میرا ایک دوست چند دن پہلے اپنے لیے ایک نیا موبائل فون خرید کر لایاتو خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے کسی پیاسے کو اچانک سے پانی مل گیا ہو، خوش بھی کیوں نہ ہوتا وہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی تنخواہ خرچ کر کے اپنے شوق کی تسکین کیلئے موبائل خرید کر لایا تھا، اسی خوشی میں اس نے مجھے اس کی بہت زیادہ خوبیاں بھی بتانا ضروری سمجھا، میں اس کی تما م تقریر کو سنتا رہا لیکن جب وہ رخصت ہونے لگا تو میں نے اسے کہہ دیا کہ اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کیلئے ا سکی حفاظت بھی کرنی پڑ ے گی ، کیونکہ شہری حالات ایسے سازگار نہیں ہے کہ انسان مطمئن ہو سکے ۔۔

دودن بعد جب میری ملاقات اس سے ہوئی تو اس کی کیفیت پہلے سے بالکل برعکس تھی ، اس کا چہرہ نہایت اتر ا ہوا تھا اور وہ روہانسا ہو کر مجھے اپنی دکھ بھری داستان سنا نے لگا: کہ میں جب گاڑ ی میں سوار ہوا تو موبائل خلاف عادت میری سائیڈ والی جیب میں تھا ، پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ میں نے موبائل دیکھنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں کچھ نہ تھا سوائے ندامت اور پریشانی کے ۔۔۔

٭ہمارے ایک معزز استاد محترم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب واپس آئے تو افسردہ ہو کر بتانے لگے کہ میں نے گاڑ ی میں سوار ہونے سے پہلے اپنی تما م رقم نکال کر شلوار کی جیب میں ڈال لی تاکہ جیب کتروں سے محفوظ رہ سکوں ، میرے ساتھ ایک مشکوک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس سے میں پورا راستہ ہوشیار رہا لیکن جب اترنے لگا تو اسی دوران اس نے اپنا کام دکھا یا اور میری بے خبری میں ہی پیسے نکال لیے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے یہ کام اتنی صفائی اور مہارت سے کیا کہ مجھے تب پتہ چلا جب میں اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
محترم قارئین!یہ دو واقعات تو میں نے بطور مثال کے پیش کیے ہیں لیکن یہ بات اتنی عام ہو چکی ہے کہ آپ ہر روز اس طرح کے بدصفت لوگوں کے ہاتھوں ڈسے ہوئے اپنے بھائیوں دوستوں سے اس طرز کے واقعات اور طریقہ واردات کے متعلق دلچسپ حقائق تو سنتے ہوں گے لیکن کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے ؟ اس کے اسباب کیا ہیں او ر کیا اس بیماری کا کوئی حل ہے بھی یا نہیں ؟
تو آئیے چند غور طلب باتوں کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں :۔
سب سے پہلے تو جو لوگ یہ غلط ترین حرکت کرتے ہیں اور حرام کی کمائی سے اپنا اور اپنے زیر کفالت بیوی بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں تو ان لوگوں کو اس فرمان نبوی ﷺ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ جس میں آپ ﷺ نے لوگوں کو ایذاء پہنچانے والے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔(بخاری)
۔۔مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں
اس حدیث مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے آدمی کو ایک لمحے کیلئے سوچناچاہئے کہ وہ کتنے لوگوں کو ایذاء پہنچاتا ہے ، جبکہ اس تکلیف کی وجہ سے اسے کتنی بددعائیں بھی ملتی ہوں گی اوراسے یہ جان لینا چاہئے کہ مظلوم کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی ۔
٭ جو لوگ اس گری ہوئی حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ حرام کی کمائی سے بھرتے ہیں اور حرام کھا کر کی گئی عبادت کبھی قبول نہیں ہوتی۔
٭بہت زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک روزنامے میں ایک خبر پڑ ھ کر نہایت حیرت بھی ہوئی اورافسوس بھی کہ جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ شہر کراچی اور دیگر شہروں میں باقاعدہ طورپر جیب کاٹنے کی تربیت دی جاتی ہے اور اس روزنامے میں بعض اماکن کی نشاندہی بھی کی گئی تھی، جب اس حد تک یہ بات واضح ہو چکی ہے تو کس معجزے کے انتظا ر میں ان لوگوں کے خلاف تادیبی کاروائی نہیں کی جاتی ، جب حکومت وقت ان کے خلاف ایکشن نہیں لے گی تو کون اس بیماری کے خاتمے کی ذمہ داری لے گا ، حکومتی عہدیداران کیوں اس برائی کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اور آئے روز بیسیوں لوگوں کا نقصان ہوتا دیکھ کر اس کا انسداد نہیں کرتے ، کیا اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا:
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔ (بخاری)
تم میں ہر آدمی نگران ہے اور ہر ایک سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا
٭ ایسے واقعات بھی میڈیا کی زینت بنتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے سے موبائل چھیننے کی کوشش کی تو مزاحمت پر گولی مار دی گئی ، اس کا مطلب ہے کہ ایک مسلمان کی جان موبائل سے بھی سستی ہو گئی ہے کہ چند روپوں کی خاطر اسے جان سے محروم کر دیا گیا، اس طرح درندہ صفت اس طرح کی برائیوں سے سیکھتے سیکھتے اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ ڈاکو بن کر لوگوں کے گھروں میں گھس کر گن پوائنٹ پر ان کو قیمتی مال ومتاع سے چند لمحوں میں محروم کر دیا جاتا ہے ۔
٭اگر ملک میں ان لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور انہیں لوگوں کے سامنے نشان عبرت بنایا جائے تو اس معاشرتی برائی کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہے ، اگر ایسے لوگوں کو چند دنوں کی سزادینے کے بعد سفارش پر رہا کر دیا جائے تو ان کا حوصلہ اور بڑ ھ جاتا ہے اور دوسرے بدفطرت لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر اس کام میں آگے بڑ ھتے چلے جاتے ہیں ۔
٭ یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ ہم لوگ اپنا محنت سے کمایا ہوا پیسہ جائز ضروریات پر استعمال کرنے کی بجائے اسے خرچ کر کے صرف اپنے شوق کو پورا کرنے کیلئے بہت زیادہ بیش قیمت موبائل خرید لیتے ہیں ، جب چوری ہو جاتا ہے تو غریب آدمی کی حالت غیر ہو جاتی ہے ، اس لیے اگر حالات کے بارے میں آگاہی کے باوجود کوئی اسراف کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے تو اسے نقصان کے وقت پریشان نہیں بلکہ نادم ہونا چاہئے ۔
٭ آخر میں حکومتی اہل کاروں سے گزارش ہے کہ وہ بروقت کاروائی کر کے لوگوں کو ذہنی ومالی نقصان سے نجات دلائیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہو سکے ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے