حج وقربانی کا شمار دین اسلام کے انتہائی اہم اور دور رس نتائج کے حامل شعائر میں سے ہوتا ہے ۔شعائر اللہ کی تعظیم وتوقیر اور ان سے حیات مستعار میں رہنمائی حاصل کرنا متقی دِلوں کا طرز عمل ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے

﴿وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ ﴾ الحج :۳۲

’’اور جو شخص شعائر اللہ کی تعظیم وتوقیر کرے تو بلاشبہ یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے ۔‘‘
شعائر اللہ کی تعظیم اسی وقت اوج کمال کو پہنچتی ہے جب یہ خالصۃً اللہ رب العزت کی رضا وخوشنودی کیلئے ہو۔ اسی لئے تو قربانی جیسی عظیم الشان عبادت کی روح تقویٰ قرار دی اور فرمایا

﴿ لَنْ یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنْکُمْ ﴾الحج :۳۷

’’اللہ تک تمہاری قربانی کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہنچتا ہاں اُس تک تو رسائی ہے تمہارئے تقوی کی۔‘‘
اور ایسے ہی حج میں خلوص الٰہی کے بارے میں تلقین کی

﴿وَاَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَۃَ لِلّٰہِ﴾

’’ حج وعمرہ خالص اللہ کیلئے پورا کرو۔‘‘
آئیے ذرا حج وقربانی کی فرضیت کے اصل مقصد کو سمجھیں ۔ قربانی وحج دراصل امام المؤحدین والمخلصین سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے خالص عقیدہ توحید اپ۔نانے کے طرز عمل کو اجاگر کرنے کی سعی وکوشش ہے کہ لوگوں ! قربانی کرتے وقت اپنے اندر ابراہیمی نظر، توکل، صبر، عقید توحید کی مسلسل دعوت پیش نظر رکھو۔ حج کرتے وقت امام غزالی رحمہ اللہ کے اس فرمودہ کو مت بھولیں کہ اس سفر کی اصل سواری شوق کی سواری ہے ، جتنی شوق کی آگ تیز ہو گی اُتنی ہی مقصد تک رسائی آسان ہو گی، اپنے دل کا علاقہ ماسوائے اللہ کے سب سے منقطع کر لو اور جس طرح اپ۔نے سفر کا رخ اس کے گھر کی طرف کر لیا ہے ، اپنے دل کا رخ بھی اسی طرف کر لو۔ وطن سے تعلق اس طرح کر لو کہ جیسے پھر لوٹ کر نہ آؤگے ۔ اہل وعیال کیلئے وصیت لکھ کرجاؤ ! سفر کا سامان کرتے ہوتو اتنا خرچ ساتھ لینے کا اہتمام کرتے ہوکہ کسی جگہ کمی نہ پڑ ے ۔ اس فکر اور کوشش میں رہو کہ اعمال حج میں ایسی آمیزش یا نقص نہ آجائے کہ وہ موت کے بعد ہمارا ساتھ نہ دیں اور اس سفر سے تم سفر آخرت کیلئے تقویٰ کا زاد راہ زیادہ سے زیادہ جمع کر لو۔‘‘

میرے بھائی ! رب مہربان نے حاجیوں کو لبیک اللہم لبیک کی شکل میں ایک ترانہ بھی عطا کیا ہوا ہے جس کی اپنی لذت ہے ۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’مَا مِن مُلَبٍّ یُلَبَّی اِ لّا لَبِّی مَا عَن یَمِینِہِ وَشِمَالِہِ مِن شَجَرٍ أو حَجَرٍ أو مَدَدٍ حَتّیٰ تَنقَطِعَ الأرضُ مِن ھَا ھُنَا وَہَاہُنَا عَن یَمِینِہِ وَشِمَالِہِ۔‘‘ (رواہ الترمذی (۸۲۸) ابن ماجہ(۲۹۲۱) وابن خزیمۃ(۱۶۳۴) والحاکم وقال صحیح علی شرط البخاری ومسلم ۱/۴۵۱) صححہ الشیخ الألبانی)’

’جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ دائیں اور بائیں جوپتھر ، درخت ، ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اس طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اور کعبہ اللہ المشرفہ پر پہلی نظر ڈالتے وقت ایسا نہ ہوکہ خانہ کعبہ پر نظر تو پڑ ے مگر ’’ نگائہ دل ‘‘ عظمت کعبہ پر نہ ہو۔ جو ’’البیت‘‘ کو دیکھے تو وہ یہ جانے کہ گویا اس میں ’’رب البیت‘‘ کو دیکھا ہے اسی خانہ کعبہ کے اوپر آسمانوں میں ’’بیت المعمور‘‘ موجود ہے جس کا ایک وقت میں 70 ہزار فرشتے طواف کر رہے ہیں اور ایک دفعہ طواف کرنے والے فرشتے کو رہتی قیامت تک دوسری دفعہ طواف کرنے کا موقع میسر نہیں آتا۔ بس سمجھ لو عرش پر وہ طواف کر رہے ہیں اور فرش پر تم ، سمجھ لو کہ یہ دربار الٰہی کا نمونہ ہے یہاں اطاعت وفرمانبرداری کا مجسم اقرار ہے ، یہ عجب جگہ ہے اس کی عظمت ذہن نشین رہنی چاہیے ۔
کعبہ پر پڑ ی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
یوں ہوش وخرد مفلوج ہوئے ، دل ذوق تماشا بھول گیا
احساس کے پردے لہرائے ، ایمان کی حرارت تیز ہوئی
سجدوں کی تڑ پ اللہ اللہ ، سر اپنا سودا بھول گیا
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے ، یاد آنہ سکا جو سوچا تھا
اظہار عقیدت کی دھن میں ، اظہار تمنا بھول گیا
پہنچا جو حرم کی چوکھٹ تک اک ابرِ کرم نے گھیر لیا
باقی نہ رہا یہ ہوش مجھے کیا مانگ لیا کیا بھول گیا۔
اوریاد رکھئے ! قربانی ایک اہم ترین دینی فریضہ ہے قربانی دیکر ہی اخلاص کی نعمت حاصل ہوتی ہے کندن بننے کیلئے بھٹی میں جلنا پڑ تاے ۔ قربانی دراصل ایک تربیتی عمل اور درسگاہ ہے کہ اے امت مسلمہ کے جانثاروں ! اللہ کے دین کی شہادت یا اقامت میں اگر جان ومال آل واولاد کے پیش کرنے کا مرحلہ آجائے تو کامل خودسپرد گی کے ساتھ زبان حال سے کہو ’

’سَمِعنَا وَاَطَعنَا‘‘

قربانی کے جانور کے گلے پر چھری چلانے سے قبل اپنے نفس امارہ کے گلے پر چھری چلانے کا جذبہ پیدا کریں ۔ خوش نصیب آدمی اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہر گوشہ اور ہر چیز رضائے الٰہی کی خاطر قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے حقیقت میں قربانی کا فلسفہ صرف یہی خوش نصیب ہی سمجھتا ہے ۔
میرے بھائی ! جب حج سے واپسی ہوتو یہ جذبہ لیکر آؤ کہ اب جب رب کعبہ کا گھر دیکھ آئے ہو ، حج کرآئے ہو تو سوچ لو کہ کیا اب معرکے کیلئے تیار ہو۔ وہی معرکہ جو فرعون وموسی علیہ السلام میں ہوا تھا ، وہی معرکہ جو نمرود و ابراہیم علیہ السلام میں ہوا ، وہی معرکہ جو کفر واسلام میں ہوا۔ کہیں تم داؤد علیہ السلام کی طرح فاتح ہو گے اور سلیمان علیہ السلام کی طرح ملکیت ملے گیا اور کہیں تم اصحاب الاخدود کی طرح آگ میں جلائے جاؤ گے ۔ ذرا پلٹ کے سوچو گے تو جانو گے کہ تم کو حج میں دراصل ایک فوجی تربیت دی گئی تھی ، کیمپنگ کروائی گئی تھی۔ ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی بھیجا گیا تھا تاکہ معرکے کیلئے تیار ہو جاؤ یعنی معرکہ خیر وشر۔ اب معرکہ اس مملکت خداداد پاکستان میں اقامت دین کا ہے ۔ ملکی نظام کے ہر کونے او رہر حصے میں اللہ کے دین کا نافذ ، اس کے قیام کی جدوجہد ہی مقصودِ زندگی ہونا چاہیے ۔ یہ بڑ ا ظلم ہو گا کہ ملک کی اعشاریہ ایک فیصد آبادی حج کی سعادت حاصل کرے مگر معاشرے میں تبدیلی نہ آئے ۔
امت مسلمہ ایک عرصے سے ملت کفر کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہی ہے اس کے وجود سے رستا ہوا خون ایک ایمانی تڑ پ پیدا کرتا ہے ۔ پیغامِ اسلام عصر حاضر کے سلگتے مسائل میں رحمت کی امید پیدا کرتا ہے ۔ امت مسلمہ کیلئے اس عالمگیر قربانی کے موقع پر عید الاضحی کا پیغام یہی ہے کہ ہم اسلام کے شعائر کو بطور رسم نہیں بلکہ بطور دین قبول کریں ۔ اسلام کے مَن مانے احکامات نہیں بلکہ جملہ پیغامات پر عمل کریں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر

﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾(الأنعام : ۱۶۲

) ’’ کہہ دیجئے کہ میری نماز ، قربانی ، میرا جینا اور مرنا (سب کچھ)اللہ رب العزت کیلئے ہے ۔ ‘‘کی روح پیدا کریں اسی وقت ہی ہماری قربانیاں ثمر مند ہو سکتی ہیں اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے ۔ع
میری زندگی کا مقصدتیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اس لئے نمازی
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
افغانستان سب کو نگل جائے گا نکلنے میں عافیت ہے : امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی جانب سے ۴۰ ہزار مزید امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کی درخواست کی ہے ، مگر امریکی صدر بارک اوباما کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل جیمز جونز نے افغان مشن کیلئے مزید فوجی بھجوانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ۔ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑ ھانے کے بجائے وہاں سے فوج نکالنے میں ہی ہماری عافیت ہے اگر افغانستان میں ۲ لا کھ فوجی بھی تعینات کر دئیے جائیں تو یہ افغانستان تمام فوجیوں کو نگل جائے گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔
ادھر میخائل گوربا چوف سابق سو ویت صدر بھی دو ہاہی دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی غلطی نہ کرے امریکہ روس سے عبرت حاصل کرے اور مذا کرات کا راستہ اختیار کر لے ہم نے بھی افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کے اضافے پر غور کیا تھا لیکن آخر کار نقصان کے باعث فوجی انخلا کا فیصلہ کرنا پڑ ا۔ اخباری رپورٹ ۱۰ نومبر ۲۰۰۹ء روزنامہ امت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے