کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں پہلا حصہ اللہ تعالی کاتعارف کرواتا ہے اور دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کا تعارف کرواتا ہے اور یہ دونوں حصے مل کر توحید کے تصور کو مکمل اور واضح کرتے ہیں پہلے حصہ میں ہر معنوی و حسی وجود کی نفی ہے جو اللہ تعالی کے مقام و مرتبہ میں شریک بنایا جا سکتا ہے اور اسی طرح دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے تصور کو واضح کرتا ہے اس تحریر میں کلمہ اخلاص کے انہی دونوں اجزا کو واضح کیا جائے گا
پہلا حصہ : لا الہ الا اللہ کا مفہوم

’’لا الہ‘‘ کا مفہوم:

لا الہ کو ہم اصطلاح میں شرک کہہ سکتے ہیں اس سے قبل کے الا اللہ کے مفہوم پر بات کی جائے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ لا الہ کو واضح کر دیا جائےکہ جیساکہ مقولہ مشہور ہے کہ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ لہٰذا اگر شرک کو مکمل طور پر سمجھ لیا جائے تو ذات الہٰی کا سمجھنا ممکن ہو جائے گا اور اس کے تقاضوں کی تکمیل بھی آسان ہو جائے گی سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم شرک کو کیوں پہچانیں تو اس کا جواب بہت آسان ہے ۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاتی ہے اور اس کا خطرہ بہت بڑا ہے اور یہ چیونٹی کے چلنے سے بھی باریک اور خفیف ہوتا ہے اسی لئے ہر مسلمان پر اس کی پہچان واجب ہے تا کہ وہ ا س سے محفوظ رہے ۔ اور اپنے معاملہ میں صاف ستھری راہ پر ہو جائے اور اس میں واقع ہونے سے محفوظ ہو جائے اس کی وجوہات ویسے تو بہت زیادہ ہیں لیکن چند کا مختصرذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ اس امت میں عنقریب شرک واقع ہو گا اور بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ پائے جائیں گے اورپہلے والے مشرکین کے راستہ پر چلیں گے ،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمانہ زیادہ نہیں گزرے گا یہاں تک کہ لات اور عزی کی پرستش کی جائیگی۔(متفق علیہ )
قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ میری امت کے کئی قبیلے مشرکین سے جا ملیں گے او ریہاں تک کہ میری امت کے کئی قبیلے بتوں کی پوجا کرنے لگیں گے ۔ (ابو داؤد )
مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ شرک کو پہچان لے اور اس سے دور رہے او رڈرے اگر اس نے شرک کو پہچانا نہیں تو بسا اوقات بے شعوری کی وجہ سے اس میں واقع ہوجائے گا ۔ جیسا کہ سیدنا حذیفہ tکا قول ہے : رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اورمیں آپﷺ نے شرک کے متعلق سوال کرتا تھا اس خوف سے کہ میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں ۔(متفق علیہ)
m عملا حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں ایسے اجتماعات ہوتے ہیں جن کی تعظیم کی جاتی ہے اور قبروں کی تعظیم کی جاتی ہے ان کے لئے نذریں مانی جاتے ہیں او ران کے پاس جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اور قبر والوں سے فریاد رسی کی جاتی ہے اور ان کے پاس چراغ جلائے جاتے ہیں اور وہاں میلے لگائے جاتے ہیں اور قبر والوں سے حاجتوں کے پورا کرنے، مصیبتوں کے دور کرنے اور بیماریوں کے زائل کرنے کا سوال کیا جاتا ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قبر والے مردے ہم کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کر دیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں قبروں کی پوجا کرنے والوں کے درمیان اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں ۔مشرکین مکہ بھی بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے اور ان سے فریاد رسی کرتے تھے اور آج کے مشرک بھی اپنے آباؤ اجداد کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں ۔
mسب سے پہلا شرک جو واقع ہوا وہ نیک لوگوں کی تعظیم میں غلو کرنے کے سبب سے رونما ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب جہالت عام ہو جائے اور علم کم ہوجائے تو پھر شیطان لوگوں کے اندر گھس جاتا ہے اور ان کے لئے نیک لوگوں کا وسیلہ پکڑنا مزین کر دیتا ہے اس کے بعد ان کو نیک لوگوں کی عبادت کرنے حکم کرتا ہے ۔
اس پرعبداللہ بن عباس wکا قول اس آیت کی تفسیر میں دلالت کرتا ہے۔اور کہا انہوں نے کہ اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ۔( نوح/۲۳)
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب یہ لوگ وفات پا گئے تو شیطان لعین نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ تم ان کے مجسمے بنا لو او ران کے پاس اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو تو انہوں نے ایسا ہی کیا جب ایک زمانہ گزر گیا اور یہ لوگ بھی فوت ہوگئے اور ان کے بعد کی نسلیں آ گئیں اور علم بھول گیا تو وہ انہیں مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔(بخاری)
سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ کے یہ بت بعینہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کے ہاں پائے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے غلو کرنے سے ڈرایا ہے ۔ فرمایا :اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں غلو نہ کرو ۔(النساء/۱۷۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غلو کرنے سے بچ جاؤ تم سے پہلے لوگوں کو غلو نے ہلاک کر دیا (بخاری)
اللہ تبارک و تعالی نے جنوں اور انسانوں کو بہت بڑی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ اکیلے اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کرنا ا س کے سوا اوروں کی عبادت سے بچنا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔(الذاریات/ ۵۶)
اور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص رکھیں (ابراہیم حنیف کے دین پر) نماز کو قائم رکھیں ، زکاۃ دیتے رہیں ۔ یہی دین درست اور مضبوط ہے ۔ ( البینۃ/ ۵)
مذکورہ بالا آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اکیلے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنا واجب ہے جو شخص اکیلے اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اوروں کو بھی اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ مشرک اور کافر ہے ، دائرہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اگر وہ کوئی بھی عمل کرے تو وہ عنداللہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ وہ عمل اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اس لئے کہ اس نے توحید کی شرط کو ثابت نہیں کیا ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں اڑے ہوئے ذروں کی طرح کر دیا ۔ (الفرقان/ ۲۳)
رسول اللہ ﷺ نے حدیث قدسی میں فرمایا : جس نے کوئی عمل کیا اور اس عمل میں میرے ساتھ اس نے کسی دوسرے کو شریک کیا تو میں اس عمل کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دوں گا ۔ (مسلم )
شرک کی تعریف اور اسکی قسموں کا بیان اور ہر قسم کا حکم
شرک کہتے ہیں کہ انسان اس چیز میں جس کا اللہ تعالیٰ کو حق ہے اللہ تعالیٰ کیساتھ غیر اللہ کو برابر کرے اور اس میں شریک کرے مطلب یہ ہے کہ عبادت کی تمام اقسام میں سے کسی قسم کو غیر اللہ کیلئے پھیر دینا۔ اسکی دو قسمیں ہیں ۔ کلمہ طیبہ کے آغاز میں سب سے پہلے ’’الہ‘‘کی کی نفی کی گئی خواہ یہ الہ حسی ہو یا معنوی ہو اور اگر یہ نفی قولی یا عملی طور پر نہ کی جائے تو اسے شرک کہا جاتا ہے اس کی دو اقسام ہیں

شرک اکبر:

کسی بھی قسم کی عبادت کو غیر اللہ کی طرف پھیرنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ جیسا کہ کوئی غیر اللہ کے نام پر جانورذبح کرے یا نذر مانے یا غیر اللہ کو پکارے یا اس سے فریاد رسی کرے یہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے بتوں کو پکارا ہے اور اولیاء اور صالحین کی قبروں پر جاکر فریاد رسی کرتا ہے اوروہ اس چیز کر مدنظر رکھتا ہے کہ یہ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب کر دیں گے اب جو آدمی اس مھلک مرض میں مبتلاء ہے وہ کافر اور مشرک ہے دائرہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرے گا اگر وہ اپنے اس شرک پر بغیر توبہ کئے مر گیا وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہے گا اس پردلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اس حالت میں مر گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اوروں کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا ۔ (بخاری)
کیونکہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے جو حالت شرک پر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کبھی بھی نہیں بخشے گا ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہیں بخشے گا کہ اسکے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے سوا کے گناہ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔ (النساء/ ۱۱۶)
یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گناہ گاروں کی مدد کرنے ولا کوئی نہیں ۔ (المائدۃ/۷۲)
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کر دیا کہ جو اس کے ساتھ شرک کریگا اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہو گا ۔

شرک اصغر :

چھوٹا سا شرک بھی گناہ کبیرہ میں سے ہے مگر وہ شرک اکبر سے کم تر ہے شرک اصغر میں مبتلا شخص ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ وہ دیگر گناہوں کی طرح جو شرک اکبر سے کم ہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تحت ہو گا ۔ (اگر چاہے تو معاف کر دے یا جہنم میں اولاً ڈال کر اور گناہوں سے پاک کر کے جنت میں داخل کر دے ) ۔

’’الا اللہ‘‘ کا مفہوم

جھوٹے معبودان کی پہچان اور نفی کے بعد اب سب سے اہم مرحلہ آتا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف اللہ کو ایک مانا جائے بلکہ ایک اللہ کی مانی جائے
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘کی اقسام
لا الہ الا اللہ کا معنی جیسا کہ بیان کیا گیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں یعنی اس کا کویی شریک نہیں اس کے تین بنیادی پہلو ہیں اور یہ تینوں پہلووں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ان تینوں کو ایک ساتھ اختیار کرنا لازمی ہے وگرنہ لا الہ الا اللہ کا مفہوم نامکمل ہو گا ۔

ربوبیت الہی

اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی خالق، رازق ، مالک متصرف اور ہر چیز کا مدبر ہے اور اس کے فیصلے کو کوئی روکنے والانہیں ہے ۔اللہ تعالی کی ربوبیت پر بہت دلیلیں ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے چھ دنوںمیں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا چھپا دیتا ہے رات سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے لے آتی ہے اور سورج اور چاند اوردوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں ۔ یاد رکھو ۔ اللہ ہی کیلئے خاص ہے خالق اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں کا بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الاعراف/۱۵۴)
اس کا اقرار سابقہ اقوام کے مشرکین نے بھی کیا تھا لیکن اس اقرار نے انہیں اسلام میں داخل نہیں کیا کیونکہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کے دیگر پہلووں کا اقرار نہیں کیا تھا جس کاذکر آگے کیا جائے گاجیساکہ قرآن میں بھی ہے : اور اگر آپ ان (کفار) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے ان کو غالب جاننے والے نے پیدا کیا ۔ (الزخرف31)
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو پھر کہاں الٹے جاتے ہیں ۔ (الزخرف/87)
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر دلائل بہت سے ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا دلائل عقلی ہوں یا نقلی پس مخلوق خالق کے وجود پر دلیل ہے اور ہر بنی ہوئی چیز کے بنانے والے کا ہونا ضروری ہے ۔ اللہ ذوالجلال نے فرمایا :کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں یا خود یہ پیدا کرنے والے ہیں ۔ (الطور/ ۳۵)
یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں ہو اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب آسمانوں میں ہے ۔(الذاریات/۲۰، ۲۱، ۲۲)

اللہ کے خوبصورت نام اور صفات

اللہ کے خوبصورت نام اور صفات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات پر اس طرح ایمان لائے جس طرح کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں وارد ہے اور وہ ان اسماء اور صفات میں نہ تحریف کرے اور نہ الفاظ بلا معنی سمجھے اور نہ کیفیت بیان کرے اور نہ تاویل کرے اور نہ کسی مخلوق کیساتھ تشبیہ دے او رنہ ہی مثال بیان کرے کیوں کہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا ہے: ’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں وہ سنتا اور دیکھتا ہے ۔‘‘(شوری/۱۱)
پس مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اسی طرح صفت بیان کرے جس طرح اس نے اپنی ذات کی صفت بیان کی ہے یا اس کے رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہے بغیر کسی زیادتی اور نقصان کے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو اس کے اسماء اور صفات میں ملحد ہوگئے ہیں عذاب دینے کا وعدہ کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اچھے اچھے نام اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کیئے کی ضرورسزا ملے گی ۔ (الاعراف/ ۱۸۰)
جس نے اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں سے کسی کا انکارکر دیا تو وہ کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء اور صفات پر ایمان لائیں اور انکو اس نہج پر ثابت کریں جو اسکی شان اور عظمت کے لائق ہے ۔

عبادت الہی

انسان ایک اللہ کی عبادت کرے ان تمام امور میں جو عبادت کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ متعلق ہیں جیسا کہ نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ، ذبح ، نذر ، فریاد وغیرہ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام عبادات کو ایک اللہ رب العزت کے لئے خاص کرنا ہے اب اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی کو پکارا نہیں جائے گا نہ کسی مقرب فرشتے کو اور نہ کسی نبی مرسل کو پس جس نے ان عبادات میں سے کسی بھی عبادت کو غیرا للہ کیلئے خاص کر دیا تو وہ مشرک اور کافر دائرہ اسلام سے خارج ہے اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میراجینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں ۔ (الانعام/ ۱۶۲)
جو شخص اللہ تعالیٰ کیساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں پس اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔ ( المؤمنون/۱۱۷)
اور لا الہ الا اللہ کا یہی پہلو ہی سابقہ اقوام کا اپنے رسولوں کے ساتھ مختلف فیہ تھا یعنی وہ اس کا اقرار نہیں کرتے تھے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خالق ، رازق اور مدبر ہونے کا اقرار کرتے رہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوسرے معبودان باطلہ کو شریک کرتے رہے اور وہ یہ خیال فاسد کرتے تھے کہ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں یہ ہم کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کر دیں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے انہی کے قول کو نقل کیا ہے:اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں( الزمر/ ۳)
اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ السلام کو توحید خالص کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیجا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف بھی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس تم میری ہی عبادت کرو ۔ ( الانبیاء/ ۲۵)
جب ہم جائزہ لیتے ہیں سابقہ مشرکین کا موجودہ زمانے کے مشرکین کے ساتھ توآج کے مشرکوں کوپہلے زمانہ کے مشرکوںسے زیادہ سخت کفر و شرک میں پاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ اول کے مشرکین تو حالت رخاء میں اللہ تبارک و تعالیٰ کیساتھ شرک کرتے تھے مگروہ مصیبت اور پریشانی کے وقت خالص اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارتے تھے اوراللہ تعالیٰ کی طرف پناہ لیتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیںتو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ (العنکبوت/۶۵)
اب رہ گئے آج کے مشرک تو یہ ہر حالت میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں چاہے امن و سکون کی حالت ہو یا تنگی اور مصیبت کی حالت ہو آپ ان میں سے کسی کو بت کے سامنے یا کسی کو قبر کے سامنے پائیں گے اور اس قبر والے سے مصیبتوں اور پریشانیوں کے دور کرنے کی فریاد رسی کر رہاہو گا اور اس سے مدد یا اولاد مانگ رہا ہو گا اور جانور ذبح کرنے کی منتیں مان رہا ہوگا جیسا کہ قبر پرستوں کا حال ہوتا ہے بس ان کا کام صرف قبروں پر چلّا کشی کرنا اور بڑے بڑے مزاروں کا طواف کرنا اور قبر والوں سے اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کے پورا کرنے کی امیدیں کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اسکی دعا کو قبول نہ کر سکیں بلکہ وہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں۔(الاحقاف/ ۵)
یہ لوگ قبروںمیں ہیں اپنے لئے کسی چیز کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ یہ دوسروں کے مالک ہوں؟ پس جب وہ اپنے لئے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو وہ دوسروں کیلئے بطریق اولیٰ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوں گے ۔ بلکہ نفع و نقصان کا مالک سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اگر تم کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچا دے تواس کودور کرنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچا دے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔(الانعام/۱۷)
عبادت اور اس کی اقسام
چونکہ عبادت کا لفظ ہی اصل محور اور مرکز ہے اور اس کی بنیاد پر جنت اور جہنم کا فیصلہ ہو گا لہذا اس کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے
عبادت کا لغوی معنی عاجزی کرنا مطیع اور تابعدار ہونا ہے اور شرعًا اس کا معنی یہ ہے کہ عبادات اسے کہتے ہیں جو ایسے اعمال اور اقوال (چاہے ظاہرہ ہوں یا باطنہ) کو جامع ہے جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے ۔ اور یہ عبادت دو اصولوں پر مبنی ہے ۔
خالص اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنا ۔
رسول اللہ ﷺ کی کے طریقہ کے مطابق کرنا ۔
جب تک یہ دو شرطیں نہیں پائی جائیں گی تو عبادت صحیح و مقبول نہیں ہو گی ۔ اسی طرح عبادت کی کئی اقسام ہیں ان سب کو اکیلے اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے کرنا واجب ہے اگر کسی نے غیر اللہ کے لئے کوئی عبادت کی تو وہ مشرک اور کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ عبادت کی چند قسمیں ذکر کریں گے کیونکہ تمام عبادت کی قسموں کا احاطہ کرنا یہاں مشکل ہے ۔

دعا :

اللہ تعالیٰ سے خیر کو طلب کرنا یا کسی مصیبت کے دور کرنے کا سوال کرنے کو کہتے ہیں ۔ اور دعا خالص اللہ تعالیٰ سے کی جائے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری فریاد قبول کروں گا جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔( غافر/ ۶۰)
اور اسی طرح فرمایا: تم لوگ اپنے رب سے دعا کیا کرو تذلل ظاہر کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی ۔( الاعراف/۵۵)
اور تم اس کو ڈر او رتوقع سے پکارو ۔ (الاعراف/۵۶)
اور رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ: دعا عبادت ہے (ابوداؤد، ابن ماجۃ)
یہ تمام نصوص دلالت کرتی ہیں کہ دعا عبادت کی قسموں میں سے خاص ترین اور اہم ترین عبادت ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے دعا کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ فرمایا : اور اس سے بڑا گمراہ کون ہو گا؟ جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اسکی دعاکو قبول نہ کرسکے بلکہ انکے پکارنے سے وہ محض بے خبر ہیں ۔ (الاحقاف/۵)
اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کریںگے (الاحقاف/۶)
اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں او راگر بالفرض سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے تجھے کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دیگا (فاطر/۱۳۔ ۱۴)
یہ آیات اور ان کا مفہوم غیر اللہ سے دعا مانگنے کے خطرہ پر دلالت کرتا ہے ۔مسلمان ان جیسی آیات قرآنیہ سے کیسے غافل ہیں کیونکہ کئی مسلمانوں کو خصوصًا قبروں کے پاس پاتے ہیں جو ان سے دعائیں مانگ رہے ہیں جن کو یہ لوگ اولیاء کہتے ہیں وہ ان سے یہ گمان فاسد کرتے ہیں کہ یہ ان کی دعا کو سنتے ہیں اس عمل بد کو شیطان لعین نے ان کے لئے مزین اور خوبصورت بنا دیا ہے ۔ یہاں تک کہ حق بات سننے سے ان کے کان بہرے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان احمقوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ قبر میں مردہ ان کو نفع دے گا یا ان کی کوئی مصیبت دور کرے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کے سوا انکی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے ،اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے (المائدۃ/۷۶)

استغاثہ :

انسان پر اترنے والی مصیبتوں کے دور کرنے کی طلب کو استغاثہ کہتے ہیں اور یہ بھی دعا کی ایک قسم ہے ۔
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ، پھر اس نے تمہاری سن لی ۔(الانفال/ ۹)
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول مسلمانوں کو تکلیف اور ایذا پہنچاتا تھا تو لوگوں نے کہا تم ہمارے ساتھ اٹھو ہم اس منافق سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ سے فریاد رسی کرتے ہیں تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے فریاد رسی نہیں کی جائے گی صرف اللہ ہی سے فریاد رسی کی جائے گی۔(مجمع الزوائد، طبقات ابن سعد)
یہ حدیث غیر اللہ سے مدد مانگنے اور فریاد رسی کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے بالیقین رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس منافق سے چھٹکارا دینے پر قادر تھے مثلاً اس کو مدینہ منورہ سے نکلوا دیتے اس کے باوجودرسول اللہ ﷺ نے ان پر فریاد رسی کی نکیر فرمائی یہ آپﷺ نے شرک کے دروازے بند کرنے کے لئے کیا ۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مدد طلب کرنا اور فریاد رسی کرنارسول اللہ ﷺ سے اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے انسان سے جائز ہے ۔

نذر :

آدمی اپنے اوپر کوئی ایسی عبادت لازم کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر لازم نہیں کی ۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کے کرنے سے آدمی اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے جبکہ ان اعمال سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور یہ اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوں عبادتوں میں اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور یہ اعمال انسان کی طاقت میں ہوں مثلاً یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لئے اتنے روزے رکھوں گا یا اتنی رکعات نفل نماز پڑھوں گا یا یہ یہ عبادتیں کروں گا ایسے لوگوں کی جو اپنے منتوں کو پورا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :وہ نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے ۔ ( الدہر/۷)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : جس نے نذر (منت) مانی کہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں گا تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے نذر (منت ) مانی کہ میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ (صحیح بخاری )
—-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے