سیّد احمد شہید رائے بریلوی کو فقہی مسلک کے اعتبارسے حنفی ثابت کرنے والے ان کے ایک مکتوبِ گرامی کا بطورِ خاص حوالہ دیتے ہیں،جس کے درج ذیل الفاظ ان حضرات کے نزدیک سیّداحمد شہیدرحمہ اللہ علیہ کی ’پکی‘اور’ ’خالص‘‘حنفیت کی بہت بڑی دلیل ہے:’’میرے اور میرے باپ دادا کا مذہب حنفی ہے اور آج کل بھی میرے تمام اقوال و افعال احناف کے قوانین و اصول اور آئین و قواعد کے مطابق ہیں اور میرا کوئی ایک قول و فعل بھی احناف کے اصول سے خارج نہیں ہے۔‘‘

یہ مکتوب گرامی کس پسِ منظر میں لکھا گیا ،اس کا مقصدِ تحریر کیا تھااس سے ان حضرات نے کامل اعراض کیا۔یہ مکتوبِ گرامی علمائے پشاور کی اس بدظنی کے جواب میں لکھا گیا تھا جو انہیں مجاہدین سے متعلق ہوگئیں تھیںکہ یہ مجاہدین لامذہب ،نفسانی خواہشات کے پیرو اور سرحد میں قیام حکومت کے خواہشمند ہیں۔ان غلط فہمیوں کی وجہ سے تحریکِ جہاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔ چنانچہ سیّد صاحب کا اصل زور تحریکِ جہاد اور مجاہدین سے متعلق بدظنی کا خاتمہ تھا ۔ان کا مذکورہ خط بہت طویل ہے جسے ملاحظہ کرنے سے سیّد صاحب کا مقصدِ تحریر واضح ہوتا ہے ۔ سیّد صاحب نے اپنے مکتوبِ گرامی میں مذکورہ عبارت کے بعد اجتہاد اور تقلید سے متعلق جو وضاحت کی ہے وہ درحقیقت اصحاب الحدیث کے دفاع ہی کی کوشش ہے جسے اس وقت کے حالات کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے ۔یہاں صرف متعلقہ حصے کو مکمل نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس سے سیّد صاحب کا مقصدِ تحریر واضح ہوسکے گا۔و ھو ھذا:

’’ان مفتریوں کے جملہ افترا میں سے یہ بھی ہے کہ اس فقیر بلکہ تمام مجاہدین کو  ملحد و زندیق طبقہ سے نسبت دیتے ہیں ۔ یعنی ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسافروں کی جماعت کوئی مذہب نہیں رکھتی اور کسی طریقے پرکاربند نہیں بلکہ محض نقسبات پرست ہیں اور ہر طرح مزے اڑانے جانتے ہیں خواہ موافق کتاب ہو خواہ مخالف۔ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ پس جاننا چاہیے کہ ہم لوگوں کی نسبت اس امرِ شنیع سے محض قبیح افترا ہے اور صریح بہتان ہے ۔ یہ فقیر اور اس کا خاندان بلادِ ہندوستان میں گمنام نہیں ۔ ہزاروں افرادِ خاص و عام اس فقیر اور اس کے اسلاف کو جانتے ہیں کہ باپ دادوں سے اس فقیر کا مذہب حنفی ہے اور بالفعل کل قول و فعل اس حنیف کے قوانین اور اصولِ حنفیہ اور ان کے قواعد و آئین کے مطابق ہیں۔ ایک بات بھی اصول سے خارج نہیں ( الّا ما شاء اللہ ) اور سبھی آدمیوں سے بھول اور غفلت ہوجاتی ہے جو اپنی خطاء کا اقرار کرتے ہیں اور آگاہی کے بعد توبہ کرتے ہیں ۔ البتہ ہرمذہب کے محققوں کا طریقہ علیحدہ ہوتا ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کا علیحدہ طریق۔ بعض راویوں پر بعض کو ترجیع دی جاتی ہے البتہ دلیل کی طاقت سے اور بعض منقول عبارتوں کی توجیہ سلف کے مطابق اور مختلف مسائل کی تطبیق کتابوں کی بنا پر اور اسی طرح کے مسائل ہمیشہ اہلِ تحقیق کاکام ہے ، اس لیے وہ مذہب سے خارج نہیں ہوسکتے بلکہ ان کو اہلِ مذہب کا خلاصہ سمجھنا چاہیے اور اس بارے میں جو شُبہ رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اس فقیر کے پاس آکر بالمشافہ اپنی مشکلات حل کرے یا خود سمجھے یا اس فقیر کو سمجھا دے ۔‘‘

]تحریکِ مجاہدین:۶/۸۱-۸۲[

سیّد صاحب کے ملفوظات کے مجموعے’’صراطِ مستقیم‘‘پر ان حضراتِ گرامی کی نظریں قصداً نہیں جاتی ہیں۔فکرِ سیّداحمد شہیدرحمہ اللہ علیہ رحمہ اللہ  کا ایک ورق ملاحظہ ہو:’’اعمال میں ان چاروں مذہب کی متابعت جو تمام اہل اسلام میں مروج ہیں بہت عمدہ ہے لیکن پیغمبر خداﷺ کے علم کو ایک شخص کے علم میں منحصر نہ جاننا چاہیئے بلکہ آپ کا علم تمام جہاں میں پھیلا ہواہے اور مقتضائے وقت کے موافق ہر کسی کو پہنچا ہے اور جس وقت سے یہ کتابیں تصنیف ہوکر ان علموں ]علوم[کی جمعیت ظاہر ہوگئی ہے پس جس مسئلہ میں کہ صحیح صریح غیر منسوخ حدیث مل جائے اس میں کسی مجتہد کی متابعت نہ کرے اور اہل حدیث کو اپنا پیشوا جان کر دل سے ان کی محبت کرے اور ان کی تعظیم کو اپنے ذمے لازم سمجھے کیونکہ وہ بزرگوار پیغمبر خدا ﷺ کے علم کے اٹھانے والے ہیں اور ایک طرح سے آپ کی مصاحبت حاصل کرکے آپ کے مقبول ہوگئے ہیں اور مقلد لوگ تو مجتہدوں کی تعظیم اور توقیر سے پورے واقف ہیں وہ اس بات کی آگاہی کے محتاج نہیں۔‘‘]صراطِ مستقیم:۱۲۶[

خانوادئہ سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ کے ایک رکن اور دیارِ ہند کے مایۂ ناز مؤرخ مولانا حکیم عبد الحئی حسنی کی شہادت بھی ملاحظہ فرمایے:

’’ و شدّ المئزر بنصرۃ السنۃ المحضۃ و الطریقۃ السلفیۃ ، و احتج ببراھین و مقدمات و أمور لم یسبق الیھا ۔‘‘]نزہۃ الخواطر :۷/۳۴[

ترجمہ:’’ آپ نے سنتِ نبویہ ﷺ  اور طریقۂ سلفیہ کی تائید میں کمر کسی تھی اور اس پر ایسے براہین و مقدمات اور امور سے استدلال کرتے جس کی اس سے قبل مثال نہیںملتی۔‘‘

سیّد احمد شہید رحمہ اللہ علیہ برصغیر پاک وہند کی سب سے بڑی تحریکِ اسلامی کے بانی تھے ،جس کے اثرات ہمارے معاشرے میں آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔چنانچہ اس حوالے سے ایک اہم اصولی کلیے کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا عبد الحلیم چشتی لکھتے ہیں:’’جن لوگوں نے اسلامی تحریکوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا اور ان کے عروج و زوال کے اسباب پر غور کیا ہے ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ عجم کی سرزمین پر کوئی اسلامی تحریک بھی تصوف اور مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مسلک کی پابندی کے بغیر کبھی پروان نہیں چڑھ سکی۔‘‘]ماہنامہ ’’الرحیم ‘‘(حیدر آباد):اگست ۱۹۶۵ئ[

مولانا موصوف کے زبانِ قلم کو ’’غرورِ عجم‘‘پر جو ناز ہے وہ شاید کسی حد وپیمانے میں درست ہو۔لیکن ان کی نگۂ نازِ تحقیق نے اس امر پر توجہ نہیں دی کہ دنیائے اسلام میں غلبۂ دین کی جس قدر تحریکیں اٹھیں اور جنہیں واقعتا معاشرتی اصلاح وانقلاب کے اعتبار سے کامیاب بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ان سبھوں میں ’’توحیدِ خالص‘‘کو بنیادی حیثیت اور ’’سلفیت/غیر مقلدیّت‘‘کی گہری آمیزش ضرور رہی ہے۔برسہابرس کے معاشرتی روّیوں کی مخالفت کرنا اور سماج کی روشِ عام سے انحراف ، یہ کسی مقلدّانہ ذہنیت سے ممکن ہی نہیں۔چنانچہ امرِ واقعہ یہی ہے کہ اسلام میں جب جب تجدیدی تحریکیں برپا ہوئیں تو ان میں فطری اور قدرتی طور پر ’’غیرمقلدیّت‘‘کا نمایاں حصہ رہا۔مولاناسیّد مناظر احسن گیلانی جو اہلِ حدیث کو ’’فتنۂ حادثہ‘‘(۱) سمجھتے ہیں۔اسلام میں تجدیدی فکر و انقلاب کے اضطرابی روّیوں کی نشاندہی ان الفاظ میں فرماتے ہیں:’’دنیا کے عام مذاہب میں یہ حادثہ جو پیش آیا یعنی مذہب کی بنیادی کتابوں سے دور ہوتے ہوئے آخر میں ایسی کتابوں پر ان کا دارو مدار رہ گیا۔جن کی حیثیت بنیادی کتابوں کے مقابل چنداں قابل لحاظ نہ تھی مثالاًہندوستان ہی میں دیکھئے ویدک دھرم کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ویدہے ،ویدسے کچھ علمی نتائج و کلیات نکالے گئے کہ جو اپنشداکے نام سے مشہور ہوئے ویدسے زیادہ اہمیت اپنشدوںکو حاصل ہوگئی ۔پھر شاستروں کا دور آیا اور اپنشدوں سے بھی توجہ ہٹ گئی ،شاستروں کے بعد پرانوں کا دور شروع ہوا اور ان ہی پرانوں میں ویدک دھرم کے ماننے والے مختلف فرقے ڈوب گئے،آخر زمانہ میں تو صورت حال یہ ہوگئی کہ سنسکرت زبان کی دو رزمیہ نظمیں رامائن اور مہابھارت،یہی لوگوں کا اوڑھنا بچھونا بن گئیں۔وہ تو خیر یورپ میں سنسکرت زبان اور ہندوستانی علوم وفنون کے مطالعہ کا ذوق جب سے بیدار ہوا ہے تو ایک ’’نئی نشاء ت‘‘کا ویدک دھر م میں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دنوں سے آغاز ہوا ہے اور وید ،اپنشدا، شاستر کا ذکر اور تھوڑا بہت مطالعہ کا رواج ہندوستان میں شروع ہوا ہے ۔تفصیل کا تو موقعہ نہیں ہے مختصر یہ ہے کہ اسلام میں بھی زیادہ دنوں کے بعد نہیں بلکہ دوسری صدی ہجری کا درمیانی عہد تھا،اس زمانہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جوانی کے زمانہ میں بغداد پہنچ کر دیکھا کہ جامع بغداد میں چالیس درس کے حلقے قائم ہیں جس حلقہ میں بھی پہنچے ان ہی کا بیان ہے کہ استاذوں اور شاگردوں کی زبانوں پر نہ قال اللہ تھا اور نہ قال الرسول یعنی کوئی نہ قرآن ہی کا حوالہ دیتا تھا اور نہ رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث پیش کرتا تھا۔بلکہ جوبھی تھا صرف اپنے استادوں کے اجتہادی نتائج ہی کا ذکر کررہا تھا اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ انجام اس طریقہ کار کا آخر میں کیا ہونے والا ہے اس پر امام شافعی کی توجہ مبذول ہوئی اس کے بعد پورے عزم اور پختہ ارادہ کے ساتھ وہ کھڑے ہوگئے ، فیصلہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے میں مسلمانوں کو اپنے دین کے بنیادی سرچشموں (قرآن و حدیث)سے بچھڑنے اور دور ہونے نہ دوں گا،اسی مہم کے سر کرنے میں اپنی ساری عمر امام شافعی رحمہ اللہ نے صرف فرمادی ،ان کے زمانہ تک قرآن وحدیث سے جو کچھ اجتہادی نتائج نکالے گئے ۔ سب ہی کی بے دردی کے ساتھ امام نے تنقید کی،اس باب میں اپنے استاذِ اعظم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی بھی پروا نہ کی ،جس کی داستان طویل ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ قائم کی ہوئی سنت وقفہ وقفہ سے مسلمانوں میں زندہ ہوتی رہی۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں جیسے مذہبی کاروبار کرنے والی اور دینی راہوں سے آمدنی پیدا کرنے والی کوئی خاص نسل اس لیے پیدا نہ ہوسکی کہ شروع ہی میں اس کا انسداد کردیاگیا تھا،رسول اللہ ﷺ کی اولاد ہی کے متعلق اس کا خطرہ ہوسکتا تھا لیکن آنحضرت ﷺ نے خیر وخیرات ،دان پن، بھکشا، وغیرہ آمدنیوں کو اپنی اولاد اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے خاندانوں میں پیدا ہونے والوں پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کردیا تھا،اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی تاریخ میں مذہبی طبقہ کو ’’کلیسا‘‘ جیسی کوئی چیز پیدا کرنے کا موقعہ اگر نہ ملا تو میرا خیال ہے کہ اس میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے طریقۂ عمل کو دخل ہے،دوسری صدی ہجری ہی سے امام شافعی کے بعد احتجاجی ذہنیت رکھنے والے لوگ وقتاً فوقتاً مسلمانوں میں اٹھتے رہے اور مذہبی طبقہ سے مطالبہ کرتے رہے کہ مسلمانوں میں جس دین کو تم لوگ پھیلا رہے ہو ،اسلام کی بنیادی کتابیں قرآن و حدیث کے تعلیمی معیار پر اس کو جانچ کر دکھائوایک رواج تھا جس کی بنیاد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں ڈال دی ،حسبِ ضرورت رواج زندہ ہوتا رہا۔‘‘]ماہنامہ ’’برہان‘‘ (دہلی):اگست ۱۹۵۸ئ[

پھر ارضِ ہند میں ’’اہلِ حدیثیت‘‘کی جو تحریکِ انقلاب برپا ہوئی اس کے اثرات و نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ اپنے دین کے اساسی سرچشموں (قرآن و حدیث) کی طرف توجہ ہندوستان کے حنفی مسلمانوں کی جو پلٹی اس میں اہلِ حدیث اور غیر مقلدیّت کی اس تحریک کو بھی دخل ہے۔عمومیت غیر مقلد تو نہیں ہوئی ،لیکن تقلیدِ جامد اور کورانہ اعتماد کا طلسم ضرور ٹوٹا۔‘‘]ماہنامہ ’’برہان‘‘(دہلی):اگست ۱۹۵۸ئ[

اب ہمارے اصولِ فکر پر تاریخ کی تائید بھی ملاحظہ فرمائیے ۔ساتویں صدی ہجری میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی سلفی تحریک ’’غیر مقلدیّت‘‘یا اگر کہنا چاہیں تو ’’فتنۂ عدمِ تقلید‘‘کہہ لیجئے،کا پُرزور اظہار تھا۔ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،نجد میں شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ علیہ ،افریقہ میں امام محمد بن علی السنوسی اور یمن میں امام محمدبن علی الشوکانی رحمہ اللہ علیہم یہ سب ائمہ تجدید جس علمی ، فکری وعملی تحریک کے ساعی رہے، اس میں ’’مقلدیت‘‘سے کہیں زیادہ’’غیر مقلدیت‘‘کی اثر پذیری رہی گو ظاہر مقال اس کا کچھ ہی ہو،لیکن ایک حقیقت ہے جو اپنی جگہ برقرار ہے۔اورکیا بنگال کی فرائضی تحریک اور سماٹرا کی تحریک اسلامی کی تہہ میں ’’غیر مقلدیت‘‘کی آمیزش نہ تھی؟۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی شروحاتِ موطاء میں ۱۶۹ مسائل میں اپنے رجحان فکر کا اظہار کیا ہے ۔چنانچہ ان ۱۶۹ مسائل میں سے انہوں نے صرف ۲۱ مسائل میں امام ابو حنیفہ سے موافقت کی ہے (۱)۔کیا ’’پکی‘‘اور ’’خالص حنفیت‘‘یہی ہے؟اور اگر یہی ہے تو ہماری دعا ہے کہ دنیائے اسلام میں ایسی حنفیت عام ہوجائے۔مولانا حکیم محمود احمد برکاتی شاہ ولی اللہ کے مسلک سے متعلق فرماتے ہیں:’’ان کے نقطۂ نظر میں جو انقلاب آیا تھا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ’’خالص حنفی‘‘نہیں رہے تھے۔حجاز سے مراجعت کے بعد ان کی زیادہ توجہ فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں تطبیق و توافق پر صرف ہوتی رہی اور نتیجۃً ان کا رجحان فقہ شافعی کی طرف زیادہ ہوگیا تھااور ان کی علمی اور قلمی کاوشوں کے نتیجہ میں برعظیم میں عدم تقلید کے رجحان کو فروغ ہوا اور اس علاقہ میں عدم تقلید کی جو تحریک برپا ہوئی وہ ان کی فکر کا تقاضا تھی اور یہاں کے اہلِ حدیث کی اکثریت ان ہی کے بالواسطہ یا بلا واسطہ تلامذہ پر مشتمل تھی اور اہلِ حدیث حضرات شاہ صاحب کو بھی اہلِ حدیث ہی شمار کرتے ہیں۔‘‘ ]حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی:۴۱[

افریقہ کی سنوسی تحریک کے بانی امام محمد بن علی السنوسی رحمہ اللہ علیہ سے متعلق حافظ عباد اللہ فاروقی لکھتے ہیں:’’شیخ سنوسی کی تعلیم اور تبلیغ کے اصول خالص اسلامی تھے وہ قرآن وحدیث کے براہِ راست مطالعہ پر زور دیتے تھے ۔نیز اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام]نے[ جس سیدھے اور صاف انداز میں اسلام پیش کیا اور شروع زمانہ کے مسلمانوں نے جس طرح اس کو سمجھا اور اس پر عمل کیا وہی طریقِ کار امت کو اختیار کرنا چاہیئے۔وہ آزادی کو اسلام کی بنیادی تعلیم قرار دیتے تھے اسی وجہ سے فکری اور سیاسی آزادی کے علمبردار تھے ۔فکری آزادی سے ان کی یہ مراد تھی کہ مسلمان کا ذہن آزاد رہ کر خدا اور رسول کے احکام کی پیروی کرے۔اس کے بعد کسی مذہبی پیشوا یا بزرگ کی تقلید اس پر فرض نہیں۔یہی وجہ ہے کہ گو شیخ سنوسی اپنے آپ کو مالکی فقہ کے پیرو کہتے تھے لیکن اس کی پیروی وہ سختی اور باقاعدگی کے ساتھ نہ کرتے تھے۔علاوہ ازیں وہ قرآن کو سمجھنے کے لیے مفسروں کی رائے کو ضروری نہ بتاتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے علم حدیث کافی ہے۔جب تک لوگ علماء کی تقلید میں مقید رہیں گے ان کے ذہن پر قرآن کی حقیقت روشن نہ ہو سکے گی۔اس طرح وہ ابتدائی دور کے اسلام کو عقائد اور عمل کا نمونہ قرار دیتے تھے اور اپنے رفقاء کو اسی نمونہ پر چلنے کی تبلیغ کرتے تھے۔‘‘

]ماہنامہ’’الرحیم‘‘(حیدر آباد):اکتوبر۱۹۶۷ء [

بنگال کی فرائضی تحریک کے بانی مولانا حاجی شریعت اللہ سے متعلق مولانا حکیم عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں:’’ الشیخ العالم شریعۃ اللّٰہ البدوی البنگالی أحد العلماء المشہورین فی رفض التقلید و العمل بالنصوص الظاہرۃ ۔‘‘]نزہۃ الخواطر : ۷/۲۳۱[

ہندوستان میں سیّد احمد شہید رحمہ اللہ  کی تحریکِ جہاد میں غالب حصہ مسلک سلف محدثین سے تعلق رکھنے والوں ہی کا تھا۔سید احمد شہید کے بعد ان کے جن خلفاء کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور باگِ تحریک جن ہاتھوں میں آئی وہ عظیم آبادپٹنہ کا ایک ’’رسوائے زمانہ وہابی‘‘خاندان ہی تھا۔جنہیں انگریزوں نے ’’جرمِ ایمانی‘‘پر تعزیر دی اور اپنوں نے ’’خلوصِ حق‘‘کی پاداش میں مورد الزام ٹھہرایا لیکن جنہوں نے ان سب سے بالاتر ہوکر ع ’’بازی اگرچہ لے نہ سکا سر تودے گیا ‘‘کی مثال قائم کردی۔

مولانا عبد الحلیم چشتی نے سیّد احمد شہید رحمہ اللہ کی حنفیت کے لیے سید صاحب کے جن دو خلفاء ]مولانا کرامت علی اور مولوی عبد الحکیم[ کا بیان نقل فرمایا ہے وہ مسلکاً حنفی تھے۔

اول الذکر مولانا کرامت علی وہی بزرگ ہیں جنہوں نے فاجعۂ بالاکوٹ کے بعد اپنی راہ مجاہدین سے الگ کرلی تھی اور انگریزی حکومت کی حمایت میں ارض ہند کو دارالسلام قرار دیا تھا۔مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں: ’’مجاہدین اور اتباع سید احمد شہید کے سب سے بڑے واقف کار مسٹر جیمس  اوکنلیJames Okinleyنے شہادت دی ہے کہ مولوی کرامت علی صاحب برطانوی حکومت کے مؤید اور وہابیوں کے پکے مخالف تھے ۔ Persistant Oppaonant of Wahabis یہ تصدیق نامہ راج محل (بہار ) میں ۳۱ ، اکتوبر ۱۸۷۰ء کو دیا گیا تھا ۔ جسے خود ان کے پوتوں نے فخریہ ۱۹۱۴ء کو طبع کرایا تھا ۔ ( وہ خوبصورت اور نظر فریب پمفلٹ راقم کی نظر سے گزر چکا ہے ) اس میں ان کے صاحبزادے مشہور ادیب مولوی عبدالاول صاحب جون پوری اور حافظ احمد صاحب کی وفاداری کی بھی تصدیق ہے ۔ ان کے علاوہ راقم بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عقایدوا عمال میں وہ سید صاحب کے اصحاب خاص کی روش سے بالکل الگ تھے ۔‘‘ ]ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ( حا شیہ ): ۴۵ [

ثانی الذکر مولانا عبد الحکیم کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ۔

مولانا کرامت علی کا ایک بیان جسے مولانا چشتی نے نقل فرمایا ہے ،وہ تحریک کی تاریخ میں ایک عجائب کی حیثیت رکھتا ہے۔ملاحظہ فرمایے:

’’مرشدِ برحق آپ مقلد تھے اور تقلید کے خلاف جو کوئی شخص کرتا تو اپنے قافلہ سے نکلوادیتے اور جو تعلیم پذیر ہوتا تو حضرت مرشدِ برحق اس کو نصیحت کرکے راہ پر لاتے اور یہ بات تمام ہندوستان اور بنگالے میں مشہور ہے۔‘]ماہنامہ ’’الرحیم ‘‘ (حیدر آباد) :اگست ۱۹۶۵[

اللہ رے سخن فہمی!

میرے دل کا خون کریں گی میرے خوں کا ہوگا پانی

یہ نوازشیں بظاہر ، یہ عنائتیں زبانی

سید احمد شہید نے تصوف کے عام مروجہ سلسلوں کے برعکس ’’طریقہ محمدیہ‘‘کے نشر وشیوع میں دلچسپی لی جس کا مقصد مبتدعانہ تصوف کی تردید اور اتباع سنت کی تشہیر تھا۔درحقیقت ’’طریقہ محمدیہ‘‘ان کے مجتہدانہ دل ودماغ ہی کی ایک سعی تھی۔ سیّد احمد شہید کو عام معنوں میں مقلّدِ محض اور کٹّر حنفی بآور کرانا واقعات پر ظلم کے مترادف ہے۔ھذا ما عندی والعلم عند اللّٰہ  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے