قارئین کرام! راقم الحروف اپنے سابقہ معروضات میں گرمی اور اس کے احکام آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر چکا ہے ۔ اسی تسلسل میں اب سردی اور اس کے احکام پیش خدمت ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا ہر موسم قرآن وسنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
1وجہ سردی
یہ سردی کیوں پڑتی ہے ، کیسے اور کہاں سے پڑتی ہے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ

وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح البخاری:537)

’’جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا اے میرے رب ! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس کی اجازت دی ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں تم انتہائی گرمی اور سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو اس کا یہی سبب ہے۔‘‘
2 سردی میں روزہ رکھنا غنیمت ہے :
سردی میں روزے کو غنیمت کہا گیا ہے سیدنا عامر بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا

الغَنِيمَةُ البَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ

’’ٹھنڈی نعمت (یعنی نعمت کا ثواب) سردیوں میں روزہ رکھنا ہے۔‘‘ (سنن الترمذی : 797)
3 سردی میں کھجوروں سے افطاری کرنا سنت طریقہ ہے :
گرمی میں آپ ﷺ پانی سے افطاری کیا کرتے اور سردی میں کھجوروں سے کیونکہ کھجور گرم ہے سردی سے بچاؤ اور سکون حاصل کرنے کیلئے اس کا استعمال زیادہ کیا کرتے تھےجیسا کہ سنن ترمذی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے قبل چند تر کھجوروں سے افطاری کرتے تھے اور اگر ترکھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔

وروي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يفطر في الشتاء على تمرات وفي الصيف على الماء (صحیح وضعیف سنن الترمذی للألبانی : 696)

اور یہ بھی مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطاری کرتے اور گرمیوں میں پانی سے
افطاری کرتے۔
4 سردیوں میں (دوران نماز) کپڑوں کے اندر ہی رفع الیدین کرنا :
سردی کے لیے پہنے گئے کپڑے کے اندر ہی رفع الیدین کیا جاسکتاہے جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّتَاءِ فَرَأَيْتُ أَصْحَابَهُ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي ثِيَابِهِمْ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 729)

’’ میں سردی( کے موسم) میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ نماز میں (سردی کی وجہ سے ) اپنے کپڑوں کے اندر ہی رفع الیدین کررہے ہیں ۔
5 سردی میں آذان کے بعد ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہنا
اگر سردی زیادہ ہو تو مؤذن آذان کے بعد یہ بھی اعلان کرے کہ ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو ۔‘‘
نافع رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر آذان دی پھر فرمایا ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ  مؤذن سے آذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن آذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو ! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو ، یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی حالت میں کہا۔‘‘ ( صحیح البخاری : 632)
6 سرد رات میں مؤذن کو آذان کے بعد ’’الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ کہنے کا حکم دینا
مسجد کے متولی، امام وخطیب کو چاہیے کہ وہ سرد راتوں میں مؤذن کو حکم دیں کہ وہ آذان کے بعد ’’ الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ کا اعلان کرے ’’ بشرط یہ کہ سردی برداشت سے زیادہ ہو‘‘ ۔ نبی کریم ﷺ وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اطہر ہے جیسا کہ نافع رحمہ اللہ کہ کہنا ہے کہ

أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ فِي اللَّيْلَةِ البَارِدَةِ، أَوِ المَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ (صحیح البخاری:632)

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان نامی پہاڑی پر چڑھ کر اذان دی اذان دی پھر فرمایا الا صلوا فی رحالککہ لوگو! اپنےاپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھلو اور ہمیں آپ نے بتلایاکہ نبی کریم ﷺ موذن سےآذان کےلیے فرماتے ، اور یہ بھی فرماتے کہ موذن آذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو اپنے ٹھکانے میں نماز پڑھ لو یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا
7 سردی میں نماز سویرے پڑھنا :
سردی میں نماز سویرے اپنے وقت میں پڑھنی چاہیے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ (صحیح البخاری:906)

’’اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم ﷺ نماز سویرے پڑھ لیتے۔‘‘
8 عام حالت اور احرام میں سردی کی وجہ سے دوسرا کپڑا ڈالنا
سردی سے بچاؤ کے لیے کپڑا وغیرہ ڈالا جاسکتاہے تاکہ سردی ( اور سردی کی وجہ سے ہونے والے امراض) سے بچا جائے ۔ نافع رحمہ اللہ کا کہنا ہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ وَجَدَ الْقُرَّ، فَقَالَ: أَلْقِ عَلَيَّ ثَوْبًا يَا نَافِعُ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ بُرْنُسًا فَقَالَ: تُلْقِي عَلَيَّ هَذَا وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَهُ الْمُحْرِمُ (سنن ابی داؤد:1828)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کو سردی لگی انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے کہا کہ میرے اوپر کوئی کپڑا ڈال دے پس انہوں نے ان پر برنس ٹوپی( یا ایسا کپڑا جس سے سر ڈھک جائے) ڈال دیا۔سیدنا ابن عمر نے فرمایا تم مجھ پر برنس ڈالتے ہو حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو یہ پہننے سے منع فرمایا ہے ۔
9سردی کی وجہ سے بیوی (اگرچہ حائضہ ہی کیوں نہ ہو) کو چمٹ لینا :
سردی کی وجہ سے اپنی بیوی کو اگر کوئی (پیار سے)چمٹ کر گرمی حاصل کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا عمارہ بن غراب سے مروی ہے کہ

إِنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِحْدَانَا تَحِيضُ وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلَّا فِرَاشٌ وَاحِدٌ؟ قَالَتْ: أُخْبِرُكِ بِمَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فَمَضَى إِلَى مَسْجِدِه – قَالَ أَبُو دَاوُدَ: تَعْنِي مَسْجِدَ بَيْتِهِ – فَلَمْ يَنْصَرِفْ حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ فَقَالَ: ادْنِي مِنِّي. فَقُلْتُ: إِنِّي حَائِضٌ. فَقَالَ: وَإِنْ، اكْشِفِي عَنْ فَخِذَيْكِ. فَكَشَفْتُ فَخِذَيَّ فَوَضَعَ خَدَّهُ وَصَدْرَهُ عَلَى فَخِذِي، وَحَنَيْتُ عَلَيْهِ حَتَّى دَفِئَ وَنَامَ (سنن ابی داؤد 270 ضعفہ الألبانی)

سیدنا عمارہ بن غراب کی پھوپھی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کو حیض آتا ہے اور اس کے اور اس کے شوہر کے لئے ایک بستر ہوتا ہے (ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں اس بارے میں آپﷺ کا عمل بتاتی ہوں ایک رات آپ ﷺمیرے گھر تشریف لائے اور میں حائضہ تھی۔ آپﷺ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے میری مراد ہے اپنے گھر کی مسجد میں (یعنی مصلے پر) پس جب تک آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تب تک میں سو چکی تھی آپﷺ کو سردی نے ستایا تو فرمایا میرے قریب آجاؤ میں حائضہ تھی (جب میں آگئی تو) فرمایا اپنی رانوں کو کھول لو تو میں نے اپنی رانوں کو کھول دیا اور آپ ﷺ نے میری رانوں پر اپنا چہرہ اور سر رکھ دیا اور میں آپ ﷺ پر جھک گئی یہاں تک کہ آپ ﷺکی سردی ختم ہوگئی اور آپ ﷺسو گئے۔
حائضہ بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی حرارت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ اپنی عورتوں کے ساتھ ان مخصوص ایام میں اکٹھے کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ‘‘ (جماع کے علاوہ ہر کام کرو)۔(صحیح مسلم:302)
0سردي كي وجہ سے گرم اشیاء کھانا :
سردی کی وجہ سے گرم چیزیں کھانی چاہئیں تاکہ سردی سے بچ سکیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ: نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا، وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا (سنن ابی داؤد : 3836)

رسول اکرم ﷺ تربوز کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کھجور کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔
+حرام اشیاء کے ساتھ سردی کا اثر زائل کرنا درست نہیں
اسلام نے گرم اشیاء سے ٹھنڈک کو اور ٹھنڈی اشیاء سے گرمی کو زائل کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ حلال ہوں حرام اشیاء سے سردی ختم کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔سیدنا دیلم حمیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا بِأَرْضٍ بَارِدَةٍ نُعَالِجُ فِيهَا عَمَلًا شَدِيدًا، وَإِنَّا نَتَّخِذُ شَرَابًا مِنْ هَذَا الْقَمْحِ نَتَقَوَّى بِهِ عَلَى أَعْمَالِنَا وَعَلَى بَرْدِ بِلَادِنَا، قَالَ: هَلْ يُسْكِرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاجْتَنِبُوهُ قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ (سنن ابی داؤد : 3683)

میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ سرد علاقے میں رہتے ہیں اور سخت محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں، ہم لوگ اس گیہوں سے شراب بنا کر اس سے اپنے کاموں کے لیے طاقت حاصل کرتے ہیں اور اپنے ملک کی سردیوں سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: “کیا وہ نشہ آور ہوتا ہے؟” میں نے عرض کیا: “ہاں” آپ ﷺنے فرمایا: “پھر تو اس سے بچو”۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: لوگ اسے نہیں چھوڑ سکتے، آپ نے فرمایا: “اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو تم ان سے لڑائی کرو”۔
, سردی نیکی سے مانع نہیں :
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہم سردی کے موسم میں نماز کے لیے کئی قسم کے بہانے بنالیتے ہیں جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الخَنْدَقِ، فَإِذَا المُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ عَبِيدٌ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ النَّصَبِ وَالجُوعِ، قَالَ: ” اللَّهُمَّ إِنَّ العَيْشَ عَيْشُ الآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ (صحیح البخاری :2834)

رسول اللہﷺ جب خندق میں گئے، تو مہاجرین اور انصار سردی کے زمانے میں سویرے سویرے خندق کھود رہے تھے، جن کے پاس غلام بھی نہ تھے، جو ان کے لئے کام کرتے جب آپ ﷺ نے ان کی پریشانی اور بھوک کی حالت دیکھی، تو فرمایابیشک زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اے میرے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
– سردیوں میں نماز جمعہ سویرے پڑھنا
سردیوں میں نماز جمعہ سویر ے اپنے وقت پر ادا کی جائے جبکہ گرمی میں عام نماز کی طرح جمعہ نماز کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اسے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جائے۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، يَعْنِي الجُمُعَةَ (صحیح البخاری:906)

’’جب سردی بہت زیادہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺنماز سویرے پڑھتے اور جب گرمی بہت زیادہ ہوتی تو نماز یعنی جمعہ کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھتے تھے۔‘‘
. سردی کی وجہ سے تیمم کرنا
جب سردی بہت زیادہ ہو اس سردی میں غسل یا وضو کرنے کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق ہو تو پھر تیمم کرنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ فَتَيَمَّمْتُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي الصُّبْحَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا عَمْرُو صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي مَنَعَنِي مِنَ الِاغْتِسَالِ وَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ اللهَ يَقُولُ: {وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا (سنن ابی داؤد : 334)

’’ مجھے سردی کے زمانہ میں ایک رات غزوہ ذات السلاسل میں احتلام ہو گیا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو مرجاؤں گا اس لئے میں نے تیمم کر کے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی بعد میں میرے ساتھیوں نے نبی کریم ﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عمرو : تو نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی میں نے غسل نہ کرنے کا سبب بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل مت کرو اور اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ مسکرا دیئے اور کچھ نہ کہا ۔‘‘
/ سردی کے لیے موٹی جوراب پہننا اور ان پر مسح کرنا
سردی سے بچنے کے لیے پہنے گئے موٹے جورابوں پر مسح کیا جاسکتاہے جیسا کہ سیدنا عمر و بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رَأَيْتُ عَلِيًّا بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ

’’ میں نے علی ( بن ابی طالب) رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (الاوسط لابن المنذر :477 وسندہ صحیح )
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
الجورب هو الذي يلبسه أهل البلاد الشامية الشديدة البرد، وهو يتخذ من غزل الصوف المفتول، يلبس في القدم إلى ما فوق الكعب (البناية شرح الهداية 1/607)
’’ جراب وہ ہے جسے ملک شام کے لوگ شدید سردی میں پہنتے ہیں یہ بٹی ہوئی اون سے بنائی جاتی ہے ٹخنوں تک پاؤں میں پہنی جاتی ہے ۔
یادرہےکہ جورابوںپرمسح بالاجماع جائزہےموٹی جورابوں سے صرف یہ مراد ہے کہ جو عرف عام میں موٹی جرابیں کہلائی جاتی ہیں جن کے پہننے سے پاؤں نظر نہیں آتے جارجٹ کے دوپٹے جیسی جرابیں (جو بعض کھلاڑی وغیرہ پہنتے ہیں) جن میں پاؤں نظر آتے ہیں وہ پتلی جرابیں ہیں اور ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوں : مقالات تحقیقی ، اصلاحی اور علمی از زبیر علی زئی 6/75)
^ جرابوں پر مسح کرنےسے پاؤں دھونے کااجر
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے سے دوران وضو اعضاءدھونے کا جو ثواب حاصل ہوتا ہے بندہ اس سے محروم ہوجاتاہے حالانکہ ان کا یہ خیا ل بلادلیل ہے تیمم یا جرابوں پر مسح نبوی سنت و امر ہےاور یہ وضو ء (میں اعضاء دھونے )کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے