اللہ تعالیٰ نے آغاز نبوت میں داعی اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کو فرمایا

:﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ ٭وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ٭وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ٭وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ٭ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ٭وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾(المدثر:۱۔۷)

ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے والے کو مندرجہ ذیل باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
۱۔ ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی ہے کہ غفلتِ نیند کی چادر پوشی اور تمام قسم کے آرام چھوڑ کر ہمہ وقت دعوت تبلیغ کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ، آپ ﷺ یہ حکم ملتے ہی دعوت وتبلیغ کیلئے اس طرح کھڑ ے ہوئے کہ ۲۲ سال تک آرام وسکون نہ کیا اور انسانیت کی ہدایت کیلئے تڑ پ کر رہ گئے ۔
۲۔ ﴿وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ روئے زمین پر صرف ایک اللہ کی کبریائی بیان ہو اور معبودانِ باطلہ کی شان وشوکت کو مسمار کر دیا جائے ۔

۳۔ ﴿وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ﴾ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ داعی جسمانی وروحانی اور ظاہری وباطنی پاکیزگی اس قدر اختیار کرے کہ مدت مدید گزارنے پر بھی یہ چلینج کرسکے ۔

﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ (یونس:۱۶)

اس سے قبل عمر کا ایک طویل حصہ تم میں بسر کر چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔
یعنی چالیس سال کی عمر میں کسی ایک عیب ، بداخلاقی یا ظلم یا زیادتی کی طرف کر کے دکھلاؤ ۔ ۔ ۔ اگر نہیں تو یقین کر لو کہ میری دعوت حق ہے ۔
داعی کے اوصاف
دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کو مندرجہ ذیل اوصاف اپنانا ضروری ہیں –
۱۔ خالص نیت
دعوت تبلیغ کاکام کرنے والے کیلئے سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا ضرور ہے ، اگر دنیا کا مال ومتاع یا شہرت مقصود ہوئی تو آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ نہ ہو گا، بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے ایسے آدمی جہنم کا ایندھن بنے گا ، اگر رضائے الٰہی مقصود ہوتو راستے سے ایک شاخ کاٹ پھینکنا بھی جنت کا سبب بن سکتا ہے ، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا :

( اِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امرِیئٍ مَا نَوَی)

( صحیح بخاری ، کتاب بدء الوحی ، حدیث نمبر:۱)
ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر انسان کو نیت کے مطابق ہی بدلہ ملے گا۔
۲۔ علم راسخ
دعوت وتبلیغ کے میدان میں اتر نے سے پہلے علم کے ہتھیار سے آراستہ ہونا ضروری ہے ، حتی کہ عمل سے پہلے بھی علم سیکھنا ضروری ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا

: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ ﴾ (محمد:۱۹)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے گنا ہوں سے استغفار سے قبل علم کوحاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جوشخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اصلاح کی بجائے بگاڑ کا مرتکب زیادہ ہو گا۔ علم کی فضیلت وبرتری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال اور غیر سکھلائے ہوئے کا حرام ہے ۔
(فتاوی ابن تیمیہ)
اس لیے دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب وسنت ، ان کے معاون علوم اور عصری علوم میں راسخ ہو، چند مشہور اختلافی مسائل اور رٹی رٹائی تقاریر تک محدود نہ ہو بلکہ جس چیز کی دعوت دینا چاہتا ہو ، اس کا مکمل علم رکھتا ہو اور حصول علم کو اسباب و وسائل کے حصول پر مقدم کرے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لوگوں کو علم کی ضرورت ان کے کھانے پینے سے بھی زیادہ ہے کیونکہ کھانے کی طرف دن میں ایک یا دو مرتبہ ضرورت ہوتی ہے اور علم کی ضرورت تو ہمہ وقت ہے ۔
(اصول الدعوۃ:۳۲۷)
۳۔ عمل
دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کا اول مخاطب اپنے آپ کو سمجھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو ، کیونکہ قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ ﴾ (البقرۃ:۴۴)

کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو ۔
اور فرمایا

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾(الصف:۲)

جو کام خود نہیں کرتے وہ دوسروں کو کیوں کہتے ہو۔
اپنی اصلاح کے بعد اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں کی اصلاح کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی بدعملی بھی دعوت وتبلیغ میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ ﴾(الشعراء :۲۱۴)

آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور گھر کے افراد کی مکمل ہدایت دوسرے کے اختیار میں نہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے گھر بھی کنعان پیدا ہو گیا تھا لیکن اتنا فریضہ تو ہر ایک پر عائد ہوتا ہے کہ اپنے ماتحت افراد کی اصلاح کیلئے بھر پور کوشش کرے ۔ اگر انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ راہ ہدایت پر نہ آئے تو پھر یہ بری الذمہ ہو گا۔
کنعان نے سفینہئِ ہدایت کی بجائے کفر و ضلالت کی موجیں پسند کیں لیکن اس کی ہدایت کیلئے حضرت نوح علیہ السلام نے کس قدر جتن کئے ، یہ ہر صاحب علم پر واضح ہیں ، اب حضرت نوح علیہ السلام اس کی گمرائی سے بری الذمہ ہیں ۔
اگر کوئی اپنے آپ کو دین دار بنائے رکھے اور گھر والوں کو حالات کے دھارے پر بے فکری سے بہتا ہوا چھوڑ دے تو بری الذمہ نہیں ہو سکتا، اس کی مثال اس احمق کی سی ہو گی جو اپنے بیٹے کو خودکشی کرتے دیکھے اور یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ جو ان بیٹا اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔
۴۔ اخلاق حسنہ
دعوت وتبلیغ میں مؤثر ترین چیز اخلاق حسنہ ہیں ، داعی کیلئے ضروری ہے کہ میدان دعوت میں اترنے سے پہلے امکانی حد تک اپ۔نے اندر اخلاق حسنہ پیدا کر چکا ہو ، انبیاء کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کے دعو وں کو مثاثر کیا، یہی وجہ تھی کہ مخالفین شدید مخالفت کے باوجود ان کی بات سننے پر مجبور ہوجاتے تھے اور اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

: اَکمَلُ المُؤمِنِینَ إِیمَاناً اَحسَنُہُم خُلُقاً۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ)

مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہو۔
اچھے اخلاق کے بغیر ایک معمولی دکان کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی تو دعوت وتبلیغ کا عظیم کام اس کے بغیر کیسے چلایا جا سکتا ہے ۔
۵۔ حکمت عملی
دعوت وتبلیغ میں حکمت عملی اپ۔نانا ضرور ی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا

: ﴿ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ ﴾ (النحل:۱۲۵)

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت ، حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دیجئے ۔ اس آیت کریمہ میں دو بنیادی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
٭ دعوت حکومت ودانائی سے دی جائے ، یعنی اپنا مؤقف انتہائی سنجیدہ ، باوقار اور مدلل ہونا چاہیے اور لب ولہجہ بھی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو جس سے مخاطب واقعی اثر لے کہ ناصح مجھے حقیر سمجھ کر اپنی بلندی جتلانا نہیں چاہتا بلکہ وہ میری اصلاح کیلئے بے پناہ تڑ پ رکھتا ہے ۔
اکثر وبیشتر حالات میں دعوت مثبت انداز میں ہونی چاہیے ، منفی انداز صرف ناگزیز حالات میں مد مقابل کی تردید کیلئے اپ۔نانا چاہیے ، لیکن اس میں بھی سنجیدگی اور متانت کا ہونا ضرور ی ہے ، ہمہ وقت مخالفین کی تردید کی تاک میں رہنے سے دعوت میں پھیلاؤ نہیں ہو سکتا ، جس طرح غذا ہمیشہ کھائی جاتی ہے لیکن صرف بیماری کی صورت میں دفاع کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔
حکمت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے مؤقف کو ہی تبدیل کر دیا جائے یا اس انداز میں مداہنت اختیار کر لی جائے کہ اصل مقصد ہی فراموش ہوجائے بلکہ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ سخت سے سخت اورتلخ سے تلخ مسئلہ بیان کرنے میں بھی انتہائی نرم الفاظ کا انتخاب کیا جائے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دو

: ﴿فَقُولاَ قَولاً لَیِّناً﴾ (طٰہٰ:۴۴)

اسے نرم انداز سے بات کہنا۔ اور سورۃ النازعات میں قول لین کی وضاحت فرمائی

: ﴿فَقُل ہَل لَّکَ إِلَی اَن تَزَکَّی ٭ وَأَہدِیَکَ إِلیٰ رَبِّکَ فَتَخشیٰ﴾ (۱۸۔۱۹)

اے نبی کہو! کیا تو اپنی درستگی واصلاح چاہتا ہے اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھلاتا ہوں تاکہ تو ڈر جائے ۔
۶۔ دعوت مخاطب کے لحاظ سے
دعوت مخاطب کے حالات سے اور موقع محل کے موافق دینا ضروری ہے ، کامیاب طبیب وہی ہوتا ہے کہ جو مریض اور اس کے مرض کے مطابق دوا دے ، ہر مریض کو ہر موسم میں ایک ہی دوا دینا مفید نہیں ہوتا ، اگر دوا مریض کے مزاج کے مطابق نہ دی جائے تو وہ دوا ضائع ہوجاتی ہے ، اس طرح دعوت مخاطب بھی ضائع ہوجائے گی اور مخاطب بھی آئندہ آپ کی بات سننے کو تیار نہ ہو گا ، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت نصیحت فرمائی انک ستأتی قوما أہل کتاب لیعرف حالہم ویستعد لہم جو اہل مکہ کی طرح جاہل نہیں ہیں ان کے حالات معلوم کرنے چاہیں اور ان کیلئے تیاری کرنی چاہیے ۔
مبلغ کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ دعوت تدریجاً پیش کرے ، یک بارگی تمام دعوت پیش نہ کرے بلکہ اہم وبنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ، مثلا اگر کوئی دین سے بہت دور ہوتو اسے دین کے قریب کرنے کی دعوت دے ، اگر کوئی دین سے قریب ہے لیکن عملی کوتائی میں ملوث ہے تو اس کو عملی طور پر میدان میں اترنے کی دعوت دے ، اگر عملی طور پر کاربند ہے لیکن آگے دعوت میں سستی کر رہا ہوتو اس کو دین حنیف کی طرف دعوت دینے کی طرف مائل کرے ۔
اس طرح اگر کوئی آدمی بہت سی برائیوں میں گرفتار ہے مثلاً : سودخوری ، رشوت ، جھوٹ ، بدزبانی وغیرہ اور وہ بیک وقت ان کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تو آپ یک بارگی تمام کو چھوڑ نے کا مطالبہ نہ کریں بلکہ ایک خطر ناک جرم کو چھڑ وانے کی کوشش کریں ، پھر آہستہ آہستہ ایک ایک جرم سے متنفر کر کے چھوڑ نے کا مطالبہ کریں اور یہ مت سوچیں کہ ایک آدمی بیسوں گنا ہوں میں سے ایک چھوڑ بھی دے تو کیا فائدہ؟ کیونکہ ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اطاعت الٰہی سے نور کی ہلکی شعاع بھی بے فائدہ نہیں ہوتی ، اگر آپ ظلمت کدے میں سرچ لائٹ روشن نہیں کرسکتے تو کم از کم دیا سلائی معمولی روشنی تو کریں ۔ ممکن ہے اس دیا سلائی کی روشنی میں آپ کو سوئچ مل جائے جس سے سرچ لائٹ روشن ہوتی ہے ۔
انبیاء علیم السلام نے تن تنہا دعوت کاکام شروع کیا اور چاروں طرف اندھیروں اور گمراہیوں کے طوفان تھے ، وہ ایسے حالات میں ہدایت کے چراغ جلاتے رہے ، حتی کہ تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔
۷۔ صبر واستقامت
کوئی کام صبر واستقامت کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ خصوصاً دین کاکام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اس لئے داعی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پر اس پر ہونے والے اعتراضات پر اور دعوت کے دوران پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے والا ہو، صبر کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے کام پر ہمیشگی اختیار کرے ، اسے منقطع نہ ہونے دے اور نہ ہی اپنے دعوتی مشن سے اکتاہٹ محسوس کرے ، بلکہ مخالفین کی جس قدر مخالفت زیادہ ہو ، اس قدر زیادہ محنت وجذبہ سے کام کرے ، جس طرح گیند کو جتنا زور سے زمین پر ماریں اتنا زیادہ اچھلتی ہے ، اسی طرح ہی باطل مغلوب اور حق غالب ہو سکتا ہے ، اگر داعی لوگوں کو طعن وتشیع سن کر ہمت ہار کر بیٹھ جائے تو گویا اس نے باطل کو غالب کرنے اور حق کو مغلوب کرنے میں تعاون کیا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت گرفت کا سبب ہو گا۔
کائنات میں سب سے زیادہ پاک اور قدسی افراد جن کے اخلاق وکردار کا کوئی ثانی نہیں ، جب ان کو دعوت وتبلیغ کی وجہ سے طعن وتشیع کا نشانہ بنایا گیا اور طر طرح کے مصائب سے دو چارہونا پڑ ا تو دوسرے افراد اس طوفان سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے