مجلہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں فہم قرآن کے حوالے سے ایک مستقل سلسلہ وجوۂ القرآن کے نام سے جاری تھا ۔ بعض قارئین کی جانب سے اس کے نام پر اعتراض کی وجہ سے اس کانام تبدیل کیا جارہا ہے، گوکہ متقدمین کی تالیفات اسی نام سے موجود ہیں لیکن وجوئہ القرآن کے معانی میں محدودیت اور ابہام کی وجہ سے اسے تبدیل کرکے آئندہ یہ مضمون فیوض القرآن کے نام سے لکھا جائے گا ۔ اِن شاء اللہ العزیز قرآن مجید میں استعمال ہونے والے کلمات کے قرآنی مفاھیم کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ مفاہیم متقدمین اور علماء سلف کی جہود کا فیض ہے۔ حقیقی علم اللہ رب العزت کا ہے یہ مضمون فہم القرآن کے حوالے سے ایک کاوش ہے جس میں مثبت تنقید کا انتظار رہے گا اور اکمال رب العالمین کو زیب دیتاہے۔                                                                            (ادارہ: ماہنامہ اسوئہ حسنہ )

 اَرْضٌ
جس کا معنی زمین ہے جس سے مراد ہر وہ چیز جو نیچے ہو ارض کہلاتی ہے، اور ہر وہ چیز جو اوپر ہو سَمَائٌ کہلاتی ہے لہذا جوتے کے نعل کو ارض النعل کہا جاتاہے۔ اور اسی طرح ٹانگوں کا وہ حصہ جو گھٹنوں سے نیچے ہو ارض کہلاتا ہے، اور زمین بھی چونکہ نیچے ہوتی ہے اس لئے اسے بھی ارض کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ (تاج العروس)
عربی ادب میں ’’أَرِیْضٌ‘‘ سے مراد خلیق اور منکسر المزاج یا پھر نرم اور زرخیز زمین ہے۔
(کشف السرائر لابن فارس)
اور علم بلاغہ کی رو سے ارض وسموات سے مراد مجازی طور پر کائنات کی پستیاں اور بلندیاں ہوتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلیَ الْأَرْضِ}

’’اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیات کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا (یعنی پستی کی طرف)۔‘‘
جس کی وضاحت آیت کے اگلے کلمات سے بھی ہوتی ہے: {وَاْتَّبِعَ ہَوٰہُ}
’’اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی۔‘‘
قرآن مجید کی رو سے انسانی معاش کا بنیادی ذریعہ ’’أَرْضٌ‘‘ بمعنی زمین ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

{وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ}

’’ہم نے تمہارے لئے زمین میںسامانِ معیشت رکھے ہیں۔‘‘
اور ایک مقام پر ہے

: {وَالْأَرْضَ وَضَعَہَا لِلْأَنَامِ}(الرحمن : ۱۰)

’’اور اسی نے مخلوق کیلئے زمین کو بچھادیا۔‘‘
اور ایک مقام پر ہے کہ :

{ مَتَاعاً لَّکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ } (عبس /۳۲)

’’تمہارے استعمال وفائدہ کیلئے اور تمہارے چوپایوں کیلئے ۔‘‘
نہ صرف زمین بلکہ دیگر تمام عناصر طبعی جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کے تعاون سے زمین سے رزق پیدا ہوتا ہے ان سب کے متعلق فرمایا:

{مَتَاعاً لِلْمُقْوِیْنَ}

’’اور مسافروں کے فائدے کیلئے سامان ۔‘‘
قرآن مجید میں أرض سے جو مشتقات استعمال کیے گئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
الأرض ، دابۃ الأرض ، أرضاً ، أرضکم، أرضاً ، أرضہم ، أرضی
قرآن مجید میں ’’ارض‘‘ درج ذیل مفاہیم میں استعمال کیا گیا ہے۔
۱۔ الجنۃ : جنت
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ}
(الأنبیاء / ۱۰۵)

’’زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے (یعنی جنت ) ‘‘’’ بعض اقوال کے مطابق‘‘

{وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاء} (الزمر)

’’اور ہمیں زمین کا وارث بنادیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔‘‘
۲۔ بیت المقدس: شام :
ارض شام
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَأَوْرَثَنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَاالَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا}
(الأعراف)

’’اور ہم نے ان لوگوں کو جوکہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے یورب پچھم کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔‘‘ (یعنی شام کا علاقہ جس میں فلسطین ، اردن کی زمین شامل ہے)
اور سورئہ روم میں ہے: {فِی أَدْنَی الْأَرْضِ}
’’نزدیک کی زمین پر یعنی (اردن وفلسطین)۔‘‘
اور سورت الأنبیاء میں بیان ہے :

{وَنَجَّیْنَاہُ وَلُوْطاً إِلیَ الْأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْنَ} (الأنبیاء)

’’اور ہم نے ابراہیم اور لوط علیہما السلام کو بچا کر اس زمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کیلئے برکت رکھی تھی۔‘‘
(اور اسی طرح سورت المائدہ :۲۱ اور دیگر آیات)
۳۔ مدینۃ منورۃ :
یعنی خاص مدینہ منورہ کا علاقہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ} (العنکبوت/۵۶)

’’اے میرے بندوں میرے زمین بہت کشادہ ہے (یعنی مدینہ)۔‘‘
اس آیت میں ایسی جگہ جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو رہی ہواور دین پر قائم رہنا دوبھر ہورہا ہوتو ہجرت کرنے کا حکم ہے جس میں مدینہ کی طرف اشارہ ہے۔
سورت النساء میں ہے ۔

{ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا}

’’ اور کیا اللہ کی زمین بہت کشادہ نہیں جس کی طرف تم ہجرت کرو(یعنی مدینہ کی طرف)۔‘‘
۴۔مکۃ المکرمۃ : شہر مکہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْأَرْضِ} (النساء /۹۶)

’’پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی (زمین) جگہ کمزور اور مغلوب تھے ۔‘‘
سیاق وسباق کے اعتبار سے مکہ اور اس کے قرب وجوارمراد ہے۔
۵۔سرزمین مصر
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{قَالَ اْجْعَلْنِیْ عَلیَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ}(یوسف)

’’ اور کہا کہ مجھے سرزمین مصر کے خزانوں کا نگران بنا دیں۔‘‘
سورت القصص/۴ ، سورت یوسف :۵۶ اور دیگر آیات میں بھی ارض کا اطلاق سرزمین مصر پرکیا جاتاہے۔
۶۔ ارض اسلام
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ}

’’یا پھر انہیں زمین سے نکال دیا جائے (یعنی سرزمین اسلام سے )۔‘‘
۷۔جمیع الأرض :
ساری / تمام زمین
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ إِلاَّ عَلیَ اللّٰہِ رِزْقُہَا }(سورۃ ہود)

’’زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔‘‘
اور ایک مقام پر ارشاد ہے۔

{وَلَوْاَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ أَقْلاَمٌ }
(لقمان/۲۷)

’’اگر روئے زمین کے تمام درختوں کی قلمیں بنادی جائیں۔‘‘
۸۔ القبر : قبر
سورت النساء میں ارشاد ہے

{یَوْمَئِذٍ یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَمُوْا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوَّی بِہِمُ الْأَرْضَ }

’’جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتا(یعنی قبر بنا دی جاتی)۔‘‘
٭……٭……٭

الجواب بعون الوھاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے