قسط نمبر :6:

محترم قارئین کرام ! اللہ احکم الحاکمین نے اپنی خاص حکمت کے تحت صبح کے وقت کو انتہائی بابرکت وقت بنایا ہے ، ہمیں چاہیے کہ ہم اس وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں تاکہ یہ ساعات قیامت کے دن ہمارے لئے مسعود ثابت ہوں ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ فجر کے بعد اس وقت تک اپنی جگہ پرذکر الٰہی میں مشغول رہتے جب تک سورج طلوع ہوکر بلند نہ ہوجاتا۔ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر :۶۷۰ ، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ )
اور دوسری حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپ۔نے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ تم نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکر کرنے والے خوش بخت لوگوں کیلئے مغفرت کی دعا کرو۔

(صحیح بخاری ، ۴۷۷ ، کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ فی مسجد السوق ۔ عن أبی ہریرۃ )

خادم رسول ﷺ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگ جو کہ نمازِ فجر سے لیکر طلوع آفتاب تک ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے ہیں میں ان کے ساتھ بیٹھنا افضل اور بہتر سمجھتا ہوں اس چیز کے مقابلے میں کہ میں اولادِ اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام اللہ کی رضا کیلئے آزاد کروں ۔
یعنی کہ صبح کے وقت مسجد میں بیٹھ کر ذکر واذکار میں مشغول رہنا چار غلام آزاد کرنے سے بہتر اور افضل عمل ہے ۔

نمازِ چاشت کی فضیلت

۱۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول معظم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوع آفتاب تک ذکر کرتارہتا ہے پھر اشراق کی دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو اس کے نامہ عمل میں ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے آپ ﷺ نے تامۃ (مکمل ) کے الفاظ تاکیداً تین دفعہ کہے ۔
۲۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے ابن آدم دن کے اول حصے میں میرے لئے چار رکعت پڑ ھ اس کے آخر میں (یعنی دن کے آخر میں ) میں تیرے لئے کفایت کرونگا یعنی کہ چاشت کی چار رکعتیں ادا کرنے والا خوش نصیب سارا دن اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے ۔
۳۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص صبح اٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے اسی طرح ایک بار اللہ اکبر اور لا إلہ إلا اللہ کہہ دینا بھی صدقہ ہے کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعتیں ان تمام امور سے کفایت کرجاتی ہیں ۔
۴۔سید الفقہاء أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں ان چیزوں کو مرتے دم تک نہ چھوڑ وں ۔
۱۔ ہر مہینے تین دن روزے رکھوں
۲۔ چاشت کی نماز پابندی سے ادا کروں
۳۔ سونے سے پہلے وتر پڑ ھوں
نماز چاشت کا حکم
نمازِ چاشت کی مشروعیت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں چھ(6) اقوال ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ صحیح اور راجح یہی ہے کہ اشراق کی نماز مستحب اور سنت ہے نہ کہ واجب یا فرض
دلیل

: عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ ﷺ یصلی الضحی حتی نقول لا یدع ویدعہا حتی نقول لا یصلی ۔ (رواہ الترمذی ، کتاب الصلاۃ ، حدیث نمبر :۴۳۹ وأخرجہ الحاکم بحوالہ فتح الباری ص/۷۲، ج/۳، دار السلام فیہ ضعف )

ترجمہ :سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل مکرم ﷺ نمازِ اشراق ادا کرتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ اسے ترک نہ کریں گے پھر اسے ( نمازِ اشراق کو) چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب آپ ﷺ اسے نہیں پڑ ھیں گے ۔
نمازِ چاشت کا وقت
چاشت کی نماز کا سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہوجانے سے شروع ہوکر زوال آفتاب تک باقی رہتا ہے لیکن اگر اس کو زوال سے پہلے سورج کی تپش کے وقت پڑ ھا جائے تو اس وقت ادا کرنا زیادہ اجر کا باعث ہے ۔
دلیل

: عن زید بن أرقم رضی اللہ عنہ قال خرج رسول اللہ ﷺ علی اہل قباء وہم یصلون الضحی فقال صلاۃ الاوابین إذا رمضت الفصال من الضحی

۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول عربی ﷺ اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نمازِ چاشت ادا کر رہے ہیں آپ ﷺ فرمایا کہ اوابین کی نماز تو اس وقت ہوتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں گرم ہوجائیں یعنی جب زمین سورج کی تپش کی شدت سے گرم ہوجائے ۔( صحیح مسلم )
تعدادِ رکعات
رسول ا کرم ﷺ کے قول مبارک کے مطابق نمازِ چاشت کی کم ازکم 2 رکعتیں ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ فعل مبارک کے مطابق چاشت کی نماز چار اور آٹھ رکعات تک منقول ہیں ۔ جبکہ 12 رکعت والی حدیث کو علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
دلیل : 2 رکعتیں

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص صبح اٹھتا ہے تو اس کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے اور اس کا ایک بار سبحان اللہ کہہ دینا صدقہ ہے اسی طرح ایک بار اللہ اکبر اور لا إلہ إلا اللہ کہہ دینا بھی صدقہ ہے کسی شخص کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روک دینا صدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعتیں ان تمام امور سے کفایت کرجاتی ہیں ۔
دلیل : 4 رکعتیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نمازِ چاشت کی چار رکعتیں پڑ ھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی زیادہ بھی پڑ ھ لیتے تھے ۔ ( صحیح مسلم ، عن عائشہ )
دلیل : 8 رکعتیں
ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے روزدن چڑ ھنے کے بعد آئے کپڑ ا لا کر پردہ کیا گیا پھر آپ ﷺ نے غسل کے بعد آٹھ رکعتیں نمازِ چاشت ادا کی۔ (صحیح مسلم)
غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ مغرب کے بعد چھ رکعت نماز کو اوابین کی نماز سمجھتے ہیں حالانکہ اوابین اور چاشت کی نماز ایک چیز کے دو مختلف نام ہیں ۔ چاشت کے وقت پڑ ھی جانے والی نماز ہی کو صلاۃ الاوابین کہتے ہیں اور مغرب کے بعدچھ رکعتیں پڑ ھنے والی روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔ ( تفصیل ترغیب وترہیب للمنذری ، فتح الباری لابن حجر میں ملاحظہ فرمائیں )
لا یحافظ علی صلاۃ الضحی إلا أواب ۔ (الترغیب والترہیب ۹۷۷ حسن)
نمازِ چاشت کی حفاظت اوّاب شخص ہی کر سکتا ہے
اواب
یعنی جس شخص میں کثرت کے ساتھ رجوع إلی اللہ کی صفت ہو اس کو اواب کہتے ہیں ۔
خاتمہ : محترم قارئین کرام! آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی اسوۂ حسنہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔
جاری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے