7شعبان المعظم 1442ھ/ 21 مارچ 2021ء اتوار کی شام کیا خوبصورت شام تھی کہ راقم الحروف (عمر فاروق السعیدی) کو اپنی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے صحن میں برپا ہونے والی بابرکت مجلس میں شریک ہونا نصیب ہوا کہ فضلاء جامعہ صحیح بخاری کی آخری حدیث کا درس لینے والے تھے چنانچہ محدث العصر فضیلۃ الشیخ الاستاذ محمد رفیق الاثری صاحب حفظہ اللہ نے باوجود نقاہت طبعی کے علمی معارف کے ان ان پہلووں سے آگاہ فرمایا جو بالعموم ہماری گرفت میں نہیں آتے۔ وَلِلّہِ دَرُّہُ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرح سے عافیت سے رکھے۔

یہاں حاضری دینا میرا خوشگوار فریضہ بھی ہے کہ اسی جامعہ نے مجھ کندۂ ناتراش،کوتاہ علم وعمل کو اس قابل بنایا ہے کہ آج بھاری بھر کم القابات سے نوازا جاتاہوں۔ أعز اللہ ھذہ الجامعة المباركة وشکر مساعیھا

اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنے شیخ محترم حفظہ اللہ کی گفتگو کو آگے بڑھاؤں اور اپنے ان نئے وارد فضلاء سے کچھ عرض کروں۔

عزیزان گرامی!

آپ اک جامعہ سے سیراب ہوئے ہیں اور اپنے اساتذہ کرام کے ممنون احسان ہیں کہ جب آپ یہاں تشریف لائے تھے تو یقیناً اُمّی اور لا یَعلَم تھے مگر آج آپ اپنی ذات میں ایک صاحب علم ہی نہیں بلکہ جہاں بھی آپ جائیں گے اپنے لوگوں کیلئے مُعَلِّم،مُذَكِّرْ،مُرَبِي، اِمام ومُقتَدَا،خطیب ومفتی ہوں گے۔ آپ کا قول إن شاء اللہ قول فیصل اور آپ کا فعل عوام الناس کیلئے اُسوہ اور نمونہ ہوگا۔ اس لیے بھائی اپنا مقام پہچانیے اور اس کی حفاظت کیجیے۔

جامعہ نے آپ کو محض آپ کی اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ امت مسلمہ کیلئے بلکہ کرۂ ارضی پر بسنے والوں کیلئے تیار کیا ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

’’تم بہترین امت ہو، جسے لوگوں کے لیے برپا کیاگیاہے ، تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘(آل عمران:110)

آپ کسی صدف میں بند موتی نہیں بلکہ کوۂ نور سے بڑہ کر ہیں جو امت مسلمہ کی جبیں کو اور زیادہ روشن کرنے والا ہے۔ میں ان سطور میں آپ کو آپ کا مقام،آپ کا وقار اور مستقبل میں آپ کی ذمہ داریوں کی کچھ یاددہانی کرانا چاہتا ہوں اس میں سب سے پہلے تو مجھے فائدہ ہوگا اور پھر اُمید ہے کہ آپ بھی کسی بڑے سہو سے بچ جائیں گے۔

1۔ سب سے اولین بات آپ کے ذمے یہ ہے کہ تعلیم وتعلّم کے اس تسلسل کو اپنے عسر ویسر اور منشط ومکرہ کے تمام حالات میں قائم ودائم رکھنا ہے۔ ہماری امت مسلمہ کا یہی اعجاز ہے۔غرناطہ واندلس کے بالمقابل پاک وہند کے ہمارے اسلاف کا یہ وہ عظیم احسان ہے جسے ہم کسی صورت چکا نہیں سکتے مگر یہی کہ ان کے اس کارِ خیر کو جاری وساری رکھیں۔ غرناطہ کے المیہ کا ایک تجزیہ یہ کیاگیاہے کہ وہاں سے مسلمانوں کو انتہائی ظالمانہ طور پردیس نکالا دے دیاگیا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہود ونصاریٰ کے ظلم عظیم کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود رہی تھی مگر المیہ یہ ہوا کہ وہ اپنا دین اور دینی سرمایہ کسی طرح محفوظ رکھنے اور اُسے اگلی نسلوں کو منتقل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے،یا ناکام بنادیئے گئے۔

اس کے بالمقابل ہندوستان میں صدیوں کی حکومت کے بعد جب انہیں مغلوب کرلیاگیا،اسلامی مدارس اورعلماء کرام کے اوقاف انگریز نے ضبط کر لیے تو علماء نے اللہ کے خاص فضل سے ایک بے مثل اجتہاد اور جہاد کیا کہ رضا بالقضا،فقروفاقہ اور تنگی وترشی کے سرمایہ سے مساجد کے اندر معتکف ہوگئے اور یہ عزم کر لیا کہ جیسے بھی بن پڑے اپنی امت کو ان کے دین وایمان وقرآن وسنت کے علوم سے بےبہرہ نہ ہونے دیں گے۔

ان کے پاس صبر وقناعت کا ایسا مبارک سرمایہ تھااور آج بھی ہے کہ اس کی موجودگی میں اساتذہ وطلبہ حفظ القرآن،تفسیر،حدیث،فقہ،دینی ثقافت،شرعی واسلامی اخلاق وآداب،حلال وحرام کی تمیز، اللہ ورسول کی محبت اور جنت کی چاہت اپنے عوام کے دلوں میں اس طرح راسخ کرتے رہے اور اپنی ہر آنے والی نسل میں منتقل کرتے رہے کہ انگریز اپنے تمام ترلاؤلشکر اورسرمایہ وقوت کے باوجود اس حلاوت وشیرینی کو ان کے قلوب واذہان سے نکال نہیں سکا ہے۔ اور إن شاء اللہ موجودہ دور کے دجال بھی کسی صورت اسے مٹا نہیں سکتے ۔

لارڈمیکالے کا نظریہ کلی طور پر کامیاب نہیں ہوسکا ان سے مسلمان ختم نہیں ہوئے اور نہ ان کا دین ان سے مٹ سکا ہے بلکہ اس میں اور زیادہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ والحمد للہ

توواجب ہے کہ آپ بھی یہاں اسی کارِخیر کا عزم بالجزم لے کر جائیں۔

فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَ لِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَؒ۰۰۱۲۲

’’توکیوں نہ ہوا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین(کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے، اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈرسناتے۔‘‘(التوبۃ:122)

عزیزانِ گرامی! آپ کو اس بات کا یقیناً احساس ہوگا کہ دینی علوم اور دینی جامعات کا نظام اورکلچر علماء اسلام نے سراسر مفت اورفری ایجوکیشن کے نظریہ پر جاری رکھا ہے، اور دنیائے علوم میں یہ ایک انتہائی منفرد نظریہ اورتجربہ ہے۔ علماء اسلام کے نزدیک یہ علم سراسر بلاعوض پیش کیے جانے والا ہدیہ ہے۔ جبکہ لادینی اورعصری علوم کا نظام سراسر سرمایہ دارانہ اورمرچنٹ کلچر ہے۔ علماء دین بغیر کسی صلہ وستائش کے یہ دوسروں کو دے کر فرحت محسوس کرتے ہیں۔دنیاوی علوم ومعارف صرف مالدار ہی حاصل کرسکتے ہیں جبکہ دینی علوم کے دروازے قوم کے سب غریب وامیر،عام وخاص لوگوں کیلئے ہرجگہ ہر وقت کھلے ہوتے ہیں۔

تو برادران! یہ نعمت جس طرح مجھے اور آپ کو بے قیمت ملی ہے اسی طرح بے قیمت ہی آگے بانٹنے میں کسی طرح بُخل نہ فرمائیں۔

(إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللهِ) كا فرمان ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ توکل کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں فرماتاہے۔

2۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام نے ہمیں ’’کتاب‘‘ سے جوڑدیا ہے۔ یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ ہم ساری زندگی اس کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ کتاب اور مطالعۂ کتاب سے انسان کو حال ہی نہیں اپنے ماضی قریب اوربعید کے علماء واساتذہ اور ائمہ سے استفادہ کا موقعہ ملتاہے۔آدمی اصحاب علم کی مجلس اختیار کرتا اوران کے علوم ومعارف سے جواہر چُنتاہے۔ اس کے علم وعمل میں نکھار آتاہے،آگے بڑھنے اورمقاماتِ عالیہ حاصل کرنے کا شوق اور اس کی نئی نئی راہیں سوجھتی ہیں اگر کوئی تنہائی پسند ہوتو بھی کتاب کی معیت میں وہ اکیلا نہیں ہوتا۔

اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے لیل ونہار میں کچھ اوقات مخصوص ہوں کہ اس میں آپ نے صرف مطالعہ ہی کرناہے۔ اس وقت میں کسی کو دخل دینے کا موقعہ نہ دیں۔ بالخصوص روز نامہ اخبار سے واجبی ساتعلق رکھیں،اورموبائل فون کا معاملہ اس سے بھی اہم تر ہے، اس نے تو ہماری مساجد کا ماحول اورنمازوں کا خشوع جو پہلے ہی برائے نام تھا سب ہی تلپٹ کرکے رکھ دیاہے اورعلمی ذوق وشوق تو گویا اس نے چھین ہی لیا ہے۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ دن رات کے چوبیس گھنٹے لوگوں سے ہر وقت ہی رابطہ میں رہیں۔ یا میسیج پڑھنے اور بھیجنے میں گزاردیں چاہیے کہ حسب احوال نئی نئی کتابیں حاصل کریں، لائبریری سے رابطہ رکھیں اور جس طرح بھی بن پڑے اپنے علمی سرمایہ میں اضافہ کی فکر میں رہیں۔ قرآن مجید کی پہلی پہلی وحی اور صحیح بخاری کی پہلی حدیث ہمیں اقْرَأْ، اقْرَأْاور اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ۰۰۱کا درس دیتی ہے اور (مَا أَنَا بِقَارِئٍ)’’ مجھے پڑھنا نہیں آتا‘‘ کا مطالبہ یہ ہے کہ پڑھنا نہیں آتا تب بھی پڑھیے اور لکھیے ۔یہی آپ کی راہ اور آپ کا کمال ہے۔

3۔ اگر آپ کو تدریس کا موقعہ میسر آگیا ہے تواس بارے میں کچھ کتب کا مطالعہ لازماً فرمالیں، مثلاً: مسلمان استاذ(ڈاکٹر محمد وسیم اکبر شیخ) اورمثالی استاذ(محمد حنیف عبد المجید صاحب) وغیرہ۔

4۔ برادران عزیز! اپنے علوم ومعارف جو آپ نے حاصل کیے ہیں، اورمزید حاصل جو کریں گے انہیں اپنے مخاطبین تک کما حقہ پہنچانے کیلئے اُن کی اپنی زبان اورلہجے میں جسے وہ بخوبی سمجھتےہیں، پہنچانے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کا یہی درس ہے :

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ(ابراہیم:4)

کا یہی مفہوم ہے۔

قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبان اور اس کا ادب بالخصوص آپ کے مطالعہ میں رہنا چاہیے۔

اور حکام بالا تک اپنی بات پہنچانے اور اِبلاغِ حق اور نصیحت کا فریضہ ادا کرنے کیلئے اُن کی زبان میں بھی درک حاصل کریں۔ دورِ بنوامیہ،بنی عباس،اندلس اورمغلیہ دورِ حکومت میں علماء اسلام کو ایک وقار حاصل تھا۔ حکام ان کی بات سنتے سمجھتے اوراثر لیتے تہے مگر ان کی زبان بدل جانے کے بعد علماء اسلام بالکل ہی معطل سمجھے جانے لگے۔

تحریک پاکستان میں بڑے بڑے اجلّ علماء شامل اورشریک تھے مگر قیادت انھیں ملی جو اسلامیات میں معتبر نہ تھے۔آپ صرف عربی پر قناعت کرکے ایک مقدس شخصیت تو یقیناً ہوں گے اور کہلائیں گے مگر حکام کے نزدیک سراسر غیرمؤثر رہیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ آپ انگریزی میں درک حاصل کریں،یا کوئی اورمعاصر زبان جس کی معاشرے کو ضرورت ہوسکتی ہے اس کا علم حاصل کریں۔ مثلاً: جیسے کہ چینی زبان کی باتیں ہورہی ہیں تو ضروری ہے کہ علماء اسلام اس کیلئے پہلے سے تیار ہوں۔

ایک اور بات بھی یقیناً آپ کے علم میں ہوگی کہ یہ لوگ اسلام کے متعلق شبہات بالعموم انگریزی یا دوسری زبانوں میں پیش کرتےہیں تو علماء مجاہدین کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے طلبہ میں سے جو اس میدان کاذوق رکھتے ہوں اس میں ان کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ ادارے ان کا پورا پورا تعاون کریں۔

ان دجّالوں کا پروگرام یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کا زور توڑنے کیلئے ان کی نسلوں کی زبان ہی بدل دی جائے اور ان کا سارا ذخیرہ علوم ومعارف ردّی بن جائے۔ لا قدر اللہ۔ ہرفرعونےرا موسی، اللہ تبارک وتعالیٰ کا قاعدہ قانون ضرور ہے مگر مسلمان معجزات کا انتظار نہیں کرتا بلکہ یہ خود معجزہ ہے، اورمعجزہ بنتاہے۔ کمال اتاترک اورترکی کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ

الْعَاقِلُ أَنْ يَكُونَ بَصِيرًا بِزَمَانِهِ، مُقْبِلاً عَلَى شَأْنِهِ

یعنی ’’ عقلمند وہ ہے جو اپنے زمانے کی روش کو سمجھتا اور پھر اس کے مطابق دفاع یا ہجوم کی تدبیر کرتاہو۔‘‘(ضعيف الترغيب والترهيب:1352)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے