قابل احترام قارئین کرام :

الحاد : یہ ایک عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کا مادہ( ل ح د) ہے جس کا معنی مڑ جانا اور چلتے چلتے کسی مخالف سمت رخ کرلینا اور اصطلاحی طو رپر المیل عن الحق حق سے مڑ جانا حق سے انحراف اختیا ر کرلینا الحاد کہلاتاہے ۔جس طرح ایک مخصوص قبر لحد کہلاتی ہے یعنی قبر کھود تے جائیں پھر دائیں یا بائیں جانب اسے کھودنا شروع کردیں تو قبر لحد والی کہلاتی ہیں تو اس میں بھی ایک طرح کا مڑ نا اور پھر جانا پایاجا تا ہے اسی طرح حق سے پھرنا اورحق سے مڑنا اور حق سے مڑ کر دوسرا راستہ اختیا ر کرلینا یہ الحاد کہلا تا ہے۔
الحاد استقامت کے مقابل اور اس کا مخالف ہے۔کیونکہ استقامت اپنے آپ کو سیدھا رکھنااور سیدھا کرلینے کا نا م ہے اور استقامت میں مستقل اطاعت کی طرف اشارہ ہے یعنی استقامت ایسی شی ٔ ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو سیدھا رکھتا ہے اوراستقامت میں اطاعت کا تسلسل دوام اور لگاتار ہونا پایا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں الحاد یہ ہے کہ بندہ استقامت کی راہ سے پھر اور مڑ جائے اور انحراف اختیار کرلے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پرایک سیدھا خط کھینچا اور دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے تھے اور جو سیدھا خط آپ ﷺ نے کھینچا تھا اسی کے بارہ میں فرمایا تھا ھذا سبیل اللہیہ اللہ کا راستہ ہے جو کہ بالکل سیدھا ہے اور جو دائیں بائیں خطوط ہیں انکے بارہ میں فرمایا کہ یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور جو سیدھے راستے سے پھر جاتا ہے اور مڑ جاتا ہے انحراف اختیار کرلیتا ہے وہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتاہے اور پھر وہ جو سبیل شیطان اختیار کرلیتا ہے یہ الحاد کی شرعی حقیقت ہے شرعی اعتبار سے ایک بندہ اللہ کی وحی کا راستہ منتخب کرلے اور اس پر چلنا شروع کردے تو یہ استقامت اور حق کا راستہ ہے اور اگر دائیں بائیں جاتاہے تو گویا وہ الحاد کا راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے ، انحراف کا راستہ اختیا ر کر بیٹھتا ہے جو کہ استقامت اوراطاعت وحق کے خلاف ہے اللہ رب العزت صرف دین اسلام ہی قبول فرماتا ہے

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:153)

اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ۔
حق کا راستہ دکھانے کے لیے وحی موجود ہے نبی کریم ﷺکی تعلیمات موجود ہیں اور کتاب وسنت کی صورت میں اللہ تعالی کی وحی موجود ہے جس کے ساتھ چمٹے رہنا استقامت ، ہدایت ، صراط مستقیم ہے اور ان کو چھوڑ کر دائیں بائیں جانب جانا الحاد ہے ۔
الحاد چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی ہو تا ہے کچھ الحاد وہ ہے جن کا تعلق عقیدے سے ہے اور کچھ وہ ہے جن کا تعلق عمل سے ہے۔چاہے جس سے بھی متعلقہ ہو حق سے روگردانی کرنا الحاد ہے ۔
الحاد کی سب سے قبیح شکل وہ یہ کہ ایک بندہ اپنی عقل کو نقل پر مقد م کرےاپنی عقل کی حکمرانی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ حکمرانی اللہ کی وحی کی نہ ہو یعنی قرآن وسنت کے مقابلے میں اپنی عقل کی بات کرنا اپنی عقل کو پیش کرنا یہ الحاد کی بد ترین شکل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی وحی سے دوری اور عقل کی ترجمانی سراسر گمراہی کا راستہ ہے وحی الٰہی کا راستہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کا راستہ ہے خیرو برکت ہے، اللہ کا نور ہے جب کہ اس کے مقابلے میں انسان کی ذاتی خواہش ،ذاتی عقل ،ذاتی رائے یہ ظلمات ہیں ،تاریکیاں ہیں ،انسان ان تاریکیوں میں بھٹکتا ہے اور کبھی اسے حق دکھائی نہیں دیتا لہٰذا ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی وحی کے راستے کا انتخاب کرےاور اسی پر گامزن رہے اور اسی پر جیتا رہے یہ خیر وبرکت اور ہدایت کا راستہ ہے ۔

الحاد کی کچھ صورتیں :

قرآن کریم نے تین چیزوں کو الحاد کہا ہے ایک الحاد وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالی کی آیات سے ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (فصلت:40)

بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات بینات میں کتاب وسنت میں الحاد کا شکار ہیں ،وہ ہم سے مخفی نہیں ہے ہم ایک ایک سے نمٹ لیں گے اسے کیے دھرے کی سزا دیں گے نہ ہم سے پوشیدہ ہیں نہ ہم سے کہیں بھاگ سکتے ہیں اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا

وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (الصافات:24)

روک لو ان سب کو ان سب سے باتیں ہوں گی ان سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سوال ہوںگے ۔
آیات مبارکہ میں الحاد کیا ہے آیات کو ناماننا اسکی تاویلیں کرنا اور جو اللہ کی اصل مراد ہے اس مراد سے غفلت برتنا،ان فتنوں کے ذریعے لوگوں کو بھی اللہ تعالی کی آیات سے دور کرنے کی کوشش کرنا عمل نہ کرنا آیات کے مقابلے میں عقل اور رائے کو مقدم کرنا ایسے قوانین تراشنا،جن قواعد سے اللہ تعالی کی آیات کو ٹالنا مقصود ہو اور ایسی ایسی تاویلیں کرناجو نہ قواعد کے مطابق ہوں اور نہ اصولوں کے مطابق ہو ۔
مجھے یادآرہا ہے کہ کراچی میں ایک صاحب تھے آجکل وہ کسی ہال میں تسبیح کی نماز کی جماعت کرواتے ہیں کسی دور میں جماعتیں لیکر نکلا کرتے تھے انہوں نے خواتین کے حقوق سے متعلق ایک رسالہ لکھا ان کا موقف تھا کہ شوہر اپنی بیوی کو مار نہیں سکتا جبکہ قرآن میں ہے ’’واضربوھن‘‘ آپ ہلکی مارپیٹ کر سکتے ہو تو اس آیت کا کیا کرو گے یہاں اللہ تعالیٰ نے کچھ مرحلے رکھے ہیں وہ شقاق (جھگڑے) کی شکل بن جائے ، میاں بیوی میں تو حکم کھڑے کرو، صلح کی بات کرو ، ہلکی پھلکی سرزنش کرسکتے ہو بستر جدا کرسکتے ہو ، ان کا موقف تھا کہ مار نہیں سکتا تو ’’واضربوھن‘‘ کی کیا تاویل کروگے بڑی مضحکہ خیز بات کی، قرآن میں یہ ’’فاضربوا یا اضربوا‘‘ وغیرہ چلنے کے معنی میں بھی آتا ہے ’’فاضربوا فی الارض ‘‘ زمین میں چلو پھرو اس میں چلنے پھرنے کا معنی ہے اگر کوئی غصہ ہوجائے شقاق ہوجائے تو ان کو الگ کر دیں ان کو دوربھیج دو۔
اس قسم کی تاویلیں الحاد ہے۔ علماء کرام جانتےہیں کیا یہ معنی درست ہے؟ ضرب یضرب اگر اپنے معمول کی طرف صلہ کے بغیر منسوب ہو تو کس معنی میں ہوگا اور فی کے صلہ کے ساتھ ہو تو کس معنی میں ہوگا؟ یہ قاعدے کے موقع کی بات ہے اس میں کسی بحث وتمحیص کی ضرورت نہیں ، ایک ہے ضرب اور ایک ضربہ فیہ،ضرب فی.  کا معنی چلنا اور ضربہ کا معنی مارنا تو وہاں ’’واضربوھن‘‘ ہے یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز تاویل ایک بالکل خلاف قواعد فطرت واصول ہے جیسا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتے ہیں قرآن میں تو صاف ہے۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22۔23)

اس دن بہت سے چہرے اللہ تعالیٰ کے چہرہ کا دیدار کریں گے لیکن کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ اہل بدعت ہیں یہ الگ کہانی ہے یہ کون لوگ ہیں یہ کیوں کرتے ہیں مگر وہ قیامت کے روز اللہ کی زیارت اور چہرے کے دیدار کا انکار کرتے ہیں جو قرآن میں ہے

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22۔23)

کہ اس دن چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کا دیدار کریں گے نص صریح موجود ہے لیکن پھر بھی وہ تاویل باطل کرتے ہیں کہ یہاں ناظرہ بمعنی منتظرہ ہے ناظرہ دیکھنے کے معنی میں نہیں بلکہ انتظار کے معنی میں ہے اپنے رب کا انتظار کریں گے یہاں بھی وہی بات ہے ایک ہے نظرہ اور ایک نظر إلیہ ، نظر إلیہ ہمیشہ دیکھنے کے معنی میں آتا ہے اور نظرہ انتظار کے معنی میں آسکتاہے لیکن نظر إلیہ ہمیشہ دیکھنے کے معنی میں آتا ہے تو یہاں ’’إلی ربھاناظرۃ‘‘ ہے إلی کا صلہ موجود ہے لہٰذا دوسرا معنی بن ہی نہیں سکتا تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم قرآن حدیث کی بات کرتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے الحاد کا شکار ہیں جو کہ الحاد ہے۔ کتاب و سنت پاس ہوتے ہوئے بھی الحاد کی باتیں کرتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد ہے۔ امام شافعی کا یہ قول ہے:

نومن باللہ وما جاء من اللہ علی مراد اللہ ونومن برسول اللہ وما جاء رسول اللہ علی مراد رسول اللہ ﷺ

ہم اللہ پر اورجو کچھ بھی اس کی جانب سے آیا ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق ایمان لاتے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور جو کچھ رسول اللہ لے کرآئے ہیں اس پر بھی ایسے ایمان لاتے ہیں جیسے ان کی مراد تھی۔ یعنی قرآن پر ایمان اسی طرح لائیںگے جیسے اللہ کی مراد ہے۔ اسی طرح حدیث پر ایمان لائیں گے جیسے رسول اللہﷺ کی مراد ہے۔
یہ صحیح ایمان اور اسقامت کا راستہ ہے اور اگر آپ قرآن و حدیث کی بات تو کریں لیکن اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کی مراد کو نہ لیں تو یہ الحاد کا راستہ ہے۔ جیسے ایک مثال: قرآنی آیت ہے: وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْیعنی وضو میں اپنے سر کی مسح کریں۔ اب رسول اللہ ﷺ کی سنت بلکہ پوری زندگی وضو میں آپ ﷺ نے مسح جس طرح کیا وہ طریقہ موجود ہے۔ حدیث ہے کہ بَدَأَ

بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ(صحیح بخاری)

اپنے سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا اور ہاتھ پھیرتے پھیرتے گردن تک لے گیا ، پھر وہاں سے لوٹایااور جہاں سے شروع کیا وہاں تک لے آیا۔ یہ اللہ کے پیغمبر کا عمل اور اس آیت سے ان کی مراد ہے۔ یہ استقامت ہے۔ بعض فقہاءنے اس میں تاویلیں کی ہیں جیسےکہ وضو کے دوران آپ نے دیکھا کہ سامنے دیوار گیلی ہے، دیوار سے سر چھوا تو گویا مسح ہوگیا۔اب اس تکلف اور لا یعنی بات سنت اور مسنون طریقہ کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے؟جب مرادِ رسول اللہ ﷺ سامنے ہے تو پھر اس قسم کی تاویلیں در اصل هاستقامت سے ہٹ کے الحاد کی شکلیں ہیں۔ ایک ایسا الحاد ہے جو آیاتِ قرآنی سے بغاوت اور انحراف کی نشانی ہے۔
الحاد کی ایک اور صورت: حرم میں الحاد

وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج:25)

بیت اللہ، حدود حرم میں جو شخص الحاد کا ارادہ کرےگا، اسے ہم عذاب الیم چکھائیں گے۔
اس کی کئی صورتیں علما نے بیان کی ہیں ، جیسے شرک، کفر، بدعت، قتل کی سازش، تکلیف دینے کی سوچ،حدود حرم میں کسی قسم کی غلط سوچ و ارادہ،معصیت کا ارادہ کرنا، حرم کے کبوتروں کا شکار، یہ بھی الحاد کی شکل ہے۔ حدود حرم میں اس قسم کی سوچ اور ارادہ کرنا بھی گویا الحاد کے زمرے میں آتا ہے اور یہ عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
تیسری قسم الحاد:اسماء اللہ میں الحاد، وصفات میں الحاد

وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف:180)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام میں الحاد کا شکار ہیں انہیں چھوڑدو، ان سے کنارہ کشی اختیار کرو، ان کے عمل کابدلہ انہیں دیا جائےگا۔
اللہ کے نام میں الحاد کی شکل ہے کہ اللہ کا نام کسی مخلوق کو دینا، جیسے مشرکین مکہ نے اللات، اپنے ایک معبود کا نام رکھا تھا، جو کہ اللہ تعالیٰ کے نام ’’اللہ‘‘ سے ماخوذ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ عزیٰ، عزیز سے۔
بعض اوقات ہم بھی اس قسم کے الحاد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعض نام اللہ کے نام سے خاص ہیں جیسے الرحمن: ہم اپنے کسی ساتھی کو کہتے ہیں کہ رحمان بھائی آرہے ہیں۔یہ رحمان اللہ کی صفت ہے۔ ہم لاشعوری طور پر الحاد کا شکار ہوجاتے ہیں۔جیسے فلاں رحمان ہے، فلاں صمد ہے۔
جو صفات اور جو نام اللہ کے ساتھ خاص ہیں وہ اسی کے لئے رکھیں اور اگر کسی بندےکے لئے رکھیں تو اس کی عبدیت کے ساتھ خاص کریں جیسے عبد الرحمن۔
یا پھر اللہ کے لئے ایسے نام رکھنا جسے اللہ نے اپنے لئے نہیں رکھا۔ جیسے عیسائی اللہ تعالیٰ کو فادر کہتے ہیں۔ یہ خالقِ کائنات کے حق میں گستاخی ہے، اسی طرح بھگوان ، خدا کو خاص اللہ ہی کا نام لیکر کہنا۔ ہاں صرف اس صورت میں جائز ہے۔ کہ خدا کو آپ بمعنیٰ مالک کہیں۔ خدا فارسی میں یہ بمعنیٰ مالک کے ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ خدا میں اللہ کا مترادف ہے یعنی جو معنیٰ اللہ کا ہے، وہی خدا کا ہے، یہ درست نہیں۔ اللہ: لفظ جلالہ کائناب کا سب سے بڑا نام ہے، ایسا نام کہ کائنات پوری جمع ہوجائے تو بھی لفظ اللہ کا کماحقہ ترجمہ نہیں کرسکتی۔اس کے محاسن، فضائل، کمالات، گنوا نہیں سکتی۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ سرے سے اللہ کے ناموں کا انکار کردے۔ یہ بدترین الحاد ہے۔ جہمیہ ایک فرقہ گذرا ہے، آج بھی اس کی کچھ ذریت باقی ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ رحمان نہیں، رحیم نہیں ، صفات کا انکار کرتے تھے ایک قسم یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو مانتے تو تھے مگر صفات کے معانی نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ رحمان تو ہے ، مگر اس کے معنیٰ ہمیں معلوم نہیں۔ ان صفات کو وہ حروف مقطعات کے طور پر لیتے تھے، معانی میں اشکال یہ لیتے تھے کہ معانی میں تشبیہ لیتے تھے، اس میں وہ الحاد کرتے تھے۔ جیسے السمیع، اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔ سنتے تو ہم بھی ہیں۔ یہاں وہ تشبیہ لاتے تھے، دیکھئے شیطان انہیں کیسے الحاد میںمبتلا کر رہا ہے۔تشبیہ اس وقت ہوتی جب یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جیسا سنتا ہے۔ یہاں تو عقیدہ ہےکہ اللہ تعالیٰ ایسے سنتا ہے جیسے اس کی ذات کے لئے شایانِ شان ہے۔وہ تو ایسا سنتا ہے کہ زمین پر چلنے والی چیونٹی کی آواز کو اپنے عرش معلی پر سنتا ہے۔
ایک بدترین الحاد اسماء اللہ میں تاویلیں کرنا ہے جیسے آج کل ہمارےہاں رائج ہے۔وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں تاویلوں کے مرتکب ہیں، 8 ناموں کے علاوہ باقی تمام ناموں کو من مانی تاویلوں کے شکنجے میں کسا ہے۔ صحابہ کرام نے کبھی ان ناموں کے بارے میں نہ تاویلوں سے کام لیا، نہ ہی اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا بلکہ صرف سنا اور اس پر ایمان لے آئے۔
تاویلوں کا یہ راستہ جو اشعریت کے نام پر کی جارہی ہیں۔یہ بھی بدترین الحاد کے مرتکب ہیں۔

وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ

استقامت کا راستہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے جتنے نام قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوئے ہیں ان کے الفاظ پر، ان کے معانی کے ساتھ ایمان لایا جائے۔
اگر اسما اور صفات کے پر ایمان نہ لایا جائے تو بےشمار مسائل بڑھیں گے جیسے:
التواب: توبہ کی توفیق دینے والا، اور توبہ قبول کرنے والا،
اگر یہ معنیٰ نہ کیا جائے تو پھر مجھے کیسے معرفت حاصل ہوگی کہ میں توبہ کروں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہےاور وہی توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
یہ اسماء توحید کی اساس ہیں انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اگر اسما کو معانی سے خالی کردیں تو اللہ کی معرفت کا باب بند ہوجائےگا
ہمارے ملک میں اس قسم کے ملحدین بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں اپنی مرضی کی تاویلیں کرتے ہیں اوران کی روح کو بگاڑ دیتے ہیں ۔
الحاد چونکہ حق سے پھرنے کا راستہ ہے،
قاعدہ:الحاد میں عام طور پر عقل کو نقل (وحی الہٰی )پر مقدم کیا جاتا ہے، الحاد میں عام پر طور نصوص کا معنیٰ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے،
معصیتِ الحاد (حرم میں )عملی الحاد، اعتقادی الحاد،
ان سب کا علاج تمسلک بکتاب اللہ وسنت رسولہ،
جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول گزر چکا ہے۔
عقلی موشگافیوں سے بہت بہتر ہے کہ نصوص کو لازم پکڑیں، جتنا بھی عقل کے گھوڑے دوڑائیں گے اس میں الحاد کے راستے پیدا ہونے کے امکان زیادہ ہیں۔ اس لئے ان چیزوں سے اجتناب برتتے ہوئے وحی الہٰی کو لازم پکڑا جائے، یہ حقیقی استقامت کا راستہ ہے

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ (النازعات:40)

جس کے دل میں مقام رب کا خوف آئے ۔
کلام اللہ کو پڑھیں اور اور اگر آپ ترجمہ سے واقف ہوں تو آپ کو اندازہ ہوگا اور آپ کو یقین ہوجائےگا کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ، اس کی شان کا تعارف ہوگا، اس کے مقام کا اندازہ ہوجائے گا ،پھر

وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (النازعات:40)

جب یہ مقام حاصل ہوجائےگا تو پھر وہ نفس کےھوی سے اپنے آپ کو روکےگا۔کئی مقام پر آپ ﷺ سے سوال کیا گیا اس پر آپ ﷺ نے وحی کی آمد تک خاموشی اختیار کی، وحی آنے کے بعد ہی اس کا جواب دیا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنی ذاتی رائے سے دین میں دخل دینا ہرگز گوارہ نہ کیا۔ الحاد کا راستہ وہاں کھلتا ہے جہاں انسان اپنی خواہشات کو احترام دے۔صراطِ مستقیم پر سے ہٹ جانے والا ملحد اور بدعتی اپنے اعمال میں جتنا آگے جاتا جائےگا اتنا ہی وہ صراطِ مستقیم سے دور ہوتا جائے گااگر وحی الہٰی سے آپ کو واقفیت نہیں ہے تو فتنوں کے دور میں علماء کے ساتھ التزام اختیار کریں۔فتنوں میں سب سے بڑا اوڑھنا بچھونا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے۔جب فتنہ آتا ہے تو اسے علماء پہچان لیتے ہے اور جب جاتا ہے تب باقی پہچان لیتے ہیں۔
لہٰذا علماء کی رفاقت میں آپ روزِ اول میں ہی فتنے کو پہچان لیں گے ورنہ فتنہ آپ کو پیس کے رکھ دےگا۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے