یسُوع علیہ السلام۔ابن ِخدا۔
ا ناجیل کا تضاد اور اصل حقائق

عیسائی مذہب میں یسوُع علیہ السلام کو ’’ابن خُدا ‘‘ (خدا کا بیٹا) سمجھا جاتا ہے اور تثلیث ’’باپ ، بیٹا اور روح القدّس‘‘ کا دوسرا اقنوم(شخصّت ) قرار دیا جاتا ہے مگر اناجیل سمیت پورے عہدجدیدحتّٰی کہ پوری بائبل میں تثلیث کا نام ونشان تک نہیںملتا۔ یہ عقیدہ کس نے اور کب ایجاد کیا ؟ہمارا موضوع نہیں۔ یہاں قارئین کرام کو تثلیث کے دوسرے اقنوم ’’بیٹا‘‘کی حقیقت سے آگاہ کرنا مقصد ہے۔
پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ انا جیل میں سے کسی مخصوص موضوع پر تحقیق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ بعض واقعات کو صرف ایک انجیل نے بیان کیا ہے بعض کو دو، بعض کو تین اور بعض واقعات کو چاروں انجیلوں میں بیان کیا گیا ہے اورپھر ایک ہی واقع میںہر انجیل دوسر ی سے مختلف ہے۔جب ہر انجیل برابر معتبر سمجھی جائے تو کس کے حوالے کو فوقیّت دی جائے؟ لہٰذا اس مشکل سے نپٹنے کیلئے پہلے چاروں اناجیل کا حوالہ درج کیا جائیگا ۔ اورمذکورہ واقعہ میں تضاد کی نشاندہی کر نے کے بعد اس پر مزید بات کی جائے گی تاکہ قارئین کومذکورہ موضوع کے ساتھ ساتھ انجیلوں کے تضاد کا علم بھی ہوتا جائے۔ اس سے قارئین کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ یسوع علیہ السلام کو زبردستی کس طرح خُدا کا بیٹا قرار دیا گیا؟۔یا درہے طوالت کے اندیشہ کے پیشِ نظر فرداً فرداًبیان کئے گئے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف معروف اور بڑے واقعات کو درج کیا گیا ہے جسے کم ازکم دو انجیلوں میں بیان کیا گیاہے۔

پیدائش کی بشارت :

1۔انجئل متّی
خداوند کے فرشتہ نے ا سے خواب میں د کھائی دیکر کہا: اے یوسف ا بن دا ؤد ا پنی بیوی مریم کو ا پنے ہاں لے آنے سے نہ ڈ ر کیونکہ جو کچھ اسکے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قد رت سے ہے:اسکے بیٹا ہوگا اور تو ا س کا نام یسوع رکھنا ۔کیونکہ وہی ا پنے لوگوں کو گناہوں سے پاک کریگا۔(جلدنمبر1/صفحہ نمبر:20)
انجیل لوقا فرشتہ نے اس سے کہا:اے مریم خوف نہ کر کیونکہ خداوند کا تجھ پر فضل ہو اہے:د یکھ تو حاملہ ہو گی اور تیر ے بیٹا ہوگا:ا سکا نام یسوع رکھنا:وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگاا ور خدا وند اسے اس کے باپ دا ؤد کا تخت اسے دیگا۔
تضاد: متّی کی انجیل کیمطابق فرشتے نے بیٹے کی پیدائش کی بشارت یوسف علیہ السلام کو دی جبکہ لوقاکے مطابق سیدہ مریم علیہا السلام کو بشارت دی گئی۔
متّی کیمطابق تو بیٹے کی پیدائش روح القدس کی قدرت سے تھی اور لوقا کیمطابق خدا کا فضل تھا۔
اسی طرح متّی کیمطابق بچے کا نام رکھنے کا یوسف علیہ السلام کو کہا گیا جبکہ لوقا کیمطابق بچے کا نام رکھنے کے لئے سیدہ مریم علیہا السلام کو کہا گیا۔
متّی نے کہا کہ وہ بزرگ ہوگا اور اپنی قوم کو گناہوں سے پاک کریگا۔
لوقانے بتا یا ہے کہ وہ خدا وند کا بیٹا کہلائے گا اور دائود  علیہ السلام  کے تخت پر بھی بیٹھے گا۔
دو متضاد رائے میں سے یقینا ایک ہی درست ہو سکتی ہے
مگر یہاں پر دونوں ہی جھوٹے قرار پاتے ہیں۔
تجزیہ:عیسائی علماء کیمطابق اگر ہر انجیل الہام کے ذریعے لکھی گئی ہے تو دونوں کو ایک سا الہام ہوتا چاھئے تھا۔جیسا کہ عیسائی علماء ان تضادات سے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ الہام واقعات کا ہو ا تھا مگر الفاظ ہر مصّنف کے اپنے ہیں۔اس دلیل کے مطابق اگر تمام واقعات الہامی ہوتے تو الفاظ بیشک مختلف ہوتے مگر مفہوم ایک ہونا چاہئے تھا ۔لیکن یہاںتومعاملہ ہی الٹ ہے۔یعنی شخصیت بھی جدا اور بشارت بھی مختلف ۔ دونوں بشارتوں کا نتیجہ کیا نکلا؟
لوقا کے کہنے کے مطابق سیدنایسوع علیہ السلام کو دائود علیہ السلام  کے تخت پر بیٹھنے کا موقعہ ملا اور نہ متّی کے مطابق انہوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو گناہوں سے پاک کیا ۔ بلکہ الٹا انہی کی شازشوں کا شکار ہو کر انہیں جہنم کی بشارت سنا گئے۔ دو ہزار سال گزر جانے کے باوجو د ان کی اپنی قوم اہل یہود نے آپ کو نبی ہی تسلیم نہیں کیا ۔اسی طرح متّی کے مطابق تو ’’ وہ بزرگ ہوگا‘‘ مگر لوقا نے لکھا ہے کہ ’’وہ خُدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگا‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ خُدا کا بیٹا ہونا الگ بات ہے اور کہلانا دوسری بات ہے کیونکہ ہونے اور کہلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بہرحال اگر لوقا کے مطابق خُدا کا بیٹا کہلانے کی بشارت الہامی ہوتی تو متّی کو بھی یہی الہام ہوتا اور وہ بھی لوقا کے مطابق ہی بیان کرتا۔ جس سے ثابت ہوا کہ دونوں ہی نے سنی سنائی روایات بیان کی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ دونوں ہی کی بیان کی ہوئی بشارتیں پوری نہیں ہوئیں۔ بفرض محال لوقا کی بشارت کو مان بھی لیا جائے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ بشارت کا ایک حصّہ جھوٹا ثابت ہو اور دوسرے کو الہامی اورسچا سمجھاجائے؟ اس کے مطابق جب یسوع علیہ السلام کو اپنے باپ داؤد علیہ السلام کا تخت نہیں ملا تو خُدا کا بیٹا ہونا کس طرح الہامی اور درست ہو سکتاہے؟

آسمان سے آوا ز :

2۔انجیل متّی(ج3/ص:16-7 )’’د یکھو آسمان اس کے لئے کھل گیا اور ا س نے خدا وند کے روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر ا ٓتے ا ور ٹھہرتے د یکھا اور د یکھو آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔‘‘
تضاد: اس واقعہ کو مرقس نے اپنی انجیل (1/9) لوقا نے (3/22)اور یوحنا نے (1/32)میں بیان کیا ہے۔مرقس اور لوقا کے الفاظ ذرا مختلف ہیں مگر مفہوم ایک ہی ہے متّی کے مطابق “یہ میرا بیٹا پیارا بیٹا ” اور لوقا نے “تو میرا پیارا بیٹا ” لکھا جو اسلام کے مطابق تو بہت بڑا فرق ہے مگر  عیسائیت میںاکثر واقعات میں زمین و آسمان کے فرق کی وجہ سے اس فرق کو بھی معمولی کہا جاتا ہے اسلئے اتنے فرق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ متّی کے الفاظ کے مطابق تو آواز بلا واسطہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام سے مخاطب ہے جبکہ مرقس اور لوقا کے مطابق عیسٰی علیہ السلام کی بجائے لوگوں سے مخاطب ہے۔ جبکہ یوحنا ان تینوں سے ہی مختلف ہے اسلئے اس پر بعد میں گفتگو ہوگی۔پہلے ان تینوں اناجیل کے حوالے کا جائزہ پیش ِ خدمت ہے۔
تجزیہ:اس امر میں مسلمانوں اور اہل کتا ب عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ خالق کائنات نے بنی نوع انسان تک اپنے احکامات پہنچانے کے لئے انبیاء ورسل معبوث فرمائے۔اگر گنہگار انسانوں میں اپنے خالق کی آواز سننے اور اسے برداشت کرنے کی طاقت ہوتی تو انبیاء کرام کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی ۔خالق انسانیت نے کبھی بلاواسطہ آسمان سے نہ تو کوئی حکم دیا اور نہ آواز دے کر اپنے کسی نبی کی تصدیق فرمائی۔ بلکہ آسمان سے کھبی کسی آوازنے انسان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تو وہ شیطان ہے۔اس طرح کے کئی واقعات ملتے ہیں کہ کسی نیک اور عابد اور زاہد کو اس کا خالق بن کر بہکانے کی کوشش کی ۔
اب ذرا اس واقعے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں۔مذکورہ واقعے میں روح القدّس تو کبوتر کی شکل میں یسوع علیہ السلام کے کندھے پرہے۔ انجیل کے الفاظ  ’’یہ میرا‘‘یا تومیرا‘‘ سے ظاہر ہے کہ یہ آواز روح القدّس کی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی اپنی ذاتی آواز ہے۔ آدم علیہ السلام سے لیکر یسوع علیہ السلام تک لاتعداد انبیاء کرام معبوث ہوئے ۔ اگر عام انسانوں کو اسطرح حکم صادر فرمانا اللہ تعالیٰ کی سنّت ہوتی اورانسانوں میں اپنے خالق کی ہیبت و جلال کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر معبوث فرمانے کی بجائے آسمان سے ہر حکم صادر فرما دیا جاتا۔عام انسان تو دور کی بات ہے سیّدناموسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اللہ نے اپنے نبیوں سے بھی بلاواسطہ گفتگو نہیںفرمائی بلکہ روح القدّس کی وساطت سے اپنے احکامات پہنچائے۔ اللہ کے بے شمار انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا گیا بعض پر انتہائی ظلم کیا گیا اور بعض کو شہید کر دیا گیا۔ چلو عام انسانوں کو نہ سہی اپنے پیغمبر ہی کی صداقت کی گواہی دے دی جایا کرتی ۔ مگر ایسا کرنا نہ خالق کائنات کی شان ہے نہ گنہگار مخلوق میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے خالق کی آواز ان گنہگار کانوں سے سننے کی طاقت رکھتی ہو ۔بفرض محال اگر اللہ تعالیٰ اس طرح عام لوگوں کو حکم صادر فرماتے تو انکار کرنے والوں کو فوراً سزا کے طور پر نابود کردیا جاتا۔لہٰذا اناجیل کا یہ واقعہ خلاف عقل ، خلاف حقائق اور خلاف سنّت اور من گھڑٹ ہے ۔
تاہم اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ آواز سنی گئی تھی اور سب کچھ ممکن اور درست ہے ۔ تو پھر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کہ آواز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بولنے والاکون ہے۔ یعنی نہ بولنے والے نے اپنا تعارف کروایا نہ یسوع علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے۔توپھر سننے والوں کو کیسے پتہ چلا کہ کون کس کا بیٹا ہے؟ آواز اور مخاطب دونوں ہی گمنام ہیں۔ فرض کریں یہی آواز آج آپ سنتے ہیں تو کیا کہیں گے ؟ اگر اس طرح کی آواز پر کوئی حتمی فیصلہ لیا جاسکتا تو بتایئے؟واضح ہو کہ ایسی بے سروپا روایات پر اتنا بڑا عقیدہ اپنا لینا کسی باہوش انسان کا کام نہیں جو جانتا ہے کہ ایک دن اپنے خالق کے سامنے پیش ہونا ہے ۔اور یہ کوئی معمولی لغزش نہیںکہ توبہ کیئے بغیر اور اللہ کے آخری نبی پر ایمان لائے بغیر معاف کردی جائے ۔جس کی ہزاروں احادیث مبارکہ میں کوئی تعارض ہے نہ اس کے لائے ہوئے قرآن میں معمولی سا بھی اختلاف ہے ۔ اس پر بھی بے سرو پا اعتراض کرنے والے کو ڈرنا چاہئے ۔ کیونکہ کافر کیلئے دوزخ کوئی دور نہیں ۔ مرتے ہی عذاب شروع ہو جاتا ہے ۔ہر انسان سے سوال ہوگا اور ہر انسان اپنی عقل اور علم کے مطابق اپنے عقائد کا ذمّہ دار ہوگا۔
اب دیکھئے اسی واقعہ کایوحنّا کو کیا الہام ہوا؟
انجیل یوحنا1/32: اور یوحنا نے یہ گوا ہی دی ہے کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح ا ترتے د یکھا ہے اور وہ اس پر ٹھہر گیا ا ور میں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ د ینے کو بھیجا ا سی نے مجھ کو کہا کہ جس پر تو روح کو ا ترتے اورٹھہرتے د یکھے وہی روح ا لقد س سے بپتسمہ د ینے والا ہے:چنانچہ میں نے د یکھا اور گوا ہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے‘‘
نوٹ :انجیل لکھنے والا یوحنا حضرت یوحنّا اصطباغی یا یوحنّا بپتسمہ دینے والے یعنی حضرت یحیٰ علیہ السلام کی گواہی درج کر رہا ہے۔
یوحنا کے مطابق حضرت یحیٰ علیہ السلام سے تو فرمایا گیاکہ جس پر تو رو ح کو اترتے دیکھے وہ روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہوگا۔ اب انہیں گواہی بھی یہ دینی چاہیئے تھی کہ یہ روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے ۔ مگر ان سے اس کی بجائے خدا کا بیٹا ہونے کی گواہی دلوائی جارہی ہے۔اب اگر صاحب انجیل کی بات کو سچ مان لیا جائے تو ایک پیغمبر پر بہتان لازم آتاہے جوکہ کسی صورت میں بھی ممکن نہیںکہ ایک نبی اللہ کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کرے ۔ مگر انجیل کے مصنّف نے اپنی بات کو تقویّت دینے کیلئے اللہ کے پیغمبر سیدنا یحی علیہ السلام کی زبان مبارک سے گواہی دلوائی ہے اس کی نہ صرف کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایک پیغمبر پربہتان ہے کہ اس نے خیانت کرتے ہوئے اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے خلاف گواہی دی۔جو کسی بھی صاحب عقل انسان کو چونکادینے کیلئے بہت بڑی بات ہے ۔ چہ جائیکہ اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جائے ۔
اللّٰہ کے پیغمبر کی بلامقصد آزمائش اورابلیس کایسوع علیہ السلام کو خُدا کابیٹا قرار دینا:
3۔انجیل متّٰی4/2: چالیس د ن اور چالیس را ت فاقہ کرکے آخر کو ا سے بھوک لگی:آزمانے وا لے (ا بلیس) نے پاس آکر ا س سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔۔پھر ا بلیس اسے مقد س شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا :ا گر تو خدا کا بیٹا ہے تو ا پنے تئیں نیچے گرا دے ۔
موازنہ: یہی واقعہ مرقس (1/12)اور لوقا میں (4/1) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ لوقا کے الفاظ ہیں؛
’’روح القد س نے ا سے بیابا ن میں بھیج د یا ،وہ جنگلی  جانوروں کے سا تھ رہا ا ور فرشتے اس کی خدمت کرتے تھے۔
تجزیہ: ’’اگر‘‘ کالفظ یعنی ا گر تو خدا کا بیٹا ہے ؟کے الفاظ سے ظاہرہوتا ہے جیسے عیسٰی علیہ السلام نے خدا کا بیٹا ہونے کا دعوٰی کر رکھا تھایا عہد عقیق میں آپ کے خُدا کا بیٹا ہونے کی بشارتیںموجود ہیں۔ ورنہ اسطرح استفہامیہ انداز میں پوچھنے کا کوئی جواز نہیںبلکہ خواہ مخواہ کا ایک تکلف محسوس ہوتاہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کہ عہد عتیق میں مسیح کے بارے میں ہے کہ وہ خُدا کا بیٹا ہوگا نہ خود یسوع علیہ السلام نے دعویٰ کیا ۔ بلکہ آپ علیہ السلام نے اپنے لئے ابنِ آدم کا لقب اختیار فرمایا۔تاہم مذکورہ واقعہ سچ ہے یا جھوٹ الفاظ شیطان کے ہیں نہ کہ روح القدس کے ۔پھر یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیطان کا مشن ہی احکام خدا وندی کو بگاڑ کر انسان کو گمراہ کرنا ہے۔تعجب تو اس بات پر ہے کہ میرے عیسائی بھائی کے اناجیل کے اس طرح کے متضاد بیانات اور شیطان کی زبان سے کہلوائے گئے الفاظ پر ہی اتنا بڑا عقیدہ اپنائے ہوئے ہیںجو عہد عتیق کی بشارتوں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے بھی منافی ہے اور انسانی ذہن کو بھی مطمعن نہیں کر پاتا۔ اس کے علاوہ  مذکورواقعہ کے ضمن میںہر صاحب عقل و شعورانسان کے ذہن میں اور بھی بہت سے سوال گردش کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں۔مثلاً یہ کہ؛
1۔اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر کو دنیا میں ملاز مت کے امیدوار کی طرح آزمانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
2۔ اگر کوئی ایوبعلیہ السلام کی مثا ل دے تو ان کے بارے میں تو شیطان نے چیلنج کیا تھا ۔یسوع علیہ السلام کی آزمائش کی کیا وجہ تھی؟
3۔کیا شیطان جیسے دشمن کی آزمائش محض سوال و جواب تک ہی محدود تھی جبکہ ایوب علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کی مال و اولاد کی تباہی کے بعد ان کے بدن میںکیڑے تک پڑ گئے تھے؟
اس کے علاوہ موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی کئی سوال ہیں ۔ مثلاًیہ کہ کسی انسان کا چالیس دن تک بغیر کھائے پیئے چلنے پھرنے کے قابل رہنا؟اور ایک انسان کا بطور خاص کسی پیغمبر کا ناپاک اور وحشی درندوں کے ساتھ دن رات گزارنااور پھر پاک رہنا ناممکن ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔لیکن ایسے سوالات سے مسلمانوں کو کوئی دلچسپی یا سرو کار نہیں ۔ غرض ہے تو بس اس بات سے کہ یہاں سیدنا یسوع علیہ السلام کو خدا کا بیٹا روح القدس نے نہیںبلکہ شیطان نے کہا ہے ۔ جس کے کہنے کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کے الٹ مطلب لینے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عیسیٰ روح اللہ کے شیطان کو دئے گئے جوابات جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگاخود کو انسان قرار دیا۔دوسرے سوال کا جواب کہ خداوند ا پنے خدا کی آزما ئش نہ کر عام بحیثیّت انسان خُدا کو آزمانے سے انکار کردیا۔اسی طرح تیسرا سوال جس میںشیطان نے خود کو سجدہ کرنے پر بادشاہت دینے کا لالچ دیا تو یسوع علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ’’اے شیطان د و ر ہو کیونکہ لکھا ہے کہ خدا و ند ا پنے خدا ہی کو سجد ہ کر ا و ر صرف ا سی کی عباد ت کر” انسان اور پیغمبرکے جواب ہیں یا بیٹے کے؟ مگر اناجیل میںتو یسوع علیہ السلام کے اس فرمان کے برعکسخود یسوع علیہ السلام کوبعض جگہ خودکو سجدہ کرواتے دکھایا گیا ہے۔افسوس ایسے لوگوں پر جوبلا دلیل روایات پر فانی دنیا کے فوائد کی خاطر نہ صرف خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے پیروکاروں کا بوجھ بھی اٹھانے والے ہیں۔ جبکہ ان کے ماننے والوں کے عذاب میں بھی کمی نہ ہوگی۔
4۔بدروحوں کا یسوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹا قرار دینا:
اجیل متّٰی8/28:جب وہ اس پار گدرینیوں کے ملک میں پہنچا تو دو آدمی جن میں بدروحیں تھیں قبروں سے نکل کر اسے ملیں۔ انہوں نے چلا کر کہا ؛اے خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام؟
انجیل لوقا8/27:پھر وہ گرا سینیوں کے علاقہ میں پہنچے ۔ توا یک مرد ا سے ملا جس میں بدروحیں تھیں:وہ چلایا اور اس کے سامنے بلند آوا ز سے کہنے لگا:اے خدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام؟
تضاد:متّی کےمطابق ’’گد رینیوںکے ملک میںپہنچا لیکن لوقا کیمطابق’’ گرا سینیوںکے علاقہ میںپہنچے‘‘ اس طرح متّی نے بتایا ہے کہ دو آدمی تھے جبکہ لوقا نے کہا ایک مرد تھا۔متّی کے مطابق ’’قبروںسے نکلے‘‘ اور لوقا کے مطابق’’ شہر کا آدمی‘‘ تھا۔اب کون چشم دید گواہ ہے یا کس کا راوی چشم دید گواہ ہے یا کس کو درست الہام ہوا ؟ اس کا جواب تو علماء بائبل ہی دے سکتے ہیں۔
تجزیہ: یاد رہے کہ بدروح محض ایک افسانوی اصطلاح ہے ۔جو فلموں اور کہانیوں میں صرف بچوں کے ذہنوں میں سنسنی پیدا کرنے کے استعمال کی جاتی ہے۔جس کا عملی زندگی میں کوئی وجود یاکردار نہیں۔ معنوی اعتبار سے بد روح اس کو کہتے ہیں جو رحمٰن کا راستہ چھوڑ کر شیطان کی پیروبن جائے۔بائبل کے مطابق اسطرح کی گنہگار روحوں کو قیامت تک کے لئے تنگ و تاریک غار میں قید کر دیا جاتا ہے۔اگر چوراس دنیا میں قید یاحوالات میں بند ہو تو باہر چوری یا ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قید کی ہوئی روح آزاد بھی پھرے اور انسانوں کو ستاتی بھی پھرے ؟کیا یہ ممکن ہے ؟یقینا نہیں۔
اس سارے تضاد کو ایک طرف رکھ دیں۔اب دیکھیں کہ یسوع علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کس نے کہا؟ فرض کریں بدروح ایک حقیقت ہے سوال یہ ہے کہ ایک بدروح کے الفاظ حجت ہو سکتےہیں؟اگر حوالے کے متن کو مدِنظر رکھ کر غور کریں تو اس طرح ممکن ہی نہیں کہ نہ یسوع علیہ السلام نےخُدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا نہ کتاب مقدّس میں اسطرح کی کوئی پیشگوئی ہے کہ مسیح خُدا کا بیٹا ہوگا۔ پھر بدروح خواہ مخواہ کس طرح بلاوجہ و بلامقصد یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمیںمعلوم ہیں تو خُدا کا بیٹا ہے؟یہ توایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی مجرم جانتے ہوئے بھی تھانیدار سے کہے کہ مجھے پتہ ہے تو تھانیدار ہے؟دراصل یہ خواہ مخواہ یسوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹاثابت کرنے کی کوشش ہے ۔ مگرکسی نے یہ نہ سوچا کہ ہماری دلیل معتبر بھی ہے یا بھونڈی ؟
قادرمطلق خُدا جھوٹ کو معتبر بننے ہی نہیں دیتا ۔ تاکہ غیر جانبدار اورصاحب عقل انسان کیلئے حق کو پہچاننے میں رکاوٹ نہ بن سکے ۔ اگر میرے عیسائی بھائی میری اس رائے کو جانبداری سمجھیں تو سوال ہے کہ کیا دنیا کے معاملات میںبھی اسطرح کی متضاد اور بھونڈی دلیل کو قبول کرتے ہیں؟ یقینا نہیں ۔ تو پھر کیا دین ہی اتنی عام اور معمولی چیز ہے کہ دنیا کے معاملے میں تو آٹے سے بال نکالیں اور جس پر ہمیشہ سز ا یا جزا کا دارومدار ہے اس کے بارے میں آنکھیں بند کر کے ساری زندگی برباد کردی جائے ؟ کیا آپ کا بوجھ آپ کے فادر اُٹھائینگے ؟یقینا ہر انسان اپنے اعمال کا ذمّہ دار ہے ۔ اگر اللہ کا ڈر اور جہنّم کی آگ کی برداشت ہے تو بے شک سوتے رہیئے۔ورنہ یا رکھیں آنکھیں بند ہوئیں تو سارا چانس ختم اور ہمیشہ کی جہنّم ۔ کیونکہ زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے دوبارہ موقعہ نہیںدیا جاتا۔
5۔نورانی بادل سے آواز :
انجیل متٰی17/5: اور د یکھو ایک نورا نی بادل نے ان پر سایہ کر لیا اور ا س بادل سے آوا زآ ئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ؛ ا س کی سنو‘‘
موا زنہ:یہ واقعہ ا نجیل مرقس (9/8)اور لوقا(9/36) میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان کا ا نجیل متّی سے اتنا فرق ہے کہ انہوںنے “جس سے میں خوش ہوں” نہیں لکھا ۔’’ اس کی سنو‘‘ پر سب متفق ہیں ۔
تجزیہ: مذکورہ واقعہ بھی آسمان سے آنے والی آوازکی طرح (جو روح کے کبوتر کی ماننداترتے وقت آئی تھی) ذرا فرق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کا تجزیہ بھی وہی ہے جو نمبر 3کے تحت گزر چکا ہے:لیکن اس واقعہ کی جزئیات کے ضمن میں چند سوالات جواب طلب ہیں: مثلاًیہ کہ اس حوالہ کے متن کے مطابق جب یہ آواز آئی تو اس وقت یسوع علیہ السلام کے ساتھ ان کے تین جانثار شاگرد موجود حضرت پطرس تھے جن کا رتبہ یسوع علیہ السلام کے بعد سب سے بلند تھاجس طرح اسلام میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام ہے: باقی دو حضرات یعقوب علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت یوحنا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا یسوع علیہ السلام نے باقی ماندہ گیارہ میںسے صرف ان دو کو اپنے ساتھ لیا:پہلے واقعہ کی طرح یہ آواز کس نے دی ؟ اس کے ایک طرف رکھیں اور موجودہ صورت حال کے مطابق سوالوں کے جواب تلاش کریں۔مثلاً یہ کہ
1۔ اس کی سنو: کا حکم وہاں موجود لوگوں کے لئے تھا ؟ یا تمام لوگوں کے لئے؟ اور کیا یہ آواز موجود لوگوں نے سنی یا ساری دنیا میں سنائی دی ؟
اگر کوئی کہے کہ یہ آواز صرف وہاں پر موجود لوگوں نے سنی اور یہ حکم موجود لوگوںکے لئے تھا:تو سوال ہے کہ یسوع علیہ السلام کے ساتھ تو پہلے ہی نہ صرف آپ علیہ السلام  کی سننے اور ماننے والے تھے بلکہ انہوں نے توآپ علیہ السلام کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کرساتھ ہو گئے تھے : اور آپ علیہ السلام کا ہر حکم سرآنکھوں پر سمجھتے تھے :پھر انہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی زبان سے اس کی سنوکا حکم دینے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟
اور اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ حکم ان کو نہیں بلکہ باقی تمام لوگوں کو تھا تو ظاہر ہے کہ یہ آواز پوری دنیا میںیاکم از کم پورے ملک میںسنی گئی ہوگی؟
تو سوال ہے کہ جو لوگ موقعہ پر موجود نہ تھے ان کو کیسے پتہ چلا کہ کون کس کا بیٹا ہے ؟کیونکہ نہ تو آواز دینے والے نے اپنا تعارف کروایا اور نہ یسوع علیہ السلام کا نام ہی لیا۔ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں جو ااس بات کی گواہی ہے کہ ان واقعات میں کوئی حقیقت نہیں۔ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان واقعات کا نہ کوئی چشم دید گواہ ہے نہ یہ واقعات چشم دید گواہوں کی روایات پر مبنی ہیں۔ چہ جائیکہ ان کو حواری کی تحریر قراردیا جائے ۔ اگر حقائق کا غیرجانبدراانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سید نا یسوع علیہ السلام کے بارے میں جو روایات مشہور تھیں سب سینہ بسینہ تھیں ایک مدّت کے بعد ہر ایک نے انہیںجس طرح سنااسے اپنے انداز اور مرضی کے مطابق بیان کر کے کتابی صورت میں جمع کر کے انہی کو انجیل کا نام دے دیا گیا۔ وہ بھی ایک نہیں بلکہ ستر ہے جن میں چار کا انتخاب کر کے اسے بائبل کا حصّہ بنا دیا گیا۔ بہرحال اگریہ بات سچ مان لی جائے کہ آسمان سے اللہ تعالیٰ نے ہی یسوع علیہ السلام کے بیٹا ہونے اور ان کی سننے کا حکم دیا تھا تو پھر انبیاء علیہم السلام کو اپنی نبوت کی صداقت کے لئے معجزات عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہر پیغمبر کو بھیج کر اللہ تعالیٰ آسمان سے آواز دے دیتے کہ اس کو میں نے بھیجا ہے اس کی سنو ۔ کسی بھی صاحب عقل کے لئے فطرت اور حقائق دونوںکے خلاف روایات سے انکار کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے