فیوض القرآن   سورۃ الفاتحہ

ابتدائی تعارف

لفظ الفاتحہ عربی فعل فَتَحَ یَفْتَحُ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کھولنا کے ہیںچونکہ قرآن مجید کی ابتداء اس سورت سے ہوتی ہے لہٰذا اس سورۃ کو الفاتحہ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس سورت کے اس کے علاوہ بھی کچھ معروف نام ہیں جو درج ذیل ہیں :
1 الکافیہ یعنی کفایت کرنے والی ہے،
22 الشافیہ یعنی شفا دینے والی ہے۔
33 ام الکتاب یعنی کتاب کی ماں اور اصل
44 فاتحۃ الکتاب یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی
55 ام القرآن یعنی قرآن کی اساس
66سبع المثانی یعنی بار بار دہرائے جانی والی سات آیات
77 القرآن العظیم یعنی عظیم پڑھی جانے والی کتاب
88 الرقیۃ یعنی دم میں پڑھی جانے والی
99الصلاۃ یعنی نماز میں لازمی پڑھی جانے والی
اسماء کی کثرت سورت کے معانی و مطالب کی کثرت کی دلیل ہے اور اس کی عظمت پر بھی واضح دلیل ہے۔

زمانہ نزول:

یہ سورت مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ پر نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورۃ العلق کی پانچ آیتیں، پھر سورئہ نٓ یا سورۃ القلم کی سات آیتیں، پھر سورۃ المزمل کی نو آیتیں ، پھر سورۃ المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ سورت الفاتحہ رسول اللہ ﷺ پر مکہ المکرمہ میں دعوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی یعنی نبوت کے پہلے سال کے تیسرے یا چوتھے مہینے میں ۔
سورت الفاتحہ کا سیرت کے ساتھ ربط و تعلق:
اگر سیرت طیبہ بعد از نبوت ابتدائی دور کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ابھی دعوت دین کا آغاز ہے اور اس دعوت کے خدو خال مکمل طور پر واضح نہیں ہوئے تھے کہ سورت الفاتحہ کانزول ہوتاہے گویا کہ اس سورت کے ذریعے سیرت طیبہ کے جن پہلووں کی وضاحت ہوتی ہے ان کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے ۔
اول:دعوت دین کی ابتدائی موضوعات سورت الفاتحہ نے واضح کر دئیے گویا کہ قیامت تک اصولی طور پر دعوت دین اسی اساس پر قائم و دائم ہو گی جو سورت الفاتحہ میں بیان کی گئی ۔
دوم:رسول اللہ ﷺنے دعوت دین کی ابتداء میں اہل ایمان کواس امر کی تاکید کی کہ اللہ تعالی کے ساتھ ربط و تعلق مضبوط کریں اور یہ تعلق براہ راست ہو۔
سوم:دعوت دین کے ابتدائی دور میں ہی بندہ مومن کو دعا کے آداب سکھا دیئے گئے اور اس سے دعا کی اہمیت کا علم بھی ہوتا ہے ۔

سورت الفاتحہ کا سورت البقرۃ کے ساتھ ربط و تعلق:

سورت الفاتحہ کے آخر میں بندہ مومن جب سیدھی راہ کے لیے دعاگو ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ اے مالک کون و
مکاں سیدھی راہ دکھا پھر اپنے اطمئنان قلب کے لیے کہتا
ہے کہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا نہ کہ مغضوب اور گمراہ، اور مغضوب سے مراد یہود ہیں اور سورت البقرۃ میں یہود کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے ، گویا کہ بندہ مومن نے دعا کی تو اللہ رب العزت نے یہ دعا قبول کرتے ہوئے اسے یہودکا مکمل تعارف کروا دیا کہ سیدھی راہ کی طلب ہے تو ان لوگوں کو پہچان لو یہ مکاری، عیاری، فریب کاری، دھوکہ ، بدعقیدتی، نافرمانی، بغاوت، قتل وغارتگری، جھوٹ، سودی تجارت، آیات الہی کو بیچنا وغیرہ وغیرہ ان تمام منفی و شیطانی امور سے بچناہو گا صرف اسی صورت میں راہ ہدایت کا ملنا ممکن ہے ۔

سورت الفاتحہ کا داخلی تعارف:

اس سورت کا مرکزی موضوع بندہ مومن کی طرف سے راہ ہدایت کی طلب ہے جیسا کہ آیت میں ہے :

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

آیت نمبر ایک تا چار:ہمیشہ دعا کا آغاز اللہ تعالی کی حمد سے کیا جانا چاہیے۔
آیت نمبر پانچ:بندہ مومن دعا مانگنے کے حوالے سے اپنا استحقاق یعنی حق بیان کرتا ہے ۔
آیت نمبر چھ:بندہ مومن کی ہر لحظہ اور ہر وقت مانگی جانے والی اصل دعا ۔
آیت نمبر سات :بندہ مومن اپنی دعا کی وضاحت کرتا ہے گو کہ اللہ تعالی اس وضاحت سے بے نیاز ہے ۔
سورت الفاتحہ کے فضائل:
1بندہ مومن اپنی دعاوں میں سورت الفاتحہ کو لازمی کر لے پھر جو کچھ مانگے گا وہ اسے مل جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :

هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ (مسلم، کتاب الصلوۃ، حدیث 904)

یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ سب کچھ ملے گا جو وہ مانگے گا۔‘‘
2 اس سورت کے ذریعے دم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :

وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ (صحیح البخاری:2276)

کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ سورت ’’دم‘‘ ہے ۔
3روحانی اور جسمانی بیماریوں میں شفا کے لیے اس سورت کا مسلسل پڑھا جانا شفا کے حصول کا ایک ذریعہ ہے جسمانی بیماریوں کے حوالے سے سابقہ سطر میں بھی بیان کیا گیا لیکن اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺسے کسی بھی معین عدد کے ساتھ یا خاص وقت میں باقاعدہ پڑھنا ثابت نہیں ہے لیکن وقت تہجد قبولیت دعا کا وقت ہے اور اسی طرح نماز فجر کی سنتوں او فرض نماز کے قائم ہونے کی درمیانی مدت میں اس سورت کا مسلسل پڑھا جانا شفا ء کے حصول کے لیے مجرب اور مشاہداتی امر ہے خواہ بیماری کی نوعیت کچھ بھی ہو ۔
سورت الفاتحہ اور نماز
جیسا کہ سطور سابقہ میں بیان کیا گیا کہ اس سورت کا ایک نام ’’الصلوۃ‘‘ بھی ہےجیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي (مسلم، کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ، حدیث 395)

’’میں نے صلاۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے ۔‘‘
اور اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہےجس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت پر مشتمل ہے اور نصف حصے میں دعا ہے جوبندہ مومن بارگاہ الٰہی میں کرتا ہے ۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺکے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔

لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ(بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ، حدیث : 756 ومسلم، کتاب الصلاۃ ،

باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث 394)
اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔
اس حدیث میں (مَنْ ) کا لفظ عام ہے جو ہرنمازی کو شامل ہے منفرد ہو یاامام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہویا جہری فرض نماز ہو یانفل ہرنمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔اس عموم کی مزید تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے جو کتب احادیث میں ہیں تفصیل کے لیے کتب احادیث کے نماز کے ابواب ملاحظہ کیے جائیں ۔ جن میں سے صرف ایک معروف حدیث جو سید المحدثین و الفقہاء سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ (مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث 395)

جس نےبغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا۔
قرآن مجید کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو:

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ( الاعراف:204)

جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو۔
اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں ۔ یاامام سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یاامام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔ (جاری ہے)
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے