انہیں ادب سکھانا:
علم و عمل کی تعلیم کے ساتھ ہی ادب کی تعلیم بھی ضروری ہے کیونکہ ”ادب پہلا قرینہ ہے علم کے قرینوں میں“ اور ”باادب بامراد“کے بمصداق ادب علم و عمل کا حسن ہے،ادب اس وصف کوکہتے ہیں جو انسان کو رویے اور لب و لہجے کی خامیوں سے بچائے،اور اسے حسن سلوک اور حسن اداء سے مزین کرے،یہ نہایت ہی اعلیٰ خوبی ہے،جو ہر ملنے والے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے، لیکن افسوس نسل نو اس سے محروم دکھائی دیتی ہے،جسکی بڑی وجہ بچوں سے متعلق ٹی وی شوز،کارٹونز اور موویز ہیں،جن میں ہیرو کے طور پر ایسے افراد کو پیش کیا جاتا ہے جنہیں معاشرہ انکی خامیوں کے باعث دھتکار چکا ہوتا ہے،اور بچوں کو بڑوں سے زیادہ ہونہار ظاہر کیا جاتا ہے،اور بچپن سے ہی انہیں کسی بچی پر عاشق دکھایا جاتا ہے،اس پر مستزاد انکے عریاں لباس ،خلاف شریعت اطوار و عادات جو مذکورہ شوز ،موویز وغیرہ میںدکھائی جاتی ہیں اس طرح کی اور بہت سی خامیاں ہیں جو نسل نو کو تباہ کررہی ہیں ،انکے اخلاق و کردار کو داغدار بنانے کی تربیت دے رہی ہیں، انہیں انکے والدین اور سرپرستوں کے کنٹرول سے نکلنے کی ناپاک سوچ فراہم کررہی ہیں، لہذا یہ والدین اور خاندان کے بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس بگاڑ سے بچائیں اور انہیں ادب کے زیور سے آراستہ کریں۔
٭رسول اللہ ﷺ بذات خود بچوں کو ادب سکھایا کرتے تھے،جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ؄ نے کہا کہ:

أخذ الحسن بن علي رضي الله عنهما تَمْرَةً مِنْ تَمْر الصَّدَقَةِ فَجَعَلَهَا في فِيهِ فَقَالَ رَسُول الله ﷺ كَخْ كَخْ إرْمِ بِهَا  أمَا عَلِمْتَ أنَّا لا نَأكُلُ الصَّدَقَةَ -وفي طریق- أنَّا لا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ

ایک مرتبہ سیدنا حسن بن علی؆(جب وہ چھوٹے بچے تھے) نے زکاۃ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو نبی ﷺ نے فرمایا:چھی چھی،اسے پھینک دو ،تمہیں پتہ نہیں کہ ہم زکاۃ نہیں کھاسکتے، ہمارے لئے زکاۃ حلال نہیں۔(صحیح مسلم:1069)
(فائدہ)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو شروع سے ہی حلال و حرام کی تعلیم و تربیت دینی چاہیے اور انہیں ان میں فرق کرنا سکھانا چاہیئے ۔
نیز سیدنا ابو حفص عمر بن ابی سلمہ؆ جو کہ نبی ﷺ کے ربیب یعنی زیر کفالت تھے انہوں نے کہا کہ:

كُنْتُ غلاَماً في حجر رَسُول اللهﷺوَكَانَتْ يَدي تَطِيشُ في الصَّحْفَةِ ، فَقَالَ لي رَسُول الله ﷺ يَا غُلامُ سَمِّ الله تَعَالَى ، وَكُلْ بيَمِينكَ ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ فَمَا زَالَتْ تِلْكَ طِعْمَتي بَعْدُ  (صحیح بخاری:5376)

میں بچہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کی زیر کفالت تھا،اور میرا ہاتھ کھانے کے تھال کے الگ الگ حصوںپر گھوم رہا تھا(کھانے کے دوران)تو نبی ﷺ نے مجھ سے کہا: اے بچے بسم اللہ پڑھو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ ،عمر بن ابی سلمہ ؆ نےکہا کہ: اسکے بعد میں ہمیشہ ایسے ہی کھایا کرتا تھا۔
نیز گذشتہ صفحات میں احادیث گذرچکی ہیں جن میں نبی اکرمﷺ بچوں کو بڑوں کی موجودگی میں پہلے بولنے سے منع کیااور بچوں کو تعلیم دی کہ وہ بڑوں کو سلام کریں،اور انکا احترام کریںاورہر موقع پر انہیں مقدم کریں، نہ کرنے والے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
٭نیزلقمان حکیم  نے اپنے بچے کو ادب کی بنیادی تعلیم دیتے ہوئے کہا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نقل فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ (سورۃ لقمان:18-19)

لوگوں پر اپنے گال مت پھلا،نہ ہی زمین پر اترا کر چل،کیونکہ اللہ کسی بھی متکبر اور گھمنڈی کوپسند نہیں کرتا،اور میانہ چال چل اور اپنی آواز نیچی رکھ کیونکہ سب سے بری آوازگدھے کی آواز ہے(کہ وہ اونچی ہے)۔
نیز نبی اکرم ﷺ نے زیر کفالت لونڈی کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَالرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَيُعَلِّمُهَا فَيُحْسِنُ تَعْلِيمَهَا وَيُؤَدِّبُهَا فَيُحْسِنُ أَدَبَهَا ثُمَّ يُعْتِقُهَا فَيَتَزَوَّجُهَا فَلَهُ أَجْرَانِ (صحیح بخاری:2849)

جس شخص کی لونڈی ہو وہ اسے تعلیم دے،اسے اچھی تعلیم دے ،اسے ادب سکھائے،اور اچھا ادب سکھائے،پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اسکے لئے دوگنا اجر ہے۔
5-اولاد کے درمیان عدل کرنا:
”عدل“بڑا ہی اعلیٰ وصف ہے،زندگی کا ہر پہلو عدل کے تقاضے پورے کرتا ہواگزارنا چاہیے،اس سے زندگی میں سکون و اطمینان برقرار رہتا ہے،عدل کا معنی ہے کہ : افراط(غلو) و تفریط(تقصیر) سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا،باالفاظ دیگر حق ادا کرنا۔عدل کی ضد ”ظلم “ ہے، جسکا معنی ہے کہ:حق سے محروم کردینا،یعنی افراط یا تفریظ کا راستہ اختیار کرنا۔
اولاد کے درمیان عدل یہ ہے کہ جس شخص کے ایک سے زائد بچے ہوں اور اسکے زیر کفالت ہوںوہ لڑکے ، لڑکی،یا چھوٹے ، بڑے کا فرق کئے بغیرہر معاملے میں انکے درمیان مساوات کو قائم رکھے،اور کسی ایک بچے کو دیگر پر ترجیح نہ دے،خاص طور پر عطیات،تحائف کے معاملے میں،ایسا کرنے سے سبھی بچے ذہنی طور پر مطمئن رہیں گے،احساس محرومی کا شکار نہ ہوں گے اور والدین کا تہہ دل سے ادب واحترام کریں گے،جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا نعمان بن بشیر؆ نے کہا کہ:’’میرےوالد بشیر؄نے میری والدہ عمرہ بنت رواحہ؅ کے بے حد اصرار پرمجھےاپنا کچھ مال تحفتاًدیا ، میری والدہ نے کہا کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ بناؤ تو میرے والد نے رسول اللہ ﷺ کوسے گواہ بننے کی گزارش کی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ :کیا تو نے اپنے باقی بچوں کو بھی یہ دیا ہے؟ والد صاحب نے کہا کہ نہیں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی اور کو گواہ بنالو میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان تحائف میں بھی عدل کرو،چنانچہ میرے والد نے وہ تحفہ واپس لے لیا۔‘‘(صحیح بخاری:2507-2446)
نیز سیدنا انس بن مالک ؄نے کہا کہ:

 كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ، فَجَاءَ ابْنٌ لَهُ فَقَبَّلَهُ وَأَجْلَسَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ جَاءَتْ بِنْتٌ لَهُ فَأَجْلَسَهَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ:  فَهَلَّا عَدَلْتَ بَيْنَهُمَا؟

رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا کہ اسکا بیٹا آیا اس نے اسکا بوسہ لیا اور اسے اپنی گود میں بٹھالیا،پھر اسکی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنی سائیڈ پر بٹھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:تو ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہ کیا؟۔(شعب الایمان للبیہقی:10510،الصحیحۃ:3098)
نیز سیدنا عقبہ بن عامر؄ نے کہا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَكْرَهُوا الْبَنَاتِ، فَإِنَّهُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِيَاتُ

بچیوں کو ناپسند نہ کرو،کیونکہ وہ بہت ہی پیاریاں اور قیمتی ہوتی ہیں۔(مسند احمد:17411،الصحیحۃ:3206)
نیز بعض لوگ لڑکے کی ولادت پر زیادہ خوش ہوتے ہیں،یہ بھی اولاد کے درمیان عدل کے منافی ہے،سلف صالحین کا یہ طریقہ نہ تھا ،جیسا کہ کثیر بن عبید  نے کہا کہ:

كَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا وُلِدَ فِيهِمْ مَوْلُودٌ، يَعْنِي: فِي أَهْلِهَا – لاَ تَسْأَلُ: غُلاَمًا وَلاَ جَارِيَةً  تَقُولُ: خُلِقَ سَوِيًّا؟ فَإِذَا قِيلَ: نَعَمْ، قَالَتْ: الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

سیدہ عائشہ صدیقہ؅ کے گھرانے میں جب کسی کی ولادت ہوتی تو وہ یہ نہیں پوچھتیں کہ لڑکا ہوا ہے یا لڑکی بلکہ پوچھتیں کہ :صحیح پیدا ہوا ؟اگر جواب ملتا کہ :جی ہاں،تو فرماتیں:الحمد للہ رب العالمین(صحیح الادب المفرد:956)
البتہ جن معاملات میں مساوات ممکن نہ ہو،مثلاً:بچوں کی صحت ومرض،قوت و ضعف،تعلیم وتربیت،خوراک و لباس وغیرہ تو اس میں عدل یہی ہے کہ ہر بچے کو اسکی ضرورت کے مطابق اشیاء فراہم کی جائیں،اورسبھی کی ضروریات کا خیال رکھا جائے ،اور اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ کسی ایک کی ضرورت کو ترجیح دینا لازم ہوجائے تو والدین خیر خواہی کا دامن ہر گز ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
نیز بعض بچے طبعی طور پر دیگر بچوں سے زیادہ محبوب ہوتے ہیںتو یہ معاملہ دِلی حد تک رہے تو صحیح ہے لیکن عملی طور پر اسکا اظہار” عدل“ کے منافی ہوگا۔
6-وراثت کی تقسیم میں شریعت کی خلاف ورزی نہ کرنا:
ہمارے معاشرےمیں یہ خرابی عام ہے کہ مرنے والا اپنی جائداد اپنی پسند کے مطابق تقسیم کرجاتا ہے،پھر اسکی وارثین میں تنازعات جنم لیتے ہیں،اور بسا اوقات معاملہ عدالت تک جاپہنچتا ہے،اس کا واحد ذمہ دار وہ شخص ہے جو اپنی جائداد کو اپنی مرضی سے تقسیم کرجاتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے خالق و مالک کے احکامات کو نظر انداز کردیتا ہے،حالانکہ وہ عدل نہیں کرسکتا،لہذااپنی مرضی کرنے سےوہ گناہ گار اور مجرم قرار پاتا ہے۔
اس سلسلے میں شریعت نے اسے صرف اتنا حق دیا ہے کہ وہ اپنے کل مال کا تہائی حصہ بطور وصیت کسی کو دے سکتا ہے،یعنی وارثوں کے سوا کسی اور کو ،جبکہ وارثوں کو صرف انکا شرعی حصہ ہی ملے گا،یا اتنا مال وہ فی سبیل اللہ کسی مد میں لگا سکتا ہے،بشرطیکہ اسکے ذمہ واجب الاداء مالی حقوق ادا کرنے کے بعد اور وصیت پر عمل کرلینے کے بعد وارثوں کے لئے بھی مال بچتا ہواور اگر وارثوں کے لئے مال نہ بچے تو وصیت کالعدم ہوجائے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (سورۃ النساء :11)

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں تاکید کرتا ہے۔
یعنی اس سلسلے میں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں یہ معاملہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اختیار میں نہیں رکھا بلکہ اسکا فیصلہ خود ہی فرمادیا ہے کہ کس کو کتنا ملے گا،کیونکہ تم چاہ کر بھی نہیں جان سکتے کہ کس کا کتنا حق ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللهِ إِنّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا  (سورۃ النساء :11)

تمہاے باپ دادا اور تمہارے بیٹے تم نہیں جان سکتے کہ تمہارے لئے زیادہ نفع بخش کون ہے،اللہ کی جانب سے مقرر کردہ حصے ہیں،کیونکہ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
نیز وراثت کی تقسیم کے شرعی ضابطے کی اتباع کو لازم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا  ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں،اور جو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جنکے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور یہی بڑی کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اسکی حدود کو پامال کرے گا تووہ اسے جہنم کی آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسکے لئے رسوا کن عذاب ہوگا۔(سورۃ النساء :13-14)
7-قرض اتارنا،خواہ انکا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے:
بڑھاپا ”مظنۃ الموت“ یعنی موت کی اسٹیج ہے،اور موت کے بعد محاسبہ و معاقبہ ہے،یعنی زندگی بھر کا حساب اور اسکا بدلہ،حساب کے دو مرحلے ہیں ایک کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوق العباد سےان میں سے جو حق ادا ہونے سے رہ گئے ہوں موت سے پہلے جس قدر ممکن ہو انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،تاکہ محاسبہ میں تخفیف ہو،قرض ادا کئے بغیر جو شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس نےاستطاعت کے باوجودقرض کی ادائیگی کا انتظام نہ کیا ہو تو ایسے شخص کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ

مومن کی روح اسکے قرض کی ادائیگی تک روک دی جاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ:2413،صحیح الجامع:6779)
یعنی جنت کے دروازے پر،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق فرمایا جو مقروض مرا تھا:

مُحْتَبَسٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فِي دَيْنٍ عَلَيْهِ

اسے جنت کے دروازے پر اسکے قرض کی وجہ سے روک دیا گیا۔ (مسند احمد:20136  ،سنن نسائی:4685 ،سنن ابی داؤد:3343)
نیز نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کا جنازہ خود نہ پڑھایا بلکہ اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ خود ہی اسکا جنازہ پڑھادیں،جیسا کہ سیدنا سلمہ بن اَکوَع ؄نے کہا کہ:
ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ :اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:نہیں،پھر آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟(تاکہ اسے اسکے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے)انہوں نے کہا:نہیں،پس آپ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھادی،پھر ایک اور جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ :اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:جی ہاں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟(تاکہ اسکا قرض ادا کردیا جائے)انہوں نے کہا: جی ہاںتین دینار،پس آپ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھادی،پھر ایک اور جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ : اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟انہوں نے کہا :جی نہیں،پھر آپ ﷺ نے پوچھا:کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:جی ہاں تین دینار،آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا:تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو،تو ابو قتادہ؄ نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ آپ ہی اسکا جنازہ پڑھا دیجیے اورابو قتادۃ رضی اللہ نے کہا اسکا قرض میرے ذمے رہا، پس آپ ﷺنے اسکی نماز جنازہ پڑھادی۔ (صحیح بخاری:2289)
٭نیز ”قرض“کی ادائیگی نہایت ضروری ہے خواہ وہ قرض حقوق العباد سے متعلق ہو جیسے قرض لی ہوئی رقم یا ادھار یا عاریتاًیا امانتاًلی ہوئی کوئی شے یاحقوق اللہ سے متعلق ہوجیسے قضاء یا نذر یا کفارے کے روزےیا انکا فدیہ یاحج یا دَم ،اگرچہ اسکی ادائیگی کی وجہ سے ”وصیت“کو منسوخ یا مؤخر کرنا پڑے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الدَّيْنُ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَلَيْسَ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ
وصیت سے پہلے قرض ہے اور وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں۔(سنن دارقطنی:4152صحیح الجامع:3419)
(فائدہ)وصیت سے مراد یہ ہے کہ مرنے والا اپنے کل مال کا تہائی تک کسی کو بطور صدقہ وصیت کردے ،جبکہ بقیہ مال اسکے ورثاء میں تقسیم ہوجائے گا ،چونکہ وارث کو اس بقیہ سے ملتا ہے اس لئے اسکے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں،اور اگر وصیت پوری کرنے کے بعد ورثاء کے لئے مال نہ بچتا ہو تو وصیت کالعدم ہوجائے گی۔
نیز سیدنا ابن عباس؆ نے کہا کہ:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ فَقَالَ:  لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِيهُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى

ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اس نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور انکے ذمے ایک ماہ کے روزے واجب الاداء تھے،کیا میں انکی جانب سے وہ روزے ادا کرسکتا ہوں؟آپ ﷺ نے اس سے کہا:اگر تمہاری والدہ کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟اس نے کہا:جی ہاں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پس اللہ کا قرض(یعنی روزے) ادائیگی کا اس سے زیادہ مستحق ہے۔(صحیح مسلم:1148)
٭نیز ایسی ہی ایک اور روایت کے مطابق سیدنا ابن عباس؆ نے کہا کہ:
جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی اس نے کہا:میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی وہ فوت ہوگئی تو کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں اسکی طرف سے حج کرلے،ذرا سوچ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا قرض ادا کرو اللہ ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح بخاری:1852)
٭البتہ جو شخص مقروض ہو اور اپنی موت تک قرض ادا نہ کرسکے لیکن قرض ادا کرنے کا پورا ارادہ رکھتا تھا اور اسکے لئے مقدور بھر کوشش بھی کرتا رہا تواللہ تعالیٰ اسکی جانب سے قرض خواہ کو راضی کرے گا اور اسکا قرض ادا کریگا،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ

جو لوگوں کا مال لے اسے ادا کرنے کے ارادے سے اللہ اسکی جانب سے ادائیگی کرے گا،اور جو لوگوں کا مال لے اسے ہڑپ کرجانے کی نیت سے اللہ اسے ضائع کردے گا۔ (صحیح بخاری:2387)
(فائدہ)ان احادیث سے معلوم ہوا کہ فرضی روزے، فرض حج اور نذر وغیرہ فرائض جو مرنے والے کے ذمے تھے مگر وہ انہیں ادا نہ کرسکا تو اسکے وارث کی ذمہ داری ہے کہ اسکے مال سے اسکی جانب سے ادا کرے ،البتہ نماز کا معاملہ مختلف ہے ،اسکی نمازیں اسکا وارث نہیں پڑھ سکتا،کیونکہ یہ خالص بدنی عبادت ہے اور جسکی نمازیں رہ گئیں اسکا جسم اب اس دنیا میں نہیں رہانیز ایسے کرنا کسی حدیث سے ثابت بھی نہیں۔
…جاری ہے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے