3 مولانا شاہ عین الحق پھلواروی
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی علمائے ربانی میں سے تھے بہت بڑے واعظ ، مبلغ،خطیب اور مقرر تھے ان کا وعظ بڑا پُر تأثیر ہوتا تھا۔ ہزارہا خلقت مولانا کے وعظ ونصیحت سے متأثر ہوکر جادئہ مستقیم پر گامزن ہوگئی ۔
مولانا سید آرزو ندی لکھتے ہیں کہ
’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ایک خوش بیان واعظ تھے ان کے وعظ کا ہر ٹکڑا دل پر تیر ونشتر بن کر چبھ جاتا تھا وہ اصلاح امت کے لیے بے چین ومضطرب نظر آتے وہ حق کے مقابلے میں کسی سے مرعوب نہ ہوتے وہ صداقت اور ایمانداری کے ہمالیہ تھے۔(المغراف فی تفسیر سورۃ ق بحوالہ اصحاب علم وفضل، ص:197)
محترم محمد تنزیل صدیقی الحسینی لکھتے ہیں کہ
’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی کا وعظ سریع الاثر ہوا کرتا تھا منقول ہے کہ جب مولانا حج کے لیے تشریف لے گئے تھے تو ایک مقام پر ڈاکووں نے گھیر لیا اور سارا سامان لوٹ لیا مگر ایسی حالت میں بجائے خوف زدہ ہونے کے مولانا نے ایسا وعظ کیا کہ ڈاکووں نے تلوار توڑدی اور تمام سامان واپس کر دیا اور ہمیشہ کے لیے تائب ہوگئے۔ (محمد تنزیل صدیقی الحسینی، اصحاب علم وفضل ، ص:197)
مولانا شاہ عین الحق کو جماعت مجاہدین سے خاص اُنس تھا جب تک زندہ رہے اس جماعت سے مالی تعاون کرتے رہے۔
حضرت شاہ صاحب 1287ھ میں پیدا ہوئے دینی تعلیم مولانا نعمت اللہ پھلواروی، مولاناحافظ عبد اللہ غازی پوری رحمہم اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل حضرت شیخ الکل میاں صاحب سے کی۔ تصنیف میں سورئہ ق کی تفسیر بنام ’’المغراف‘‘ لکھی۔ 1233ھ میں بمقام لکھنو وفات پائی ۔ ( اصحاب علم وفضل ،ص:205)
4 حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی
اُستاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبد المنان بن شرف الدین مشہور محدث اور عالم کبیر تھے۔ 1267ھ میں قصبہ قرولی ضلع جہلم میں پیدا ہوئے 8 سال کی عمر میں نزول الماء کے عارضہ سے بصارت سے محروم ہوگئے تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا اپنے دور کے نامور اساتذہ سے مختلف علوم اسلامیہ میںاستفادہ کیا ان کے اساتذہ میں شیخ عبد الحق بنارسی(م 1278ھ) اور شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م 1320ھ) بھی شامل ہیں فراغت تعلیم کے بعد کچھ عرصہ شیخ عبد اللہ غزنوی (م 1298ھ) کی صحبت میں رہے ۔
مولانا سید عبد الحی الحسنی لکھتے ہیں کہ
ثم سافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، ولبث عنده ثمانية أشهر واستفاض منه فيوضاً كثيرة (نزھۃ الخواطر 8/312)
’’امرتسر تشریف لے گئے اور شیخ عبد اللہ غزنوی کی خدمت میں آٹھ مہینےرہ کر کافی فیض اُٹھایا۔‘‘
1292ھ میں وزیر آباد تشریف لائے اور دار الحدیث کے نام سے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور اپنی ساری زندگی قرآن وحدیث کی تدریس میں بسر کر دی آپ نے اپنی زندگی میں 40 سال سے زیادہ عرصہ حدیث کا درس دیا آپ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ) فرماتے ہیں

لا أعلم أحداً في تلامذة السيد نذير حسين المحدث أكثر تلامذة منه، قد ملأ بنجاب بتلامذته (نزهة الخواطر 8/321)

’’میں نے سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں سے کسی کے شاگرد ان سے زیادہ نہیں دیکھے آپ نے پنجاب کو شاگردوں سے بھر دیا۔
حضرت حافظ صاحب کے چند نامور تلامذہ حسب ذیل ہیں
مولانا عبد الحمید سوہدروی (م 1312ھ) مولانا ثناء اللہ امرتسری ( م 1367ھ) مولانا ابو القاسم بنارسی (م 1319ھ) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ( م 1375ھ) ، مولانا عبدالقادر لکھوی ( م 1342ھ) مولانا محمد علی لکھوی (م 1973ء )
حافظ عبد المنان وزیر آبادی کاجماعت مجاہدین سے بھی تعلق رہا آپ مجاہدین کی مدد کیا کرتے تھے اور ان کے مدرسہ میں مجاہدین کے لیے پوشیدہ طریقے سے فنڈ جمع کیا جاتا تھا جو بعد میں مجاہدین تک پہنچایا جاتا تھا ۔
حافظ عبد المنان وزیر آبادی کامجاہدین سے خصوصی تعلق تھا مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی جو جماعت مجاہدین کے میر کارواں تھے حافظ صاحب کے شاگرد تھے 18 سال کی عمر میں تحریک مجاہدین سے وابستہ ہوئے اور 20 سال کی عمرمیںاسمست گئے اور امیر المجاہدین عبد الکریم کے ہاتھ بیعت جہاد کی ۔ ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو حق کی راہ میں وقف کر دیا امیر المجاہدین عبد الکریم نے ہندوستان میں تحریک کو بڑھانے کے لیے جن قابل اور محنتی کارکنوں کو مقرر کیا اس میں مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی بھی شامل تھے چنانچہ مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی کو ہندوستان سے مجاہدین کی امداد کے لیے مالی امداد اور نئے مجاہد فراہم کرنے کا کام سونپا گیا ۔ مولوی فضل الٰہی نے اس کام کو خوبی اور ذوق شوق سے انجام دیا کہ پشاور سے مدراس تک سرگرم کارکنوں کا جال بچھ گیا۔
(مجاہدین صادق پور، ص : 250)
مولانا غلام رسول مہر (1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’ مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی نے 1906ء میں ریلوے کی ملازمت ترک کر دی اور جماعتی کاموں کے لیے وقف ہوگئے وہ چپ چاپ ملک کے طول وعرض میں پھرتے رہتےتھے تمام ممتاز ملکی رہنماؤںسے گہرے تعلقات پیدا کر لیے ان میں سے بطورِ خاص مولانا ابو الکلام آزاد ہیں جن کی دینی دعوت نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعے سے عالم گیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ مولوی فضل الٰہی نے اس دوران میں ہزاروں روپے فراہم کیے اور اپنے ساتھ مخلص کارکنوں کی ایک بہت بڑی جماعت پیدا کر لی جس کےافراد،فراہم کردہ روپیہ اور آدمی اسمست پہنچاتے تھے جماعت کو جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اس کا انتظام مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی کر دیتے تھے ۔ ( سرگزشت مجاہدین ، ص: 568)
وزیر آباد کے دوسرے مجاہد صوفی عبد اللہ تھے جو مولوی ولی محمد اور مولوی فضل الٰہی کی دل نواز اور ایمان افروز تقریریں سن کر جماعت مجاہدین سے وابستہ ہوئے اور مولوی فضل الٰہی کے ساتھ چندہ فراہم کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے جب مولوی فضل الٰہی اسیر زنداں ہوجاتے تو صوفی صاحب ان کے قائم مقام ہوجاتے اور جماعت کی خدمات انجام دیتے تھے ۔ صوفی عبد اللہ صاحب چمرکنڈ میں کئی سال مقیم رہے اور مجاہدین کے لیے کام کرتے رہے ۔
صوفی صاحب نے چمرکنڈ سے واپسی کے بعد ضلع لائل پور ( فیصل آباد) کے چک اوڈانوالہ میں رجب 1257ھ / ستمبر 1938ءمیں ایک دینی درسگاہ بنام |’’ تعلیم الاسلام‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی قرآن وحدیث کی خدمت میں کوشاں ہے۔ (سرگزشت مجاہدین ، ص:635۔636)
وفات مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی 5 مئی 1951ء مدفن بالاکوٹ
وفات صوفی عبد اللہ وزیر آبادی 30 اپریل 1975ء مدفن ماموں کانجن
حافظ عبد المنان نے 16 رمضان المبارک 1334ھ وزیر آباد میں وفات پائی اور قبرستان پرانی چونگی سیالکوٹ روڈ میں دفن ہوئے ۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، ص:428 طبع اول)
5مولانا عبد العزیز رحیم آبادی
مولاناعبد العزیز رحیم آبادی بن شیخ احمد اللہ برصغیر پاک وہند کے علمائے اہلحدیث میں ایک ذی وقار عالم دین تھے۔ آپ بیک وقت محدث،مورخ،خطیب ومقرر، مبلغ، دانشور اور مناظر تھے۔ علوم عالیہ وآلیہ میں ان کو مہارت تامہ حاصل تھی۔عربی ،فارسی اور اردو میں یگانہ روزگار تھے اور صاحب طرز ادیب اور بلند مصنف اور مترجم تھے۔
مولانا عبد العزیز کا تعلق صوبہ بہار کے ایک معزز خاندان سے تھا ان کے والد محترم شیخ احمد اللہ اچھی خاصی زمینوں کے مالک تھے اور بڑے حوصلہ مند اور بلند مرتبہ ومقام کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت کے ساتھ رعب ودبدبہ بھی عطا کیا تھا۔ دینی اعتبار سے بڑے متقی،پرہیزگار،زہد وورع کے پیکر، جواد،سخی،عابد،زاہد، متبع سنت اور علمائے کرام سے محبت اور ان کا احترام کرنے میں سب سے آگے ہوتے تھے۔
مولانا عبد العزیز کا سن ولادت 1270ھ / 1854ء ہے۔ 13 سال کی عمر میں ان کی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا۔ اس کے بعد عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں مولوی عظمت اللہ ،مولوی محمود عالم رام پوری اور مولوی محمد یحییٰ عظیم آبادی سے پڑھیں۔ بعد ازاں 1290ھ / 1873ء میں دہلی تشریف لائے اور حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے تفسیر،حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا عبد الحق حقانی صاحب تفسیر حقانی (م1335ھ) آپ کے ہم درس تھے۔
صاحب نزہۃ الخواطر حکیم سید عبد الحی الحسنی فرماتے ہیں
ثم سافر إلى دهلي وأخذ الفقه والحديث عن شيخنا المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي (نزهة الخواطر 8/256)
1293ھ/1875ء میں حضرت میاں صاحب سے سند فراغت لی اور واپس اپنے وطن رحیم آباد تشریف لائے اور ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور سلسلہ درس وتدریس شروع کیا۔
مولانا عبد العزیز نہایت ذہین وفطین تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہی قوت حافظہ کی نعمت سے نوازا تھاخطابت میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا بہت بڑے خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کا وعظ بڑا مؤثر ہوتا تھا۔ جب وعظ فرماتے خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رُلاتے ، تدریس میں بھی ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔
مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’تدریس کے ساتھ خطابت وامامت کا فریضہ بھی مولانا عبد العزیز اپنے قصبے رحیم آباد میں ادا فرماتے تھے نیز اس علاقے کے مختلف مقامات میں وعظ وتبلیغ کے لیے بھی مولانا جاتے تھے جس سے بے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا اور کتاب وسنت کی اشاعت کا دائرہ وسیع ہوا۔ آٹھ سال رحیم آباد میں مولانا کی تدریس وخطابت کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا اسی اثناء میں لوگ کثیر تعداد میں بدعات اور غلط رسوم وعقائد سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کتا ب وسنت پر عمل کا داعیہ ان کے ذہن وفکر کی تہوں میں جاگزین ہوا۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:150)
مولانا عبد العزیز مولانا محمد اسحاق بھٹی کی نظر میں :
مولاناعبد العزیز رحیم آبادی وسیع العلم،وسیع المطالعہ اور حاضر جواب عالم تھے وہ نہ صرف اسلامی علوم پر عبور رکھتے تھے بلکہ ہندؤوں اور عیسائیوں کے عقائد وافکار سے بھی خوب آگاہ تھے۔ فن مناظرہ میں بھی یگانہ روزگار تھے اور اپنے دور کے امام المناظرین تھے۔ 1305ھ/ 1888ء میں مرشد آباد(بنگال) میں ’’وجوب تقلید‘‘ پر (دہلی میں ان کے ہم درس اور دوست) مولانا عبد الحق حقانی( م 1335ھ) سے مناظرہ ہوا ۔ اس مناظرہ میں علمائے احناف اور اہلحدیث کے بہت سے علماء نے شرکت کی تھی۔ احناف کی طرف سے ہر روز مناظر بدلتے رہے لیکن اہلحدیث کی طرف سے اكيلےمولانا عبد العزیز رحیم آبادی تھے مناظرہ پانچ دن جاری رہا اس مناظرہ سے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے علم وفضل اور فن مناظرہ کی دھوم مچ گئی۔ اور دس ہزار حنفی افراد نے اہلحدیث مسلک اختیار کیا۔ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ اس مناظرہ میں شریک تھے اور اس پر بے حد اظہار مسرت فرمایا ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مہمان نواز اور پیکر سخاوت تھے ، ایثار وقربانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ تہجد گزار اور عالی ہمت عالم دین تھے، بہت بڑے مبلغ تھے۔ اشاعت دین اور تبلیغ کے ذریعے تحریک اصلاح تجدید کی آبیاری کی اور پورے ہندوستان کو اپنی تگ وتاز کا مرکز بنایا۔ مولانا رحیم آبادی میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ جماعت اہلحدیث کے قائد کی حیثیت سے تمام معاملات میں اپنی جماعت کے مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ذاتی اور خاندانی اعتبار سے اپنے علاقے کی اہم شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دور کے معاشرے میں بڑا اعزاز بخشا تھا اور وہ علمی وسیاسی اور قومی مسائل کے حل وکشود کے سلسلے میں مرجع عوام تھے اور عوام کے اعتماد پر پورا اترتے تھے۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:150)
جماعت مجاہدین سے تعلق :
جماعت مجاہدین سے مولانا عبد العزیز کا خاصا تعلق رہا ۔ صوبہ بہار میں اعلی قابلیت سے مجاہدین کی خفیہ تنظیم کی قیادت فرماتے تھے۔ جماعت اہلحدیث میں انگریزوں کے خلاف جذبۂ جہاد کی تحریک کے روح رواں تھے۔ (محمد عطاء اللہ حنیف، مضمون مندرجہ احسن البیان ، طبع لاہور 1385ھ)
مولانا محمد اسحاق بھٹی (م2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’جماعت مجاہدین سے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کا تعلق تھا بلکہ وہ اپنے علاقے میں اس جماعت کے امیر تھے انہوں نے اس علاقے میں باقاعدہ جماعتی نظم قائم کیا اور عشر ، زکوۃ وغیرہ کی جو رقم وصول ہوتی وہ مولانا کے ذریعے سرحدپار کی جماعت مجاہدین کو بھیجی جاتی تھی ۔ سرحد پار کی مرکزی جماعت مجاہدین کے امیر اور سرکردہ حضرات کو جب مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی مستعدی اور ان کے حلقہ معتقدین کی وسعت کا پتہ چلا تو انہوں نے براہ راست امدادی رقوم کی فراہمی کی ذمہ داری مولانا کو سونپ دی اس زمانے میں یہ بے حد نازک اور خطر ناک کام تھا۔ جو ان کے سپرد کیاگیا تھا لیکن اس مرد حق شناس نے اس خطر ناک مرحلے کو طے کرنے کا فیصلہ کرلیا جس پر وہ عمر کے آخری لمحے تک قائم رہے حکومت برطانیہ کی خفیہ پولیس ان کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتی تھی اور سخت نگرانی کرتی تھی اور اس کی رپورٹیں اعلیٰ حکام کو پہنچائی جاتی تھیں۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:164)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م 1968ء) مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی جماعت مجاہدین سے وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے مزاج میں عجیب تنوع تھا ایک طرف وہ ان حضرات کے ساتھ اہل حدیث کانفرنس کے اسٹیج پر کام کرتے دوسری طرف مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ،صوفی ولی محمد مرحوم،اکبر شاہ آف ستھانہ مولوی الٰہی بخش بھیانوالہ، قاضی عبد الرحیم صاحب، قاضی عبید اللہ اور قاضی عبد الرؤف (قاضی کوٹ) اور مولانا عبد القادر قصوری کے ساتھ جماعت مجاہدین کا کام کرتے تھے اور یہ کام اس راز داری اور خوبصورتی سے ہوتا تھا کہ انگریز کی عقابی نگاہیں برسوں اس کا سراغ نہ لگا سکیں۔ معلوم نہیں یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ مرحوم کی گرفتاری کے احکام اس دن پہنچے جب مرحوم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر جنت کے دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت کے لیے دستک دے رہے تھے اور ’’طبتم فادخلوھا خالدین‘‘ کی آواز کے منتظر تھے ، پولیس جنازہ دیکھ کر واپس آگئی۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ الجنۃ (آمین ) (مقدمہ احسن البیان فیما سیرۃ النعمان مطبوعہ 1961/1385ھ اہل حدیث اکادمی لاہور،ص:37۔39)
تصانیف :
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مصنف بھی تھے ان کی مشہور تصانیف ’’سواء الطریق (4جلد)، روئیداد مناظرہ مرشد آباد اور احسن البیان فی ما سیرۃ النعمان ہیں۔
احسن البیان مولانا شبلی نعمانی(م 1914ء) کی کتاب سیرۃ النعمان (سوانح عمری حضرت امام ابو حنیفہ(م 150ھ) کا جواب ہے۔ مولانا رحیم آبادی نے اس پر ایسی گرفت فرمائی کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا شبلی نعمانی نے اپنے قلم کا رخ مذہب کی بجائے تاریخ کی طرف موڑدیا۔(محمد مستقیم سلفی بنارسی،جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:394)
آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل :
ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کے نظم ونسق کے لیے مولانا رحیم آبادی نے بڑی تگ ودو کی۔دسمبر 1906ء میں آرہ(صوبہ بہار) میں جماعت اہل حدیث کا ایک جلسہ ہوا جس میں اس مسلک کے بہت سے علمائے کرام اور علمائے عظام نے شرکت کی ۔اسی اجلاس میں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس کے پہلے صدر مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م 22 نومبر 1918ء) اور ناظم اعلی شیخ الاسلام مولانا ابو اوفا ثناء اللہ امرتسری (م 5 مارچ 1948ء) کو منتخب کیاگیا تھا اور اس کا مرکزی دفتر دہلی میں قائم کیا گیا تھا۔
کانفرنس کے تعارف اور اس کو منظم کرنے کی غرض سے پورے ہندوستان کا دورہ کرنے کے لیے جو وفد ترتیب دیاگیا تھا وہ مندرجہ ذیل تین حضرات پر مشتمل تھا۔
1 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (م 1919ء)
2 مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری (م 1948ء)
3 مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ( م 1956ء)(مضمون محمد اسحاق بھٹی ، مشمولہ سوانح مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، مرتبہ : قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری مطبوعہ لاہور 1994ء/1415ھ)
تقسیم ملک سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے سالانہ جلسے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے تھے چار جلسوں کی صدارت کا اعزاز مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کو حاصل ہوا۔ تفصیل حسب ذیل ہے :
1 امرتسر :دوسرا سالانہ جلسہ منعقدہ 14،15،16 مارچ 1913ء
2 علی گڑھ: چوتھا سالانہ جلسہ منعقدہ 13،14،15 مارچ 1915ء
3بنارس :پانچواں سالانہ جلسہ ، منعقدہ 25،26،27 فروری 1916ء
4کلکتہ:چھٹا سالانہ جلسہ ، منعقدہ 7،8،9 مارچ 1917ء
بنارس کے جلسے میں اہلحدیث کے علاوہ بے شمار احناف بھی سامعین میں موجود تھے جن میں احناف کے جید علمائے کرام بھی تھے۔ مولانا رحیم آبادی کی تقریر اس قدر مؤثر اور مدلل تھی کہ علمائے احناف نے بیک زبان پکار اٹھے کہ ’’یہ شخص اس عہد کا امام غزالی ہے۔‘‘(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:160)
آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا ساتواں سالانہ جلسہ مدراس میں 3،4،5 مئی 1918ء کو منعقد ہوا۔ اس جلسہ کے صدرمولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پورے تھے۔مولانا رحیم آبادی کو انتقال کئے ہوئے ڈھائی ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اس میں عبد العزیز مدراسی (جو اس وقت نوجوان تھے) نے ایک نظم پڑھی تھی جس کے تین شعر درج ذیل ہیں یہ شعر سن کر سامعین زاروقطار رونے لگے۔
شکر خدا کہ جمع ہیں ہندوستان والے
علمائے خیر امت شیریں زبان والے
جن کے مشاہدہ کو آنکھیں ترس رہی تھیں
لو دیکھ لو عزیزو! عز وشان والے
کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے
عبد العزیز نامی حسن البیان والے
(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:168)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے آخری شعر دس مرتبہ پڑھایا اور زاروقطار روتے رہے ۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے 1336ھ/1918ء کو وفات پائی۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:180)
6مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری
مولانا حافظ عبد اللہ بن عبد الرحیم اپنے دور کے علمائے فحول میں سے تھے ان کا مولد ومسکن ضلع اعظم گڑھ کا قصبہ مٹو تھا۔ سن ولادت 1261ھ/1845ء ہے۔12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اسی دوران 1857ء کا ہنگامہ رونما ہوا جس کی لپیٹ میں قصبہ مٹو بھی آگیا اور شہری زندگی ابتر ہوگئی۔ حافظ عبد اللہ کے والدین مٹو سے ہجرت کرکے غازی پور میں سکونت پذیر ہوگئے۔حافظ صاحب نے مٹو میں عربی کی بعض کتابیں مولوی محمد عالم مٹوسے پڑھی تھیں۔غازی پور مدرسہ چشمہ رحمت میں داخلہ لیا۔ اس مدرسہ میں مولانا محمد فاروق چڑیاکوٹی(م1327ھ) اور مولانا رحمت اللہ لکھنوی بانی مدرسہ چشمہ رحمت سے دینی علوم کی بعض کتابیں پڑھیں۔ غازی پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظ صاحب جون پور تشریف لے گئے اور مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی سے بقیہ نصاب کی تکمیل کی۔
جون پور سے تکمیل کے بعد حافظ عبد اللہ نے دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے تفسیر وحدیث پڑھ کر سند حاصل کی ۔ مولانا سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ
ثم سار إلى دهلي وأخذ الحديث عن شيخنا السيد نذير حسين الدهلوي المحدث (نزھۃ الخواطر8/287)
’’پھر دہلی کا سفر کیا اور حضرت الاستاد شیخ سید نذیر حسین دہلوی سے حدیث میں سند حاصل کی۔‘‘
تکمیل تعلیم کے بعد مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور،مدرسہ احمدیہ آرہ اور دہلی کے ایک مدرسہ میں تدریس فرمائی۔ مدرسہ احمدیہ آرہ میں ان کی تدریسی مدت 20 سال ہے۔ حافظ صاحب کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے ، مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا محمد سعید محدث بنارسی (م 1322ھ)
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی (م 1324ھ)
مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ)
مولانا عبد الرحمان مبارک پوری (م 1353ھ)
مولانا محمد ابو بکر شیث جون پوری (م 1359ھ)
مولانا سید محمد داؤد غزنوی (م 1963ء)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م 1968ء) (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:483 ، مطبوعہ دہلی 1938ء)
علم وفضل کے اعتبار سے حافظ عبد اللہ غازی پوری ایک جلیل القدر عالم دین تھے ۔
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ
جن کی ذات پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا ۔ تدریس جن کے دم سے زندہ تھی اساتذہ جن پر اس قدر ناز اں کہ حضرت شیخ الکل جناب میاں صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے۔
’’ میرے درس میں دو عبد اللہ آئے ہیں ایک عبد اللہ غزنوی دوسرے عبد اللہ غازی پوری۔‘‘ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:455)
علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری نے تدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اور شاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی کو ان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔‘‘ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:37)
حافظ عبد اللہ غازی پوری کا مجاہدین کی جماعت سے بھی خاصا تعلق تھا آپ مجاہدین کے لیے خفیہ طریقہ سے مالی تعاون کرتے تھے۔
مولانا غلام رسول مہر (م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’حافظ عبد اللہ غازی پوری کو جماعت مجاہدین سے بڑی الفت تھی اور جہاد کا بڑا شوق تھا۔ اسی خیال سے وہ موزوں جوانوں کو منتخب کرکے ان کے لیے سپاہیانہ فنون کے سیکھنے کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین ، ص:644)
تصانیف :
حافظ عبد اللہ غازی پوری تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ان کی تصانیف عربی اور اردو میں ہیں۔ مشہور تصانیف یہ ہیں :
1 ابراء اہل الحدیث والقرآن
2 تسہیل الفرائض
3 رسالہ تراویح
4 البحر المواج شرح مقدمہ صحیح مسلم (عربی)
وفات :
حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری دہلی میں درس وتدریس میں مشغول تھے کہ ان کے ایک قریبی عزیز ڈاکٹر عبد الرحیم لکھنو میں انتقال کرگئے۔ حافظ صاحب دہلی میں لکھنو تعزیت کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ واپس دہلی نہ آسکے اور انہیں مستقل طور پر لکھنو ہی میں اقامت اختیار کر لی ۔ حافظ صاحب نے21 صفر 1337ھ/26 نومبر 1918ء کو رحلت فرمائی اور عیش باغ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(نزھۃ الخواطر8/288)
حافظ غازی پوری کی وفات پر علامہ سید سلیمان ندوی کے تاثرات :
جناب مولانا عبد اللہ صاحب غازی پوری کا واقعہ وفات علماء کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے۔ مولانا مرحوم نے گو طبعی عمر پائی لیکن اس خیال سے وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہاءیادگار تھے ہم ان کے لیے درازی عمر کے متوقع تھے۔ مولانا اتباع سنت،طہارت وتقویٰ، زہدوورع، تبحر علم، وسعت نظراور کتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے علم دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس وتدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلباء ان کے فیض تربیت سے علماء بن کر نکلے ۔ (اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے)(سید سلیمان ندوی ، یادرفتگان ص:40 مطبوعہ کراچی 1984ء)
7مولانا فقیر اللہ مدراسی :
حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے تلامذہ میں مولانا فقیر اللہ مدراسی رحمہ اللہ بڑے ذی وقار عالم دین،مبلغ خطیب اور اسلامی علوم میں یکتائے زمانہ تھے ان کا مولد ومسکن ضلع خوشاب (مغربی پنجاب) کا قصبہ کٹھہ مصرال ہے۔ سن ولادت 1280ھ ہے۔ مولانا فقیر اللہ نے علوم عالیہ وآلیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی۔ ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :
1 مولانا محمد بن فتح الدین(برادرکبیر) (م 1311ھ) تلمیذ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ
2استادپنجاب حافظ الحدیث عبد المنان وزیر آبادی (م 1334ھ)
3 حضرت الامام السید عبد الجبار غزنوی (م 1331ھ)
4مناظر اسلام حضرت مولانا محمد بشیر سہوانی ( م 1326ھ)
5 حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ)
6 علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی نزیل بھوپال ( م 1327ھ)
7 مولانا محمد اسحاق منطقی رحمہ اللہ
فراغت تعلیم کے بعد مطبع مجتبائی دہلی کے ہاں کچھ مدت عربی کتابوں کی پروف ریڈنگ پر ملازمت کر لی۔ انہی دنوں بنگلور میں ایک بریلوی مولوی سلطان احمد نے اہلحدیث کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی تھی جو اہلحدیث حضرات کے لیے بڑی پریشان کن تھی چنانچہ بنگلور کے ایک ذی وقار اور معزز سوداگر سید عباس شاہ صاحب نے حضرت میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی کو خط لکھا جس میں بریلوی مولوی سلطان احمد کے عزائم سے مطلع کیا اور اس کے ساتھ حضرت میاں صاحب سے درخواست کی کہ یہاں ایک ایسے اہلحدیث عالم کو بھیجا جائے جو بریلوی مولوی نے اہلحدیث مسلک کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کئے ہوئے ہیں وہ دور کرے تاکہ اہلحدیث حضرات اطمینان کا سانس لے سکیں۔
چنانچہ حضرت میاں صاحب نے مولانا فقیر اللہ کو بنگلور بھیج دیا مولانا فقیر اللہ بنگلور تشریف لے گئے وہاں آپ نے کیا کارنامے انجام دیئے۔ مولانامحمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا فقیر اللہ بنگلور میں مدلل اسلوب سے وعظ وتقریر کا آغاز کیا اور مولوی سلطان احمد بریلوی سے ان کے مناظرے بھی ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی سلطان احمد کی اہلحدیث کے خلاف ہنگامہ آرائی ختم ہوگئی اور مولانا فقیر اللہ سے متاثر ہوکر بہت سے لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہوگئے پھر بنگلور کے لوگوں نے مولانا فقیر اللہ کو دہلی نہیں جانے دیا اور اصرار کرکے وہیں رکھ لیا۔‘‘ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ، ص:253)
بنگلور کے قیام میں مولانا فقیر اللہ نے مدرسہ نصرۃ الاسلام سے ایک دینی درسگاہ کا اجراء کیا اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ مولانا فقیر اللہ کا مجاہدین سے بھی تعلق رہا اور صوبہ مدراس سے رقوم جمع کرکے سرحد پار کی جماعت مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے ایک دفعہ وہاں خود بھی گئے اور انگریزی حکومت کے خلاف جماعت مجاہدین جس طریقے سے جہاد کر رہی تھی اس سے نہایت متاثر ہوئے تھے۔(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ، ص:253)
مولانا فقیر اللہ مدراسی نے 6 شوال 1341ھ / 22 مئی 1923ء کو بنگلور میں انتقال کیا۔(نزھۃ الخواطر8/288)
8مولانا محمد اکرم خان :
مولانا محمد اکرم خان(آف ڈھاکہ ) مشہور عالم دین، صحافی،مصنف اورقومی وسیاسی رہنما تھے۔علوم اسلامیہ کی تحصیل حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔ مختلف اوقات میں تین اخبار محمدی،زمانہ اور آزاد جاری کیا۔ ان اخبارات نے تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات انجام دیں مولانا محمد اکرم خان جماعت مجاہدین سے بھی وابستہ رہے اور اس جماعت کےلیے رقوم جمع کرکے مجاہدین کے مرکز میں بھیجتے رہے۔ تصنیف میں قرآن مجید کی تفسیر اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت بنگلہ زبان میں لکھیں۔ اگست 1968ء میں 99 سال کی عمر میں ڈھاکہ میں وفات پائی۔ آپ شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ کے آخری شاگرد تھے جو اس دنیائے فانی سے دار البقاء چلے گئے۔ ( ابو یحییٰ امام خان نوشہروی،ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، مطبوعہ لاہور 1391ھ ، ص:217)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے