لوگوں کے داڑھی کے بارے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی کا انکار کرتے ہیں اور اس کا مذاق آڑتے ہیں انکے کفر میں کوئی شبہ اور اندیشہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :

قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ

کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔( التوبۃ 65)
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو داڑھی کا انکا ر یا استہزاء تو نہیں کرتی بلکہ اسکو شریعت کا حکم تسلیم کرتی ہے لیکن داڑھی رکھتی نہیں ہے شریعت کی رو سے یہ لوگ کافر نہیں فاسق ہیں۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو داڑھی رکھ تو لیتے ہیں مگر سنت پیغمبری اور حکم شرعی کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنے پیروں صوفیوں لیڈروں اور کنجر مراسیوں کی تقلید کرتے ہوئے داڑھی رکھتے ہیں انہیں اسلامی شریعت سے کوئی سرو کار نہیں۔ چہرے پر ایک لکیر سی داڑھی ٹھوڑی پر (French cut)داڑھی ،خشخشی داڑھی اور کئی نام سے منصوب داڑھی سب غیر فطری اور غیر شرعی ہیں بلکہ داڑھی کااستہزاء ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا تو اس کے عموم میں داڑھی کٹانا بھی شامل ہے کیونکہ اسے منڈوانا،تراش و خراش اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے ۔ داڑھیکو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائےاسے پوراپورا رکھا جائے شیطان کی پیروی نہ کی جائےجیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا

اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔(سورۃ النساء آیت 119)
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے کہ :

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (سورۃ الروم آیت 30)
امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یعنی داڑھی کو کاٹنا مجوسیوں کا طریقہ ہے اور اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا ہے۔(حجۃ اللہ البالغۃ ص153جلد1)
دنیا بھر میں مغربی تہذیب و تمدن کے غلبہ کے نتیجے میں جو بہت سی معاشرتی ،تہذیبی،اخلاقی خرابیاںاور رسمیں عام ہوئیں اور دینی شعائر سے رو گردانی کی وبا پھیلی ان میں داڑھی کا کتروانا(منڈوانا)سب سے نمایاں بگاڑ ہے عصر حاضر میں بعض لوگ داڑھی منڈواتے ہیں یا غیر شرعی طریقہ سے پست کراتے ہیں لہذاکسی کو شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید کسی نہ کسی عالم نے اس کی اجازت دی ہو یا کچھ نہ کچھ گنجائش اس بارے میں ہو در حقیقت یہ شبہ بالکل بے بنیاد ہے کسی بھی عالم سے اس طرح داڑھی پست کرانے یا داڑھی نہ رکھنے کی کسی قسم کی اجازت نہیں ملتی ۔لوگ داڑھی کے احکام سے بالکل ناواقف ہیں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے حالانکہ داڑھی رکھنا واجب ہے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عشق رسول ﷺ کانعرہ بہت زور و شور سے لگاتے ہیں لیکن وہ لوگ حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کی صورت کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں کہ داڑھی نہیں رکھتے ۔
داڑھی منڈوانا یا ناجائز طریقے سے کٹانا یہ ایک شیطانی فعل اور گناہ ہے جو ایک لحاظ سے دوسرے گناہوں سے بد تر ہے کیونکہ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں ہمیشہ نہیں ہوتے مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت 24گھنٹے ساتھ لگا ہوا ہے داڑھی رکھنا نبی کریم ﷺ کی سنت داڑھی رکھنا نبی کریم ﷺ کی ہی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء کرام ؊ کی ایک ایسی سنت ہے کہ عمل کرنے والےکو 24 گھنٹے ثواب ملے گا جہاں تک تاریخی معلومات کا تعلق ہے داڑھی منڈوانا جو ایک شیطانی تعلیم ، خبیث عمل ہے اسکی ابتداء سیدنا لوط ؈کی قوم کےبد چلن اور اوباش لوگوں سے ہوئی ان کے مردوں کو جب داڑھیاں آجاتی تھی تو نوعمر ہی رہنے کی غرض سے وہ داڑھی منڈاوایا کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا دس خصلتیں ایسی ہیں جو قوم لوط میں تھیں جنکی وجہ سے وہ ہلاک ہوئی ان میں داڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی شامل ہیں (ابن عساکر )
نہایت افسوس ہے کہ آج کا مسلمان جن میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں داڑھی کٹواکر قوم لوط کے بد معاشوں اور اوباشوں کی اندھی تقلید اور پیروی کر رہے ہیں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنت اور جملہ صلحاء امت کا طریقہ چھوڑدیتے ہیں ۔ داڑھی منڈوانے یا کٹوانے والے کی اطاعت رسول ﷺ میں خلل ہے ایسے شخص کو توبہ کرنی چاہیے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے داڑھی پوری رکھنی چاہیے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں (بخاری 5063)
اس حدیث کا معنی ہے کہ جو شخص میرے اس طریقے سے جس پر میں ہوں اعراض کرے تو وہ مجھ سے نہیں ہے کیونکہ اس نے ایک ایساطریقہ اختیار کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے ایک مسلمان پر بحیثیت مسلمان فرض ہے کہ اللہ ﷻاور اسکے بھیجے ہوئے پیغمبرمحمد ﷺ کی ہر بات اور ہر حکم کو بلا چوں چراں دل وجا ن سے قبول کرے اور عمل کرے۔ مونچھیں کٹوانے والے اور داڑھی بڑھانے کو ان امور میں شامل کیا ہے جن کا تعلق فطرت سے ہے۔(بخاری 5889) مسلمانوں کو اپنے دینی شعار (داڑھی )کی قدر کرنا چاہیے اور اس کو شرم کے بجائے فخر سمجھنا چاہیے ورنہ مسلمانوں، کفار اور منافق کے مابین امتیاز باقی نہیں رہے گا ۔
نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی (مسلم2344)
داڑھی کی حد جیسا کہ اہل لغت نے ذکر کیا ہے چہرے ، دونوں جبڑوں اور دونوں رخساروں کے بالوں تک ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى

مونچھیں خوب کتروالیا کرو اور داڑھی کو معاف کردو (یعنی بڑھاؤ )۔(بخاری 5893)

وضو میں داڑھی کا خلال کرنےے کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے بہت سی روایات منقول ہیں اور خلال کرنے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے کہ جب داڑھی گھنی اور لمبی ہو۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ

جب رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو داڑھی مبارک کا خلال فرمایا۔(ابن ماجہ)
اسلامی بھائیوں ،دنیا والوں کی فکر چھوڑ دیں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کریں نبی کریم ﷺ کافرمان ہےاللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اطاعت صرف نیکی میں ہے (البخاری :4340)اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اےایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(سورۃ البقرہ آیت 208)
آپ نے داڑھی کے احکام پڑھ لیے ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خالص عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب عملی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے اسلام اللہ تعالی کا آخری دین ہے اس کے علاوہ کوئی دین اللہ کے ہاں منظور نہیں ہے۔کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور تعلیمات کیا ہیں ۔
اللہ تعالی کا حکم ہے ،دین اسلام میں جہاں داڑھیاں بڑھانے کا حکم ہے وہاں مونچھیں پست کرانے کا بھی حکم ہے ،نبی کریم ﷺ کی جتنی بھی احادیث ہیں ان میں مونچھیں خوب کتر وانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم آیا ہے الغرض احادیث میں کہیں بھی حلق (ریزر سے منڈانا) کرنے کاحکم نہیں آیا ،آج ہمارے بہت سے بھائی یہ کام کر رہے ہیں ۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی تحریر فرماتے ہیں مونچھ کا کتروانا اس قدر کر کہ لب کے برابر ہو جا ئے(بہشتی زیور 11حصہ 115)
مونچھیں رکھنی ہیں تو اوپرکےہونٹ کا کنارہ صاف رکھنا مسنون ہے ،مونچھوں کو اتنابڑھانا کہ یہ کنارہ چھپ جائے حرام ہے ۔دنیا داروں کی نظروں میں فیشن ایبل اور مہذب بننے کے لیے فطرت اسلام کے خلاف عمل کرنا ہے جو کہ درجہ بدرجہ ذلالت وحماقت ہے ،مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو دیکھے اور اس کے مطابق ساری زندگی بسر کرے ۔
مونچھیں بڑھانے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے جس نے اپنی مونچھوں کا نہیں تراشا وہ ہم میں سے نہیں ۔(ترمذی 2909)
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس معنی پر دلالت کرتی ہے کہ مونچھوں کا وہ حصہ جو ہونٹوں پر گرے اسے تراشنا چاہیے ۔ ساری مونچھوں کی صفائی جس طرح بعض صوفی اور شدت پسند لوگ کرتے ہیں جیسا کی امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا مسئلہ ہے اور اسی طرح میں نے ایک دوسری حدیث میں پڑھا کے حجام نے صرف آپ ﷺ کی زائد مونچھیں تراشی تھی (بدعت انسا ئیکلوپیڈیا )
جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ ﷺکی مخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ ٹھرنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔(النساء 115)
قران کریم کی یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی اور راستے کی پیروی کرنا سراسر گمراہی ہے ،جس پر یہاں جہنم کی وعید بھی سنائی گئی ہے ۔سبیل مؤمنین سے مراد صحا بہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو کا ر ہیں اور اسکی تعلیمات کا کامل نمونہ ہیں اور ان آیا ت کے نزول کے وقت ان کے سوا ء کوئی گروہ ِ مؤمنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔اسی لیے اتباع رسول ﷺ کی مخالفت اور غیر السبیل المؤمنین کی اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے اسی لیے صحابہ کرام کے راستے اور منہج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہے (تفسیر احسن البیان)
رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے :میری ساری امت جنت میں جائی گی سوائے انکے جنہوں نے انکار کیا ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!بھلا انکار کون کرے گا ؟فرمایا: کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائےگا اور جو میری نافرمانی کرے گا گویا اس نے انکار کیا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے اور آپ ﷺ کی سنتوں پر صحیح طریقے سے عمل کرنے والا بنائے ،ہم سب کو دین کی سمجھ اور خالص عمل کرنے کی توفیق عطاءفرمائے اور دآخرت میں نبی کریمﷺ کی معیت نصیب فرمائے ۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے