کتبہ :عبد الرحمن شاکر
صححہ: مفتی محمد شریف علی
سوال: کیاصفر کا مہینہ منحوس ہے؟کیا اسلام میں کسی مہینے یا دن کی نحوست ثابت ہے؟
جواب:اگر انسان اپنے ذہن میں کسی چیز کے بارے میں منفی سوچ رکھتا ہےتواس میںاس کے لیے اتنی ہی برائی اور نحوست ہوسکتی ہے کہ وہ اگر اچھی سوچ رکھے تواس کے لیے اچھائی کا دروازہ کھل سکتاہے حدیث قدسی ہے

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي(صحیح البخاری 7405)

’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں‘‘ آپ یہ جان کر حیران تو ضرور ہونگے کہ جب ہم نیند میں بھاگنے کا خواب دیکھتے ہیں توایک دم بیدار ہونے پر ہمیں اپنے جسم پر پسینہ نظرآتا ہے جیساکہحقیقی زندگی کی دوڑ میں ہوتا ہے اس میں نہ آپ کے پاؤں ہلتے ہیں نہ ہاتھ لیکن جب دماغ نے قبول کرلیا کہ آپ بھاگ رہے ہیں تو جسم نے وہی عمل کیا۔
اسی طرح کوئی بھی دن یا مہینہ نحوست والانہیں ہوتا یہ انسان کے اعمال اور سوچ کا نتیجہ ہےکہ وہ زمانے کو قصوروارٹھہراتا ہے ۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے

لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ(المسلم2246)

زمانہ کو گالی مت دو اللہ ہی زمانہ ہے(یعنی زمانہ کی تدبیر کرنے والا اللہہےکسی بھی چیز کی برائی کو اس مدبر کی برائی میں شامل کیا جاتا ہے )
رہا صفر کا مہینہ کہ جس میں کچھ لوگ شادی بیاہ ،تجارت وغیرہ نہیں کرتے اور محتاط رہتے ہیںاور اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیںتویاد رہے کہ صفر کا مہینہ بھی باقی مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ (التوبۃ 36)

بےشک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘ اللہ کے قانون میں ‘ جس دن سے اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے

مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ؟، قَالَ: ” تَقُولُ: اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ (المعجم الکبیر للطبرانی 38)

جس کو بدفالی نےکسی کام سے روکا یقیناً اس نے شرک کیا توصحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ﷺتو اس کا کفارہ کیا ہے تو فرمایا کہ وہ یہ دعا پڑھے:

اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
نہ کوئی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر متعدی ہوتی ہے اور نہ بدفالی (نحوست)درست ہے اور مجھے فال سے محبت ہے تو پوچھا گیا کہ فال کیا ہے عرض کی :اچھا کلمہ ۔
اس سے ثابت ہوا کے اسلام نے ہمیں ہمیشہ اچھا سوچنے کی ترغیب دی اوربری سوچ اور نحوست سمجھنے سے منع فرمایا ہے۔شریعت سے کسی مہینے یادن کی نحوست ثابت نہیں البتہ کچھ ایام اور مہینوں کی فضلیت ثابت ہےجیساکہ ’’عشرہ ذی الحجہ،یوم عاشوراء،رمضان اور أشہر الحرم‘‘وغیرہ
اپنی زندگی کے مصائب کا ڈیٹا جمع کریں پھرسال کے سارے مہینے اور دن محفوظ کرلیں ،آپ کو سارے دن مصائب زدہ نظر آئینگےلیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دن یا مہینے منحوس ہیں چنانچہ اللہ پر توکل کریںکوئی دن نحوست والا نہیں ہے صرف صفر کے مہینے کو منحوس جانناجاہلیت کے رسموں میںسے ہےاس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے ۔

لاَ عَدْوَى وَلاَ صَفَرَ وَلاَ هَامَةَ(البخاری5717)

’’مرض کے متعدی ہونے اور(ماہ) صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘( واللہ اعلم بالصواب)
سوال:آج کل اسلامی میسجز جوموبائلوں میں زیادہ ترآتے ہیں کیا ان میسجز کی کوئی حد یا قید ہے یا فوراً آگے بھیج دیناچاہئے؟
جواب: جومیسجز یا ویڈیوزقرآنی آیت یا صحیح حدیث پر مشتمل ہوں تو اسے آگے فارورڈ کیا جاسکتاہے بشرطیکہ جس کی طرف قرآنی آیت بھیجی جارہی ہے وہ مسلمان ہو البتہ پبلک میسجز کو بھیجتے وقت چند اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
1: اللہ تعالی کا فرمان ہے

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات:6)

اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ اگر بات کسی فاسق آدمی سے سنی ہو تو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے اور جب تک تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اسے آگے نہ بھیجا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

اہل علم سے معلوم کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(الانبیاء7)
2۔کبھی کبھی صحیح احادیث اور قرآنی آیات میسجز میں آتی ہیں لیکن آخر میں لکھا ہوتا ہے دس لوگوں کو سینڈ کرو، دو دنوںمیں خوشی ملے گی ۔اس میں وہ قرآنی آیت یاحدیث میں کوئی شک نہیں ہوتا لیکن کمزور ایمان والے لوگ اسےدس لوگوں کو سینڈ کرکے کسی معجزاتی خوشی کا انتظار کرتے ہیںجب انہیں کوئی خوشی نہیں ملتی تو وہ اسلام سے بد ظن هہونے لگتے ہیں ۔ایسے میں کوئی فرد اس طرح کے جرم میں شریک ہوکر قصور وار ہوتا ہے اس صورت میں قرآنی آیات یاحدیث صحیح پر عمل کرنا چاہیے لیکن اسے آگے بھیج کر بدعقیدگی پھیلانے سے بچیں بصورت صحت حدیث وقرآنی آیات
3۔کبھی کبھار بہترین اقوال زریں لکھ کر اسے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کیاجاتا ہے اس صورت میں قول،زندگی کے لیے کتنا بھی مفید ہی کیوں نہ ہو لیکن رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنےکے زمرے میں آئے گا ۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ؛

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(صحیح البخاری110)

جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔(واللہ اعلم بالصواب)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے