5جون 632ء اور 12 ربیع الاول 11ھ خاتم الانبیاء سیّدنا محمد عربیﷺ ، جب رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے، تو یہ خبر جنگل میںآ گ کی طرح ثابت ہوئی۔جہاں جہاںیہ جاں نکاہ خبر پہنچی، بغاوت کے شعلے اُٹھنے لگے۔ اسلام دشمنوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔
ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوںنےقبائلی سرداروں کی دیکھا دیکھی اسلام قبول کیا تھا۔ صدقِ قلب سے اسلام قبول کرنے والے کچھ لوگ ان میںتھے، ان لوگوں نے نہ صرف اسلام سے بغاوت کر دی، بلکہ انہوں نے مدینہ کی ریاست کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا۔
اور مدینہ منورہ پر حملے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے باغی قبائل کی طرف پیغامات بھیجے کہ اسلام کو نہ چھوڑیں، آگے سے جواب ملا کہ ہمارا اسلام تو ایک شخص (رسول اکرمﷺ) سے ایک معاہدہ تھا۔ جب وہ ہی نہ رہے تو ہمارا معاہدہ بھی ختم لہٰذا اب ہم آزاد ہیں۔ ہمارا آپ کے اسلام سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اب ہم اپنا راستہ خود اختیار کریں گے۔
ان میں سب سے خطرناک ترین فتنہ مرتدین کا تھا۔
رسولِ مکرمﷺ کی حیاتِ مقدسہ کے آخری ایام میں ہی بعض جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہو چکے تھےجن کی رومی و ایرانی اور یہودی پشت پناہی کر رہے تھے۔
ان مدعیانِ نبوت اور باغی قبائل میں اسود عنسی، مسیلمہ کذاب (مسلمہ بن حبیب) طلیحہ اسدی اور سجاح بنت حارث قابل ذکر ہیں۔
اسود عنسی کا اصل نام عقیلہ بن کعب تھا۔ چونکہ اس کا رنگ سیاہ تھا۔ اس لیے اسود کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ بڑا فصیح البیان، شعبدہ باز اور شر پسند نجومی تھا۔ وہ یمن کے مغربی علاقے عنس کا سردار تھا۔ اس مناسبت سے اسے اسود عنسی کہتے ہیں۔
بد شکل اور سیاہ رنگ کے باوجود اس مرتد میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے اشاروں پر چلتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ایک پُر اسرار شعبدہ باز اور کاہن بھی رہ چکا تھا۔ اس دور میںکاہنوں کو مشرک لوگ دیوتائوں کا منظورِ نظر اور ایلچی تصّور کرتے تھے۔
چنانچہ جنگل میں آگ کی طرح اچانک یہ خبر پھیل گئی،کہ اسود عنسی کو اللہ نے نبوت عطا کی ہے ۔ اب وہ اسود عنسی نہیں بلکہ ’’رحمن الیمن‘ ‘ کہلاتا تھا۔
خبر دینے والے اس کے کارندے بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے، کہ جا کر دیکھو تو سہی ’’رحمن الیمن‘‘ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بناتا ہے، چلو لوگو چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘
چونکہ پہلے وہ کاہن رہ چکا تھا۔ لوگ پہلے ہی اسے پُر اسرار طاقتوں کا مالک سمجھتے تھے۔ اس لیے ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اس کے دعویٰ نبوت کو بھی تسلیم کر لیا۔
یہ ایک غار کے دھانے رہتا تھااور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کو قرآن کی طرز پر کچھ جملے سناتا۔
اور کہتا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھی آتا ہے جو اسے ہر روز،ایک راز کی بات بتاتا ہے۔
وہ لوگوںکو اپنی شعبدہ بازیوں کے ذریعہ کرتب بھی دکھایا کرتا تھا۔ مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیتااور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو جل رہی ہوتی۔ وہ بڑا چرب زبان اور لسّان بھی تھا۔ اس کے بولنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’یمن یمن والوں کا ہے‘ اس نعرے میں چونکہ بڑی کشش تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل یمن ایک مدت سے ایرانیوں کے زیر نگین چلے آ رہے تھے۔ دوسری طرف وہاں یہودی، نصرانی او رمجوسی بھی تھے۔یہ سب اسلام کے مخالف متحد تھے۔ جیسا کہ روزِ اول سے ہی ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ لوگ در پردہ اسود عنسی لعنتی کی نبوت کی حمایت کر رہے تھے۔
اسود عنسی لعین نے اپنی نبوت کی صداقت کے لیے ایک گدھا رکھا ہوا تھا۔ وہ گدھا اس کے سامنے لایا جاتا۔ تو وہ گدھے کو کہتا، بیٹھ جائو، گدھا بیٹھ جاتا۔ پھر کہتا جھک جائو، تو وہ سجدے کے انداز میں اس کے سامنے جھک جاتا۔
غرض دیکھتے ہی دیکھتے اس لعین نے ایک لشکر کی صورت میں خود کو منظم کر لیا۔ اس نے اولاً نجران کا رُخ کیا۔ وہاں رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کردہ دوحاکم تھے۔ خالد بن سعیداور عمرو بن حزم رضی اللہ عنہم کو لوگ چھوڑ گئے اور اسود کی بظاہر قوت دیکھتے ہوئے نجرانی اس کے ساتھ مل گئے۔
چنانچہ رسالت مآبﷺ کے مقرر کردہ حاکم واپس مدینہ آ گئے۔ اسود عنسی نے اپنی حکومت قائم کر کے صنعا یعنی یمن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ صنعا میں باذان کے بیٹے شہر بن باذان کی حکومت تھی۔
یہی وہ باذان ہے جس نے اپنے شہنشاہ خسرو پرویز کے حکم پر رسولِ اکرمﷺ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور اپنے دو سپاہی رسول اللہﷺ کی گرفتاری کے لیے بھیجے تھے۔
رسولِ اکرمﷺ نے جن بادشاہوں کے نام قبول اسلام کے خطوط روانہ کیے تھے۔ ان میں ایک شہنشاہِ ایران بھی تھا ۔ اس کے دربار میں عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ کا خط سنتے ہی وہ آگ بگولا ہو گیا اور اس نے نامہ مبارک کو چاک کر دیاتھا۔
اور عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار سے نکال دیا گیا۔ تب اس نے یمن کے گونر باذان کو حکم دیا۔
کہ اس شخص ’’محمدﷺ’’ کو گرفتار کر کے میرے حضور پیش کیا جائے جس نے حجاز میںنبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
شہنشاہ ایران نے چونکہ نہایت گستاخی کا ارتکاب کیا تھا کہ اس نے نامہ مبارک کے پُرزے پُرزے کر دئیے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی اس گستاخی کے ردِّ عمل میں اس کے بیٹے کے ہاتھوں اس کو مروا دیا اور یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔
رسولِ اکرمﷺ نے ان سپاہیوں کو جو کہ آپﷺ کے وارنٹ گرفتاری لے کر آئے تھے۔ ان سے کہا:
جس نے تمہیں یہاں بھیجا ہے۔ اس کے بیٹے نے تو آج رات اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہ سن کروہ حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔
گورنرِ یمن باذان تک جب یہ خبر پہنچی، تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ بدستور یمن کا حاکم رہا۔
رسولِ اکرمﷺ نے یمن کے کئی حصے کر کے الگ الگ حاکم مقرر فرمائے۔ باذان کے بعد اس کا بیٹا شہربن باذان کو بدستور صنعا اور اس کے گردونواح کا حاکم بنا دیا گیا۔
چنانچہ اسود عنسی نے جب صنعا کا رُخ کیا، تو ابن باذان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ جس سے اس کی فوج کے قدم اُکھڑ گئے اور صنعا پر اسود عنسی کا قبضہ ہو گیا۔
اور اس نے ابن باذان کی جواں سال خوبصورت بیوی کو جبراً اپنی بیوی بنالیا۔
اسود عنسی نے یکے بعد دیگرے حضرموت، بحرین اَحساء اور عدن تک تمام علاقوں پر قابض ہو کر یمن میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اہل اسلام کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔
دوسری طرف رومیوں کے حملے کا بھی خطرہ تھا۔ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یمن کو ایک خود ساختہ بنی سے نجات دلانے کے لیے بھی ایک بڑے لشکر کی ضرورت تھی
چنانچہ حکمت عملی کے تحت قیس بن ہبیرہ کو اس مہم کے لیے منتخب کیا گیا اور اسود عنسی کی نبوت کو خاک میں ملانے کے لیے ٹاسک دے کر یمن روانہ کر دیا گیا۔
قیس پُر عزم انداز میں جھوٹے نبی اسود عنسی کے خاتمے کے لیے وفادار مسلمانوں سے مل کر منصوبہ بندی کرنے لگے۔ مختصراً قیس بن ہببرہ رضی اللہ عنہ اسود کے ایک معتمدِ خاص فیروز کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔
فیروز اسود کی جبراً بنائی گئی بیوی آزاد کا چچا زاد بھائی تھا۔ فیروز کی مدد سے اسود کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔مؤرخ بلا ذری نے لکھا ہے کہ
’’پروگرام کے مطابق جب فیروز اپنی چچا زاد کے ذریعہ رات کی تاریکی میں اسود کی خوابگاہ تک پہنچا۔ تو وہ شراب کے نشے میں دُھت تھا۔‘‘
یہاں بات قابل ذکر ہے کہ (تمام مدعیانِ نبوتِ کاذبہ بشمول مرزا قادیانی اور قادیانی رائل فیملی شراب و کباب کے رسیا ہیں) فیروز کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔ اسود جنگلی سانڈھ کی طرح تھا۔
دفعتاً اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے معتمد فیروز اور بیوی کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔ اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟
اسود نے نشے میں لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں پوچھا۔
فیروز نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تلوار کھینچی، اور پوری قوت کے ساتھ اسود (جھوٹے نبی) کی گردن پر وار کیا۔
اسود نے گردن بچا لی اور تلوار اس کے ننگے سر پر پڑی اور ساتھ ہی اس کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلنے لگیں۔
غلام اور پہرے دار دوڑتے ہوئے آئے۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کرتے ہوئے کہا:
رحمن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ چلو واپس اپنی جگہ پر چلے جائو۔
مؤرخ بلا ذری لکھتا ہے کہ ’’پہرہ دار نے احترام سے سر جھکایا اور چلا گیا۔‘‘
آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اُٹھ کر بستر پر گر رہا ہے،اور فیروز دوسرے وار کے لیے بڑھ رہا ہے۔
اسود بستر پر گر پڑا، اور سانڈ کی طرح ڈکا رہا تھا۔ آزاد نے آگے بڑھ کر اسود کے لمبے بال دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور پھر فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن کاٹ کر جھوٹے نبی کا کام تمام کر دیا۔
جھوٹے نبی کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا اور ساتھ ہی اَشَہَد اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔’’اللہ اکبر‘‘
یہ واقعہ مئی 632ء کا ہے۔ اگلے ہفتے قیس بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ اور وبر بن یحنّس یہ خوشخبری لے کر مدینۃ الرسول ﷺ پہنچے۔تو ان کے قدموں تلے سے زمین نکل رہی تھی اور مدینہ کی فضا سوگوار تھی۔
کیونکہ 5جون 632ء ،12ربیع الاول 11ھ کو خاتم النبیین محمد عربی ﷺ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے تھے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
بڑھے جو ہاتھ حرمتِ نبوت کی طرف تو قلم کر دو
لہو کی دھار سے کھینچو حصارِ ختمِ نبوت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے