قسط نمبر ۱۵:
أم ن:
یہ لفظ عربی زبان کے ان افعال میں سے ہے جو کثیر الأبواب ہیں جیسا کہ ذیل میں تذکرہ کیا جائے گا۔
أمن : بے خوفی ، اطمینان / خوف سے محفوظ ہونے کی حالت ۔ تاج العروس

ابن الفارس لکھتے ہیں کہ اس کے تین بنیادی معانی ہیں –

۱۔ خیانت کی ضد
۲۔ اطمینان قلب
۳۔ تصدیق کرنا (معجم مقابیس اللغۃ /۸۸)
امن کسی کو بے فکر اور مطمئن کرنا یادوسرے کو أمن دینا اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لینا ۔ تاج العروس راغب نے اس کے معنی بیان کیے ہیں کہ أمن کی اصل یہ ہے کہ طمانیت نفس حاصل ہونا اور خوف کا زائل ہونا۔
الأمن : الأمانۃ ، الأمان یہ دراصل مصادر ہیں ۔ أمانۃ کبھی کسی کی حفاظت کی ذمہ داری لے لینا کے مفہوم ہوتی ہے اور کبھی حفاظت کے مفہوم میں ۔ (مفردات الفاظ القرآن : ۹۰)
٭ اگر باب فَرِحَ یَفرَحُ سے ہوتو اس سے مراد مطمئن ہونا محفوظ ہونا ، بے خوف ہونا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔

﴿فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ﴾(البقرۃ:۲۳۹)

ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ۔

﴿فَلَا یَأْمَنُ مَکْرَ اللَّہِ﴾(الأعراف:۹۹)

سواللہ کی پکڑ سے بے فکر نہ ہوں ۔
اگر اس کا صلہ ب ہوتو اس کا مطلب کسی کا اعتبار کرنا ہوتا ہے ۔

﴿وَمِنْہُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ﴾(آل عمران :۷۵)

اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔
اگر اس کا صلہ علی ہوتو اس سے مراد کسی پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے ۔

﴿مَالَکَ لاَ تَامَنَّا عَلَی یُوسُفَ﴾(یوسف :۱۱)

آخر آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ؟۔(غریب القرآن فی لغات القرآن /۲۳)
یَکرُمُ
٭ اور اگر یہ لفظ باب کَرُمَ یعنی أَمُنَ یَأمُنُ ہوتو اس کا مطلب امین ہونا ۔ امانت دار ہونا معتمد علیہ ہونا جس کی صفت أمین ہے ۔ (منجد/۴۵)
٭ اور اگر یہ لفظ باب ضَرَبَ یَضرِبُ یعنی أَمَنَ یَامِنُ سے ہوتو اس کا مطلب اعتماد کرنا اور بھروسہ کرنا ہے یا مائل ہونا ہے جس کی صفت آمِن بنائی جاتی ہے ۔ (تاج العروس )
جبکہ یہ لفظ ثلاثی مزید میں بھی اضافی معانی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس میں سے ایک مشہور اصطلاح ایمان بھی ہے ۔
جس کے دوسرے معنی محفوظ کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ﴿وَآمَنَہُم مِن خَوفٍ ﴾ (قریش :۶)
اور ڈر وخوف میں امن وامان دیا۔
لفظ ایمان در حقیقت إِئمَانٌّ ہے جوکہ اسم فاعل ہے ۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جو قوت بطور امانت کے ودیعت کی ہیں ان کا مناسب استعمال کرنا ان کا بیجا استعمال کر کے ان میں خیانت نہ کرنا ۔ یعنی ایمان اس اعتبار سے امانت داری کے مترادف ہے چونکہ اس میں مسلمان اپنے اسلام کی حفاظت کرتا ہے اور اس میں خیانت نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں ہے :

﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا ﴾ (الأحزاب : ۷۲)

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑ وں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا وہ بڑ ا ہی ظالم وجاہل ہے ۔
۲۔ تصدیق (کتاب الصحاح ) یقینی طور پر جاننا اور ماننا ، ایمان

﴿قَالَتِ الْأَعْرَابُ آَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِکُمْ﴾ (الحجرات: ۱۶)

دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ۔ آپ کہہ دیجئے : کہ در حقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم (مخالفت چھوڑ کر ) مطیع ہوگئے کیونکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔
۳۔ محض زبانی یا رسمی ایمان

﴿قُل یَومَ الفَتحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِیمَانُہُمْ ﴾(السجدۃ : ۲۹)

جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان لانا بے ایمانوں کے کچھ کام نہ آئے گا۔
۴۔ امن دینا

﴿اِنَّہُم لَا أَیْمَانَ لَہُمْ﴾ ( التوبۃ:۱۲)

ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ۔
صاحب تاج العروس نے سب حالتِ ایمان کیلئے خوبصورت مثال دی کہ ایسی اونٹنی کو ناقۃٌ أَمُون کہتے ہیں جو قُویٰ اور عادات کے اعتبار سے قابل اعتماد ہو جس کامطلب یہ اطمینان ہو کہ وہ مسلسل سفر سے کمزور نہیں ہو گی اور راستے میں ٹھوکر کھا کر گر نہیں جائے گی۔ (تاج العروس)
انہی جامع معانی کے حامل فرد کو مؤمن کہا جاتا ہے جو امن عالم کا ضامن ہو ۔ (المحیط )( اللین)
اگر اَمَنَ کا صلہ لام ہوتو اس کے معنی بات ماننا کے ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :

﴿لَن نُومِنَ لَکَ ﴾ (البقرۃ:۵۵)

ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔
اس لفظ میں اعتبار ، اعتماد ، یقین اور اطاعت وتصدیق سب کا مفہوم آ جاتا ہے لیکن اگر اس کا صلہ ب ہوتو اس کا مطلب ایمان لانے کے ہوتے ہیں ۔ (اضرارالبیان)
قرآن کریم میں ہے :

﴿کُلٌّ آمَنَ بِاللّٰہِ﴾ (البقرۃ:۲۸۵)

یہ سب اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ۔
یعنی ایمان کا تعلق قلب اور عمل دونوں سے ہے اسی لئے قرآن میں ہمیشہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تقاضا کیا گیا ہے ۔ لہذا واضح رہے کہ ایمان صرف حقائق کو مان لینے کانام نہیں بلکہ عملاً اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا بھی از حد ضروری ہے ۔ (تدبر قرآن)
یہ لفظ قرآن مجید میں کہیں فسق کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے تو کہیں منافق کی ضد کے طور پر اور کہیں بغاوت اور نافرمانی کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔
المختصر ایمان لانے سے درج ذیل مفاہیم مراد لیے جا سکتے ہیں :
۱۔ یقین کرنا ، ماننا ، تسلیم کرنایعنی انکار نہ کرنا
۲۔ تصدیق کرنا یعنی تکذیب نہ کرنا
۳۔ اعتماد اور بھروسہ کرنا
۴۔ بات ماننا ، اطاعت کرنا سرتسلیم خم کرنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے