمان کا آخری پڑاؤ ہے۔ نفس کی تخلیق ہی اس بات پر ہوئی ہے کہ قربانی ، عمل کی مشقت اور ثابت قدمی تبھی ہو سکتی ہے جب اس کا ایسا فائدہ نظر آئے جس کے بل بوتے پر مشکلات برداشت کرنی آسان ہو جائیں اور پریشانیوں بھرا راستہ آسان اور نرم ہو جائے ۔چنانچہ جس شخص کو اجر کا علم ہوتا ہے اُس کے لئے مشکلات برداشت کر نی ا ٓسان ہو جاتی ہیں ۔ اور وہ اپنی راہ چل رہا ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر اس نے ثابت قدمی نہ دکھائی تو وہ اس جنت سے محروم ہو جائے گا جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نفس کو ضرورت رہتی ہے جو اسے اس زمین سے اُٹھا کر عالم بالا کی بلندیوں تک پہنچا دے ۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو ثابت قدم رکھنے کے لئے جنت کا تذکرہ اکثر کیا کرتے تھے چنانچہ ایک حسن و صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کاگزر سیدنا عمار ، یاسراور ا م عمار رضی اللہ عنھم پر سے ہوا اور انہیں شدید تکلیف پہنچائی جا رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

صَبْرَاً آلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃَ

اے خاندانِ یاسر ! صبر سے کام لو تمہارے ساتھ جنت کا وعدہ ہے ۔‘‘ (المستدرک للحاکم۳؍۳۸۳ نیز فقہ السیرۃ بتحقیق الالبانی ص۱۰۳)
اسی طرح آپ انصار صحابہ سے کہا کرتے تھے:

اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ اَثَرَۃً فَاصْبِرُوْا حَتَّیٰ تَلْقَوْنِیْ عَلَیٰ الْحَوْضِ (صحیح البخاری وصحیح مسلم)

’’میرے بعد تم لوگ بے انصافی پاؤ گے چنانچہ صبر کرو حتی کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملو۔‘‘
اسی طرح جو آدمی قبر ،حشر ،حساب،میزان ،پل صراط اور آخرت کے سارے مراحل میں نیک وبدکے انجام پر غور  کرے گااس کے لئے دین پرثابت قدم رہنا آسان ہو جائے گا نیز کثرت کے ساتھ موت کو یاد کرنا مسلمان کو غلط کاموں میں گرنے سے بچاتا ہے ۔اور اُسے اللہ کی مقررکردہ حدود پر روک کررکھتا ہے ۔پھر وہ انہیں پار نہیں کرتا ۔اس لئے کہ جب اُسے معلوم ہو کہ موت جوتے کے تسموں سے بھی زیادہ قریب ہے اور یہ موقع چند لمحوں بعد بھی آسکتا ہے، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا دل گناہوں میں گرنے کے بارے میں سوچے بھی ۔یا وہ صحیح راہ سے دور بھٹک جائے، اسی لئے تو آپ  ﷺ نے فرمایاتھا :

اَکْثِرُوْا مِنْ ذِکْرِ ھَادِمِ اللَّذَّاتِ

(سنن الترمذی ۲؍۵۰امام الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ملاحظہ ہو ارواء الغلیل۳؍۱۴۵)
لذتوں کو توڑ پھوڑ کر دینے والی کا کثرت سے تذکرہ کیا کرو(موت کا)۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے