فرمان الٰہی ہے :

هُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ (الانفال:62)

’’ اللہ نے اپنی مدد سے تیری تائید کی۔‘‘
علامہ سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ وہی ہے جس نے آسمانی مدد کے ذریعے آپ کی اعانت فرمائی اور یہ اس کی طرف سے ایسی مدد ہے جس کا کوی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ‘‘ ( تفسیر سعدی 1/1002)
دوسرا فرمان الٰہی :

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا(الاحزاب:45)

’’اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔‘‘
وَدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا
’’اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ ‘‘۔(الاحزاب:46)

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا (الاحزاب:47)

’’آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔‘‘
ان آیات مقدسہ میں آپ ﷺ کی پانچ اہم صفات کا ذکر فرمایا :
1 شاہد         2 مبشر       3 نذیر
4داعی الی اللہ     5 سراج منیر
شاہد :
اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو صفت شاہد سے مخاطب فرمایا ہے :
’’بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کی تحریفمعنوی ہے۔ نبی کریمﷺاپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ ﷺ قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ ﷺ دیگر انبیاء علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔‘‘(احسن البیان ص 118)
مبشر ونذیر :
مبشراً ونذیراً کے بارے میں علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’تمام قرآن پر نظر ڈال لیجیے کہ کسی نبی کی نسبت علیہم وعلی نبینا الصلوٰۃ والسلام بشیر ونذیر ، دونوں لفظ وارد نہیں ہوئے نبی اکرمﷺ کی شان میں مبشر ومنذر کے لفظ بھی ہیں اور بشیراً ونذیراً بھی اور چونکہ یہ فضیلت جامعیت نبی کریم ﷺ ہی کی ذات مبارک میں پائی گئی ہے اس لیے یہ اوصفات رسول اکرمﷺ کے علو مرتبت کا اظہار کرنے میں خاص ہیں۔(رحمۃ للعالمین 6/307)
داعی الی اللہ :
آپ ﷺ امت کو اللہ تعالیٰ کےوجود اور توحید واطاعت کی طرف دعوت دینے والے ہیں ۔ داعیاً الی اللہ کو بِاِذْنِهٖ کے ساتھ مشروط فرمایا کہ آپ ﷺ کو اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور بلانے والے اللہ ہی کے اذن واجازت سے ہیں۔
دعوت الی اللہ تو ہر مبلغ دیتاہے اور دے سکتاہے مگر وہ اللہ کی طرف سے اس کام پر مامور نہیں ہوتا اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن سے دعوت دینے کو اُٹھتا ہے اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے رب العالمین کی فرمانروائی کا رموز ہوتا ہے۔
علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ ’’دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ کے تحت اپنی بے نظیر کتاب ’’رحمۃللعالمین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’ نبی ﷺ نے دعوت الی اللہ کو جس سرگرمی سے شروع کیا اور جس کامیابی تک پہنچایا وہ آپ ﷺ کا حصہ ہے۔
1  اس پہاڑی کے وعظ کو دیکھو جس پر سے یا آل فہر ویا آل غالب کی آواز سے عرب کو رسول اللہﷺ نے بلایا تھا۔
2 اس خلوت کدہ کا خیال کرو، جہاں مکہ سے دور اور دامن کوہ کے سایہ میں ارقم بن ابو ارقم کے گھر کے اندر خفیہ خفیہ تعلیم دی جاتی تھی۔
3 کوہ طائف کے واقعہ کو یاد کرو جہاں رسول اکرم ﷺ کا خون جسم سے بہہ کر جوتے میں جم رہا تھا اور زبان پر دعوت الی اللہ کا وعظ جاری تھا۔
4عکاظ کے میلوں پر نظر ڈالو  جہاں نبی اکرم ﷺ  يَاأَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُواکا نعرہ لگارہے ہیں۔
5 کوہ تنعیم کے دامن تک نظر کو بڑھاؤ چالاک دشمن نے رسول معظمﷺ کو بے یارومددگار اور آرام میں دیکھ کر تلوار پر قبضہ کر لیا ۔رسول محترم ﷺ اس وقت بھی اللہ کے فرض کو فراموش نہیں کرتے۔
6 راہ ہجرت کی سیر کرو سینکڑوںمیل کا سفر درپیش ہے۔
7 آخری سانس ہے دیدہ حق بین کو آسمان کی جانب بلند کیا ہے اس پاک نام کا اعلان فرماتے ہوئے جس کی دعوت عمر بھر دیتے رہے ۔ ہم کو تاریخ بشر ایسا نمونہ دکھانے سے قاصر ہے جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دعوت الی اللہ ہی میں پورا ہوا ہو۔
اس لیے’’داعیاً الی اللہ باذنہ‘‘ کا خطاب نبی ﷺ ہی کی ذات مبارک سے خاص معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے رب العالمین نے رسول اکرمﷺ کو اس صفت سے معرف فرمایا ہے ۔ ( رحمۃ للعالمین 2/308۔310)
سراج منیر :
یہ پانچویں صفت ہے یہ ایسے الفاظ ہیں جن کا استعمال ذات پاک نبوی ﷺ کے سوا اور کسی کے لیے نہیں فرمائے گئے فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں، اسی طرح آپ ﷺکے ذریعے سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہوجائیں ۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کر کے جو کمال و سعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے۔‘‘(احسن البیان  ص 1183)
علامہ قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصورپوری رحمہ اللہ ’’سراجاً منیرا‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’ آفتاب ایک وقت میں کرہ ارض کے ایک ہی پہلو کو روشن کر سکتاہے لیکن اس سراج منیر نے وقت واحد میں جاہلیت کی ظلمت وجہالت کی تاریکی ، کفر وشرک کی سیاہی، رسوم کے اندھیرے، رواج کی گھٹا، تقلید کی تیرگی کو اپنی نورانی شعاہوں سے اُٹھا کر دلوں کو نورِ ایمان سے دماغوں کو عقائد صحیحہ کے لمحات سے آنکھوں کو کتاب مبین کے مطالعہ سے ، دھندلے تذبذب کو دلائل ساطعہ سے تاریک ظنون کو براہین مبینہ سے روشن فرمادیا۔ ( رحمۃ للعالمین 2/311)
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ آیت قرآنی (سورۃ احزاب آیات نمبر 45۔46) خطبات مدراس (خطبہ نمبر 2) میں فرماتے ہیں کہ
|’’آپ (ﷺ) عالم میں خدا کی تعلیم وہدایت کے شاہد ہیں نیکو کاروں کو فلاح وسعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں ، اُن کو جو ابھی تک بے خبر ہیں ہوشیار اور بیدار کرنے والے نذیر ہیں ۔ بھٹکنے والے مسافروں کو خدا کی طرف پکارنے والے داعی ہیں اور خود ہمہ تن نور اور چراغ ہیں یعنی آپ ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کی زندگی راستہ کی روشنی ہے جو راہ کی تاریکیوں کو کافور کر رہی ہے یوں تو ہر پیغمبر خدا کا شاہد، داعی ، مبشر اور نذیر  وغیرہ بن کر اس دنیا میں آیا ہے مگر یہ صفتیں سب کی زندگیوں میں عملاً یکساں نمایاں ہوکر ظاہر نہیں ہوئیں بہت سے انبیاء تھے جو خصوصیت سے شاہد ہوئے ، جیسے حضرت یعقوب،حضرت اسحاق،حضرت اسمعیل وغیرہ علیہم السلام بہت سے تھے جو نمایاں طور پر مبشر بنے جیسے حضرت ابراہیم، حضرت عیسیٰ علیہم السلام بہت سے تھے جن کا خاص وصفت نذیر تھا جیسے حضرت نوح، حضرت موسیٰ ، حضرت ہود، حضرت شعیب علیہم السلام بہت سے تھے جو امتیازی حیثیت سے داعی حق تھے جیسے حضرت یوسف حضرت یونس علیہم السلام لیکن وہ جو شاہد ، مبشر، نذیر، داعی، سراج منیر سب کچھ بیک وقت تھا اور جس کے مرقع حیات میں یہ ساز،نقش ونگار عملاً نمایاں تھے وہ صرف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے اور یہ اس لیے ہوا کہ آپ ﷺ دنیا کے آخری پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے جس کے بعد کوئی دوسرا نہ تھا آپ ﷺ  ایسی شریعت دے کر بھیجے گئے جو کامل تھی جس کی تکمیل کے لیے پھر کسی دوسرے کو آنا نہ تھا۔ ( خطبات مدراس ص 21۔22 مطبوعہ اعظم گڑھ 1947ء/1366ھ)
اللہ تعالیٰ نے ان پانچ صفات جلیلہ سے رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے متصف فرمایا اور ان صفات حمیدہ کا عملی مظاہرہ ہمیں آپ ﷺ کے اسوئہ حسنہ میں قدم قدم پر دکھائی دیتاہے اور آپ ﷺ کے فیضان سے 23 سال کے مختصر عرصے میں ایک مؤثر اور تحیر انگیز اسلامی انقلاب برپا ہوا جس نے عرب وعجم کو اپنی آغوش میں سمیٹا۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔‘‘(الاحزاب:21)
کامیاب ترین پیغمبر :
حسنِ یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
انسائیکلوپیڈیا برٹنیکا’’باب(قرآن) میں ہے کہ
’’ پیغمبر اسلام (ﷺ) تمام پیغمبروں اور دینی رہنماؤں میں سب سے زیادہ کامیاب رہے۔‘‘ ( مقالات سیرت ص 200 مطبوعہ لکھنؤ 1960ء)
نبوت کا فریضہ دنیا کا سب سے مشکل فریضہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس مشکل کام میں سب سے زیادہ کامیابی اپنے اس بندے کو عطا کی جس کے بظاہر کامیابی کے وسائل سب سے کم تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام عیش وعشرت کے گہوارہ میں پلے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھی لیکن رسول اکرمﷺ کے حالات برعکس تھے آپ ﷺ نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت آپ ﷺ کے والد محترم اس دنیا سے رحلت فرما چکے تھے جب جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تو فکر معاش ایسی دامن گیر ہوئی کہ ایک دن بھی اطمینان سے بیٹھنے کو نہ ملا قوم ایسی ملی جو بہت کم لکھنا پڑھنا جانتی تھی، جاہل رسومات کی دلدادہ تھی اور سراسر گمراہی وجہالت میں مبتلا تھی مگر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں وہ شاندار کامیابی حاصل کی جو آج تک اپنی مثال آپ ہے۔
کوئی نبی بھی اپنی زندگی میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکا ماسوائے محمدمصطفیٰ ﷺ کے کہ انہوں نے پوری طرح کامیابی وکامرانی حاصل کی اور یہ مژدہ جانفزا صرف رسول اکرم ﷺ کے مقدر میں تھا اور یہ چیز صرف رسول معظمﷺ کو حاصل ہوئی۔

اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ    اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا   (سورة النصر )

’’ جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔‘‘
ان آیا ت کی تفسیر میں محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’ اللہ کی مدد کا مطلب، اسلام اور مسلمانوں کا کفر اور کافروں پر غلبہ ہے، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے، جو نبی کریم ﷺ کا مولد و مسکن تھا، لیکن کافروں نے آپ ﷺکواور صحابہ کرام کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چنانچہ جب 8 ہجری میں یہ مکہ فتح ہوگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جب کہ اس سے قبل ایک ایک دو دو فرد مسلمان ہوتے تھے فتح مکہ سو لوگوں پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آپ ﷺاللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور دین اسلام دین حق ہے، جس کے بغیر اب نجات اخروی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسا ہو تو ۔یعنی یہ سمجھ لے کہ تبلیغ رسالت اور احقاق حق کا فرض، جو تیرے ذمہ تھا، پورا ہوگیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا ہے، اس لئے حمد و تسبیح الٰہی اور استفغار کا خوب اہتمام کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہئے۔(احسن البیان ص 1751)
اسلامی سلطنت کا قیام :
1 ہجری میں مدینہ منورہ کے چند محلے اسلامی مملکت کہلانے لگے اور دس(10) تک مسلمانوں کی تعداد میں سرعت کے ساتھ اضافہ ہونے لگا اور جب 11ہجری میں رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو مسلمانوں کے قبضہ میں دس لاکھ مربع میل علاقہ آچکا تھا اور اس کے بعد ابھی رسول اکرمﷺ کی وفات کو 15 سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ مسلمان ایشا،یورپ اور افریقہ کے تین براعظموں پر چھا گئے اور خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں نے اسپین میں قدم جمائے اور قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔

مسلمان ترقی کی منزل کی طرف :

عرب جیسی جاہل اور اجڈ قوم یکایک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی عرب کے لوگ جو خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزارتےتھے بھیڑیں اور بکریاں اور اونٹ چراتے تھے گمنامی کی حالت میں ریگستانوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے ایسا عالی شان اور بے نظیر پیغمبر مبعوث فرمایا جس نے ان بدوؤں کی کایا پلٹ دی جن لوگوں کو حقیر سمجھا جاتا تھا وہ دنیا کی نظر میں معزز اور ممتاز بن گئے اور یہ تبدیلی اتنی جلدی اور سرعت کے ساتھ کیسے وجود میں آئی ڈاکٹر محمد آصف قروائی مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’ اس بے مثال اور محیر العقول عروج کا سرچشمہ رسول اکرم ﷺ کی دلکش ودلنواز شخصیت تھی آپ کی حیرت انگیز شخصی کشش اور آپ کے اصولوں کی ہمہ گیر صداقت نے ہر گوشہ اور ہر طبقہ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور چاروں طرف عقیدت کے بے مثال جذبات پیدا کر دیئے تھے یہ آپ کے اعلیٰ شخصی صفات عزم کی صلابت اور پُر خلوص شفقت کا اثر تھا کہ آپ کی قوم آپ کے ابرو کی جنبش پر نثار ہونے کو ہر وقت تیار رہتی تھی۔ ( مقالات سیرت ص 204 مطبوعہ لکھنؤ 1960ء)

رسول اکرمﷺ کی شخصیت :

رسول اکرمﷺ کی ذات ہمیں ایک معیاری شخصیت کی حامل نظر آتی ہے جو دس برس کے مختصر عرصہ میں ایک نئے مذہب، ایک نئے تمدن، ایک نئے فلسفہ حیات اور ایک نئی شریعت کی بنیاد رکھ کر ایک نئی قوم پیدا کرتی ہے اور سلف پرستی، توہم پرستی ،ضد اور مخالفت کے باوجود گویا کہ اس (قوم) کی خواہش اور ارادہ کے خلاف اس کو روحانی ومادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیتی ہے ۔
پیغمبر ﷺ کی شخصیت کی جامعیت، آپ کے ارادہ کی پختگی ، آپ کی دعوت کی تاثیر، آپ کے پیغام کی صداقت، آپ کے نیت کے اخلاص، آپ کے اخلاق کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت سے افق عرب سے رفتہ رفتہ تمام تاریکیاں رفع ہوگئیں اور ایک نئی صبح کا پرچم لہرانے لگا ایک ممتدہ قومیت، ایک متحدہ حکومت اور ایک متمدہ تمدن ، ایک منضبط قانون ، ایک مکمل شریعت اور ایک ابدی مذہب کا درخشندہ دور وجود میں آگیا۔
علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) فرماتے ہیں کہ
’’ اسلام کی نگاہ میں آپ کی حیات ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے اس لیے اس نمونہ کے تمام پہلو سب کے سامنے ہونے چائیں اور وہ سب کے سامنے ہیں۔ اسی سے ثابت ہوگا کہ آپ کی زندگی کے سلسلہ کی کوئی کڑی گم نہیں ہے کوئی واقعہ زیر پردہ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ تاریخ کے صفحات میں آئینہ ہے اور یہی ایک ذریعہ کسی زندگی کے کامل معصوم اور بے گناہ یقین کرنے کا ہے نیز ایسی ہی زندگی جس کے ہر پہلو اس طرح روشن ہوں انسان کے لیے نمونہ کا کام دے سکتی ہے۔ دنیا میں بابل واسیریا،ہندوستان وچین، مصر وشام ، یونان وروم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوئے۔ اخلاق کے بڑے بڑے نظریئے قائم کئے گئے تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بنائے گئے ، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، پہننے اوڑھنے ، رہنے سہنے، سونے جاگنے، شادی بیاہ، مرنے جینے، غم ومسرت، دعوت وملاقات، مصافحہ وسلام ، غسل وطہارت، عیادت وتعزیت ، تبریک وتہنیت، دفن وکفن کے بہت سے رسوم وآداب ، شرائط اور ہدایات مرتب ہوئے اور ان سے قوموں کی تہذیب، تمدن اور معاشرت کے اصول بنائے گئے یہ اصول صدہا سال میں بنے، پھر بھی بگڑ گئے۔ صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے لیکن اسلام کا یہ تمدن چند برسوں میں بنا اور تعمیر ہوا اور 14 سو برس سے کل روئے زمین کی سینکڑوں مختلف اقوام میں یکسانی کے ساتھ قائم ہے کیونکہ اس کا ماخذ ایک ہے اور وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہے۔ اس زندگی کے آئینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیاں سجائیں اور ان کا عکس تابعین نے اُتارا اور اسی طرح وہ تمام دنیائے اسلام کا عمل اور رسم بن گئی وہ مقدس مرکزی نقطہ تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس خط کو اور بعد کی نسلوں نے اس کو دائرہ بنا دیا وہ تمدن آج گو کامل نہیں مگر اس کے نقش قدم اب بھی ہیں اور اسی پر تمام مسلمان چل رہے ہیں ایک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی تھی جو تمام صحابہ کرام کی زندگی بن گئی اور وہی کبھی دنیائے اسلام کی زندگی بن گئی تھی اور وہ کامل تصویر آج بھی ہم میں موجود ہے۔ افریقہ، ہندوستان کا کوئی قبیلہ جب آج عیسائی ہوتاہے تو اس کو مذہب گو انجیل سے لیکن تمدن وتہذیب اور عملی زندگی کا سبق یورپ کے ساختہ تمدن سے سکھایا جاتاہے لیکن وحشی سے وحشی قبیلہ جو مسلمان ہوتاہے اس کو جہاں سے مذہب ملتا ہے وہیں سے تمدن وتہذیب وشائستگی کا سبق بھی ملتاہے مسلمان ہونے کے ساتھ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی انسانی ضروریات اور حالات کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے اور یہ بولتی چالتی، جیتی جاگتی تصویر ہر مسلمان کی زندگی کی حالت اور کیفیت کا آئینہ بن جاتی ہے۔ ( خطبات مدراس ، ص 85، 86 مطبوعہ اعظم گڑھ 1947ء / 1366ھ)
دعوتِ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے :
دعوت اسلام کی بنیاد توحید پر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ نوع انسانی کی وحدت کا اعتراف ہے دنیا کی تمام قوموں میں صرف مسلمان ہی اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور بے مثالی پر مکمل عقیدہ رکھتے ہیں باقی تمام مذہبی جماعتیں وحدت کے قائل نظر نہیں آتیں کہیں تثلیث کا چرچا ہے اکثر مذاہب اپنے بانیوں کے نام سے منسوب ہوئے لیکن محمد عربی ﷺ کا دین صرف اسی نام سے مشہور ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تجویز فرمایا تھا ۔

 اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (آل عمران : 19)

بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہے ۔‘‘
یہ بھی آپ ﷺ کی فریضۂ نبوت کی کامیاب ادائیگی کی ایک روشن دلیل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے