ہوا کی سرسراہٹ اور بارش کے قطرات
توحید باری تعالیٰ کی شہادت اور موت کے بعد جی اُٹھنے کا ثبوت ہیں

ارشاد باری تعالی ہے :

اَللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْأَنْہَارَ (ابراہیم:32)

’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ساتھ تمہا رے لیے پھلوں میں سے رزق نکالا او ر تمہارے لیے کشتیو ں کو مسخر کیاتا کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور اس نے تمہارے لیے دریائو ں کو مسخر کردیا ہے۔‘‘
مزید فرمایا :

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہُ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِیہَا مِنْ بَرَدٍ فَیُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَیَصْرِفُہُ عَنْ مَنْ یَشَاءُ یَکَادُ سَنَا بَرْقِہِ یَذْہَبُ بِالْأَبْصَارِ(النور:43)

’’کیاتم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادلوں کوآہستہ آہستہ چلاتا ہے پھران کوباہم جوڑتا ہے پھرانہیں سمیٹ کر گھنے بادل بنادیتا ہے ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اوراللہ آسمان سے پہاڑوں کی مانند دکھنے والے اولے بھی نازل کرتاہے پھرجسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اورجسے چاہتا ہے ان سے بچالیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔‘‘
کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادلوں کو بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد ان کو ایک دوسرے پر تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے ۔پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو دور سے دیکھنے والے کو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے۔ کبھی اس میں اولے برستے ہیں۔اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے بادل یوں ہی گزر جاتے ہیں اور بسااوقات بادلوں میں بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کی بینائی کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت نشانیاں ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں قدیم اورجدید فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدانوں نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے کہ پانی سورج کی گرمی سے بخارات کی صورت میں اُوپر جاتا ہے اور ہوائیں بخارات کو اٹھا کر فضا کے ایسے حصے میں لے جاتی ہیں کہ جہاں بخارات بادل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر ہوا بادلوں کو دھکیل کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے جب بخارات ایک خاص حصے اور نقطہ انجماد پر پہنچتے ہیں تو وہ بارش بن کر زمین پر برستے ہیں۔ سائنسدانوں میں بے دین طبقہ اس سے آگے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا جس بناء پر وہ بارش کے سارے عمل کو تکوینی اور فطری نظام سمجھ کر صرفِ نظر کر دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے عمل میں گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ کیا بارش کو فطری عمل قرار دینے والے اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہوا میں اتنی قوت اور کشش کس نے پیدا کی ہے؟ جوبخارات کی
صورت میں لاکھوں ٹن پانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور سورج
اس پانی کو اپنی حرارت سے ختم کیوں نہیں کرسکتا ؟ پھر غور فرمائیں کہ فضا میں وہ خطے کس نے پیدا کیے ہیں جہاں پہنچ کر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہوائوں کا رخ موڑنے والی کونسی قوت ہے جو انہیں اِدھر اُدھر جانے کاحکم دیتی ہے۔ ایک بار پھر سوچیے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو کھربوں من پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایک دوسرے کے اوپر ایک مناسب فاصلہ پر رکھتے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے پھر یہ بادل کہیں موسلادھار بارش کی صورت میں برستے ہیں اور کہیں بونداباندی کی صورت میں ٹپکتے ہیں ۔
آخر یہ نظام کس نے قائم کیا ہے؟ اس بات پر بھی غور کریں کہ دنیا میں کہیں بھی بادل یکدم نیچے نہیں گرتا۔ وہ قطرات کی شکل میں برستا اور اپنے وجود کو ختم کر دیتا ہے۔ اب ان سے برسنے والے اولوں پر توجہ فرمائیں کہ ایک بادل سے اس قدر اولے برستے ہیں کہ زمین کئی کئی فٹ برف سے ڈھک جاتی ہے اور اسی علاقے سے چند میٹر دور بادل سے ایک اولہ بھی نہیں پڑتا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک فصل کو اولوں سے تباہ کردیتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی فصل کو بارش سے نہلا تا ہے اور اسے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اب اس کے درمیان چمکنے اور گرجنے والی بجلی پر غور کریں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ گرجتی اور چمکتی ہے ۔تو نہ صرف ڈر کے مارے لوگ سہم جاتے ہیں بلکہ بجلی کی چکاچوند روشنی میں ان کی بصارت بھی کام نہیں دیتی۔ اگر اس موقع پر انسان کی نظر آسمانی بجلی کی شعاعوں سے ٹکرا جائے تو آنکھوں کی بینائی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس بجلی کی کڑک سے لوگ خوف کھاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے:۔
’’او ر بجلی ا س کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی ا س کے خوف سے ۔ وہی کڑکنے والی بجلیاں بھیجتا ہے پھر انہیں جن پر چاہتا ہے گراتا ہے ،اور وہ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں جبکہ وہ بہت سخت قوت والا ہے ۔‘‘(الرعد: ۱۴)
’’سیدناابن عباسw  بیان کرتے ہیں کہ نبی كکریمe کے پاس یہودی آئے ۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! ہمیں آسمانی بجلی کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے ۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہو تے ہیں وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ جہاں اُسے اللہ تعالیٰ لے جانے کا حکم دیتا ہے ۔انہوں نے کہا ان میں جو ہم آواز سنتے ہیں وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ آواز فرشتے کے بادلوں کو ہانکنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا :آپ نے سچ فرمایا۔‘‘ [رواہ الترمذی: کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح]

اللہُ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہُ فِی السَّمَاءِ کَیْفَ یَشَاءُ وَیَجْعَلُہُ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ فَإِذَا أَصَابَ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمُبْلِسِینَ (الروم: 48۔49)

’’اللہ ‘‘ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، اللہ جس طرح چاہتا ہے بادلوں کو فضا میں پھیلاتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تو دیکھتاہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے بارش برساتا ہے تو وہ یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔ بارش برسنے سے پہلے وہ مایوس ہو چکے تھے۔‘‘
بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔ انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے ۔جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں کہ سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔سمندر کا پانی سور ج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اُٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا ہے اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر پانی نیچے گرتا ہے۔ ہوائیں بادلوں کی شکل میں لاکھوں ،کروڑوں ٹن پانی اِدھر اُدھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل کہیں جوں کا توںگر پڑے۔ بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے ۔
اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پرغور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگرایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقآب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی۔ کیا بخارات کا بنانا ، ہوائوں کا اٹھانا اور فضا میںبادلوں کو اِدھر اُدھر لیے پھرنا پھرقطروں کی صورت میںپانی برسنا اورساری فضا کو کثافت سے پاک کرنا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر درند پرند تک پانی پہنچاناکسی حکومت کے بس میں ہے؟ہرگز نہیں۔
’’سیدنا انس t بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دن اللہ کے رسولeکے ساتھ تھے ۔ بارش ہوئی تو اللہ کے رسولeنے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا ۔بارش کا پانی آپ کے جسم مبارک پر پڑا ۔ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسولe!آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ اس لیے کیاہے کیونکہ بارش اپنے رب کی طرف سے آئی ہے۔‘‘[رواہ مسلم:باب الدُّعَاء ِ فِی الاِسْتِسْقَاء]
’’سیدنا عمرو بن شعیب t بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسولِ معظم e بارش کے لیے دعا کرتے اور کہتے: اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کی برکھا برسااور مردہ زمین کو زندہ فرما دے‘‘
’’اوروہی ہے جوبارش سے پہلے ہوائوں کو خوشخبری بناکر بھیجتا ہے پھرآسمان سے پاکیزہ پانی نازل کرتا ہے ۔‘‘ (الفرقان:۴۸)
حضرات! اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ہوائوں پر اختیا رنہیں وہی ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جس سے لوگ بار ش کی آمد آمد محسوس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش کی صورت میں پاک پانی نازل کرتا ہے ،اور پھر بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان گنت چوپائے، درند،پرند، حشرات الارض اور انسان پید ا کیے ہیں وہی بارش کے ذریعے انھیں پانی پلاتا ہے ۔ اس آیت میں ’’ اَلرِّیَا حٌ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا واحدرِیْحٌہے جس کا معنیٰ ہے ہواہے۔ یہاں ہوا کی بجائے ہوائوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اسی وجہ سے موسمیات کا علم رکھنے والے سائنس دانوں نے ہوائوں کے مختلف نام رکھے ہیں اور ان کی خصوصیات کا الگ الگ ذکر کرتے ہیں۔
ہوا ایسی نعمت ہے کہ جس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ ہوا کے بغیر کوئی جاندار زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہوا ہی نباتات کے بیج ایک سے دوسرے تک منتقل کر تی ہے ۔ ہوا کے ذریعے ہی پودوں میں نر اور مادہ کا ملاپ ہوتا ہے۔ ہوا ہی پانی کو بخارات کی شکل میں آسمان کی طرف لے جاتی ہے جو بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے ۔ہوا کے ذریعے ہی بارش کا نظام چلتا ہے اور ایک خاص مقدار اور رفتار میں آسمان سے پانی زمین پر برستا ہے ۔ ہوا تیز آندھی کی شکل اختیار کر لے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ ہوا کو رنگ دار بنا دے تو روشنی کے باوجود انسان اندھوں جیسے ہو جائیں ۔ بارش کے پانی کو پاک پانی قرار دیا گیا ہے۔ زمین سے اُٹھنے والے پانی کے بخارات میں بے شک کتنی ہی کثاقت اور غلاظت کیوں نہ ہو۔ ہوا بخارات کو ہر قسم کی غلاظت اور بدبو سے پاک صاف کر دیتی ہے ۔ ہوا کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم اُٹھائی ہے۔

وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا وَ النَّاشِرَاتِ نَشْرًا فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا فَالْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا (المرسلات:1۔3)

’’قسم ہے ان ہواؤں کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں۔ پھر طوفانی رفتار اختیار کرتی ہیں۔ اور بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ پھر ان کو پھاڑ کر الگ ، الگ کرتی ہیں۔ پھر دلوں کو ’’اللہ‘‘ کی یاد دلاتی ہیں۔ عذرختم کرنے یا ڈرانے کے لیے۔‘‘
اب بارش پر غور فرمائیں کہ ان میں کتنے فوائد رکھ دیئے گئے ہیں اور زمین میں پانی کو کس طرح ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا پھر اس کو سوتوں ، چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر اس پانی کے ذریعے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں پھر کھیتیاں پک کر سُوکھ جاتی ہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ جاتی ہیں آخر کار اللہ ان کو بھُس بنا دیتا ہے ۔درحقیقت اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘ (الزمر:۲۱)
اس مقام پر ارشاد ہے کہ ’’اللہ ‘‘ آسمان سے پانی نازل کرتاہے جسے زمین کے سوتوں میں پہنچاتا اور اس سے چشمے جاری کرتاہے ۔پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں اُگاتا ہے ۔ان میں ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیںجو صرف بارش سے اگتی ہیں اور کچھ مدّت کے لیے لہلاتی ہیں اور پھر گل سڑ جاتی ہیں ۔بارش کے نزول اور اس کے ذریعے اُگنے والی مختلف قسم کی نباتات میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں۔
’’اور اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی مردگی کے بعد زندہ کر دیا ۔بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو توجہ سے سنتے ہیں ۔‘‘
(النحل:۶۵)
’’اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی، کیا پھر بھی وہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔ ‘‘ [الانبیاء:۳۰]
’’آبی چکر‘‘(واٹر سائیکل)کا تصوّر سب سے پہلے ۱۵۸۰ء میں برنارڈ پیلیسی نامی ایک سائنسدان نے پیش کیا۔اس نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی تبخیر (Evaporation)ہوتا ہے اور کس طرح وہ ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیارکرتا ہے ۔اس نے لکھا کہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں اور بلند ہوتے جاتے ہیں،ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ بارش کا پانی جھیلوں ، جھرنوں،ندیوں اور دریائوں کی شکل میںچلتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتاہے اس طرح پانی ایک چکر کاٹتاہے ۔ ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلز نامی ایک یونانی فلسفی کا کہنا ہے کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار پیدا ہوتی ہے ۔ اس پھوار کو ہوا اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کربارش کی صورت میں برسا تی ہے۔پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین پانی کا ذریعہ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوا کے دباؤ اور بوجھ کی وجہ سے سمندر کا پانی زمین کے اندرونی حصوں میں داخل ہو تا رہتا ہے۔
ارسطو کانظریہ تھا کہپہاڑوں کی سرد غاروں میں پانی کی تکثیف(Condensation)ہوتی ہے۔ پانی زیرِ زمین جھیلیں بناتا ہے جس سے چشمے پھوٹتے ہیں۔لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ بارش کا پانی زمین میں موجود دراڑوں کے راستے رِس رِ س کر زمین کے نیچے جاتا ہے اور اس سے چشمے بنتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید نے یوں بتلائی ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَکَہُ یَنَابِیعَ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُہُ (الزمر:21)

’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے ،پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر وہ اس پانی سے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتاہے جن کے مختلف رنگ ہیں۔‘‘

 وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ

’’ اس نے زمین میں ہر طرح کے جانور پھیلا دئیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسما قسم کی چیزیں اُگائیں۔‘‘ (لقمان:۱۰)
اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے یہاں ’’زَوْجٌ کَرِیْمٌ‘‘کے الفاظ استعمال فرما کر بتلایا ہے کہ جس طرح جاندار چیزوں میں نراورمادہ کی شکل میں جوڑے ہیں اسی طرح نباتات میں بھی نراورمادہوتے ہیں۔
’’اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔‘‘[ا لمؤمنون:۱۸]
’’اورہم ہی ہوائوں کو بارآور بناکر بھیجتے ہیں،پھرآسمان سے پانی برساتے اور تمہیں اس سے سیراب کرتے ہیں۔‘‘[الحجر:۲۲]
بارش کے نازل کرنے، نباتات کو اُگانے اور باغات کو لہلہانے سے ’’اللہ‘‘ کے خالق اور ’’الہ‘‘ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیااور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایاپھراس نے اس کے ذریعے سبز وشاداب باغ اُگائے جن کواُگانا تمہارے بس میں نہیں تھا۔کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ بلکہ یہ لوگ حق بات سے پھرنے والے ہیں۔ ‘‘ (النمل:۶۰)
بتائو زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ؟ کون آسمان سے بارش برساتا ہے؟ اور کون اس کے ساتھ سبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کرتا ہے؟ کیا ’’اللہ ‘‘ کے ساتھ کوئی اور بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ ہر دور کے مشرک اس حقیقت کو مانتے ہیں اور مانتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں نہ کوئی بارش برساسکتا ہے اور نہ ہی باغات اُگا سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کو ’’اللہ ‘‘ کے شریک ٹھہراتے ہیں ۔’’ یَعْدِلُوْنَ‘‘کا لفظ عدل سے نکلا ہے عدل کا معنی ہے انصاف کرنا ،کسی کو کسی کے برابر ٹھہرانا اور ظلم کرنا۔ عدل ایسا لفظ ہے جس کا معنٰی اس کے سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے۔ یہاں عدل کا معنٰی زیادتی کرنا اور کسی کو ’’اللہ ‘‘ کے برابر ٹھہرانا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کراتے ہیں۔ تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آ جائے۔ گویا کہ ربوبیت کے دلائل دینے کا مقصد اس سے الوہیت ثابت کرنا ہے ۔ ’’اللہ‘‘ کی الوہیت کو بلاشرکتِ غیر ے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کر سکتا ہے؟غور فرمائیں کہ ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی پائی جائے، جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے پھر ہوا کی ضرورت ہے نہ معلوم ایک بیج کو پودا اور درخت بننےتک کس کس چیز کی ضرورت ہے ۔بیج جب زمین میں ہوتا ہے تو ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کے سوا اسے کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی اس کی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔
بارش سے قیامت کے دن زندہ کرنے کا ثبوت:

وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ

’’ اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادل اُٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس سے زمین کو شاداب کرتے ہیں جو پہلے ویران تھی اسی طرح لوگوں کو اٹھایا جائے گا۔‘‘ (فاطر۹)
دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں اور ہوں گے جو اعتقاداً یا عملاً آخرت کا انکار کرتے ہیں ۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہو جائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جا ئے گا۔انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ سوچو اور دیکھو! کہ جب بارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور لوگ بارش کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ فصلیں ویران اورجڑی بوٹیاں گل سڑ جاتی ہیں ۔جس سے نہ صرف صحراء اوربیاباں بھیانک منظر پیش کرتے ہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے لوگ کئی ریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ شہروں کی چہل پہل پر مردگی چھا جاتی ہے۔ ایسی صورت ِحال میں اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے جو’’اللہ ‘ کے حکم سے سینکڑوں مِیلوں سے بادلوں کو اٹھا کر ایسے مقامات پر بارش برساتی ہیں جہاں کی زمین مردہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ بارش کے بعد وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ جہاں صحراء نظر آتا تھا وہاں ہریالی اور سبزہ دکھائی دیتا ہے ۔ جو ’’رب‘‘ مردہ زمین سے نباتات پیدا کرتاہے وہی قیامت کے دن اس زمین سے لوگوں کو زندہ کرے گا۔

وَہُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَیِّتٍ فَأَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِہِ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ کَذَلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتَی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (الاعراف:57)

’’اور وہی ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوش خبر ی دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب بھاری بادل اٹھالاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں ،پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے پھل پیداکرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
صرف وہی ذات کبریا ہے جو کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے اسی کے حکم سے ہوائوں اور فضائوں میں تبدیلی آتی ہے یہ اسی کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہو جائیں اور بارش آنے سے قبل اپنا سازوسامان سنبھال لیں۔گھٹا ٹوپ ہوائیں نہ معلوم بادلوں کو کہاں سے کہاں اٹھائے ہوئے ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں ۔جہاں اللہ تعالیٰ انہیں حکم صادر فرما تا ہے وہاں برستی ہے۔ اس سے اُجڑی ہوئی بستیاں تروتازہ، ویران کھیتیاں شاداب اور نہ صرف مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے بلکہ فضا مہلک جراثیم سے پاک اور درختوں کا پتہ پتہ گردوغبار سے صاف ہو جاتا ہے۔ ہر سُو سُہانا موسم ہوتا ہے جس سے روحانی اور جسمانی طور پر تسکین پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ میوہ جات سے اپنے بندوں کو لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کر تا ہے۔ پھلوں کا ذکر کرنے اور بارش سے استدلال پیش کرتے ہوئے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ سمجھایاگیا ہے کہ لوگو!غور کروکہ اگر مردہ زمین کو زندہ کیا جاسکتاہے اوراس میں مدتوں پڑے ہوئے بیج باغ وبہار کا منظر پیش کر سکتے ہیں توکیا خالقِ کل کے لیے انسان کو پید ا کرنا مشکل ہے؟ہرگز نہیں۔ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا فرمائے گا۔ اس لیے حدیثِ مبارکہ میں ذکرہے کہ قیامت سے پہلے بارش ہوگی۔
’’سیدنا ابوہریرہ  بیان کرتے ہیںکہ رسولِ محترم e نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہو گا ۔ سیدنا ابوہریرہ t سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ سیدنا ابوہریرہt نے فرمایا کہ میںیہ نہیں کہتا۔ طلبہ نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ سیدنا ابوہریرہ نے جواب دیا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ t فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیںکہتا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا ۔ لوگ یوں اُگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپe نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہو جائے گی ۔قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)دوسری روایت میں ہے۔ آپ e نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کومٹی کھا جاتی ہے۔ لیکن دمچی کو نہیں کھاتی۔ انسان اسی سے جوڑا اور پیدا کیا جائے گا ۔‘‘ [متفق علیہ]

وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ
(العنکبوت:63)

’’اے پیغمبرe اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے کون بارش برساتا ہے اور اس بارش کے ساتھ مردہ زمین کو کون زندگی عطا کرتا ہے؟ لا محالہ ان کا جواب ہو گا کہ بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ نباتات اگانے والا صرف ایک ’’اللہ ‘‘ہے۔انہیں فرمائیں کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ    ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ  (البقرہ:164)

’’بیشک زمین و آسمانوں کا پیدا کرنا، رات دن کا بدلنا ، کشتیوں کا لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیزوں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر نا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلانا، ہوائوں اورآسمان و زمین کے درمیان مسخر بادلوں کا رخ بدلنا یقینا اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ بر حق کا شریک وسہیم نہیں اور نہ ہو گا۔اگر تم عقل ودانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے بغیر نہ رہ سکو۔لیکن اتنے ٹھوس دلائل کے باوجود لوگوں کی غالب اکثریت کا عالم یہ ہے :

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِیعًا وَأَنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ الْعَذَابِ (البقرۃ:165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ دیکھ لیتے وہ بات جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنی قدرت کے آٹھ ایسے دلائل دیئے ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی ،شہری، جاہل اورتعلیم یافتہ ،عام عقل والا یا انتہائی دانشور، سیاست دان یا سائنس دان سب کے سب اپنی اپنی لیاقت اورصلاحیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر اورٹھوس دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اوروہ ان سے استفادہ کرتاہے ۔اس میںیہ بھی بتلایاگیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں ۔ جب ان آفاقی عناصر کی پیدائش اورانہیں مسخر اورمقید رکھنے میں زندہ اورمردہ باطل خدائوں،نیک و بد، حکمرانوں اورسائنس دانوںکا عمل دخل نہیں تو پھر اسی مالک کو الٰہ مانو اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑو جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے ۔
سیدنا ابو درداء  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا: ’’داؤدu دعاء مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری محبت اور تجھے چاہنے والوں کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوں۔ اے اللہ میرے دل میں اپنی محبت میرے نفس ،اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب کر دے۔‘‘(سنن ترمذی:باب جامع الدعوات)
محبت وہ فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اورحیوان میں پایا جاتا ہے۔ محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں، جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا ۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرو ۔اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا سب سے بڑا محسن ہے۔تم کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے،اگر تم جمال وکمال کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔اگر تم کسی کے اقتدار اور اختیار کی بناپر اس سے الفت کرتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اوراقتدار نہیں ہے۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک’’ اللہ تعالیٰ‘‘ہے پھراس کی خالص عبادت اور اسی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟
٭٭٭٭٭

اور جو شخص دہشت زدہ ہو وہ کس طرح اللہ تعالی کے اس فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ  فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوء

جن کو لوگوں نے کہا کہ: لوگوں نے تمہارے مقابلے کیلئے ایک بڑا لشکر جمع کر لیا ہے لہذا ان سے ڈر جاؤ تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ  ہو گیا اور کہنے لگے:ہمیں تو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے تو وہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت حاصل کر کے واپس آئے، انہیں کوئی تکلیف بھی  نہ پہنچی ۔[آل عمران:173،  174]
ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالی کی تاکیدی نصیحت ہر وقت تمہاری زندگی میں شامل حال ہو:

إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

یقین مانو کہ اللہ تعالی پرہیز گاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔ [النحل: 128]
بلاؤں کو ٹالنے اور مشکل کشائی کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں، اسی میں صدقہ اور محتاج لوگوں کی مدد بھی شامل ہے، خصوصاً شورش  زدہ علاقوں میںپھنسے ہوئے مسلمانوں کی مدد کریں، جیسے کہ حلب، موصل، یمن، برما، فلسطین اور دیگر علاقوں کے مکینوں کی مدد کریں۔
مسلمان تاجرو! تمہاری بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے ، اس ذمہ داری کو ادا کرنے پر تمہارا دینی اور دنیاوی ہر طرح کا فائدہ ہو گا، تم اپنے لیے توشۂ آخرت بناؤ، اپنے بھائیوں کی مدد کرو، تمام غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو اللہ تعالی کی جانب سے تمہارےاموال محفوظ ہوں گے تمہاری تجارت میں برکت ہو گی اسی طرح تمہاری اور تمہارے ممالک کی ہر قسم کے نقصانات سے حفاظت کی جائے گی:

إِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

بیشک اللہ کی رحمت نیک کاروں کے قریب ہے۔ [الاعراف: 56]

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے