سنو ذرا اک چھوٹی سی بات تو سنو! کسی وقت کی کہانی تھی کہ دینی غیرت و حمیت ہوا کرتی تھی
اک یہودی نے ایک مسلمان عورت کا حجاب کھینچا تھا تو اس یہودی کو نشان عبرت بنا دیا گیا تھا
پھر کسی غیرت مند کی سماعت سے اک صوت دل خراش ٹکرائی تھی تو وقت کے غیرت مند حاکم نے اپنے بھتیجے کو بھیجا اور اس دیوث ہندو حاکم کو نشان عبرت بنا دیا گیا، پھر وقت کے اک حاکم تک وامعتصماہ کی پکار پہنچی تو پھر ایسا ہی ہوا کہ عیسائیوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا، لیکن یہ سب پرانی باتیں ہیں اور ماضی پرست لوگوں کے لیے یہی پرانا وقت سب کچھ ہوتا ہے، ہمارا شاندار ماضی جس پر ہمارا فخر ہی ختم نہیں ہو رہا ، ’’پدرم بود‘‘ کے دل فریب و خوش کن شعارات سے جانے کب جان چھوٹے گی۔
رسالت، راشدون، بنو امیہ، بنو عباس، عثمانی اور پھر ردایے خلافت چاک چاک، کنتم خیر أمۃ  کو بانٹ دیا گیا اور تقسیم در تقسیم در تقسیم کا عمل ایسا شروع ہوا کہ دن بدن عدد بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہر عدد اپنی ذات کے تحفظ میں ایسا مگن کہ نگاہ اٹھانےکی فرصت نہیں ،کان سننے کے متحمل نہیں اور دل بے حسی کی تمام حدیں تجاوز کر چکے ہیں اور صم ، بکم ، عمی کی مکمل تصویر شاید ہی چشم فلک نے دیکھی ہو اور وہ بھی ان کی جو دعویدار تھے اور ہیں اور جو محض گفتار کے غازی۔
الکفر ملۃ واحدۃکے مصداق یہود، مجوس، نصاری ، ہنود، الحاد، تجددیت اور ان کے مظاہر حیوانیت، وحشیت ، درندگی، سفاکیت۔سنا ہے تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے قبلہ اول کی خوبصورت گلیوں میں مسلمانوں کا لہو بہا تھا، منگول یلغار نے مسلمانوں کو وسطی ایشیا میں عبرت کا نشان بنا دیا جی ہاں عبرت کا نشانہ جب دنیا کے اک حصے میں کلمہ گو مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں، عزتیں لوٹیں جا رہی ہوں معصوم بچوں کو دہشت گرد سمجھ کر مارا جا رہا ہوں اور عالم اسلام کے ایک اور حصے میں میلاد النبی کے رد اور جواز پر لفظی اور اجتماعی جنگ جاری و ساری ہو تو پھر ایسا ہی ہوا کرتا ہےاور ایک دوسرے کو سال نو کی مبارکباد وں سے ہی فرصت نہیں اور غیر اسلامی تہواروں میں پر جوش شرکت اور اہتمام۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
بارکنا حولہکی سرزمین ایک مرتبہ پھر کلمہ اخلاص کے ساتھ وابستگی کا خراج ادا کر رہی ہےاور اگر وہ مبارک اور نبوی بشارتوں کی سرزمین اگر خراج ادا نہ کرتی تو یقین کر لو قیامت ہی آ جاتی ہاں قیامت ہی آ جاتی۔گزرے سالوں میں اسی سرزمین سے اک فتوی طلب کیا گیا تھا کہ مفتی صاحب سحری اور افطاری کی بہت برکات اور فضائل ہیں لیکن اگر کھانے اور پینے کے لیے ہی کچھ نہ ہو تو کیا ہم ان برکات سے محروم رہیں گے ؟
تو گزرے ہوئے کل میں یہ فتوی طلب کیا گیا کہ مفتی صاحب ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنی عزتوں کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیں تاکہ وحشی یہودی ، مجوسی درندے ہماری عزتوں کے ساتھ نہ کھیلیں؟مفتی صاحب کل بھی چپ تھے اور آج تو زبان پر قفل ہی لگ چکا ہے۔
اور آؤ !اب میں بتاتا ہوں کہ کیا ہوا یہی سرزمین جو نبوی بشارتوں کی مصداق ہے، آسمانی برکات کی حامل ہے، انبیا کے مقدس و معظم وجودوں کی شاہد ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین جیسے خوبصورت انفاس کی امین ہے، جس کا کونا کونا عظمتوں اور رفعتوں کی علامت ہے۔
سنو اسے پامال کر دیا گیا ہے 57بھاری بھرکم ممالک کے باوجود اسے روندا گیا اس کی عزت لوٹی گئی، عصمت دری کی گئی، ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی جا رہی ہیں کہ الفاظ نہیں ہیں اسے بیان کرنے کے لیے ۔
اور عالم اسلام گنگ ہے تجارتی معاہدات کی پاسداری ہے یا اغیار سے کاسہ گدائی  رسم سی بن گئی ہے اسی لیے ابھی بھی تجاہل عارفانہ کا یہ عالم ہے یا حماقتوں کی انتہا کہ  درندگی و سفاکیت کی اس داستاں کو رکوانے کے لیے بھی انہی کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھا جا رہا ہے کہ جو اس قتل عام میں ملوث ہیں کل تک ہم برما کے’’ پرامن ‘‘ بھکشوؤں کی دہشت گردی کے مظاہر دیکھ دیکھ کر لیکن آج تو زبانیں گنگ ہیں اپنے آپ پر ہی شرم آ رہی ہے اور شرم بھی سوچتی ہو گی کہ اس جگہ نہیں جہاں اس کی قدر نہیں۔
اور ایک طرف سے بیانات آ رہے ہیں کہ شام میں جنگ جہاد نہیں بلکہ مقامی جماعتوں کے مفادات کا باہمی ٹکراؤ ہے ،جہاد تو صرف کشمیر میں ہی ہے کیونکہ اسے غزوہ ہند کی سند دی گئی ہے باقی سب تو۔۔۔۔
اسرائیل ، فلسطین، عراق، مصر، یمن ، شام چاروں طرف سے گھیرا شایدالملحمۃ العظمی  کے مقدمات ہیں کہ حتمی معرکہ کی سرزمین یہی عظمتوں کی سرزمین ہی ہو گی ۔
بشار الاسد جیسا شیطان جو اپنے ہی تین لاکھ سے زائد شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہے اپنے ہی ملک کے علاقے اس طرح فتح کر رہا ہے اور اس کے دست و بازو یہود و مجوس ۔ سرزمین شام کے خوبصورت علاقے حلب اور اس کے گردو نواح کے مکینوں  کے پیغامات پڑھیں اور تباہی و بربادی کے مناظر دیکھیں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیر ، ایک ایک قبر میں کئی کئی معصوم وجود ، وہ وجود جنہیں کبھی چشم فلک نے ننگے سر نہ دیکھا ہو ان کی عصمت دری ، ہسپتال مٹی کے ڈھیر ، معالج ندارد، کھانے پینے کی اشیا ختم ، لیکن پھر بھی ۔۔۔۔۔
اور یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں تین لاکھ لوگ قتل ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں۔ حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی  ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کی ظالم فوج نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکانٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصوں پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اور اس پر عالمی سیاسی جتھے بندیاں جو اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے درمیان طے پا رہی ہیں سابقہ مخالف اتحادی بن کر آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں اور ایک طرف عظیم ترین اسرائیل کاہدف ہے تو دوسری طرف عظیم ترین فارس کی حدود کا حصول اور ان دونوں مقاصد کا خراج ایک طرف شام کے سنی مسلمان ادا کر رہے ہیں تو دوسری طرف میانمار برما کے سنی مسلمان تو تیسری طرف ارض مقدسہ فلسطین کے مسلمان ،چوتھی طرف ارض فتن کے سنی باسی ، پانچویں طرف وسطی افریقہ کے سنی مسلمان ، سوڈان اور لیبیا و الجزائر کے مسلمان اور ہماری شہ رگ کشمیر لہو لہان ہے عالم کفر اس وقت ’’جارحیت بہترین دفاع ہے ‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر عالم اسلام پر چہار اطراف سے یلغار کیے ہوئے ہے ۔ خارج سے اور داخل سے ویسے بھی غداروں سے ہماری تاریخ مالامال ہے ہماری سابقہ بربادیوں میں ہمارے اپنے ہی تو تھے جو ’’بروٹس تم بھی ‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ۔
اہل حلب ! تمہاری عظمتوں اور حوصلوں کو سلام ، وقت کے درندہ صفت حکمران اور اس کے اتحادیوں کی سفاکیت کا سامنا صرف اس لیے کہ یہ کہنا کہ میرا رب اللہ ہے۔بازار , عمارتیں , فلیٹ , مساجد سب تہہ تیغ ہو گئے , سڑکیں خون سے بھر گئیں۔
ارے ہاں میں بھی خامخواہ لفظوں کی جنگ لڑ رہا ہوں ویسے بھی ہم تو سقوط کی ایک طویل داستاں کے حامل ہیں کبھی اپنوں کے ہاتھوں تو کبھی اغیار کے ہاتھوںسقوط دمشق، سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط وسط ایشائی ریاستیں، سقوط  ڈھاکہ، سقوط کابل، سقوط عراق، سقوط سقوط  تو ایک اور حلب بھی اس صف میں آ گیا تو کیا ہوا ۔
آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ شام کیا ہے، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن پر مشتمل خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کیے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ تصانیف چھوڑی ہیں۔
اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما،شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے، جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے